فصل ہفتم
خواجہ نصیر الدین طوسی | |||||
فصل ہفتم
اخلاق خواجہ نصیر
خواجہ نصیر کا اخلاق
محقق طوسی بے پناہ علم و دانش و مختلف فنون میں ید طولیٰ رکھنے کے علاوہ بہترین اخلاق و صفات حسنہ کے حامل تھے جس کا بیان تمام مورخین نے کیا ہے۔طوسی کو صرف قلم و کتاب والے دانش مندوں میں شمار نہیں کیا جا سکتا کیونکہ انہوں نے علمی و فلسفیانہ کارناموں کو اپنی زندگی کا مقصد نہیں بنایا تھا بلکہ اخلاق، حسن سلوک، مجلسی زندگی علماء اور ارد گرد کے حالات میں ان کی گہری دلچسپی تھی یہی نہیں بلکہ ان کے یہاں علم کو اخلاق و معرفت پر سبقت حاصل نہیں تھی چنانچہ جہاں بھی انسانیت و اخلاق و کردار کی بات آتی ہے وہ اخلاق اور تمام انسانی اسلامی قدروں کو کلام و مفہوم بے روح(یعنی علم و دانش) پر ترجیح دیتے تھے۔ اگرچہ ان کو شعر و ادب کا ذوق لطیف بھی تھا مگر ان کا علم و رفتار و گفتار حقیقت و اقعیت کے تابع تھا اسی لئے انہوں نے کشادہ روئی کھلی آنکھوں اور متانت کے ساتھ اس عالم اسلامی زندگی گزاری جہاں بے عقلی، ناہنجاری اور جہالت کا زور تھا۔ خواجہ نے اپنی پوری زندگی میں تہمت، افترا، ملامت و بد گوئی دشنام کا سامنا کیا اور وہ بھی بہت زیادہ۔ (افسوس تو یہ ہے کہ وہ سلسلہ آج بھی بند نہیں ہوا ہے) ویسے تاریخ کی عظیم ہستیوں کی یہ خصوصیت بھی رہی ہے کہ ایک طرف ان کی تعریف و توصیف و ستائش ہوتی ہے اور دوسری طرف دشمن ان کو برا بھلا کہتے رہے ہیں۔
داستان اتہام
یہ محقق طوسی کے صبر و تحمل و بردباری کا قصہ ہے جو بتاتا ہے کہ انسان ہو نا عالم ہونے سے بالا تر ہے اور نصیر الدین کے کردار کے ایسے رخ کو ظا ہر کرتا ہے جس کی مثال بہت کم ملے گی۔ابن شاکر نے ’’فوات الوفیات‘‘ میں اسے یوں لکھا ہے: ایک شخص خواجہ نصیر کے پاس آیا اور ان کے سامنے کسی دوسرے آدمی کی تحریر پیش کی جس میں خواجہ کو بہت برا کہا گیا تھا اور گالیاں دی گئی تھیں ان کو سگ ابن سگ لکھا تھا۔ خواجہ نے اس کا جواب نہایت نرم و لطف آمیز زبان میں دیا تھا اور لکھا ’’مگر تمہارا یہ لکھنا درست نہیں ہے کیونکہ سگ(کتا)چوپایہ ہے اور عف عف کرتا ہے اس کی کھال بالوں سے ڈھکی رہتی ہے ناخون بہت لمبے ہوتے ہیں تو یہ صفتیں تو مجھ میں بالکل نہیں ہیں بلکہ اس کے برخلاف میری قامت مستقیم، بدن بلا بال کا ناخن چورے ہیں اور ایسے خصائص رکھتا ہوں جو کتے سے مغائر ہیں اور میرے اندر جو ہے وہ اس میں نہیں ہے اور پھر وہ تمام عیوب و برائیاں جو صاحب نامہ نے خط میں درج کی تھیں ان سب کا جو اب اسی طرح بغیر سختی و درشتی کے لکھ دیا۔ (فوت الوفیات، ج۳،ص ۲۴۸،چاپ بیروت ابن شاکر الوافی بالوفیات، ج۱، ص ۱۸۰، ابن صفدی الکنی والالقاب، ج۳، ص ۲۱۷، محدث قمی، چاپ بیروت) یہ داستان ایک نمونہ ہے اس بات کا کہ خواجہ طوسی خود پرستی خود خواہی نفس پرستی کے قید سے آزاد تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ صرف تاریخ و طبیعت کا چکر ہی نہیں ہے جس سے انسان علم کی مدد و ذریعہ سے آزادی حاصل کر لے بلکہ ایک اور زندان بلا بنام نفس و خود پرستی بھی ہے جس سے آزادی، علم و دانش کے ذریعہ ممکن نہیں بلکہ ایمان بخدا و تقویٰ الٰہی اس کی کنجی ہے۔ تمام علوم میں جامعیت اور جملہ مسائل پر طوسی کا عبور بتاتا ہے کہ وہ ایک بلند روح کے مالک تھے اور زندگی کو اپنے و دوسروں کے لئے سنگین و سخت نہیں بتاتے تھے اور لوگوں کی خوشنودی و در گزر جیسی عوام پسند صفات کے مالک تھے۔ نصیر الدین نے شرح اشارات، اوصاف الاشراف و اخلاق ناصری میں عرفان و اخلاق کی طرف اپنے میلان کو یوں ظاہر کیا ہے کہ لگتا ہے کہ وہ ایک فلسفی و ریاضی داں نہیں بلکہ ہمہ جہت عارف، معلم اخلاق ہے جو انسان کو انفرادی و اجتماعی زندگی بسر کرنے کا طریقہ تعلیم کرتا ہے۔ نصیر الدین طوسی نے صحرا نورد وحشی مغل قوم پر اپنی سیرت و کردار کا ایسا گہرا اثر ڈالا کہ آخر کار ان کے سردار، فرمانروا اور فوجی سب دین اسلام میں داخل ہو گئے۔ عہد طوسی کو سات صدیاں گزر چکی ہیں مگر آج بھی ان کے ارشاد کلام، اطوار، اخلاق، علم و دانش اہل علم کی مجالس کی زینت بخش رہی ہے۔ ان کی نیک صفات کے نقوش اشعہ مہرو ماہ و اختر آسمان فضیلت پر چمک رہے ہیں۔ ’’علامہ حلی‘‘ جو علمائے تشیع میں بزرگ ترین فردما نے جاتے ہیں اور جن کا فرمان مسلم دانش مندوں میں سند اور مضبوط دلیل کی حیثیت رکھتا ہے وہ بھی طوسی کے ارشد تلامذہ میں سے تھے علامہ حلی کے افکار و نظریات کو بزرگ علماء حتیٰ کہ علماء غیر شیعہ بھی معتبر و گراں بہا مانتے ہیں۔ علامہ حلی اپنے استاد کے فضائل اخلاقی کی خصوصیات کا تذکرہ یوں بیان کرتے ہیں: خواجہ بزرگوار علوم عقلی و نقلی میں بہت زیادہ تصنیفات کے مالک ہیں انہوں نے مذہب شیعہ کے دینی علوم پر بھی کتابیں لکھی ہیں۔ میں نے جتنے دانش مندوں کو دیکھا ان میں شریف ترین شخص وہی تھے۔ خدا ان کی ضریح (قبر) کو منور کرے میں نے ان کی خدمت میں الٰہیات شفاء ابن سینا او ر علم ہئیت میں ’’تذکرہ ‘‘ کا درس لیا جو خود ان کی ایسی تالیفات میں سے ہے کہ جب تک یہ دنیا رہے گی اس کی تابانی باقی رہے گی۔ (مفاخر اسلام، ج۴،ص ۱۳۶، علی دوانی، بنقل از اجازات بحار) خواجہ نصیر کے اخلاق کی تعریف میں ان کے شیعہ شاگردوں سے زیادہ حلاوت ان کے اہل سنت شاگردوں کے بیان میں ہے۔ ابن فوطی (برای اطلاع بیشتر، فصل شاگردان خواجہ نصیر ملاحظہ فرمائیں۔)حنبلی مذہب رکھتے تھے مگر خواجہ نصیر کے شاگرد تھے وہ اپنے استاد کا ذکر یوں کرتے ہیں : خواجہ مرد فاضل و کریم الاخلاق، نیک سیرت اور انکسار پسند تھے وہ کبھی بھی کسی حاجت مند کے سوا ل پر دل تنگ نہیں ہوتے تھے اور اسے رد نہیں کرتے تھے ان کا برتاؤ سب کے ساتھ خوش روئی کے ساتھ ہوتا تھا۔(احوال و آثار خواجہ، ص ۷۸مدرس رضوی بنقل از حوادث الجامعہ ابن فوطی) مورخین اہل سنت میں سے ’’ابن شاکر‘‘ نے اخلاق طوسی کی تعریف یوں کی ہے: خواجہ نہایت خوش شمائل و کریم و سخی و بردبار و خوش معاشرت، دانا و فراست والے تھے ان کا شمار اس عہد کے سیاست مداروں میں ہوتا تھا۔(فوات الوفیات، ج۲،ص ۱۴۹، ابن شاکر چاپ مصر)
٭٭٭ |