: نام کتاب : سر چشمہ ایمان
: مؤلف : جعفر فاضل
: مترجم : محمد حسین بہشتی
: کمپوزنگ و ڈیزائننگ : ساجد اسدی
: ناشر: مؤسسئہ قائم آل ِ محمد(عج)
:طبع اوّ ل
:سال طبع ٢٠١٠ء بمطابق ١٤٣١ھ
: تعداد ٥٠٠
: جملہ حقوق بحق مترجم محفوظ ہیں
فلو لا ابو طالب و ابنہ
لما مثل الدین شخصا و قاما
فذا ک لا بمکة اوی وحامی
و ھذا بیثرب حبس الحماما
اگر ابو طالب ـ اور اس کے فرزند ارجمند نہ ہوتے
تو دین اسلام مجسم نہیں ہوتا ان دونوں نے اسلام کے واسطے قیام فرما یا .
ابو طالب ـنے مکہ میں پناہ دی اور حمایت فرمائی
اور علی ـنے مدینہ میں تا آخر ین نفس جنگ کی.
میان عاشق و معشوق رمزی است
چہ داند آن کہ اشتر می چراند
یا عَمّ !
رَبَّیتَ صغیراً ، و کَفَّلتَ ےَتِیماً ، و نَصَرتَ کَبِیرا
فجزَاک اللّٰہُ عَنِّی خیراً
اے چچا جان ! بچپن میں میری تربیت کی .
یتیمی میں میری کفالت کی اور بڑے ہونے کے بعد میری مدد و نصرت فرمائی. خدا میر ی طرف سے آپ کو جزا عنایت فرمائے .
( رسول اکرم ۖ)
ھر گز نمیرد آنکہ دلش زندہ شدبہ عشق
ثبت است در جرید ہ عالم دوام ما
گفتار مترجم
حضرت ابو طالب ـ کے بارے میں مسلسل عر ق ریزی اور انتہائی محنت سے جو مقالہ جناب فاضل ارجمند حجة الاسلام والمسلمین جعفر فاضل نے مدون کیاہے . وہ لائق صدا فتخار ہے اور جناب مبارک باد کے مستحق ہیں میرے لئے بھی مقام فخر ہے کہ قبلہ نے بندہ حقیر کو امر فرمایا کہ اس آرٹیکل کا اردو زبان میں ترجمہ کروں . لہذا میں نے ان کے احترام میں ان کی اس علمی کاوش کو من وعن اردو کا لباس پہنادیا ہے اس حوالہ سے میں ان کا نہایت شکر گزار ہوں کہ انہوں نے بندہ کو اس قا بل سمجھا . یہ انتہائی خوشی کی بات ہے کہ مجھ جیسے حقیر کو ایسی توفیق نصیب ہوئی کہ جو نہ صرف اپنی دنیا اور آخرت کیلئے بہترین زاد راہ ہے بلکہ پوری انسانیت کیلئے راہ نجات ہے .
کبھی ایسا بھی ہوتاہے کہ پڑھے لکھے بلکہ بڑے بڑے علمی مدارج طے کرنے والے دانشور حضرات بھی مذہبی تعصب یا تاریخی غلط بیانیوں کی وجہ سے راہ مستقیم سے منحرف ہو جاتے ہیں اور گمراہ لوگوں کی ترجمانی کر ناشروع کر دیتے ہیں.
تاریخ اسلام تونہیں بلکہ تاریخ مسلمین میں چودہ سو صدیوں سے جو واقعات رونما ہوئے ہیں وہ ایک بالغ نظر شخص ،بابصیرت انسان اور مومن کیلئے انتہائی غم انگیز اور دردناک ہیں ان واقعات میں سے ایک حضرت ابو طالب ـ کی شخصیت کو پائمال کرنا اور جھٹلانا ہے .
بجائے اس کے کہ انکو علیہ السلام سے یاد کیا جائے ان کو کافر و مشرک ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں . بحر حال اس موقع سے فائدہ اٹھا تے ہوئے کچھ عقلی اور نقلی گفتگو آپ لوگوں کی خدمت میں پیش خدمت ہے.
مناقب ابن شہر آشوب میں یہ روایت موجود ہے کہ جناب حضرت عبدالمطلب کی رحلت کا وقت قریب ہوا تو آپ نے جناب ابو طالب ـ کو بلایا جب وہ اپنے باپ کے سرہانے حاضر ہوئے تو جناب عبدالمطلب احتضار کے عالم میں تھے اور آنحضرت ۖ ان کے سینہ پر تھے اسی عالم میں انہوں نے جناب حضرت ابو طالب ـ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: یا اباطالب انظر ان تکون حافظاً لھذا الوحید الذی لم یشم رائحة ابیہ ، ولم یذق شفقہ امہ. انظر یا اباطالب ان یکون من جسد ک بمنزلة کبدک
'' اے ابو طالب ـ دیکھو ! تم اس فرزند کی حفاظت کرنا ، جس نے اپنے باپ کی خوشبو نہیں سونگھی اور ماں کی شفقت و محبت کامزہ نہیں چکھا . دیکھو ! اسے اپنے کلیجہ کی طرح عزیز رکھنا ...''
اصول کافی، ج١،ص٤٤٨میں لکھتے ہیں کہ :
یا ابا طالب ان ادرکت ایامہ فاعلم انی کنت من البصر الناس والعلم الناس بہ فان اسطعت ان تتبعہ فافعل وانصرہ بلسانک و یدک و مالک فانہ واللّہ سیسودکم .
'' اے ابو طالب ـ ! اگر تم نے اس کا ( ( اس کی رسالت کا ) زمانہ درک کیا تو یہ جان لو کہ میں اس کے حالات کے بارے میں سب سے زیادہ واقف و آگاہ ہوں . اگر تم سے ہوسکے تو اس کی پیروی کرنا اور اپنی زبان ، ہاتھ اور مال کے ذریعے اس کی نصرت کرنا ، کیونکہ خدا کی قسم وہ تم پر سرداری و حکومت کرے گا . ''
جہاںتک پیغمبر اکرم ۖ کے اجداد کی الٰہی شخصیت اور خدا وند عزّ وجل پر ان کے ایمان و اعتقاد کے حوالے سے بہت سے شیعہ و سنی علماء کے عقیدہ کے مطابق حضرت عبدالمطلب و حضرت ابو طالب ـ مکہ شہر میں توحید کے عظیم مبلغ اور ہر قسم کے شرک و بت پرستی کے مخالف تھے ، اگرچہ بعض افراد کا یہ عقیدہ بھی ہے کہ وہ اپنے عقیدہ کا اظہار کرنے میں تقیہ سے کام لیتے تھے اوربعض مصلحتوں کی بناء پر بت پرستی کے رسم و رواج میں شرکت کرتے تھے . وکان عبدالمطلب و ابو طالب من اعرف العلماء و اعلمھم بشان النبی ۖ و کان یکتمان ذلک عن الجھال واھل الکفر والضلال .
''جناب عبدالمطلب و ابو طالب ان علماء میں تھے جو شان پیغمبراکرم ۖ او ر ان کے حق سے سب سے زیادہ واقف تھے لیکن آنحضرت ۖسے متعلق اپنی معرفت کو نادانوں ،کافر وں اور گمراہوں سے چھپایا کرتے تھے . ''
شیخ صدوق علیہ الرحمہ نے اصبغ ابن نباتہ سے روایت کی ہے کہ میں نے حضر ت امیر المؤمنین علی ابن ابی طالب ـ سے سنا کہ آپ فرماتے تھے،خدا کی قسم ! نہ میرے باپ اور نہ میرے داداعبدالمطلب ،نہ ہاشم اورنہ عبدمناف کسی نے ہرگز بت پرستی نہیں کی . حضرت امیرالمؤمنین ـ سے لوگوں نے سوال کیا کہ کیا پھر وہ کس کی عبادت کرتے تھے ؟
تو آپ نے فرمایا: کانو ایصلون علی البیت علیٰ دین ابراھیم علیہ السلام متمسکین '' وہ حضرات ،دین حضرت ابرہیم ـ کے مطابق خانہ کعبہ کیطرف نماز پڑھتے اور ان ہی کے دن سے تمسک حاصل کرتے تھے . ''
یعقوبی اپنی تاریخ میں حضرت عبدالمطلب کے بارے میں رقمطراز ہیں:
ورفض عبادةالاصنام ، وحداللہ عزوجل موفق بالنذر وسن سننا نزل القرآن باکثرھا.
'' وہ ایسے شخص تھے جنہوں نے بتوںکی پرستش سے گریز کیا ، خدا ئے عزّ وجل کی وحدانیت کو پہنچانا ،نذ ر کو پورا کیا اور ایسی سنتیں قائم کیں جن میںسے اکثر و بیشتر کو قرآن نے تسلیم کیا ہے . ''
بعد میں ان سنتوں کو اپنی کتاب میں لکھتے ہیں :
فکانت قریش تقول عبدالمطلب ابراھیم الثانی .
'' یہاں تک کہ قریش نے حضرت عبدالمطلب کو ابرہیم ثانی کہتے تھے . ''
اور یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ جب مکہ میںخشک سال آئی ،قریش قحط میں مبتلاہوئے تو حضرت عبدالمطلب کی دعا سے بارش برسنے کا ذکر تفصیل سے موجود ہ ہے .
مرحوم کلینی رحمة اللہ علیہ نے اصول کافی میںاپنی سند سے زرارہ کے ذریعہ حضرت امام جعفر صادق ـ سے یہ روایت نقل کی ہے : آپ نے فرمایا : یحش عبدالمطلب یوم القیامة امة واحدة علیہ سیما ء الانبیاء وھیبة الملوک .
'' قیامت کے دن حضرت عبدالمطلب تنہا ایک امت کی شکل میں محشور کئے جائیں گے اور ان کی شان یہ ہوگی کہ ان کا چہرہ پیغمبروں جیسا اور ہیبت بادشاہوں جیسی ہوگی .
اسد الغابہ میں حضرت ابو طالب ـ کے بارے میں چند قول نقل ہوئے ہیں:
پہلا قول یہ ہے کہ جب حضرت عبدالمطلب کی موت کا وقت قریب آیا تو انہوں نے پنے بیٹو ں کو جمع کرکے حضرت پیغمبر اکرم ۖ کے سلسلہ میں ان سے سفارش کی ،اس کے ساتھ ہی عبدالمطلب نے اپنے دو بیٹوں زبیر اور ابوطالب کو آنحضرت ۖ کی کفالت اور سرپرستی کے بارے میں قرعہ ڈالا . قرعہ حضرت ابو طالب ـ کے نام نکلا .
دوسرا قول یہ ہے کہ یہ انتخاب خود حضرت عبدالمطلب نے کیا اور حضرت ابو طالب ـ کو آنحضرت ۖ کے تمام کی کفالت و سرپرستی کیلئے انتخاب کیا . کیونکہ ابو طالب ـ،آنحضرت ۖ کے تمام چچائوں میں ان سب سے زیادہ مہربان تھے .
تیسرا قول یہ ہے کہ حضرت عبدالمطلب نے اس بارے میں براہ راست حضرت ابوطالب کو وصیت کی اور حضرت محمد ۖ کو ان کی کفالت اور سرپرستی میںدے دیا.
چوتھا قول یہ ہے کہ پہلے زبیر نے آنحضرت ۖ کی کفالت و سرپرستی کی اور جب وہ وفات پاگئے تو آنحضرت ۖ کی کفالت حضرت ابو طالب ـ نے اپنے ذمہ لی .
ابن شہر آشوب ، مناقب میں لکھتے ہیں :
حضرت رسول اکرم ۖ عبدالمطلب کے زیر سایہ زندگی بسر کررہے تھے . یہاں تک کہ جب ان عمر سو سال ہوئی اور آنحضرت ۖ آٹھ برس کے ہوئے تو عبدالمطلب اپنے بیٹو ں کو جمع کیا اور ان سے کہا : محمد ۖ یتیم ہے ،اس کی سرپرستی کرو ، وہ صاحب ِ ضرورت ہے اسے بے نیاز کرو اس کے بارے میں میری وصیت و سفارش پر توجہ دو. ابولہب نے کہا : کیا میں اس کام کو انجام دوں گا ؟
حضرت عبدالمطلب نے اس سے کہا : اپنا شر اس سے دور رکھو !
عباس نے اظہار خیال کیا: میں اس کام کو اپنے ذمہ لے لوں گا .
حضرت عبدالمطلب نے کہا : تم غصہ ور آدمی ہو ، ڈرتا ہوں کہ تم اسے اذیت دو گے.
ابوطالب نے کہا : میں ا س حکم پر عمل کروں گا اور ان کی کفالت اپنے ذمہ لیتاہوں .
حضرت عبدالمطلب نے کہا : ہاں ! تم ان کی سرپرستی اپنے ذمہ لے لو .
اس کے بعد حضرت محمد ۖ کی طرف رخ کرکے کہا :
یا محمد اطع لہ . '' اے محمد ۖ اس کی اطاعت کرو . ''
حضرت محمد ۖ نے فرمایا:
یا ابہ لا تحزن فان لی ربا ً لایضیفی . '' اے پدر بزرگوار غمزدہ نہ ہو ں ، یقینا میرا ایک پر وردگار ہے جو مجھے تباہ نہیں ہونے دے گا . '' ا س کے بعد حضرت ابو طالب ـ نے آپ ۖ کو اپنی آغوش میں لے لیا اور آپ ۖ کی حمایت کی .
ایک مقام پر حضرت ابو طالب ـ اپنے باپ حضرت عبدالمطلب سے مخاطب ہوتے ہوئے کہتے ہیں : یاابہ لا تصنی بمحمد فانہ ابنی و ابن اخی . '' اے پدر محترم : آپ محمد ۖ کے بارے میں مجھ سے وصیت نہ کریں کیونکہ وہ میرا بیٹا اور میرے بھائی کا فرزند ہے . ''
اس روایت کے ساتھ ہی ابن شہرآشوب یہ بھی نقل کرتے ہیں:
جب حضرت عبدالمطلب نے وفات پائی تو حضرت ابو طالب ـ ، آنحضرت ۖ کو پہنانے اور کھلانے میں خود پر اور اپنے گھر والوں کو مقدم رکھتے تھے .
اور ابن حجر عسقلانی نے کتاب '' الاصابہ '' میں اس بارے میں لکھتے ہیں :
حضرت ابو طالب ابن عبدالمطلب ـ ،جن کی کنیت مشہور ہوگئی ہے ،مشہور روایت کی بناء پر ان کا نام عبد مناف ہے اوربعض نے ان کا نام '' عمران '' لکھا ہے . نیز حاکم نے لکھا ہے زیادہ تر مؤرخین کا عقیدہ یہی ہے کہ ان کی کنیت ہی ان کا نام ہے .
یہاں تک کہ حضرت پیغمبر اکرم ۖ کی بابرکت عمر کے واقعات و حادثات سے بھرئے ہوئے آٹھ برسوںکا ذکر کر چکے ہیں .
آنحضرت ۖ اب جناب حضرت ابو طالب ـ کے گھر میںداخل ہوچکے ہیں اورمہربان چچا کی آغوش اپنے بھائی حضرت عبداللہ ـ کے عظیم المرتبت بیٹے کی پر ورش اور تر بیت کیلئے آمادہ ہے .
تاریخ اسلام کی مختصر سے مختصر معلومات رکھنے والے سے بھی یہ حقیقت پوشید ہ نہیں ہے کہ اس بزرگ شخص یعنی ابو طالب نے کس قدر ایثار و فد اکاری اورکتنے اخلاص و محبت سے یہ سنگین الہٰی و اجتماعی فریضہ اپنی عمر کی آخری سانس تک انجا م دیا ہے . جس کا سلسلہ تنتالیس(٤٣) برسوں تک پھیلا ہو اہے اس ذریعہ سے آپ روز قیامت تک دنیا بھر کے تمام مسلمانوں پر کتنابڑاحق رکھتے ہیں .
فجزاہ اللہ عن الاسلام و عن المسلمین خیرالجزاء
لطف عالی متعالی
محمد حسین بہشتی حوزہ علمیہ مشہد مقد س
|