خواجہ نصیر الدین طوسی
 

فصل دوم

مولد و ولادت خواجہ نصیر الدین طوسی
مولد۔ طوس۔ ایک سے ایک نامی گراں علماء دانش مند و بزرگ ہستیوں کی سرزمین ہے جس میں کا ہر ایرانی ادب، ریاضی، تاریخ، علم،تمدن و تہذیب، ثقافت میں اپنی ایک چمکدار تاریخ رکھتا ہے۔
ماضی میں اسی خاک سے تاریخ ساز اور حکمت و فلسفہ و عملی دنیا کے قد آور افراد جیسے ’’جابر بن حیان ‘‘ امام محمد غزالی، حکیم ابو القاسم فردوسی خواجہ نظام الدین الملک و خواجہ نصیر الدین طوسی وغیرہ اٹھے ہیں۔
طوس خراسان کے مضافات میں ہے ج س کا اہم شہر مشہد ہے۔ زمانہ قدیم میں طوس کئی شہروں کا مجموعہ تھا جن کے نام نوفان، طابران، رادکان ہیں ان میں اہم شہر طابران (شہر طوس) رہا ہے۔ مگر آج کل طابران جو مشہد سے چار فرسخ کی دوسری پر تھا بالکل مٹ گیا ہے چند شکستہ برجیوں کے کچھ نہیں رہ گیا ہے۔
’’نوقان‘‘ شہر طابران سے کچھ چھوٹا تھا۔ شیعوں کے آٹھویں امام حضرت علی بن موسیٰ الرضاؓ کی قبر اس شہر سے باہر سناباد گاؤں(موجودہ مشہد) میں ہے۔ جب امام رضا علیہ السلام کے مشہد میں توسی ہوئی تو وہ سناباد گاؤں سے متصل ہو گیا۔اور مشہد کا ایک محلہ بن گیا سو آج بھی نوقان کا نام محلہ باقی ہے۔(طوس کی توصیف میں خواجہ نصیر کے ایک معاصر شاعر نے کہا جو حسب ذیل اشعار ہیں )

جبذآب و خاک جلگہ طوس
کہ شد آرامگہ فضل و ہنر

معدن و منبع حقیقت وفضل
مرتع و مربع صفا و نظر

آب اوچون سپہر مہر نمای
خاک اوچون صد ف گہر پرور

ہمچوعہ غزالی و نظام الملک
ہمچوفردوسی و ابو جعفر

وندرین روزگارخواجہ نصیر
اعلم عصر مو مقتدای بشر

کزا فاضل زمبداء فطرت
تاباکنون چوا اونخواست دیگر

این خپین بقعہ باخپین فضلا
سزدار برفلک برارد سر

ولادت
تقریباً آٹھ سو سال پہلے ’’جہرود‘‘ قم ایک روحانی و عالم کنبہ آٹھویں امام حضرت علی رضا علیہ السلام کی زیارت کے لئے مشہد کا قصد کرتا ہے اور واپسی کے وقت اسے خاندان کے بزرگ عالم کی مادر گرامی کی بیماری کے سبب سے شہر طوس کے ایک محلہ میں ٹھہرنا پڑتا ہے تھوڑے دن کے بعد اس عالم روحانی کے اخلاق و سیرت پسندیدہ کو دیکھ کر عوام گرویدہ ہو جاتے ہیں۔ اور اس عالم جلیل القدر سے درخواست کرتے ہیں کہ یہ امامت جماعت مسجد کی اور تدریس مدرسہ علمیہ محلہ حسینیہ طوس کو کر لیں اور یہیں قیام فرما ہو جائیں۔
اس بزرگ روحانی کا نام شیخ وجیہ الدین محمد بن حسن تھا آپ کو بزرگان دین سے اجازہ روایت حاصل تھی اور ایک اہم سبب تھا کہ لوگ ان کی طرف متوجہ ہو گئے۔
شیخ وجیہ الدین کے ایک فرزند تھے جن کا نام صادق تھا اور ایک صاحبزادی تھی جن کا نام صدیقہ تھا مگر انہیں ایک اور اولاد نرینہ کا انتظار تھا کیونکہ شیخ کا دل بہت چاہتا تھا کہ ان کے یہاں ایک ایسا فرزند پیدا ہوا جو مشہور علمی گھرانے معروف بہ ’’فیروزشاہ جہرودی‘‘ کا نام روشن کرے اور اسے باقی رکھے۔ کیونکہ ان کے بڑے بیٹے صادق نے درس و تحصیل علم میں دل چسپی ظاہر نہیں کی چنانچہ یہ انتظار زیادہ طولانی نہیں ہوا تھا کہ ایک رات جب شیخ مسجد سے گھر آئے تو انھیں دوسرے بیٹے کی ولادت کی خوش خبری مل گئی ہوا یہ کہ اس رات شیخ بہت مضطرب تھے کہ خدانخواستہ ان کی اہلیہ کو کوئی آزار و ناگواری درپیش نہ ہو جائے اس لئے انہوں نے دعا و مناجات کے بعد قران کریم سے فال نکالی تو یہ آیت مبارکہ نکلی ’’محمد رسول اللہ والذین معہ اشداء علی الکفار رحماء بینہم ‘‘ شیخ وجیہ الدین نے قرآن کریم کی اس آیت کو فال نیک خیال کیا اور مولود جس کے بارے معلوم نہ تھا کہ لڑکی ہے یا لڑکا ’’محمد ‘‘ نام رکھ دیا جب کہ خود ان کا نام بھی محمد تھا۔
ابھی آفتاب نے سر زمین ایران کو روشن نہیں کیا کہ شیخ کے گھر کے سورج نے بارش انوار کر دی یعنی روز شنبہ ۱۱/جمادی الثانی ۵۹۷ھ کو بوقت طلوع آفتاب ساتویں صدی کی حکمت و ریاضی کا منور ترین چراغ سر زمین طوس پر جلوہ گر ہو گیا۔ جواس صدی کے ایرانی دانش مندوں و فلاسفہ و سیاست مداروں میں ممتاز ہوا اور سارے عالم میں اس کی شہرت ہوئی۔
اس کا نام ’’محمد ‘‘ کنیت ’’ابو جعفر ‘‘ لقب ’’نصیر الدین‘‘ محقق طوسی، استاد البشر تھا اور مشہور خواجہ سے ہوا۔(ایران میں خواجہ کہتے تھے دانش مند بزرگ، سرور و مالدار کو جیسے خواجہ حافظ شیرازی، خواجہ عبداللہ انصاری، خواجہ نظام الملک)
مرحوم شیخ عباس قمی ’’محدث قمی‘‘ خواجہ نصیر کے بارے میں کتاب مفاتیح الجنان میں لکھتے ہیں:
’’نصیر الملتہ والدین، سلطان الحکماء و المتکلین، فخرالشیعہ و حجتہ الفرخہ الناجیہ استاد البشر و العقل الحادی عشر(تحفہ الاحباب، ص ۴۸۵، محدث قمی)
اکثر مورخین کے مطابق خواجہ نصیر کے اجداد جیسا کہ اشارہ کیا گیا ہے اہل جہرود قم تھے اس طرح خواجہ نصیر کی اصل ارض قم ہے لیکن چونکہ ان کی ولادت طوس میں ہوئی اس لئے طوس کہلائے اور اسی نام سے شہرت حاصل کر لی۔
محدث قمی کے مطابق خواجہ کے مورث اعلیٰ جہرود (وشارہ کے نام ے مشہور جگہ )قم کے نزدیک (فوائد الرضویہ، ص ۶۰۳، محدث قمی) کے باشندے تھے۔ جہرود کا فاصلہ قم سے دس فرسخ ہے (۲۵) میل، وہ جگہ بہترین آب و ہوا والی ہے اور وہاں ایک قلعہ بھی موجود ہے جو قلعہ خواجہ نصیر کے نام سے مشہور ہے۔
٭٭٭