زینب کبری (سلام اللہ علیھا) اور عاشورا
 

مقتل سے گذرتے وقت نانا کو خطاب
یا محمداه صلى عليك ملائكة السماء هذا الحسين مرمل بالدماء مقطع الأعضاء و بناتك سبايا إلى الله المشتكى و إلى محمد المصطفى و إلى علي المرتضى و إلى فاطمة الزهراء و إلى حمزة سيد الشهداء يا محمداه هذا حسين بالعراء تسفى عليه الصبا قتيل أولاد البغايا وا حزناه وا كرباه اليوم مات جدي رسول الله ص يا أصحاب محمداه هؤلاء ذرية المصطفى يساقون سوق السبايا-1-۔
اے محمد ! خالق آسمان اور زمین آپ پر سلام ودرود بھیجتا ہے اور یہ حسین ہے جو خون میں غلطان ہے اور ان کا بدن ٹکڑے ٹکڑے ہوچکا ہے اور تیری بیٹیان اسیر ہوئی ہیں ۔خدا کے پاس شکایت کروں گی اور محمد مصطفی وعلی مرتضی اور سید الشہدا حضرت حمزہ (ع)سے شکایت کروں گی ۔ اے محمد! یہ حسین ہے جو میدان میں پڑے ہوئےہیں ۔ ہوااس کے بدن مبارک پر چل رہی ہے جسے زنازادوں نے قتل کیا ہے !!
ہای افسوس کتنی بڑی مصیبت ہے ! آج میرے نانا محمد مصطفی (ص) اس دنیا سے چلے گئے ، اے محمد کے چاہنے والو ! یہ مصطفی کی اولاد ہیں جن کو اسیروں کی طرح گھسیٹے جارہے ہیں ۔

اپنے بھائی کے کٹے ہوئے سر سے خطاب
يَا هِلَالًا لَمَّا اسْتَتَمَّ كَمَالًا
غَالَهُ خَسْفُهُ فَأَبْدَا غُرُوبَا

مَا تَوَهَّمْتُ يَا شَقِيقَ فُؤَادِي
كَانَ هَذَا مُقَدَّراً مَكْتُوبَا

يَا أَخِي فَاطِمَ الصَّغِيرَةَ كَلِّمْهَا
فَقَدْ كَادَ قَلَبُهَا أَنْ يَذُوبَا

يَا أَخِي قَلْبُكَ الشَّفِيقُ عَلَيْنَا
َا لَهُ قَدْ قَسَى وَ صَارَ صَلِيبَا

يَا أَخِي لَوْ تَرَى عَلِيّاً لَدَى الْأَسْرِ
مَعَ الْيُتْمِ لَا يُطِيقُ وُجُوبَا

كُلَّمَا أَوْجَعُوهُ بِالضَّرْبِ نَادَاكَ
بِذُلٍّ يَغِيضُ دَمْعاً سَكُوبَا

يَا أَخِي ضُمَّهُ إِلَيْكَ وَ قَرِّبْهُ
وَ سَكِّنْ فُؤَادَهُ الْمَرْعُوبَا

مَا أَذَلَّ الْيَتِيمَ حِينَ يُنَادِي ِأَبِيهِ وَ لَا يَرَاهُ مُجِيبَا۔

اے میری چاند جو کامل ہوتے ہی اچانک گرہن لگی اور اسے غروب کردیا ۔ اے میرے دل کے ٹکڑے !میں نےکبھی یہ گمان بھی نہیں کی تھی کہ ایسا بھی ہوگا ۔ بھیا! اپنی چھوٹی بیٹی فاطمہ سے بات کرو جس کا دل ذوب ہونے والا ہے ۔ بھیا ! تیرے مہربان دل اس قدر سخت کیوں ہوا جو ہماری باتوں کا جواب نہیں دیتے؟ بھیا ! اے کاش اپنے بیٹے زین العابدین کو اسیری اور یتیمی کے عالم میں دیکھتے کہ کس قدر اپنی جگہ پر خشک پڑا ہے ؟ جب بھی اسے تازیانہ مار کر ظالم اذیت دیتے تو وہ تمھیں پکارتے۔ اے بھیا ! اس کی مدد کرو اور اسے تسلی دو ۔ ہای افسوس یتیمی کی مصیبت کس قدر سخت ہے کہ وہ اپنے بابا کوپکارے اور بابا جواب نہ دے-2-۔

شہادت امام حسین (ع) کے بعد زینب کبری(س) کی تین ذمہ داریاں
مظلوم کربلا اباعبداللہ (ع)شہادت کے بعد زینب کبریٰ کی اصل ذمہ داری شروع ہوتی ہے ۔اگرچہ عصر عاشور سے پہلے بھی ذمہ داریاں انجام دے رہی تھیں۔ جن لوگوں کی سرپرستی آپ نے قبول کی تھی وہ ایسے افراد تھے کہ جن کا وجود اور زندگی خطرے میں تھے ۔ جن کا نہ کوئی گھر تھا جس میں وہ آرام کرسکے ، نہ کوئی کھانا ان کے ساتھ تھا؛ جس سے اپنی بھوک ختم کرسکے اور نہ کوئی پانی تھا ؛کہ جو ہر جاندار کی ابتدائی اور حیاتی ترین مایہ حیات بشری ہوا کرتا ہے ؛اور یہ سب ایسے لوگ تھے جن کے عزیز و اقارب ان کے نظروں کے سامنے خاک و خون میں نہلائے جا چکے تھے۔ ایسے افراد کی سرپرستی قبول کرنا بہت ہی مشکل کام تھا، اسی طرح خود ثانی زہرا (س)بھی اپنے بیٹوں اور بھائیوں کی جدائی سے دل داغدار تھی ؛کیسے برداشت کرسکتی تھیں ؟! یہی وجہ تھی کہ سید الشہد ا(ع) نے آپ کے مبارک سینے پر دست امامت پھیرا کر دعا کی تھی کہ خداان تمام مصیبتوں کو برداشت کرنے کی انہیں طاقت دے ۔ اور یہی دعا کا ا ثر تھا کہ کربلا کی شیردل خاتون نے ان تمام مصیبتوں کے دیکھنے کے باوجود عصر عاشور کے بعد بھیا عباس کی جگہ پہرہ دار ی کی اور طاغوتی حکومت اور طاقت کی بنیادیں ہلاکر رکھ دیں۔اور ان کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملا کر رکھ دیں :شہید محسن نقوی لکھتے ہیں:

پردے میں رہ کے ظلم کے پردے الٹ گئی
پہنی رسن تو ظلم کی زنجیر کٹ گئی
نظریں اٹھیں تو جبر کی بدلی بھی چھٹ گئی
لب سی لئے تو ضبط میں دنیا سمٹ گئی -3-

۱۔ امام سجاد(ع) کی عیادت اور حفاظت
ہمارا اعتقاد ہے کہ سلسلہ امامت کی چوتھی کڑی سید السجاد(ع) ہیں ،چنانچہ عبیداللہ ابن زیاد نے عمر بن سعد کو دستور دیا تھا کہ اولاد امام حسین (ع) میں سے تمام مردوں کو شہید کئے جائیں،دوسری طرف مشیت الہی یہ تھی کہ مسلمانوں کیلئے ولایت اور رہبری کایہ سلسلہ جاری رکھا جائے ، اس لئے امام سجاد (ع) بیمار رہے اور آپ کا بیمار رہنا دوطرح سے آپ کا زندہ رہنے کیلئے مدد گار ثابت ہوئی۔
۱۔ امام وقت کا دفاع کرنا واجب تھا جو بیماری کی وجہ سے آپ سے ساقط ہوا ۔
۲۔ دشمنوں کے حملے اور تعرضات سے بچنے کا زمینہ فراہم کرنا تھا جو بیماری کی وجہ سے ممکن ہوا۔ پھر سوفیصد جانی حفاظت کا ضامن تو نہ تھا کیونکہ خدا تعالی نہیں چاہتا کہ ہر کام معجزانہ طور پر انجام پائے بلکہ جتنا ممکن ہو سکے طبیعی اور علل واسباب مادی اور ظاہری طور پر واقع ہو۔
صرف دو صورتوں میں ضروری ہے کہ خدا تعالی ائمہ طاہرین (ع) کی غیبی امداد کے ذریعے حفاظت اور مدد کرے :
۱۔ معجزے کے بغیر اسلام کی بقا عادی طور پر ممکن نہ ہو ۔
۲۔ دین کی حفاظت مسلمانوں کی قدرت میں نہ ہو۔
ایسا نہیں کہ کسی فداکاری اور قربانی اور مشکلات اور سختی کو تحمل کئے بغیر مسلمان اپنے دشمنوں کو نابود کرسکے ۔
چنانچہ جب مشرکان قریش پیامبر اسلام (ص) کی قتل کے درپے ہوئے تو خدا تعالی نے وحی کے ذریعے قریش والوں کے مکروہ ارادے سے آگاہ کیا اور غار ثور کے دروازے پر مکڑی کا جال بنا کر ان کی اذہان کو منحرف کیا ، کیونکہ اولاً تو دین اسلام کی بقا اور دوام ،پیامبر اسلام (ص) کی زندگی اور حیات طیبہ پر منحصر تھا۔ ثانیا ً پیامبر (ص) کو دشمن کی پلانینگ سے آگاہ اور مشرکوں کے اذہان کو منحرف کرنا تھا؛ جو بغیر معجزے کے ممکن نہ تھا ۔ لیکن باقی امور کو رنج ومصیبتوں اور سختیوں کوتحمل کرکے نتیجے تک پہنچانا تھا ۔جیسا کہ حضرت علی (ع) پیامبر (ص) کی جان بچانے کیلئے آپ بستر پر سوگئے تاکہ آپ (ص) کو غار میں چھپنے کی مہلت مل جائے ۔ اور پیامبر اکرم (ص) بھی مدینے کی طرف جانے کے بجائے دوسری طرف تشریف لے گئے ، تاکہ کفار کے ذہنوں کو منحرف کیا جائے۔ اگر سنت الہی اعجاز دکھانا ہوتی تو یہ ساری زحمتیں ان بزرگواروں کو اٹھانی نہ پڑتیں ۔
امام سجاد (ع) کی حفاظت اور دیکھ بال کرنا بھی اسی طرح تھا ؛ کہ زینب کبری (س) اس سختیوں کو اپنے ذمہ لے لے ۔اور پورے سفر کے دوران آپ (ع) کی حفاظت اور مراقبت کی ذمہ داری آپ آپ ہی قبول کرلے ۔
---------
1 ۔ اللهوف ، ص130۔
2 ۔ بحارالأنوار، ج45، ص۱۱۵۔
3 ۔ موج ادراک،ص۱۳۵۔