انتساب
کربلا کی شیر دل خاتون
وارثِ مشنِ حسین
سیدہ زینبِ کبریٰ (سلام اللہ علیہا)
بنتِ
علی (ع) ابنِ ابی طالب(علیہما السلام)
کے نام
٠

پیش لفظ
عشرہئ محرم الحرام اپنی تمام تر اداسیوں کے ساتھ گزر گیا۔ ہم نے حسینی کردار سے کیا کچھ حاصل کیا؟یہ ہر ایک عزادار کے قلبی ظرف پر منحصر ہے۔ حسین اور حسینیت کا تقاضا ہے کہ ہم اپنی روزمرہ زندگی میں اسی راستے پر چلیں جو کربلا والوں نے متعین کیا ورنہ ہم کربلا اورکربلا والوں سے کچھ حاصل کرنے سے محروم رہے ہیں۔کربلا ایک درسِ انسانیت ہے جس سے ہماری عملی زندگی عبارت ہے۔
عاشورہ کے بعدحضرت سید الساجدین کی پناہ میں جو کاروانِ مخدارت و عصمت کوفہ و شام کی جانب روانہ ہوا، اس کے مقصد کو جاننا ہمارا مقصدِ حیات ہونا چاہئے۔ زمانے میں بسنے والا ایک عام خاندان نہ نقل مکانی اختیار کرنا چاہتا ہے اور نہ ہی اجڑنا۔ ہمیں یہ سوچنا ہو گا کہ یہ خاندانِ توحید و تطہیر کیوں،کس لئے دربدر ہوا؟ وہ کون سے محرکات تھے جن کی وجہ سے عرب کا یہ معزز ترین اور باوقار صاحبِ حیثیت قبیلہ وطن چھوڑنے پر مجبور ہوا ؟ کربلا میں دی جانے والی قربانیاں ، مخدراتِ عصمت کے مصیبتوںکے سفر،شہربہ شہر پھرائے جانےکی اذیتیں، درباروں، بازاروں میں دئے جانے والے توحید و رسالت اور امامت کے لئے خطبے آخر کس لئے تھے ؟ یہی نا ! کہ ان نظریاتِ الٰہی کی بقا رہے اور توحید کے مخالف نظریات کا قلع قمع کیاجائے ۔.خاندانِ رسالت ؐ تو اپنے مقصد میں کامیاب و کامران رہا ۔ اب ان کی تمام تر قربانیوں کا ہم سے یہ تقاضا ہے کہ ہم ان کے قائم کردہ اور معین کردہ راستے پر گامزن ہو کر ان کے اسوہئ زندگی پر عمل پیرا ہوں۔ اسی میں ہماری دنیا و آخرت کی نجات ہے ۔ اس خاندان کی ایک ایک قربانی ہمہ وقت ہماری نگاہوں میں رہے اور اس صراطِ مستقیم پر ہمارا عمل نظر آئے۔
مخدراتِ عصمت و طہارت کے دئیے ہوئے خطبات آج بھی ہمارے لئے مشعلِ ہدایت ہیں۔ جس طرح انہوں نے بقائے توحید کے لئے خطبہ دینا فرض سمجھا اسی طرح ہم پر واجب ہے کہ ان کے خطبات کو پڑھیں، اللہ کے اسرار و رموز ان میں پنہاں ہیں اس پر غور و خوض کریں۔ ہم پر واضح ہو جائے گا کہ یہ خطبات صرف کوفہ و شام اور دیگر شہروں کے افراد ہی کے لئے، صرف اسی دَور ہی کی ضرورت نہ تھے بلکہ یہ فرمودات قیامت تک کے لئے آنے والی تمام نسلوں کے لئے بھی اسی طرح دعوت فکر لئے ہوئے ہیں جس طرح اس ماحول میں ضروری تھا۔
وارثانِ کساء کی تربیت یافتہ حضرت زینب سلام اللہ علیہا اور حضرت ام کلثوم سلام اللہ علیہا کے ظلم و جور کے عہد اور غیر شریفانہ ماحول میںالٰہی نظام کی خاطر فرمائے گئے فرمودات کی بازگشت سے آج بھی کائنات انگشت بدنداں ہے۔
یہ خطبات ہماری بہنوں،بہو، بیٹیوںکے لئے لمحہ فکریہ ہیں کہ جب بھی دین پر افتاد آ پڑے تو انہی خطبات کو دہرا کر توحید و رسالت اور امامت کا بھر پور دفاع کیا جائے۔ تو اس لائحہ عمل سے خدا اور رسولؐ امام کے دشمنوں کا ویسا ہی انجام ہو سکتا ہے۔ دشمن کے اپنے ہاتھ کی لکھی ہوئی تاریخ بھی خانوادہئ عصمت و طہارت کی صداقت لکھنے پر مجبور ہو گئی۔
ہمیں اپنا احتساب کرنا ہوگا۔ کہ ہم اس سانحے کا اثر لیتے ہیں یا سن کر خاموش ہوجاتے ہیں۔ اگر آج ہم خاموش ہو گئے تو کل روزِ محشر کہیں وہ خاموش نہ ہو جائیں جن سے ہماری شفاعت وابستہ ہے۔ آج لمحہئ فکریہ ہے اور کل نتیجہ. اور اس نتیجے کے لئے آج ہی کا لفظ ہے کل کا نہیں ہے۔ آئیں آج بھی اس توبہ کے کھلے ہوئے دروازے پر جھک جائیں ۔ ورنہ جب یہ دروازہ بند ہو گیا تو اس لمحہ کا نام ہی محشر ہو گا ۔
التماسِ دعا کے ساتھ حرفِ آخر کے طور پر یہ کہنا مناسب ہو گا :
علی (ع) کی علی (ع) بیٹی نے اپنے خطبات کے بل بوتے پر مظلوم انسانوں کو استحصال کرنے والوں کے خلاف قیام کرنے کے آداب سکھائے۔

ملتمسِ دعا
سیکریٹری نشرواشاعت
امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان(راولپنڈی ڈویژن)
٠