شب عاشور امام حسین (ع) کا آپ کو مشورہ دینا
قال الامام السجاد (ع):أَبِي يَقُولُ :
يَا دَهْرُ أُفٍّ لَكَ مِنْ خَلِيلٍ كَمْ لَكَ بِالْإِشْرَاقِ وَ الْأَصِيلِ
مِنْ صَاحِبٍ وَ طَالِبٍ قَتِيلٍ وَ الدَّهْرُ لَا يَقْنَعُ بِالْبَدِيلِ
وَ إِنَّمَا الْأَمْرُ إِلَى الْجَلِيلِ وَ كُلُّ حَيٍّ سَالِكٌ سَبِيلِي
فَأَعَادَهَا مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثاً حَتَّى فَهِمْتُهَا وَ عَلِمْتُ مَا أَرَادَ فَخَنَقَتْنِيَ الْعَبْرَةُ فَرَدَدْتُهَا وَ لَزِمْتُ السُّكُوتَ وَ عَلِمْتُ أَنَّ الْبَلَاءَ قَدْ نَزَلَ وَ أَمَّا عَمَّتِي فَلَمَّا سَمِعَتْ مَا سَمِعْتُ وَ هِيَ امْرَأَةٌ وَ مِنْ شَأْنِ النِّسَاءِ الرِّقَّةُ وَ الْجَزَعُ فَلَمْ تَمْلِكْ نَفْسَهَا أَنْ وَثَبَتْ تَجُرُّ ثَوْبَهَا وَ هِيَ حَاسِرَةٌ حَتَّى انْتَهَتْ إِلَيْهِ وَ قَالَتْ وَا ثُكْلَاهْ لَيْتَ الْمَوْتَ أَعْدَمَنِيَ الْحَيَاةَ الْيَوْمَ مَاتَتْ أُمِّي فَاطِمَةُ وَ أَبِي عَلِيٌّ وَ أَخِيَ الْحَسَنُ يَا خَلِيفَةَ الْمَاضِي وَ ثِمَالَ الْبَاقِي فَنَظَرَ إِلَيْهَا الْحُسَيْنُ ع وَ قَالَ لَهَا يَا أُخْتَهْ لَا يَذْهَبَنَّ حِلْمَكِ الشَّيْطَانُ وَ تَرَقْرَقَتْ عَيْنَاهُ بِالدُّمُوعِ وَ قَالَ لَوْ تُرِكَ الْقَطَا لَيْلًا لَنَامَ فَقَالَتْ يَا وَيْلَتَاهْ أَ فَتَغْتَصِبُ نَفْسَكَ اغْتِصَاباً فَذَلِكَ أَقْرَحُ لِقَلْبِي وَ أَشَدُّ عَلَى نَفْسِي ثُمَّ لَطَمَتْ وَجْهَهَا وَ هَوَتْ إِلَى جَيْبِهَا وَ شَقَّتْهُ وَ خَرَّتْ مَغْشِيَّةً عَلَيْهَا فَقَامَ إِلَيْهَا الْحُسَيْنُ ع فَصَبَّ عَلَى وَجْهِهَا الْمَاءَ وَ قَالَ لَهَا يَا أُخْتَاهْ اتَّقِي اللَّهَ وَ تَعَزَّيْ بِعَزَاءِ اللَّهِ وَ اعْلَمِي أَنَّ أَهْلَ الْأَرْضِ يَمُوتُونَ وَ أَهْلَ السَّمَاءِ لَا يَبْقَوْنَ وَ أَنَ كُلَّ شَيْءٍ هَالِكٌ إِلَّا وَجْهَ اللَّهِ تَعَالَى الَّذِي خَلَقَ الْخَلْقَ بِقُدْرَتِهِ وَ يَبْعَثُ الْخَلْقَ وَ يَعُودُونَ وَ هُوَ فَرْدٌ وَحْدَهُ وَ أَبِي خَيْرٌ مِنِّي وَ أُمِّي خَيْرٌ مِنِّي وَ أَخِي خَيْرٌ مِنِّي وَ لِي وَ لِكُلِّ مُسْلِمٍ بِرَسُولِ اللَّهِ أُسْوَة-1-۔
امام سجاد (ع) فرماتے ہیں کہ شب عاشور میری پھوپھی میری پرستاری کر رہی تھی میرے بابا اپنے خیمے میں یہ اشعار پڑھ رہے تھے : اے زمانہ تم پر تف ہو کہ تو کب تک اپنی آرزو اور تمنا رکھنے والوں کو خون میں آغشتہ کرتا رہے گا؟ و۔۔۔
یہ اشعار جب آپ نے سنی تو آپ آپے سے باہر ہوگئی اور فریاد کرنے لگی۔ اور بابا کے پاس تشریف لے گئی اور فرمایا: اے کاش مجھے موت آتی، آج کادن اس دن کی طرح ہے جس دن میری ماں ، میرے بابا ، اور بھائی حسنمجتبی (ع)اس دنیا سے رحلت فرماگئے ، اب تو آپ ہی ان بزرگوں کے وارث اور لواحقین کے پناہ گاہ ہو۔
امام حسین (ع) نے زینب کبری(س) کی طرف دیکھ کر فرمایا : میری بہن !ایسا نہ ہو کہ شیطان تیری حلم اور بردباری تجھ سے چھین لے۔
زینب کبری (س)نے کہا : بھیا! آپ کی اس بات نے میرے دل کو مزید جلادیا کہ آپ مجبور ہیں اور ناچار ہوکر شہید کئے جارہے ہیں!!اس وقت گریبان چاک کرکے اپنا سر پیٹنا شروع کیا ۔ اور بیہوش ہوگئیں ۔میرے بابا نے چہرے پر پانی چھڑکایا ؛جب ہوش آیا تو فرمایا: میری بہن ! خدا کا خوف کرو ، صبر اور حوصلے سے کام لو اور جان لو کہ سب اہل زمین و آسمان فنا ہونے والے ہیں سوائے خداتعالی کے۔ میرے بابا مجھ سے بہتر تھے اور ماں مجھ سے بہتر تھیں اور میرے بھائی اور میرے جد امجد (ص) مجھ سے افضل تھے ، جب وہ لوگ نہ رہیں تو میں کیسے رہ سکوں گا؟!
امام مظلوم (ع)نے یوں اپنی بہن کو نصیحت کی کہ ایسا نہ ہو تفکر اور اندیشہ آپ کی احساسات کے تحت شعاع چلی جائے۔اور جناب زینب (س) نے بھی کیا خوب اس نصیحت پر عمل کیا ۔ جہاں تدبر اور تعقل سے کام لینا تھا وہاں برد وباری اور شکیبائی سے کام لیا اور جہاں احساسات کا مظاہرہ کرنا تھا وہاں بخوبی احساسات و عواطف کا مظاہرہ کیا ۔
اس طرح امام (ع) مختلف مقامات پر اپنی بہن کو صبر واستقامت کی تلقین کرتے رہے ۔ اسی کا نتیجہ تھا کہ زنیب کبری (س) نے اپنی پیغام رسانی میں کوئی کمی آنے نہ دیا ۔ جسے شاعر نے یوں بیان کیا ہے :
مہکا گئی جو اپنے چمن کی کلی کلی جس نے حسینیت کو بچایا گلی گلی
کانٹوں بھرے سفر میں جہاں تک چلی چلی لیکن سکھاگئی ہے جہاں کو علی علی
اسلا م بچ گیا یہ اسی کا کمال تھا ورنہ خدا کے دین کا تعارف محال تھا -2-
---------
1 ۔ ۔ بحار ج۴۵، ص ۱۔۳
2 ۔ محسن نقوی؛ موج ادراک،ص ۱۳۲۔
زینب کبری (س) اپنے بھائی کے دوش بہ دوش
سفر کے دوران تمام حادثات اور واقعات میں اپنے بھائی کے شانے بہ شانے رہیں۔اور امام نے بھی بہت سارے اسرارسے آگاہ کیا ۔اس مطلب کو پیام اعظمی نے یوں بیان کیا ہے :
شریک کار رسالت تھے حیدر و زہرا شریک کار امامت ہیں زینب و عباس
دیا ہے دونوں نے پہرا بتول کے گھر کا حصار خانہ عصمت ہیں زینب و عباس
اپنے بیٹے کی شہادت
آپ کے دو بیٹے کربلا میں شہید ہوگئے -1- لیکن آپ نے بے صبری سے کام لیتے ہوئے آہ وزاری نہیں کی، تاکہ اپنے بھائی کے دکھ اور غم واندوہ میں اضافہ نہ ہو۔ لیکن علی اکبر (ع) کے سرانے جاکر خوب رولیتی ہیں تاکہ اپنے بھائی کے غم واندوہ میں کمی آجائے ۔
آخری تلاش
امام حسین (ع) زندگی کے آخری لمحات میں دشمنوں کے تیر وتلوار کے ضربات کی وجہ سے لہو لہاں ہوچکے تھے اور مزید دشمنوں کے ساتھ جنگ کرنے کی طاقت نہیں تھی۔کربلا کی زمین پر جب آئے تو لشکر ملعون عمر سعد چاروں طرف سے مختلف قسم کے ابزار اور اسلحے سے حملہ کرنے لگے اور زینب کبری (س) یہ منظر دیکھ رہی تھیں اور اپنے بھائی کا دفاع کرنا چاہتی تھیں ۔لیکن ہزاروں کے لشکر کے سامنے اکیلی خاتون کیا دفاع کرسکتی تھیں ؟ بہرصورت اپنی اس ذمہ داری کو بھی آپ نے انجام دیتے ہوئے عمر سعد ملعون سے کہا: اے عمر سعد ! اباعبداللہ کو اشقیاء شہید کررہے ہیں اور تو دیکھ رہا ہے؟!! یہ سن کر وہ ملعون رویا اور اپنا منہوس چہرہ زینب (س) کی طرف سے موڑ لیا۔ 2-
زینب کبریٰ(س) نے اپنے بھائی کے بدن سے جدا ہوتے ہوئے جو عہد کیا ؛ اسے شاعر اہل بیت محسن نقوی مرحوم نے یوں بیان کیا ہے:
حسین کی لاش بے کفن سے یہ کہہ کے زینب جدا ہوئی ہے
جوتیرے مقتل میں بچ گیا ہے وہ کام میری ردا کرے گی
---------
1 ۔ بحار ج۴۴، ص۳۶۶۔
2 ۔ بحار ج۴۵، ص ۵۵۔
جب بھائی کی لاش پر پہنچی
لہوف اور ارشاد شیخ مفید میں لکھا ہے کہ جب امام حسین (ع) گھوڑے سے کربلا کی زمین پر آئے تو زینب کبریٰ (س)بیہوش ہوگئی اور جب ہوش میں آئی توفریاد کرتی ہوئی خیمے سے نکلی اور جب اپنے بھائی کا زخموں سے چور چور اور خاک و خون میں غلطان بدن کہ جس سے فوارے کی طرح خون بہہ رہا تھا ؛ دیکھا تو اپنے آپ کو اس زخمی بدن پر گرایا اور اسے سینے سے لگا کر فریاد کرنے لگی: ونادت وا اخا ہ ! وا سیداہ! لیت السماء اطبقت علی الارض و لیت الجبال اندکت علی السھل ۔ فنادت عمر ابن سعد : ویحک یا عمر! یقتل ابوعبد اللہ وانت تنظر الیہ؟ فلم یجبھا عمر بشیء فنادت : ویحکم اما فیکم مسلم؟ فلم یجبھا احد-1-۔
ہای میرے بھیا ہای میرے سردار !! اے کاش یہ آسمان زمین پر گر چکا ہوتا اور اے کاش پہاڑ ریزہ ریزہ ہو کر خاکستر ہوجاتی!!پھر عمر سعد کو آواز دی : اے عمر سعد افسوس ہو تجھ پر ! اباعبد اللہ الحسین (ع) کو زبح کئے جارہے ہیں اور تو تماشائی بن کر دیکھ رہے ہو؟! اس ملعون نے کوئی جواب نہیں دیا ،پھر فریاد کی : کیا تم میں کوئی مسلمان نہیں ؟!! پھر بھی کسی نے جواب نہیں دیا۔ پھر ندا دی:ءانت الحسین اخی؟! ءانت ابن امی؟! ءانت نور بصری ومھجۃ قلبی؟! ءانت رجائنا ؟!ءانت کہفنا؟! ءانت عمادنا؟! ءانت ابن محمد المصطفی؟!ءانت ابن علی المرتضیٰ ؟!ءانت ابن فاطمۃ الزہرا؟! اس قدر بدن مبارک زخموں سے چور چور ہوگیا تھا کہ مظلومہ بہن کو پہچاننے میں مشکل ہورہا تھا۔ فرمایا: کیا تو میرا بھائی حسین ہے؟ کیا تو میرا ماں جایا حسین ہے؟کیا تو میری آنکھوں کا نور ہے ؟ اور دل کی ٹھنڈک ہے؟ کیا تو ہماری امید گاہ ہے؟ کیا تو ہمارا ملجاو ماوا ہو؟ اور کیا تو ہمارا تکیہ گاہ ہے ؟ کیا تو محمد مصطفی (ص) کا بیٹا ہے؟ کیا تو علی مرتضیٰ اور فاطمہ زہرا(س)کا بیٹا ہے؟!!
ان کلمات کو حزین آواز میں بیان کرنے کے بعد کوئی جواب نہیں آیا کیونکہ امام حسین (ع)شدید زخموں کی وجہ سے غش کی حالت میں تھے ، جس کی وجہ سے جواب نہیں دے پارہے تھے؛ تو زینب کبری نے پھر گریہ و زاری کرنا شروع کیا ،فریاد کرتے کرتے آپ پر بھی غشی طاری ہوگئی ۔ اور جب ہوش آیا تو فرمایا : اخی بحق جدی رسول اللہ الا ماکلمتنی وبحق ابی امیر المؤمنین الا ما خاطبنی یا حشاش مھجتی بحق امی فاطمۃ الزہرا الا ما جاوبتنی یا ضیاء عینی کلمنی یا شقیق روحی جاوبنی ۔اے میرے بھیا حسین !میرے جد گرامی رسول خدا (ص) کا واسطہ مجھے جواب دو میرے بابا امیر المؤمنین کا واسطہ میرے ساتھ کلام کرو! اے میرے جگر کے ٹکڑے! میری ماں فاطمہ زہرا(س) کاواسطہ مجھے جواب دو ، اے میرے نور نظر ! میرے ساتھ بات کرو ، اے میری جان مجھے جواب دو۔
جب یہ کلمات ادا ہوئیں تو امام (ع)کو ہوش آیا اور فرمایا: اے میری پیاری بہن ! آج جدائی اور فراق کا دن ہے ۔ یہ وہی دن ہے جس کا میرے نانا رسول خدا (ص) نے وعدہ کیا تھا کہ آج ان کے ساتھ ملاقات کرنے کا دن ہے ۔کہ آپ (ص) میرے منتظر ہیں ۔ ان کلمات کے ساتھ آپ پر غشی طاری ہوگئی تو حضرت زینب (س) نے آپ کو اپنے آغوش میں لیا اور سینے سے لگا یا ۔ اما م کچھ دیر بعد پھر ہوش میں آیااور فرمایا : بہن زینب !آپ نے میرا دل غموں سے بھر دیا ، خدا کے خاطر آپ خاموش ہوجائیں ۔
حضرت زینب (س)نے ایک چیخ ماری اور فرمایا : واویلاہ! اخی یا بن امی! کیف اسکن و اسکت و انت بھذہ الحالۃ تعالج سکرات الموت تقبض یمینا و تمد شمالا ، تقاسی منونا ً و تلاقی احوالا ً روحی لروحک الفدا و نفسی لنفسک الوقاء۔ افسوس ہو مجھ پر اے میرے بھائی! اے میرے ماں جایا حسین ! کیسے آرام کروں اور کیسے چپ رہوں ؟!جب کہ آپ اس سکرات الموت کی عالم میں ہو؛ اور اپنے خون میں لت پت ہو ؛ میری جان اور نفس آپ پر قربان ہوجائیں ۔ اتنے میں شمر ملعون آکر کہنے لگا کہ اپنے بھائی سے جدا ہوجاؤ ورنہ تازیانہ کے ذریعے جدا کروں گا ۔یہ سننا تھا زینب کبری (س) نے اپنے بھائی کے گلے میں ہاتھ ڈال کر کہنے لگی : یا عدو اللہ لا اتنحی عنہ ان ذبحتہ فاذبحنی معہ ۔ اے دشمن خدا ! میں اپنے بھائی سے جدا نہیں ہوجاؤں گی ۔ اگر تو انہیں ذبح کرنا چاہتے ہو تو مجھے بھی ان کے ساتھ ذبح کرو ۔ اس وقت شمر لعین نے تازیانے کے ذریعے بہن کو بھائی سے جدا کیا ۔اور دھمکی دیتے ہوئے کہا:اگر قریب آجائے تو تلوار اٹھاؤں گا ۔اب یہ ملعون امام عالی مقام کے نزدیک جاتا ہے اور سینہ اقدس پر سوار ہوجاتا ہے ۔ یہ دیکھنا تھا جناب زینب (س) نے فرمایا :
یا عدو اللہ ارفق بہ لقد کسرت صدرہ و اثقلت ظھرہ اما علمت ان ھذا الصدر تربی علی صدر رسول اللہ و علی و فاطمہ ،ویحک ھذا الذی ناغاہ جبرائیل و ھز مھدہ میکائیل باللہ علیک الاّ امھلتہ ساعۃ ً لِاَتزوّد ویحک دعنی اُقبّلہ دعنی اغمضہ دعنی انادی بناتہ یتزوّدون منہ دعنی آتیہ بابنتہ سکینۃ فانہ یحبّۃ-2- اے دشمن خدا ! میرے بھائی پر رحم کریں تو نے ان کی پسلیوں کو توڑا ہے اور ان پر اپنا بوجھ ڈالا ہے ! کیا تو جانتا ہے کہ یہ کس کا سینہ ہے ؟ یہ وہ سینہ ہے جو رسول اللہ (ص) ، علی اور فاطمہ (ع)کے سینے پر آرام کیا کرتے تھے ۔ افسوس ہو تجھ پر یہ وہ ذات ہے کہ جبرئیل جس کا ہمدم ہے اور میکائیل ان کا جھولا جھلانے والا ہے ! خدا کیلئے تھوڑی سی ان کو مہلت دے تاکہ میں ان سے خدا حافظی کرلوں اور ان سےزاد راہ لے لوں ۔ افسوس ہو تجھ پر اے لعین ! مجھے موقع دو تاکہ میں ان کا بوسہ لوں اور ان کے چہرے کی زیارت کروں ۔ اور مہلت دو تاکہ میں ان کی بیٹیوں کوبھی بلاؤں۔ ان کی چھوٹی بیٹی سکینہ انہیں بہت چاہتی ہیں۔ اور امام کو اس سے بہت پیار ہے ؛ان کو بلاؤں ۔
---------
1 ۔ الارشاد ، ج۲، ص ۱۱۱۔
2 ۔ معالی السبطین ، مجلس دہم۔
|