فصل سوم
خواجہ نصیر الدین طوسی | |||||
فصل سوم
زمانہ تحصیل علم و اساتذہ
طوسی، سوس میں
خواجہ نصیر الدین نے اپنا بچپن و نوجوانی طوس میں گزارا۔ انہوں نے ابتدائی اسباق جیسے پڑھنا، لکھنا، قرات قرآن، عربی و فارسی قواعد معانی و بیان اور کچھ علم منقول جیسے حدیث کو اپنے عالم و روحانی باپ محمد بن حسن طوسی سے حاصل کیا ساتھ ہی اس زمانے میں خواجہ نصیر قرآن خوانی و فارسی شناسی میں اپنے والد سے استفادہ کرتے رہتے تھے۔اتنا کچھ پڑھانے کے بعد باپ نے بیٹے کو منطق، حکمت، ریاضی و طبیعات کے نامور استاد نور الدین علی بن محمد شیعی کے سپرد کر دیا جو خواجہ نصیر کے ماموں بھی تھے۔ کچھ عرصے تک خواجہ طوسی نے ماموں سے درس اس لئے انہوں نے کہا کہ ان کو نیشا پور جانا چاہیے۔ طوسی نے شہر طوس میں اپنے استاد اور باپ کے ماموں ’’نصیر لیا لیکن بعد میں انہیں ایسا لگا کہ ان کے علم کی پاس ماموں نہیں بجھا سکتے اس لئے اسی اثنا میں وہ اپنے باپ کے مشہور پر ریاضی کے مستند ماہر محمد حاسب سے متوسل ہوئے جو اس وقت طوس آئے ہوئے تھے۔ جن کے چشمہ علوم و دانش سے ان کی روحی و فکری تشنگی ایک حد تک دور بھی ہوئی لیکن کمال الدین محمد حاسب طوس میں چند ماہ ہی رہے۔ اور چلتے چلتے خواجہ نصیر کے والد سے بولے کے جتنا مجھے معلوم تھا میں نے تمہارے بیٹے کو دے دیا مگر اب وہ ایسے سوالات کرتا ہے کہ کبھی کبھی میں اس کے جواب سے عاجز ہو جتا ہوں۔ اب محقق طوسی نے طوس میں رہنے کا خیال ترک کر دیا اور اہل علم کی تلاش میں نکل پڑنے کی سوچنے لگے اسی درمیان ان کے والد کے ’’نصیر الدین عبداللہ بن حمزہ ‘‘ طوس تشریف لائے اور خواجہ نصیر کچھ عرصہ کے لئے ان سے فیض حاصل کرنے کی غرض سے طوس میں ٹھہر گئے۔ لیکن ان کے والد کے ماموں بھی جو علوم حدیث و رجال و درایہ کے ماہر دانشمند تھے خواجہ کی روح تشنگی کو سکون نہ بخش سکے۔ خواجہ نصیر الد ین ان نے سے زیادہ نئی باتیں سیکھ لیں۔ لیکن خواجہ نصیر کی بے انتہا ذہانت و استعداد نے والد کے ماموں کو حیران کر دیا اور انہوں نے محسوس کیا کہ خواجہ نصیر کا طوس میں رہنا زیادہ فائدہ مند نہیں ہے ’’ الدین عبداللہ بن حمزہ‘‘ کے ہاتھ سے مقدس روحانی لباس زیب تن کیا اور خواجہ نصیر کو ان کی طرف سے نصیر الدین کا لقب عطا ہوا۔ ان کی اور ان کے والد کی تاکید سے خواجہ کی طوس سے ہجرت کے خیال کو تقویت ملی۔
رحلت پدر
کچھ ہی دنوں پہلے خواجہ نصیر نے خوشی خوشی روحانیت کا مقدس لباس زیب تن کیا تھا اور نصیر الدین کا لقب پایا تھا اس کی یاد ابھی محو نہیں ہوئی تھی اور وہ طوس ہی میں تھے کہ اچانک ان کے پدر نامدار بیمار پڑ گئے اور روز بروز ان کی حالت خراب ہونے لگی۔ اہل خانہ نے جتنی بھی کوشش دوا و علاج میں کی وہ مفید نہ ہوئی اور آخر کار جاڑوں کی ایک سرد رات میں وجیہ الدین نے اپنے عزیز و اقربا کو پاس بلایا اور ہر ایک کو وصیتیں کر کے ہمیشہ کے لئے سب کو خدا حافظ کہا اور خواجہ نصیر کی روح کو غم و اندوہ سے بھر دیا۔ خواجہ نصیر الدین جو جلد ہی وطن سے ہجرت کے خیال میں تھے اب پہلے سے زیادہ سہارے و امداد کے محتاج ہو گئے لیکن مقدر میں تو یہ تھا کہ ایک طرف باپ کی موت اور دوسری طرف ترک وطن ان کو مضبوط کر کے آئندہ کے سخت حادثات سے مقابلہ کے لئے توانا کر دے۔انہوں نے خود ان ایام کی یاد میں لکھا ہے: ’’میرے باپ جو جہاندیدہ و تجربہ کار تھے انہوں نے مجھے علوم و فنون کی تحصیل اور بزرگان مذاہب کے اقوال و نوشتوں کو سننے و پڑھنے کی ترغیب دلائی یہاں تک کہ افضل الدین کا شی کے شاگردوں میں سے ایک بزرگ کمال الدین محمد حاسب ہمارے شہر میں کچھ دنوں کے لئے آئے جو حکمت و فلسفہ خصوصاً علم ریاضی میں مہارت نامہ رکھتے تھے اگرچہ میرے والد سے ان کی گہری آشنائی نہیں تھی پھر بھی انہوں نے مجھے حکم دیا کہ ان سے استفادہ کرو اور میں ان کی خدمت میں حاضر ہو کر فن ریاضی کی تحصیل میں مشغول ہو گیا۔ پھر وہ حضرت طوس چھوڑ کر چلے گئے اور میرے باپ کی وفات بھی ہو گئی مگر میں نے اپنے باپ کی وصیت کے مطابق مسافرت اختیار کر لی۔ چنانچہ جہاں جہاں کسی فن کے استاد سے ملاقات ہوتی، میں وہیں ٹھہر جاتا اور ان سے استفادہ کرتا تھا مگر چونکہ میرا باطنی رجحان حق و باطل میں تمیز پیدا کرنے کا تھا، اس لئے کلام و حکمت جیسے علوم کی جستجو میں لگ گیا۔‘‘
نیشاپور کو ہجرت
نیشا پور خراسان کے چار بڑے شہروں (مرو، بلخ، ہراشا، نیشاپور) میں سے ایک شہر تھا اور سالہا سال شاہان ظاہریان وغیرہ کا پایہ تخت رہ چکا تھا۔ عرصہ دراز سے علم و دانش کا مرکز تھا اور اپنے دامن میں بہت سے علمائے ایران کی پرورش کر چکا تھا۔ اگرچہ وہ کئی بار حملہ و ہجوم کا شکار بھی ہوا خصوصاً قبیلہ ’’ غز‘‘ جس نے بڑی تباہی مچائی تھی اور شہر کے اکثر مدارس، مساجد، کتاب خانے ویران ہو گئے تھے پھر بھی مغلوں کے حملہ سے قبل تک نیشاپور عملی اہمیت کا حامل تھا مگر اس وحشی نورد قوم کے حملہ سے ویرانہ و کھنڈر میں بدل گیا۔خواجہ نصیر نے طوس میں مقدمات و مبادیات کی تحصیل کے بعد والد کے ماموں کی نصیحت و باپ کی وصیت پر عمل کرتے ہوئے تکمیل علم کے لئے جب نیشا پور کا سفر اختیار کیا تو اس وقت ان کے والد کی وفات کو ایک سال گزرا تھا اور نیشا پور کا شمار اس عہد کے مشہور اسلام درسگاہوں میں ہوتا تھا اور شہر اس وقت تک مغلوں کی یلغار کا شکار نہیں ہوا تھا۔ محقق طوسی نے نیشا پور میں اپنی مسلسل کوشش و محنت جاری رکھی اور والد کے ماموں کی نصیحت کے مطابق مدرسہ سراجیہ نیشا پور میں قیام کیا اور پھر ’’سراج الدین قمری‘‘ کی تلاش میں لگ گئے۔ امام سراج الدین ایک مرد فاضل و دیندار تھے۔ انہوں نے نہایت صبر و وقار و احترام کے ساتھ خواجہ نصیر کی احوال پرسی کی، باپ کی وفات پر تعزیت ادا کی اور خواجہ کا تعارف مدرسہ سراجیہ کے متولی مرزا کاظم سے کرایا تاکہ وہ انھیں مدرسہ میں ایک کمرہ رہنے کے لئے دے دیں۔ خواجہ نصیر کے لئے یہ مدرسہ سطح بالا کے کالج جیسا تھا ان کے کمرہ کے ساتھی مدرسہ کے ایک فاضل شمس الدین عبدالحمید ابن عیسیٰ خسرو شاہی تھے جو تبریز سے نیشاپور تحصیل علم کی غرض سے آئے تھے۔ اس مدرسہ میں امام سراج الدین کا علمی پایہ سب سے بلند تھا ان کا شمار افضل ترین استادوں میں ہوتا تھا۔ وہ فقہ و حدیث و رجال کا درس خارج دیتے تھے۔ انہوں نے جب نصیر الدین کے فوق العادہ وغیرہ معمولی ذہن و استعداد کو ملاحظہ کیا تو ان کو اپنے درس میں شرکت کی اجازت دے دی اور خواجہ نصیر تقریباً ایک سال تک امام سراج الدین کے درس میں شریک رہے۔ اس مدرسہ میں ایک اور بزرگ استاد تھے جنہوں نے امام فخر الدین رازی سے درس لیا تھا اور فلسفہ میں تبحر خاص رکھتے تھے وہ چار واسطوں سے ابن سینا کے شاگرد قرار پائے تھے ان کا نام فرید الدین داماد نیشا پوری تھا ان کا شمار اس عہد کے بزرگ ترین استادوں میں ہوتا تھا وہ مدرسہ نظامیہ میں درس دیتے تھے خواجہ نصیر کو موقع مل گیا کہ وہ ان سے ’’اشارات ابن سینا ‘‘ کا درس لیں۔ مرقوم ہے کہ فرید الدین سرخسی کے شاگرد تھے جو افضل الدین غیلانی کے اور وہ ابو العباس لوکری کے اور وہ بو علی سینا کے مشہور شاگرد تھے۔ (روضات الجنات، ج۶، ص ۵۸۳(خوارن ری) قصص العلماء، ص ۳۸۱(مرزا محمد تنکاینی) مجالس المومنین، ج۲، ص۲۰۳(قاضی نور اللہ شوشتری) پس جائز و شائستہ یہی ہے کہ ہم خواجہ نصیر الدین طوسی کو بو علی سینا کے شاگردوں میں شمار کریں۔ استاد و شاگرد میں مذاکرہ و مباحثہ کا سلسلہ بڑھا تو فرید الدین نیشا پوری نے نصیر الدین طوسی کی استعداد علمی و خواہش کسب علم کو دیکھتے ہوئے ان کو ایک دوسرے دانش مند قطب الدین مصری شافعی سے ملایا جو فخر الدین رازی کے شاگرد تھے نہیں بلکہ علم طب کی مشہور کتاب ’’قانون ابن سینا‘‘ کے بہترین شارحین میں سے تھے۔ خواجہ نصیر نے جو ابن سینا کی ’’اشارت‘‘ فرید الدین سے پڑھ رہے تھے قطب الدین سے قانون ابن سینا کا درس لینا شروع کر دیا۔ الغرض یہ ایرانی عالم دریا کی طرح حرکت و روانی و زندگی سے لبریز تھا اور اسے ایک لمحہ بھی قرار نہ تھا اور جہاں بھی کسی علم و فن کا استاد اسے مل جاتا وہیں اس س سے علم حاصل کرنے میں لگ جاتا۔ طوسی کو نیشاپور میں سب کچھ ملا مگر عرفان و سلوک کی لطافتوں سے بے بہرہ رہے اس لئے وہ اس زمانے کے مشہور عارف شیخ عطار (متوفی ۶۲۷ھ) کی خدمت میں پہنچے اور ان سے استفادہ کیا۔
طوسی شہر رہے میں
نیشاپور کے علماء دانش مندوں سے علوم فنون کے حصول کے بعد طوسی زیادہ دن وہاں نہیں رہے۔ انہوں نے سطح بالا تر کے دورہ کو چھوڑ کر شہروں شہروں ملکوں ملکوں پھرنا شروع کر دیا جس کا مقصد نئی بات کا حصول و اس عہدے کے علماء و دانش مندان کا دیدار تھا تاکہ قابل استفادہ شخصیت سے کچھ حاصل کر لیا جائے اس لئے وہ چند مہینے رے میں مقیم رہے اور اس عرصے میں وہ عظیم دانش مند برہان الدین محمد بن محمد بن علی الحمدانی قزوینی سے آشنا ہوئے جنہوں نے رے میں سکونت اختیار کر رکھی تھی۔
طوسی قم میں
محقق طوسی شہر رے سے اصفہان جانا چاہتا تھے اثنائے راہ میں وہ ایک عالم مثیم بن علی بن مثیم بحرانی سے ملے تو انہوں نے خواجہ نصیر کو قم چلنے اور خواجہ ابو السعادت اسعدی بن عبدالقادر بن اسعد اصفہانی کے درس سے استفادہ کا مشورہ دیا۔مصنف کتاب ’’فلاسفہ شیعہ‘‘ نے قم کو ان شہروں میں شمار کیا ہے۔ جہاں خواجہ نصیر نے تعلیم حاصل کی اور خواجہ نصیر کی معین الدین سے شاگردی کے تعلق سے لکھا ہے: شاید قم میں خواجہ نے معین الدین بن سالم بن بدران مازنی مصری امامی سے بھی استفادہ کیا ہو۔(فلاسفہ شیعہ، ص ۲۸۲از شیخ عبداللہ نعمہ (ترجمہ جعفر غضبان)
طوسی اصفہان میں
نصیرالدین نے قم کے بعد اصفہان کا سفر کیا مگر جب وہاں کسی استاد کو نہ پایا جس سے استفادہ کیا جائے تو سفر عراق کا ارادہ کر لیا۔
طوسی عراق میں
خواجہ نصیر نے عراق میں ’’علم فقہ ‘‘ ابن ادریس حلی و ابن زہرہ حلی کے شاگرد معین الدین بن سلم بن بدران مصری مازنی سے حاصل کیا اور ۲۱۹ھ میں معین الدین سے اجازہ روایت لینے میں کامیاب ہو گئے۔محقق طوسی نے عراق میں فقہ علامہ حلی سے سیکھی اور علامہ نے بھی حکمت کی تحصیل خواجہ نصیر سے کی حوزہ میں یہ روایت و طریقہ اب تک باقی ہے اور استاد و شاگرد ایک دوسرے سی معلومات علمی کا حصول کرتے رہتے ہیں اور نہایت انکساری و تواضع کے ساتھ کسب علم کا عمل جاری رہتا ہے۔ اس کے بعد نصیر الدین موصل میں کمال الدین موصلی کی خدمت میں باریاب ہوئے اور ان سے علم نجوم و ریاضی کا حصول کیا۔ اس طرح خواجہ نصیر نے حصول علم کے دوران خود کو فراموش کر دیا اور وطن و خانوادہ سے مدتوں دور رہنے کے بعد ہی خراسان واپسی کا قصد کیا۔ ٭٭٭
٭٭٭ |