خواجہ نصیر الدین طوسی

قم مرکز تحقیق باقر العلوم
تشکر: اردو برقی کتابیں

بسم اللہ الرحمن الرحیم

پیش لفظ
آج کل جسے تاریخ کا نام دیا جاتا ہے اور جس کے ذریعہ بڑی بڑی ہستیوں کو پہچنوایا جاتا ہے وہ سب حقیقت نہیں بلکہ اس کا ایک حصہ ہے جس میں انسان اور دنیا کی جھلک دکھائی جاتی ہے۔ رسمی تاریخ تعلق انھیں افراد سے ہوتا ہے جن کی فکر و نظر مادیت سے آگے نہیں جاتی اور انہوں نے انسان اور اس کی دنیا کو جغرافیائی حدود میں قید کر رکھا ہے۔ اکثر مغربی تاریخ نویس حقیقت کو آنکھ کے تل کی طرح مانتے ہیں جو خود کو دیکھ نہیں پاتا وہ لوگ حقیقت شناسی کے میدان میں حواس و ہوش کو کام میں لاتے ہیں۔ جب کہ اس کے مصرف ہیں کہ اسے محسوس نہیں کیا جاتا۔
وہ لوگ بہترین تاریخ نویس نہیں ہو سکتے جو تجربہ کو عقل کی بنیاد اور رواں دواں لذت و توسعہ کو انسان کا اعلیٰ مقصد و بشریت کے انجام کا کعبہ جانتے ہیں۔ ایسے لوگ جو ’’ہستی ‘‘ کو بے آغاز انجام کتاب اور انسان کو زندگی کے دلدل کا روئیدہ شجر جانتے ہیں وہ حقائق عالم کی تفسیر و تشریح نہیں کر سکتے یہ لوگ ہمیشہ زمانے کی بساط شطرنج پر ظلمت کے لشکریان کو مات دینے والے بنے رہے اور صرف ایسی چیزوں کو ابھارا جس میں گہرائی ہے نہ حس و تواں۔
آج تاریخ کے کتاب خانوں کی الماریاں مادہ پرست مورخین کی نگارشات سے بھری پڑی ہیں جنہوں نے ہزاروں کتابیں، مقالے، تصاویر و قلم و اسناد اپنے جیسے معمولی افراد کے فضائل و مناقب میں جمع کر کے رکھ دیتے ہیں۔ ان کتاب خانوں میں بہت کم ایسی ہستیاں ملیں گی جنہوں نے وحی کے لئے طور کی سیر کی اور آواز لن ترانی سنی ہو اور خلیل خدا کی طرح عقل کو کوچہ عشق میں قربان کر دیا۔
یہ تاریخ نویس ہمیشہ حالات کو ایک نگاہ سے دیکھنے کے عادی تھے، شاہان ستم گرکے کاسہ لیس اور سطحی نظر رکھنے والے تھے ان کی زیادہ تر روایتیں ساز و سوز و شہرت و شعر و شباب کی ہوتی تھیں اور وہ عقیدہ ایمان و آزادی کے دشمن تھے۔ ان کا مقبول و مطلوب معیار اب بھی زر، و زور و تزویری ہے۔ اورنگ و جنگ و ننگ ان کے تین عناصر ترکیبی ایسے میں شجاعت دائمی کے نگہبانوں کا فرض بنتا ہے کہ وہ مغرب کے معیار و نمونہ پر حملہ کریں اور تفسیر آفتاب لکھیں حدیث و ’’روایت نور‘‘ کو دہرائیں۔
ہاں:اس فریب و مکر کی دنیا میں حدیث اخلاص اور ’’قلہ ہائے شجاعت ایثار ‘‘ کی باتیں بھی ہونا چاہیں اور فکر بلند و جہاد‘‘ کے ان صدر نشینوں کا تعارف کرانا چاہیے جو غفلت و ذات کے اندھے کنویں میں پڑے ہوئے ہیں۔
لازم ہے کہ آزادی کے ان جھوٹے مجسموں کے مقابلے ’’تندیس(تصویر،مجسمہ، پیکر، تمثال)ڈھنڈورچی‘‘ تو سعہ (وسیع النظری)‘‘کے خالی نقارے کو پیٹ رہے ہیں۔صدائے بیدارہ اور نعرہ فضیلت کو بلند کرنا چاہیے۔ حوزہ علمیہ کے بیدار اشرف اور قبیلہ ابرار کے بہترین فرزند ان کا فرض ہے کہ وہ حتی الامکان مغرب کی دروغ گوئی و فریبی معیار پیمانے و ترازو کو توڑ پھوڑ ڈالیں ان کے معیار و اقدار کو رسوا کر کے قرآنی و اسلامی تہذیب و آداب سے لوگوں کو آشنا کریں او ر کفر و الحاد و ابتذال و استبداد کی ثقافتی جنگ میں سب لوگ ایک صف ہو کر ایمان و توحید و تقویٰ و عدالت کا لشکر ترتیب دیں۔
یونیورسٹی و حوزہ علمیہ و مدراس دینی کے علمائے متعہد کا فریضہ ہے کہ جوانوں اور نئی نسل کے سامنے اسلام کے اعلی معیار و اقدار اور مغرب کی مبتذل تہذیب کا مقابلہ کر کے انھیں اسلام سے رغبت دلائیں تاکہ امت کے امور کی ڈور مغرب کے پروانہ صفت عشاق کے ہاتھوں میں نہ جانے پائے۔
لہٰذا اب یہ ضروری ہو گیا ہے کہ خالص عوامی رفاہ طلب افراد اور زاہدان سیاست مدار کا تعارف کیا جائے اور ان کے مقابل میں مغرب کے ہاتھوں بکے ہوئے ’’پرچمداران علم و سیاست‘‘ و ’’وزیران دین پرور‘‘ کی بات چھیڑی جائے او ر مغربی سازش والے سیمناروں کے مقابلے اور اس ڈالر کی حاکمیت والے زمانے میں مدرسہ فیضیہ کے فرزند آزادی و استقلال کا پرچم لے کر کھڑے ہو جائیں اور سرکار مرزا شیرازی کی طرح فتویٰ کی طاقت کو دکھا دیں اور سیاسی و ثقافتی سرحدوں کی نگہبانی تنگ درہ کے کماندار جیسی کریں۔
عظیم شخصیتیں حیات بشری کی راتوں کے مہتاب اور انسانی امن و عافیت کے مضبوط قلعے اور پناہ گاہ ہیں اور انسانی قدروں پر بھیڑیوں کا حملہ ہو تو پناہ گاہوں کی طرف بسرعت چل پڑنا چاہیے۔
شخصیتوں کا قعلہ دراصل علم فقہ کے باغبانوں کی داستان ہے وہ فقیہان جاوداں، حکیمان فرو تن و فرزانہ جنہوں نے شریعت کی مشعل ہاتھوں میں یوں تھامی کہ سحر کے سفیر اور مصلحان دلاور بن گئے اس لئے تمام فرزندان اسلام پر لازم ہے کہ ستم و جورو فریب و جہل کی تاریکی میں اس قبیلہ نور کو پہچانیں۔’’درفش (پرچم، علم، جھنڈا)ولایت‘‘ سے آشنا ہوں اور مغرب کی سیاہ رات میں مشرق و شمال و جنوب کے ستاروں کی مدد سے راستہ ڈھونڈ نکالیں یہ ’’قلم کی رسالت و منصب، حریت کی حدیث مسلسل نورو نمائش کے حلقہ کی پاسداری ہے لہٰذا خیال رہے کہ دوسرے لوگ ہر گز ہماری دلاوی کی تاریخ لکھیں گے نہ ہماری تہذیب و ثقافت کی تعریف کریں گے ہمیں خود ہی یہ کام کرنا ہو گا۔ ان ستاروں کی سوانح عمری لکھنا ہمارا فرض ہے کیونکہ ظلمت کے نگہبان و پرستار ہمیشہ نور سے بھاگتے ہیں اور فکر و نظر کے جلاد کبھی بھی عقل و وحی کے طرف داروں کو اچھا نہیں کہیں گے اور سستی و کاہلی کے عاشق کبھی بھی پرواز کے ترانے نہیں سنائیں گے۔
اس کے ساتھ ہم محترم نویسند گان و قارئین کے شکر گزار ہیں عظیم شخصیتوں کی زیارت ان ہی ستاروں کے ذکر پر ختم نہیں ہوتی بلکہ آئندہ دنوں ہم ساٹھ دیگر شخصیات پر نور کی زیارت کریں گے۔ اور ان کی حیات و آثار پڑھ کر فیض حاصل کریں گے۔ توفیق اللہ کی طرف سے ہوتی ہے اور اس سے قبولیت و الطاف بیکراں کی امید ہے۔ آخر میں صاحبان فکر و نظر قارئین سے گزارش ہے کہ اپنے مشورہ قم پوسٹ بکس نمبر ۱۳۵/۳۷۱۸۵کے پتے پر ارسال کر کے ہمارے ساتھ تعاون فرمائیں۔

قم مرکز تحقیق باقر العلوم
٭٭٭