خواجہ نصیر الدین طوسی
 

فصل ششم

خواجہ نصیر کی اولاد
خواجہ نصیر کے بیٹے
خواجہ نصیر الدین طوسی نے صدر الدین علی، اصیل الدین حسن، و فخر الدین احمد تین فرزند یادگار چھوڑے جن میں سے ہر ایک علم و دانش و فضل و کمال میں فخر روز گار تھا وہ ایک مدت تک مسلمانوں کی خدمت میں کرتے رہے۔ ان کی زندگی بہت سے حوادث سے لبریز ہے۔

طوسی کی نسل سے کچھ افراد
حکومت صفویہ میں بہت اونچے عہدے پر پہنچے تھے جن میں ’’حاتم بیک اردو باری‘‘ کا نام لیا جا سکتا ہے جو شاہ عباس کے دور میں اعتماد الدولہ کہلاتے تھے۔

صدر الدین علی
خواجہ نصیر کے بڑے اور لائق فرزند اپنے باپ کی زندگی میں ان کے اہم کار تھے۔ اور وادل نے ان کو مراظہ کے رضا خانہ کار سرپرست مقرر کیا تھا۔ والد کی رحلت کے بعد بھی رصد خانہ کے امور و اوقاف کے نگراں تھے ان کو ایک دانش مند، ریاضی داں، فلسفی و نجومی بتایا گیا ہے۔ مجمع الاداب میں ابن فوطی نے لکھا ہے صدر الدین کو شاہ قہستان اعتماد الدین ابو الفداء قہستانی کی بیٹی سے شادی کا اعزاز حاصل تھا۔

اصیل الدین حسن
اصیل الدین حسن نصیر الدین طوسی کے دوسرے بیٹے تھے اور اپنے بھائی کی طرح اہل دانش و فضیلت تھے۔ ادبیات و سیاست میں اپنے وا لد کے ساتھ دسترس حاصل کی۔ وہ حیات پدر اور بعد وفات دونوں زمانوں میں مہم مشاغل و منصب پر فائز تھے بڑے بھائی(صدر الدین) کی وفات کے بعد ان کے جانشین ہوئے انہوں نے غازان خاں کے ساتھ شام کا سفر بھی کیا۔ اس کی حکومت میں ان کو اونچا مقام اور خصوصی شہرت حاصل تھی۔ شام میں انہوں نے امور اوقاف کو ہاتھ میں لیا اور بعد میں غازان خاں کے ساتھ بغداد کا سفر کیا جہاں انھیں بھی نائب السلطنت بغداد بنایا۔

فخر الدین احمد
خاندان میں سب سے چھوٹے تھے اور دوسرے بھائیوں کی طرح آپ کے ہاتھ میں تمام ممالک اسلامی کے اوقاف کی ریاست تھی اور وہ ان مسائل کو دیکھتے و سلجھاتے تھے۔
ان کی خصوصیات کے تعلق سے مرقوم ہے:
جب وہ بغداد میں ادراہ اوقاف کے رئیس و سربراہ تھے تو ۶۸۳ھ میں عراقی عوام کو قحط سخت نے اپنی لپیٹ میں لے لیا انہوں نے اپنی عالی دماغی اور خصوصی تدبیر سے اس کی نگہداشت کی اور اپنی تمام توانائی و ذہانت کو صرف کر دیا۔
فرزندان طوسی کے علم و دانش کے لئے یہی کافی ہے کہ شیعہ مورخین ہی نے نہیں بلکہ بہت سے اہل سنت ہم عصر مورخین نے بھی ان کے فضل و علم و دانش کا اعتراف کیا اور ان کو دانش مندوں کی صف میں شمار کیا ہے یہی نہیں بلکہ انہیں بعنوان بزرگ اہل دانش یا د کیا ہے۔
ان اوصاف کی طرف کتاب ’’الوافی بالوفیات‘‘ ابن صفدی ‘‘ ’’فوات الوفیات ‘‘ ابن شاکرو ’’حوادث الجامعہ، مجمع الاداب، تلخیص معجم الالقاب‘‘ ابن فوطی میں اشارے موجود ہیں۔
٭٭٭