فصل دہم
خواجہ نصیر الدین طوسی | |||||
فصل دہم
وفات خواجہ
ایک ایسا مرد بستر بیماری پر پڑا ہوا تھا جس کی پر شکوہ زندگی سراسر حادثات سے بھرپور تھی جس نے سالہا سال شمشیرو سنان کا نظارہ کیا اور ایک شہر سے دوسرے شہر کی ہجرت و اسیری کا تجربہ بھی تھا۔ وہ مرد جس کی حیات نے ایران کی سر زمین کو دوسری زندگی بخش دی جس کا قلم علم و دانش کے لئے دریچے کھولتا رہا۔ دوستوں اور اہل خاندان کے حلقے میں اس نے اپنے پیروں کو قبلہ کی سمت دراز کر دئے۔ اور ہاتھوں کی ان انگلیوں کو جسے اس نے ایک دن بھی آرام نہیں دیا تھا اور قلم کے ذریعہ ان کا سکھ چھین لیا تھا۔ آج نوید راحت و آسائش دے دی۔ وہ ایسا خستہ و چور تھا کہ تھکن اس کے سر و صورت سے برس رہی تھی۔ ہاں اس نے احساس کر لیا کہ ساحل استراحت نزدیک ہے شاید علماء و صالحین و بزرگوں میں سے کوئی بھی ایسی ناگوار زندگی و شورش زدہ قضا و پر حادثہ میں دور میں نہ جیا ہو گا۔ اس نے اپنی پوری زندگی وحشی، خونخواری ، بے تمدن قوم میں گزاری جو معمولی بہانہ بنا کر پیرو جوان و اطفال کا سر اڑا دیتے تھے ان کی آب شمشیر کے لئے عالم و غیر عالم یکساں تھے۔ طوسی کی تمام زندگی میں تلوار کا منحوس سایہ اس کے سر پر رہا اور اسی بربریت کے سایہ تلے اس نے اپنے مکتب کے عقائد و افکار نشر کئے اور اپنی یاد گار بے شما ر کتابیں چھوڑ گیا۔ اب وہی کتابیں اسی کی جگہ پر اس کے فرزندوں کے لئے تھیں جو ابدی خدا حافظی کے وقت اس نے ان کے حوالے کی تھیں۔ تاریخ کہتی ہے: ان کے اعزا میں سے کسی نے خواجہ کے قریب جا کر اطمینان کے ساتھ کہا کہ وصیت کیجئے کہ آپ کو مرنے کے بعد جوار قبر المومنین علیہ السلام میں دفن کیا جائے۔ خواجہ سراپا ادب تھے خواب میں بولے’’ مجھے شرم آتی ہے کہ مروں تو اس امام (موسیٰ کاظم) کے جوار میں لے جایا جاؤں اس کا آستانہ چھوڑ کر کہیں اور۔ اتنی گفتگو کے بعد پھر وہ خود میں گم ہو گئے اور سرگوشی کی سی کیفیت طاری ہو گئی حتی کہ دنیا سے آنکھ بند کر کے اہل علم و دانش کو اپنے غم و عزا میں بیٹھا دیا۔ بغداد سراسر غرق ماتم ہو گیا۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے دس دانش مند بزرگ کی عارفانہ سرگوشی کے بعد خورشید عالم غروب ہو گیا۔ اور ہر آنکھ سے اشکوں کا سیلاب جاری ہو گیا۔ خواجہ کی وفات نے تمام بلاد اسلامی کے سر پر عزا کی شال اڑھا دی بالخصوص عالم اسلام کے شیعوں کا تو حال ہی نا گفتی تھا کیونکہ تشیع اور ایران نے حکومت میں نفوذ رکھنے والے اپنے زمانے کے بزرگ ترین انسان کو کھو دیا تھا۔ خواجہ کی تشیع جنازہ میں بچے جوان، بزرگ مرد عورت با چشم گریاں شریک تھے ان کی میت اپنے کاندھوں پر احترام کے ساتھ آستان مقدس امام موسیٰ کاظم کے روضہ تک لے گئے۔ جس وقت ان کی قبر کھودنا چاہا تو وہاں پہلے سے تیار قبر کا سراغ ملا۔ اور عجیب بات یہ کہ خواجہ کی تاریخ ولادت اور اس قبر کی تیاری ایک تھی۔ کہا جاتا ہے کہ جس دن خواجہ نے طوس میں آنکھ کھولی اسی دن امام موسیٰ بن جعفر نے ان کے لئے اپنے پاس جگہ مہیا کر دی کیونکہ خواجہ بھی تمام عمر مغلوں کا اسیر و زندانی رہا اور کنج قید میں بھی ایک لحظ اپنے شیعی اعمال و مناجات میں کمی نہیں کی۔ طوسی کو امام کاظم علیہ السلام کے جوار میں سپرد خاک کیا گیا اور ان کی قبر پر آیت شریفہ ’’وکلبھم باسط ذرا عیہ بالوصید‘‘ نقش کر دی انہوں نے بقائے الٰہی میں تعجیل کی اور اس جہاں خاکی کو ہمیشہ کے الوداع کہا۔ لیکن خواجہ کا نام ان کے رشعات فکر و قلم ہمیشہ ہمیشہ شیعوں کے گھروں میں باقی رہیں گے۔ اور جس طرح صدیاں گزرجانے کے بعد بھی ان کا نام علم و دانش کے میناروں سے چمکتا ہے اور اس کی یہ چمک بآواز بلند تشیع کے جاودانی شکوہ عظمت و کوشش، و انتھک محنت کی کہانی سناتی ہے۔(ان کی وفات پر شاعر نے کہا ہے: نصیر ملت و د،ین پادشاہ کشور فضل یگانہ ای کہ چون اومادرزمانہ نزاد بسال ششصدو ہفتادو دوبذی الحجہ بروز ہیجدہم درگذشت دربغداد
کتاب نامہ
اس کتاب کی تدوین میں جن کتابوں سے مدد لی گئی ہے۔۱۔ مقدمہ کتاب اساس الاقتباس خواجہ نصیر الدین بقلم مدرس رضوی ۲۔ مقدمہ کتاب منتخب الاخلاق ناصری خواجہ نصیر الدین بقلم جلال ہمایی۔ ۳۔ شیوہ دانش پژوہی (ترجمہ آداب المتعلمین) خواجہ نصیر الدین طوسی، بقلم باقر غباری۔ ۴۔ اعیان الشیعہ ، ج۱، علامہ سید محسن امین ۵۔ کشف الظنون، ج۱،مولی مصطفی ۶۔ معجم البلدان، ج۴،یاقوت الحموی ۷۔ شذرات الذہب جزء ۵، عبدالحی حنبلی ۸۔ الذریعہ ، آقا بزرگ تہرانی ۹۔ فوات الوفیات ، ابن شاکر ۱۰۔ الوافی بالوفیات، صفدی ۱۱۔ تاریخ حبیب السیر، ج۳، خواندمیر ۱۲۔ جامع التواریخ ، ج۲ ، خواجہ رشیدالدین فضل اللہ ۱۳۔ جہانگشا، ج۳، عطا ملک جوینی ۱۴۔ ہفت اقلیم امین احمد رازی ۱۵۔ الکنی والالقاب ،ج۳،محدث قمی ۱۶۔ تمتہ المنتہی محدث قمی ۱۷۔ فوائد رضویہ محدث قمی ۱۸۔ تحفتہ الاحباب محدث قمی ۱۹۔ لولوی البحرین یوسف بن احمد بحرانی ۲۰۔ معجم رجال الحدیث،ج۱۷،آیت اللہ خویی ۲۱۔ ریحانتہ الادب، ج۲،میرزا محمد علی مدرس ۲۲۔ روضات الجنات ،ج۲،محمد باقر موسوی خوانساری ۲۳۔ مجالس المومنین ،ج۲،قاضی نور اللہ شوشتری ۲۴۔ قصص العلماء ،میرزا محمد تنکاینی ۲۵۔ فلاسفہ شیعہ ، عبداللہ نعمہ۔ترجمہ جعفر غضبان ۲۶۔ مفاخر اسلام ، ج۴، علی دوانی ۲۷۔ آشنایی بافلاسفہ ایرانی ، ڈاکٹر علی اصغر حلبی ۲۸۔ دانش مندان نامی اسلام، سید محمود خیری ۲۹۔ بادانشمندان شیعہ و مکتب آنہاآشنا شویم، ج۳،سید جوادامیراراکی ۳۰۔ احوال و آثار خواجہ نصیر الدین، محمد تقی مدرس رضوی ۳۱۔ سرگذشت و عقائد فلسفی خواجہ نصیر ، محمد مدرسی زنجانی ۳۲۔ خواجہ نصیر الدین ، مصطفی باد کوبہ ای ہزاوہ ای ۳۳۔ یادنامہ خواجہ نصیر، دانشگاہ تہران ۳۴۔ تاریخ مغول، عباس اقبال آشتیانی ۳۵۔ تاریخ اجتماعی ایرنا ، ج۲، مرتضی راوندی ۳۶۔ تاریخ علم درایران، ج۱،۲ مہدی فرشاد ۳۷۔ لغت نامہ، علی اکبر ، ہنجدا ۳۸۔ چنگیزیان چہرہ خون ریز تاریخ ، محمد احمد پناہی ۳۹۔ حسن صباح چہرہ شگفت انگیز تاریخ، محمد احمد پناہی ۴۰۔ فلسفہ اخلاق ، شہید مطہری ۴۱۔ امامت و رہبری ، شہید مطہری ۴۲۔ مجلہ مقالات و بررسی ہادفتر ۲۸، نشریہ دانشکدہ الہیات و معارف تہران ، مقالہ ڈاکٹر دانش تقی پژوہ ۴۳۔ مجلہ کیہان فرہنگی، سال ۶۵ش۵، مقالہ ڈاکٹر عبدالہادی حائری
تشکر: القلم لائبریری تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید *** |