خواجہ نصیر الدین طوسی | |||||
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اس کتاب میں سر زمین ایران کے عظیم فلسفی و عالم خواجہ نصیر الدین طوسی کی زندگی کا مختصر بیان ہے۔ کون تھے وہ، ساتویں صدی ہجری کے علمائے اجل میں سب سے نمایاں ایسا انسان کہ ان کی وفات کے سات سو سال بعد بھی دنیا ان کے علم پر تکیہ کئے ہوئے ہے جنہوں نے اپنی فکر و نظر کی وسعتوں کو دنیائے اسلام کے لئے سرمہ نگاہ اپنی سیاسی و علم شخصیت کو نمائش دوام کے لئے رکھا دیا ہے۔
مقدمہ
خواجہ نصیر ایک ایسا نام ہے جس سے دنیائے علم کی تاریخ آگاہ ہے یہ ہی نہیں بلکہ وہ اس سر زمین ایران کی عالم پروری اور علم کی تلاش و کوشش کی بولتی ہوئی تصویر بھی ہے۔ اس عظیم دانش مند اور فلسفی و ریاضی دان کی زندگی جو بغداد حلہ و نیشاپورو طوس جیسے شہروں میں تحصیل و تالیف و مسائل اجتماعی و سیاسی مشاغل میں گزری وہ حکمت و ریاضی و ہئیت کا نامور ترین استاد تھا اس نے ایسے انکشافات کئے ہیں جہاں کسی کی فکر کی رسائی نہیں ہوئی تھی اور ایسے موضوعات کو منور کیا ہے جو اب تک اچھوتے تھے۔ آپ نے علم کلام میں ایسا ناقوس بجایا کہ اس کی آواز دلربا بھی اہل دانش کے کانوں میں گونج رہی ہے۔ اگرچہ ہم خواجہ نصیر کو ایک عظیم فلسفی،کلامی ماہر فلکیات کے طور پر جانتے ہیں۔لیکن حق یہ ہے کہ ہنگاموں و حوادث سے بھرئی ہوئی اور ایک وحشی ترین قوم کے درمیان گزرنے والی ان کی طویل زندگی کا کما حقہ بیان اب تک ہوا ہی نہیں کیونکہ مستشرقین و مغرب زدہ اہل قلم نے ان کے بارے میں جو کچھ لکھا ہے وہ ان کے زمانے سیاسی و اجتماعی حالات کا لحاظ کئے بغیر ہی لکھا اور اس طرح انہوں نے خواجہ کی شخصیت کو بالکل بدل دیا ہے اور ان کی صحیح تصویر کو جہل و سیاست کے غبار میں چھپا دیا ہے۔ چنانچہ سات سو برس گزرنے کے بعد بھی خواجہ نصیر مظلومیت کے اسیر ہیں کیونکہ جب خود غرض و متعصب افراد سے ان کی علمی حیثیت کا انکار ممکن نہ ہوا تو انہوں نے خواجہ کے سیاسی و اجتماعی چہرے کو داغدار و مجروح کرنے کی کوشش کی اور کم نہیں بلکہ بہت زیادہ۔ ادھر جس بات نے ہمیں قلم اٹھانے پر اکسایا اور ا س عظیم دانشمند کی طوفانی دریا جیسی زندگی کو کاغذ کے سینے پر اتارنے کے لئے مجبور کیا اس کی ایک وجہ نئی نسل کی تشنگی دور کرنا و اسلامی معاشرہ کے نمونہ کو پیش کرتا تھا دوسری وجہ مغلوں کی غارت گری۔ جیسا کہ مغربی ثقافت کا حملہ بھی ہے جوان دنوں بڑی ہی شدت کے ساتھ ہم پر ہو رہا ہے۔ ایسے میں ایمان و جہاد و آزادی کے پیکروں اور بڑے بڑے دانشمندوں کی زندگی و سوانح سے بہتر ان نونہالوں کے لئے کون سا نمونہ عمل ہو سکتا ہے۔ آخر میں مناسب جانتا ہوں کہ پژوہشکدہ باقر العلوم کے ارکان اور کتاب خانہ آیت اللہ نجفی مرعشی و کتابخانہ آیت اللہ حا ئری کے مامورین کا شکریہ ادا کروں جنہوں نے کتابوں اور مآخذ کی جمع آوری میں حقیر کی مدد کی۔ ولہ الحمد فی الاولی والآخرہ و آخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین
عبدالوحید وفائی پائیز(۱۳۷۲ھ ش) ٭٭٭ |