۲۔ یتیموں کی رکھوالی اور حفاظت
یتیموں کی رکھوالی آپ کی دوسری اہم ذمہ داری تھی کہ جب خیمے جل کر راکھ ہوگئے اور آگ خاموش ہوئی تو زینب کبری (س) بیابان میں بچوں اور بیبیوں کو جمع کرنے لگیں۔جب دیکھا تو امام حسین (ع) کی دو بیٹیوں کو بچوں کے درمیان میں نہیں پایا ۔ تلاش میں نکلیں تو دیکھا کہ دونوں بغل گیر ہوکر آرام کررہی تھیں ؛ جب نزدیک پہنچیں تو دیکھا کہ دونوں بھوک وپیاس اور خوف وہراس کی وجہ سے رحلت کر چکی تھیں۔ -1-
بچوں کی بھوک اور پیاس کا خیال
اسیری کے دوران عمر سعد کی طرف سے آنے والا کھانا بالکل ناکافی تھا جس کی وجہ سے بچوں کو کم پڑتا تھا ۔ تو آپ اپنا حصہ بھی بچوں میں تقسیم کرتی تھیں اور خود بھوکی رہتی تھیں۔ جس کی وجہ سے آپ جسمانی طور پر سخت کمزور ہوگئی تھیں جس کے نتیجے میں آپ کھڑی ہوکر نماز شب نہیں پڑ سکتی تھیں۔ 2-
فاطمہ صغریٰ کی حفاظت
دربار یزید میں ایک مرد شامی نے جسارت کے ساتھ کہا : حسین کی بیٹی فاطمہ کو ان کی کنیزی میں دے دے ۔ فاطمہ نے جب یہ بات سنی تو اپنی پھوپھی سے لپٹ کر کہا : پھوپھی اماں ! میں یتیم ہوچکی کیا اسیر بھی ہونا ہے ؟!!
فَقَالَتْ عَمَّتِي لِلشَّامِيِّ كَذَبْتَ وَ اللَّهِ وَ لَوْ مِتُّ وَ اللَّهِ مَا ذَلِكَ لَكَ وَ لَا لَهُ فَغَضِبَ يَزِيدُ وَ قَالَ كَذَبْتِ وَ اللَّهِ إِنَّ ذَلِكَ لِي وَ لَوْ شِئْتُ أَنْ أَفْعَلَ لَفَعَلْتُ قَالَتْ كَلَّا وَ اللَّهِ مَا جَعَلَ اللَّهُ لَكَ ذَلِكَ إِلَّا أَنْ تَخْرُجَ مِنْ مِلَّتِنَا وَ تَدِينَ بِغَيْرِهَا فَاسْتَطَارَ يَزِيدُ غَضَباً وَ قَالَ إِيَّايَ تَسْتَقْبِلِينَ بِهَذَا إِنَّمَا خَرَجَ مِنَ الدِّينِ أَبُوكِ وَ أَخُوكِ قَالَتْ زَيْنَبُ بِدِينِ اللَّهِ وَ دِيْنِ أ بِي وَ دِيْنِ أَخِي اهْتَدَيْتَ أَنْتَ وَ أَبُوكَ وَ جَدُّكَ إِنْ كُنْتَ مُسْلِماً قَالَ كَذَبْتِ يَا عَدُوَّةَ اللَّهِ قَالَتْ لَهُ أَنْتَ أَمِيرٌ تَشْتِمُ ظَالِماً وَ تَقْهَرُ لِسُلْطَانِكَ فَكَأَنَّهُ اسْتَحْيَا وَ سَكَتَ وَ عَادَ الشَّامِيُّ فَقَالَ هَبْ لِي هَذِهِ الْجَارِيَةَ فَقَالَ لَهُ يَزِيدُ اعْزُبْ وَهَبَ اللَّهُ لَكَ حَتْفاً قَاضِياً فَقَالَ الشَّامِيُّ مَنْ هَذِهِ الْجَارِيَةُ فَقَالَ يَزِيدُ هَذِهِ فَاطِمَةُ بِنْتُ الْحُسَيْنِ وَ تِلْكَ زَيْنَبُ بِنْتُ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ فَقَالَ الشَّامِيُّ الْحُسَيْنُ ابْنُ فَاطِمَةَ وَ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ قَالَ نَعَمْ فَقَالَ الشَّامِيُّ لَعَنَكَ اللَّهُ يَايَزِيدُ تَقْتُلُ عِتْرَةَ نَبِيِّكَ وَ تَسْبِي ذُرِّيَّتَهُ وَ اللَّهِ مَا تَوَهَّمْتُ إِلَّا أَنَّهُمْ سَبْيُ الرُّومِ فَقَالَ يَزِيدُ وَ اللَّهِ لَأُلْحِقَنَّكَ بِهِمْ ثُمَّ أَمَرَ بِهِ فَضُرِبَ عُنُقُهُ-3-۔
زینب کبری(س) نے شہامت اور جرئت کے ساتھ مرد شامی سے مخاطب ہوکر کہا: خدا کی قسم تو غلط کہہ رہا ہے ، تمھاری کیا جرئت کہ تو میری بیٹی کو کنیز بنا سکے؟!!
یزید نے جب یہ بات سنی تو غضبناک ہوا اور کہا: خدا کی قسم یہ غلط کہہ رہی ہے ۔ میں اگر چاہوں تو اس بچی کو کنیز ی میں دے سکتا ہوں۔
زینب کبری (س) نے کہا : خدا کی قسم تمھیں یہ حق نہیں ہے ؛ مگر یہ کہ ہمارے دین سے خارج ہو جائے۔
یہ بات سن کر یزید نے غصے میں آکر کہا : میرے ساتھ اس طرح بات کرتی ہو جبکہ تیرے بھائی اور باپ دین سے خارج ہوچکے ہیں ۔
زینب کبری(س) نے کہا:اگرتو مسلمان ہو اور میرے جد اور بابا کے دین پر باقی ہو تو تواورتیرے باپ داداکو میرے باپ دادا کے ذریعے ہدایت ملی تھی۔
یزید نے کہا : تو جھوٹ بولتی ہو اے دشمن خدا ۔
زینب کبری(س) نے فرمایا: تو ایک ظالم انسان ہو اور اپنی ظاہری قدرت اور طاقت کی وجہ سے اپنی بات منوانا چاہتے ہو۔
اس بات سے یزید سخت شرمندہ ہوا اور چپ ہوگیا۔
اس وقت مرد شامی نے یزید سے دوبارہ کہا :اس بچی کو مجھے دو ۔
یزید نے اس سے کہا :خاموش ہوجا !خدا تجھے نابود کر ے ۔
اس شامی نے کہا: آخر یہ بچی کس کی ہے؟!
یزید نے کہا: یہ حسین کی بیٹی ہے ۔ اور وہ عورت زینب بنت علی ابن ابیطالب ہے ۔
اس مرد شامی نے کہا : حسین !!فاطمہ اورعلی (ع) کا بیٹا؟! جب ہاں میں جواب ملا تو کہا: اے یزید ! خدا تجھ پر لعنت کرے ! پیامبر(ص) کی اولادوں کو قتل کرکے ان کی عترت کو اسیر کرکے لے آئے ہو!خدا کی قسم میں ان کو ملک روم سے لائے ہوئے اسیر سمجھ رہا تھا ۔
یزید نے کہا : خدا کی قسم ! تجھے بھی ان سے ملحق کروں گا ۔ اس وقت اس کا سر تن سے جدا کرنے کا حکم دیا ۔
---------
1 ۔ معالی السبطین فی احوال الحسن والحسین ج۲ص۸۸،۸۹۔
2 ۔ مھدی پیشوائی ، شام سرزمین خاطرہ ہا ،ص ۱۷۵۔
3 ۔ بحار،ج۴۵ ص ۱۳۶،۱۳۷۔
۳۔ انقلاب حسینی کی پیغام رسانی
جیسا کہ پہلے بیان ہوا کہ انقلاب حسینی کے دو باب ہیں :ایک جنگ وجہاد اور شہادت ۔ دوسرا ان شہادتوں کا پیغام لوگوں تک پہنچانا۔ اب قیام امام حسین (ع) کے پیغامات طبیعی طورپر مختلف ملکوں تک پہچانے کیلئے کئی سا ل لگ جاتا؛ جس کی دلیل یہ ہے کہ مدینہ والوں کو اہلبیت F کے وارد ہونے سے پہلے واقعہ کربلا کا پتہ تک نہ تھا ۔ اس طرح بنی امیہ کہ تمام وسائل و ذرایع اپنی اختیار میں تھیں ۔سارے ممالک اور سارے عوام کو اپنے غلط پروپیگنڈے کے ذریعے اپنی حقانیت اور امام حسین (ع) کو باغی ثابت کرسکتا تھا۔اگرچہ انہوں نے اپنی پوری طاقت استعمال کی کہ اپنی جنایت اور ظلم وبربریت کو چھپائے اور اپنے مخالفین کو بے دین ، دنیا پرست ، قدرت طلب، فسادی کے طور پر پہچنوایا جائے۔ چنانچہ زیاد نے حجر بن عدی اور ان کے دوستوں کے خلاف جھوٹےگواہ تیار کرکے ان پر کفر کا فتوی جاری کیا ۔ اسی طرح ابن زیاد اور یزید نے امام حسین(ع) اور انکے ساتھیوں کے خلاف سوء تبلیغات شروع کرکے امام (ع) کو دین اسلام سے خارج ، حکومت اسلا می سے بغاوت اور معاشرے میں فساد پیدا کرنے والے معرفی کرنا چاہا اور قیام حسینی(ع) کو بے رنگ اور کم اہمیت بنانا چاہا ۔ لیکن اہلبیت کی اسیری اور زینب کبری (س) کے ایک خطبے نے ان کے سارے مکروہ عزائم کو خاک میں ملا دیا ؛اور پوری دنیا پرواضح کردیا؛کہ یزید اور اس کے حمایت کرنے والے راہ ضلالت اور گمراہی پر ہیں ۔ اور جو کچھ ادعی کر رہے ہیں وہ سب جھوٹ پر مبنی ہے ۔ اور بالکل مختصر دنوں میں ان کے سالہا سال کی کوششوں کو نابود کردیا ۔ اور مام حسین (ع) کی مظلومیت، عدالت خواہی ، حق طلبی، دین اسلام کی پاسداری اور ظلم ستیزی کو چند ہی دنوں میں بہت سارے شہروں اور ملکوں پر واضح کردیا۔ یزید اس عمل کے ذریعے لوگوں کو خوف اور وحشت میں ڈالنا چاہتا تھا تاکہ حکومت کے خلاف کوئی سر اٹھانے کی جرات نہ کر سکے۔ لیکن تھوڑی ہی مدت کے بعد انقلاب حسینی نے مسلمانوں میں ظالم حکومتوں کے خلاف قیام کرنے کی جرات پیدا کی ۔ چنانچہ اسیران اہلبیت (ع) شام سے واپسی سے پہلے ہی شامیوں نے یزید اور آل یزید پر لعن طعن کرنا شروع کیا ۔ اور خود یزید بھی مجبور ہوا کہ ان کیلئے اپنے شہیدوں پر ماتم اور گریہ کرنے کیلئے گھر خالی کرنا پڑا۔یہاں سے معلوم ہوتا ہے فاتح کون تھا اور مغلوب کون؟ کیونکہ جیتے اور ہارنے کا فیصلہ جنگ وجدال کے بعد نتیجہ اور ہدف کو دیکھنا ہوتا ہے ۔ظاہرہے کہ امام حسین (ع) کا ہدف اسلام کو بچانا تھا اور بچ گیا ۔ اور فاتح وہ ہے جس کی بات منوائی جائے وہ غالب اور جس پر بات کو تحمیل کیا جائے اور اپنے کئے ہوئے اعمال کو کسی دوسرے کے اوپر ڈالے جیسا کہ یزید نے کہا کہ امام حسین (ع) کو میں نےنہیں بلکہ عبید اللہ ابن زیاد نے شہید کیا ہے، وہ مغلوب ہے ۔
عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع: قَالَ لَمَّا قَدِمَ عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ وَ قَدْ قُتِلَ الْحُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ صَلَوَاتُ اللَّهِ عَلَيْهِمْ اسْتَقْبَلَهُ إِبْرَاهِيمُ بْنُ طَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ وَ قَالَ يَا عَلِيَّ بْنَ الْحُسَيْنِ مَنْ غَلَبَ وَ هُوَ يُغَطِّي رَأْسَهُ وَ هُوَ فِي الْمَحْمِلِ قَالَ فَقَالَ لَهُ عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ إِذَا أَرَدْتَ أَنْ تَعْلَمَ مَنْ غَلَبَ وَ دَخَلَ وَقْتُ الصَّلَاةِ فَأَذِّنْ ثُمَّ أَقِمْ۔
امام صادق(ع) روایت کرتے ہیں کہ امام زین العابدین (ع) نے فرمایا : جب شام سے مدینہ کی طرف روانہ ہورہے تھے تو ابراہیم بن طلحہ بن عبید اللہ میرے نزدیک آیا اور مذاق کرتے ہوئے کہا : کون جیت گیا؟
امام سجاد (ع) نے فرمایا : اگر جاننا چاہتے ہو کہ کون جیتے ہیں؛ تو نماز کا وقت آنے دو اور اذان و اقامت کہنے دو ، معلوم ہوجائے گا کہ کون جیتا اور کون ہارا؟ -1-
یزید کا ہدف اسلام کو مٹانا تھا ۔اور امام حسین (ع) کا ہدف اسلام کا بچانا تھا ۔ اور آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ دنیا کے تمام ادیان اور مذاہب پر دین مبین اسلام غالب اور معزز اور ہر دل عزیز نظر آرہا ہے ۔ خصوصا انقلاب اسلامی کے بعد اسلام حقیقی سے لوگ آشنا اوراس کی طرف مائل ہورہے ہیں ۔اور یہ سب زینب کبری (س)کی مرہون منت ہے :
شبیر کا پیغام نہ بڑھتا کبھی آگے کی ہوتی نہ عابد نے اگر راہ نمائی
زینب کے کھلے بالوں نے سایہ کیا حق پر عابد کے بندھے ہاتھوں نے کی عقد گشائی -2-
---------
1 ۔ بحار ج۴۵ص ۱۷۷،ح۲۷۔
2 ۔ پیا م اعظمی، والقلم
|