|
خطبہ کا نتیجہ
یہ خطبہ اتنا جامع تھا کہ دوست دشمن سب پر حقیقت کو واضح کردیا ۔ اور مجلس جشن اور سرور ، یزید کیلئےمجلس ننگ وعار اور غم میں بدل گیا ۔
• سب سے پہلے زینب کبریٰ (س) نے خدا کی حمد وثنا اور اپنے نانا محمد مصطفی (ص) پر سلام ودرود پڑھ کر اپنا حسب ونسب بیان کیا کہ میں کون ہوں ۔
• سورہ روم کی آیت ۱۰ کی تلاوت کرکے یزید کے کافر ہونے اور آیات الہی کے منکر ہونے کو ثابت کیا ۔ اور اس شعر کی طرف اشارہ فرمایا جس میں یزید ارسال رسل وانزال کتب کا منکر ہوگیا تھا ۔
• بعض نادان لوگ یہ گمان کر رہے تھے کہ جنگ میں فتح حاصل ہونا حقانیت اور قرب الہی کی دلیل ہے ، آپ نے اس خام خیال کو رد کرتے ہوئے یزیدسے مخاطب ہوا : اے یزید ! کیا تمھارا گمان ہے کہ تو ۔۔۔
• امن العدل یابن الطلقاء؟ کہہ کر یزید کا حسب و نسب اور اس کی خاندانی حیثیت بیان فرمایا کہ تو ہمارے اجداد کےفتح مکہ کے موقع پر آزاد کردہ لوگوں کی اولاد ہو ۔
• ابن من لفظ فوہ اکباد الشہداء کہہ کر یزید کی بدکارماں ہند کی حیثیت کو واضح کیا ۔
• نصب الحرب لسید الانبیاء کہہ کر ابوسفیان کی رسول اللہ (ص) کے ساتھ سخت دشمنی کو واضح کیا ۔
• الا انھا نتیجۃ خلا ل الکفر کہہ کر یزید کی آخرت کے دن ندامت اور پشیمانی کو بیان فرمایا۔
• سورہ آلعمران کی آیت نمبر ۱۶۹ ، ۱۷۰ سے استدلال کیا کہ شہدائے کربلا زندہ اور خدا کے ہاں رزق پارہے ہیں ۔
• وسیعلم من بوّاک و مکّنک کہہ کر گذشتہ خلفاء کی خلافت کے غاصب ہونے کو ثابت کیا ، کہ جس کا نتیجہ ہی تھا کہ یزید جیسے فاسق و فاجر رسول اللہ (ص) کے مسند خلافت پر بیٹھنے لگا ۔
• ۔ ۔ ۔
فاتح شام کی واپسی
حضرت زینب اور امام سجاد کی تقریروں نے شام کے اوضاع و احوال کو برعلیہ یزید متحول کیا ۔ جس کے بعد یزید نے اپنا روش تبدیل کر کے اپنی بے گناہی ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی ۔ یزید کو معلوم ہوا کہ اب اہلبیت (ع) کو مزید شام میں ٹھہرانا اس کی مفاد میں نہیں، لہذااس نے اہلبیت اطہار(ع)کو مدینہ واپس بھیجنے کا انتظام کیا ۔
فارسی شاعر نے اس فاتحانہ واپسی کو یوں اپنے اشعار میں بیان کیا ہے :
زینب آمد شام را یکبار ویران کرد و رفت اہل عالم را زکار خویش ، ویران کرد ورفت
از زمین کربلا تا کوفہ و شام بلا ہر کجا بنھاد پا فتح نمایان کرد و رفت
بالسان مرتضی از ماجرای نینوا خطبہ جان سوز اندر کوفہ عنوان کرد و رفت
فاش می گویم کہ آن بانوی عظمای دلیر از بیان خویش دشمن را ہراسان کرد وفرت
خطبہ غرّا فرمود در کاخ یزید کاخ استبداد را از ریشہ ویران کرد ورفت
شام غرق عیش وعشرت بود، در وقت ورود وقت رفتن شام را شام غریبان کرد وفت -1-
اس شعر کا م مفہوم یہ ہے :کہ زینب کبری (س) نے شام اور شام والوں (یزیدیوں )کوتباہ کرکے نکلیں ۔زمین کربلا سے لےکر کوفہ اور شام تک جہاں جہاں آپ نے قدم رکھا ؛ فتح کرکے نکلیں۔علی(ع) کے لب ولہجے اور دردناک فریاد میں کربلا کا الم ناک واقعہ کوفہ والوں کے سامنے تفصیل سے بیان فرما کرچلیں ۔صاف الفاظ میں کہہ دوں کہ اس دلیر اور عظیم خاتون نے اپنے بیان اور خطاب کے ذریعے اپنے دشمن کو بوکھلا کر رکھ دیں ۔ شعلہ بیان خطبے کے ذریعے یزید اور ان جیسے ظالموں کے ایوانوں کی بنیاد یں قلع قمع کرکے نکلیں ۔ جب آپ کو اسیر بناکر شام لائی گئی تو اس وقت شام والے شراب نوشی میں مصروف اور جشن منارہے تھے ؛ لیکن جب آپ شام سے نکلنے لگیں تو اس وقت شام کو ، شام غریبان میں بدل کرنکلیں ۔
بحار الانوار میں بیان ہوا ہے کہ جب ہندہ یزید کی بیوی نے اپنا خواب اسے سنایا تو وہ بہت زیادہ مغموم ہوا ۔ اور صبح کو اہل بیت اطھار (ع)کو دربار میں بلایا اور کہا : میں پشیمان ہوں ۔ ابھی آپ لوگوں کو اختیار ہے کہ اگر شام میں رہنا چاہیں تو رہائش کا بندوبست کروں گا اور اگر مدینہ جانا چاہیں تو سفر کے لئے زاد راہ اور سواری کا انتظام کروں گا ۔
اس وقت زینب کبری ٰ (س)نے یزید سے مطالبہ کیا کہ ان کو اپنے شہیدوں پر رونے کا موقع نہیں ملا ہے ، ان پر رونے کیلئے کسی مکان کا بندوبست کیا جائے ، اس طرح تین دن شام میں مجلس عزا برپا ہوئی اور اہل شام کے تمام خواتین اس مجلس میں شریک ہوگئیں ، یہا ں تک کہ ابوسفیان کے خاندان میں سے ایک عورت بھی باقی نہیں تھی جو امام حسین (ع) پر رونے اور اہلبیت(ع)کی استقبال کیلئے نہ آئی ہو۔ -2-
جب فاتح شام کی روانگی کا وقت آیا تو زرین محمل کا انتظام کیا گیا تو شریکۃ الحسین(س) نے بشیر بن نعمان سےکہا : اجعلوھا سوداء حتی یعلم الناس انا فی مصیبۃ و عزاء لقتل اولادالزہرا(س) ۔ ان محملوں کو سیاہ پوش بنائیں تاکہ لوگوں کو پتہ چلے کہ ہم اولاد زہرا (س)کے سوگ اور مصیبت میں ہیں ۔
جب اہلبیت (ع)عراق پہنچے اور زمین کربلا میں وارد ہوئے تو دیکھا کہ جابر بن عبداللہ انصاری (ره)اور بنی ہاشم کے کچھ افراد سید الشہدا (ع)کے قبر مبارک پر زیارت کرتے ہوئے رورہے ہیں ۔ لہوف کے مطابق ۲۰ صفر کو شہدا کے سروں کو ان کے مبارک جسموں سے ملائے گئے۔ -3-
زینب کبری (س) اپنے بھائی کی قبر سے لپٹ کر فریاد کرنے لگی: ہای میرا بھیا ہای میرا بھیا ! اے میری ماں کا نور نظر ! میری آنکھوں کا نور ! میں کس زبان سے وہ مصائب اور آلام تجھے بیان کروں جو کوفہ اور شام میں ہم پر گذری ؟ اور پست فطرت قوم نے کس قدر آزار پہنچائی؟ناسزا باتیں سنائی ؟
---------
1 ۔ سیرہ واندیشہ حضرت زینب، ص۳۱۳۔
2 ۔ تاریخ طبری ، ج۳ ، ص۳۳۹۔
3 ۔ ناسخ التواریخ حضرت زینب کبریٰ۔
بھائی کی قبر سے وداع
نوحہ سرائی کے بعد اپنے بھائی کی قبر سے وداع کرتے ہوئے جب بہت مضطرب ہوگئیں تو جناب زین العابدین (ع) نے فرمایا : انت عارفۃ کاملۃ و الصراخ من عادۃ الجاھلین اصبری واستقری ؛ پھوپھی جان !آپ تو عارفہ کاملہ ہیں آہ وزاری کرنا دور جاہلیت کی عادات میں سے ہے ، آپ صبر سے کام لیں ۔ اس وقت زینب کبری(س) نے فرمایا : یا علی و یا قرۃ عینی ! دعنی اقیم عند اخی حتی جاء یوم وعدی لانی کیف الق اہل المدینۃ و اری الدور الخالیۃ؟! -1-
اے علی !اے میرے نور نظر ! مجھے یہیں رہنے دیجئے میرے بھائی کے پاس ، یہاں تک کہ موت آجائے ۔کس طرح میں مدینہ کو جاؤں اور اہل مدینہ سے ملاقات کروں اور کس طرح خالی مکانوں کا نظارہ کروں؟! پھر فریاد کرنے لگیں : وا اخاہ ! واحسیناہ!
امام (ع) نے فرمایا : اے پھوپھی جان ! آپ سچ فرمارہی ہیں ،کہ بغیر بابا کے ، بھائی اور چچا عباس کے اور بھائی قاسم کے گھروں کا دیکھنا سخت ہے ، لیکن رضای الہی اور ہمارے نانا رسول خدا (ص) کا حکم بھی تو ہمیں بجا لانا ہے ۔
آج اگر کوئی اسلام بچا ہے تو حسین کی قربانی اور زینب کی لٹی ہوئی چادر اور سید سجاد کی اسیری کی مرہون منت ہے ۔ ورنہ تو یزید ، رسول خدا (ص) کا خلیفہ بن کر دین اور آئین رسول خد(ص)کا انکار کرچکا تھا ۔لیکن اہل بیت (ع) کی قربانی نے دین اسلام کی تا قیامت حفاظت کا انتظام کیا ۔
دنیا سے تو نے آخر یہ رسم ہی مٹادی اب مانگتا نہیں ہے بیعت کوئی کسی سے
بی بی تیرا کرم ہے ہر ماں پہ ہر بہن پر اب چھینتا نہیں ہے چادر کوئی کسی سے -2-
تمت بالخیر
---------
1 ۔ نائبۃ الزہرا ، ص۲۰۶۔
2 ۔ پیام اعظمی؛ والقلم ۔
|
|