خطبات حضرت زینب(سلام اللہ علیہا)
  پیش لفظ
گنج شہدا کے منظر نامے کے رو برو نوع انسانیت محوِ حیرت کھڑی وقارِ آدمیت کی اس بے مثال علمبردار کو دیکھتی ہے۔ اُس کی کمر جو عصرِ عاشور تک دُکھ سے کمان ہو گئی تھی، شام ڈھلتے ہی عزمِ بے پناہ سے کیسے سینہ ئ جبر میں تیر ہو گئی ہے۔حرف و بیان کا دم اکھڑتا ہے کہ یہ خطیبِ منبر سلونی کی علی و اعلیٰ بیٹی کا تذکرہ ہے۔
نہج البلاغہ جہانِ فصاحت و بلاغت کی صبحِ صادق ہے کہ اس میں لفظ کا وقار اور معنی کے نو بہ نو اسرار ہیں۔تہہ بہ تہہ مضامین کی فراوانی، بینا کا شکوہ اور حسنِ کلام، کلامِ امام کے اعجاز ہیں۔ علی (ع) جہاں بھی ہیں علی (ع) ہیں۔ مسجدِکوفہ ، سرکار علی (ع) اور بارگاہِ امامت نصیب کی یاوری سے ہی ملتے ہیں۔
لیکن بازارِ شام، دربارِ یزید ملعون اور اسیریئ خانوادہ عصمت، تاریخِ بشر ہانپ ہانپ جاتی ہے۔ حسین خلق خدا کو امتیازِ خیر و شر سمجھانے کے لئے لق و دق دشت نینوا کو درس گاہ بناتے ہیں۔ جبرِ ابلیس کے مقابل یہ اہتمام کوتاہ بینوں کو کوئی ساعتوں میں محوِ ہستی ہوتا نظر آیا ہوگا۔ کہ مؤرخ دربارِ ستم میں مصروفِ خوشامد نویسی ہے۔اور خبر نگاری ابھی آباد بستیوں میں بھی نہیں رواج پائی۔
اور سچ بھی ہے کہ واقعہ کیسا بھی ہو اپنے واقعاتی حقائق تک محدود رہ جائے تو زمان و مکان کے سرد خانوں کی نذر ہو رہتا ہے۔ اور جہاں واقعہ کو امتیاز خیر و شر کی مقصدیت سے مشروط کیا جا رہا ہو وہاں کوئی ایسا انتظام بھی ضروروی ہے جو حقائق کو مبتلائے ہوسِ دنیا، مؤرخین اور خبرنگاروں کی تاویلات سے بچا کر شعورِ انسانیت کو حقیقی تفصیلات کے ساتھ ہدیہ کر سکے۔
کسے مجالِ انکار ہو کہ واقعہئ کربلا اپنے المیاتی اور مزاحمتی ہر دو پہلوؤں میں ہمتِ بشری کی عظیم ترین اور بے مثال روائت ہے۔ جہاں حقائق میں درپیش انسان کو المیوں کی انتہا ہے وہیں ہر المیے کے ردّعمل میں المےے کے حجم سے بڑھ کر اپنے مؤقف کے ساتھ غیر متزلزل استواری بھی موجود ہے۔ المیے کی انتہا یہ ہے کہ واقعات کا تذکرہ صدیوں بعد بھی مقبول ترین عنوانِ گریہ و عزا ہے۔ اور ضبط و برداشت کا یہ عالم کہ جبر و استبداد کے خلاف حسین (ع) اور حسینیت کامیاب جدوجہد کا بہترین استعارہ ہے۔
روایاتِ عزا ہوں یا جہدِ اعلانِ حق ، کربلا جنابِ زینبِ(سلام اللہ علیہا) کے ہمسفر نہ ہوتی تو شعورِ انسانیت کربلاکے اعجاز آفریں اثرات سے یقینا محروم رہ جاتا۔وہ آنکھ جو صبح سے عصرِ عاشور تک اندوہ ناک المیے دیکھتی خونچکاں رہی، شام ڈھلتے ہی روشنی کا امین چراغ ہو گئی۔ دستِ جبر رکا نہیں، المیہ جاری ہے لیکن سیدہئ زینبِ(سلام اللہ علیہا) صفِ عزا پر جبرِ باطل کے مقابل وہ معرکہ گرم کرتی ہیں کہ خوف و ہوس کے سرد خانوں میں منجمد انسانی احساس زندگی کی دستکیں سننے لگتا ہے۔
بھائیوں، بیٹوں، بھیتیجوں اور انصار کے خنجر رسیدہ سر نیزوں پر بلند ہیں۔ جشن فتح میں غروق مردہ ضمیروں کے مجمع ہیں۔ اسیری کی اعصاب شکن اذیت ہے۔ اور جلوسِ اعداء و اغیار میں فلک مآب عصمت و طہارت کی امین ثانی ئ زہرا تلخ ترین غم و اندوہ کو سپرد حرف و بیاں کرتی ہیں تو نہ صرف لہجے سے تمکنتِ فاتح خیبر کی مہک آتی ہے بلکہ المیے کے افق سے حق کی دائمی بالادستی کی نوید طلوع ہوتی نظر آتی ہے۔
کہاں ہیں وہ لفظ جو جنابِ سیدہ کے قلبِ مطہر میں لہو روتے صدمات کا احاطہ کر سکیں کہ جتنے پیارے تھے آنکھوں کے روبرو تہہ تیغِ جفا دیکھے۔ لیکن کمالِ سخن سرِ تعظیم خم کئے ہے کہ رنج و الم کی انتہا خطباتِ جنابِ زینب میں بصورتِ نالہ و شیون نہیں بلکہ ہر خطبے میں جبر کے مقابل حسینی عزم جہاد کا تسلسل واضح و بیّن ہے۔ جذباتی سطح پر خطبہ جس بے پناہ اذیت کا شکار ہے کسی بیان کی مغتاج نہیں مگر ان خطبات کے ذریعے ضمیرِ انسانی سے مخاطب آواز میں نہ کوئی ضعف ہے اور نہ ہی کوئی فریاد۔ بلکہ کیا عزم سے فرماتی ہیں۔
'' اے یزید ! تو ہر کوشش کر دیکھ اور جس قدر حیلے بہانے
اختیار کر لیکن بخدا یہ ممکن نہیں کہ ہمارے نام کو مٹا سکے اور
ہمارے مکتب کو ڈھا سکے۔ تےری مہلت چند روزہ ہے۔''
کہنا لازم ہے کہ جبرِ مسلسل کا شکار یہ مظلومہئ کربلا قوت کے ابدی سرچشمہ سے یوں متمسک ہے کہ دکھ اپنی تمام تر حشر آفرینیوں کے باوجود اس کے مقصد اور جہاد کے مقابل ہار جاتے ہیں۔ دلِ نازک صدمات کی ہر ضربِ گراں سے وہ توانائی پاتا ہے کہ جس سے باطل کے سینوں میں سیاہ دل کانپ اُٹھتے ہیں۔
سیدہئ زینبِ(سلام اللہ علیہا) منبرِ مظلومیت پر متمکن ہمیں الٰہیاتی انعام یافتگان سے متعارف کرواتے ہوئے فرمارہی ہیں۔
''خدا کا شکر ہے کہ ہمارے پیش رو سعادت سپرد ہوئے
اور ان کے بعد ہمارے حصے میں رحمت و شہادت آئی،
ہم خدا سے ان کے لئے اجر عظیم اور عنائت طلب کرتے
ہیں۔ یقینا وہی خدائے واحد اور مہرباں ہے۔''
ہر صفِ عزا تقلیدِ سنتِ زینبیہ ہے جہاں خاتونِ کربلا و شام کے یہ الفاظ مصروفِ عزا ہر قلب میں ایک امکان روشن کرتے ہیں۔ حق کی ابدی اور دائمی بالادستی کے ساتھ غیر متزلزل استواری کے ذرےعے باعزت اور باعث شرف زندگی کا امکان زیادہ واضح اور روشن ہو جاتا ہے۔