ایک سو پچاس جعلی اصحاب( جلدچہارم )
 

اسلام کا کوئی روحانی باپ نہیں ہے!
١۔جناب علوی صاحب نے اپنے مقالہ میں لکھا ہے :
'' اس کتاب کے مؤ لف جناب عسکری بغدادکے علماء میں سے ہیں '' ۔
ہم ان کے جواب میں کہتے ہیں :
اسلام میں کوئی روحانی ، ان معنی و مفہوم میں جن میں کل عالم عیسائیت میں رائج ہے . وجود نہیں رکھتا ہے بلکہ اس قسم کے اشخاص کو '' علماے اسلام '' کہتے ہیں ، تاکہ یہ لفظ ان کے معارف و علوم اسلام کے تخصص کو ظاہر کرے ، اور اس تعریف کامصداق ہو.
٢۔ وہ فرماتے ہیں کہ:
باوجود اس کے کہ یہ کتاب ، پشت پردہ ایک خاص نامحسوس مقصداپنے دامن میں اور پنہان رکھتی ہے لیکن اس کا موصنوع خود اس کے مقصد کا گو یا ترین ثبوت ہے ۔۔۔
میں یہ نہ سمجھ سکا کہ مصنف محترم کا مقصد کیا ہے ؟کیا اس کتاب کا موضوع میرے مقصد ، جو دین اسلام کی خدمت ہے ، سے منا فات رکھتا ہے ؟ جبکہ خود انہوں نے فرمایا ہے کہ فلاں شخص (یعنی میں) عالم دین ہوں!یا کچھ اور چیزجو ہے میرے لئے پوشیدہ ہے ؟
جو چیز میں جانتا ہوں وہ یہ ہے کہ حقیر نے اپنی زندگی کے چالیس برس معارف اسلامی کی تحقیق میں گزارے ہیں ، اپنے مطالعات کے نتیجہ و خلاصہ کو نوٹ کر کے ان میں سے بعض کو ،سیری در تاریخ و حدیث ''(تاریخ و حدیث پر ایک نظر) کے عنوان س طبع کیاہے ۔ اور اس کی اشاعت کرنے کا مقصد بھی یہی تھا کہ میں دکھا دوں کہ تاریخ اسلامی اور سنتّ و حدیث کے مصادر و منابع میں عمد اً یا سہواً کچھ تحریفات اور تغیرات انجام پائے ہیں جو اس امر کا سبب بنے ہیں کہ صیحح اور سچے ّ اسلام ۔جسے پیغمبرۖاسلام لے آئے ہیں ۔ کو پہچاننے میں ، ان تحریفات کی وجہ سے رکاوٹیں پیدا ہوئی ہیں .
اس کے علاوہ کتابوں کے اس سلسلہ کو شائع کرنے میں حقیر کا مقصد یہ بھی تھا کہ ''اصول دین کالج '' کو دنیاوالوں کے سامنے پہنچواؤں اور یہی مقصد کتاب کی ابتداء میں صراحت سے بیان ہوا ہے .

الفاظ اور مفاہیم :
٣۔ انہوں نے سیف کی غلط ، مردود اور جھوٹی روایتوں اور اس کی گڑھی ہوئی داستانوں کے لئے ہمارے لفظ ''افسانہ'' = اسطو رہ ) کو استعمال کرنے کے سلسلہ میں اظہار نظر کرتے ہوئے خصوصاً تاکید فرمائی ہے کہ ایسے مواقع پر ایسے الفاظ سے استفادہ کرتے وقت احتیاط و کافی دقت کرنی چاہئے .
ہم جواب میں کہتے ہیں :
جعلی اخبار اور داستانوں کے نام رکھنے کے سلسلہ میں یا کسی نکرہ وصف کے الفاظ جیسے : '' مخولہ ، موضوعہ ، مکذوبہ ،ضعیف ، جعلی ، جھوٹ ''یا ان جیسے دوسرے الفاظ سے استفادہ کریں کہ ان میں سے کوئی بھی ان جیسی داستانوں کی حقیقت بیان نہیں کرتا ہے اور ان کے معنی و مفہوم کو نہیں پہنچاتا ہے ۔ یا یہ کہ ان کے لئے ایسے خاص نام اور اصطلاحات کا انتخاب کریں جو ان داستانوں کے معنی و حقیقت کو پہنچا سکیں ، جیسے : '' مَثَل،خُرافہ،اُسطورہ ، خرافی بات ، افسانہ''
اس سے پہلے کہ ہم سیف کی داستانوں کے لئے اس قسم کے نام یا اصطلاحات سے استفادہ کریں ، ہمیں چاہئے کہ ان کے معنی و مفہوم کے سلسلہ میں لغت کی کتابوں کا مطالعہ کرکے ان پر بحث و تحقیق کریں ۔

١۔مَثَل:
مَثَل، کسی چیز کے بارے میں وہ بات ہے جو مفہوم کے لحاظ سے کسی دوسری چیز کے قریب یا شبیہ ہو اور یہی نذدیکی و شباہت سبب بن جائے کہ ایک دوسرے کی تعریف کرے مثال کے طور پر جب کہا جاتا ہے :
کنواں کھودنے والاہمیشہ کنویں کی تہ میں ہوتا ہے ۔ حقیقت میں یہ بات اس امر کی دلیل ہے کہ '' جو دوسروں کو تکلیف پہنچانے کی فکر میںہوتے ہیں وہ خود اپنے جال میں پھنس جاتے ہیں '' ، انسان ہوش میں رہیتاکہ دوسرں کی اذیت کا سبب نہ بنے۔ اسی بنیاد پر خدائے تعالیٰ نے قران مجید میں مثالیں پیش کی ہیں اوراور ان کے بارے میں فرمایا ہے :
و َ تلِک الامثالُ نَضربُھاَلِلناس لَعَلّھُم یَتَفَکَروُن ١ (حشر/٢١)
یا یہ کہ ایک دوسری آیت کے آخر میں اسی سلسلہ میں فرماتا ہے:
۔۔۔۔۔۔وَماَ یعقلُھاَ اِلاالعا لمون.٢ (عنکبوت/٤٣)
قرآن مجید میں بیان ہوئی مثالوں کی تعداد اکتا لیس ہے ، من جملہ فرماتا ہے ۔
١) اور ہم ان مثالوں کو انسانوں کے لئے اس لئے بیان کرتے ہیں کہ شائدوہ کچھ غور و فکر کر سکیں ۔
٢) ۔۔۔۔۔۔۔لیکن انھیں صاحبان علم کے علاوہ کوئی نہیں سمجھ سکتا ہے ۔
مَثَلُ الَّذِینَ یُنفِقُونَ اَموَالَھُم فیِ سَبِیل اللّٰہِ کَمَثَلِ حَبَّة اَنبَتَت سَبعَ سَنابِلَ،فی کُلِّ سنبلَة مة حَبَّة وَاللّہ یُضَاعِفُ لِمَن یَشَائُ وَ اللّٰہُ وَاسعُْْْ عَلِیمُ (بقرہ / ٢٦١) ١
یا جہا ں پر فرماتا ہے :
مَثَّلُ الَّذِینَ ا تَّخَذُ وامِن دُونِِِِ اللّٰہِ اَولِیاء کَمَثََلِ العَنکبوت اتخذَ بَیتاً وَ اِنَّ اَوھَنَ البیوتِ لبیت العنکبوت ٢ (عنکبوت/٤١)
یا یہ کہ فرماتا ہے :
وَضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلاً للذین اَمَنُوا اِِمِرَةَ فِرعَونَ اِذ قاَلَت رَبِّ ابنِ لیِ عِندَکَ بَیتاً فی الجَنة وَ نَجّنی مِن فر عو ن وَ عملہ وَ نجنی مِنَ ا لقَومِ الظالِمین ٣(تحریم/١١)
خدا ئے تعالےٰ نے ان تین مواقع پر مطلب کی وضاحت کے لئے ''جمادات ، حیوانات اور انسان '' کی مثال پیش کی ہے .
١) جو لوگ راہ خدا میں اپنے اموال خرچ کرتے ہیں ان کے عمل کی مثال اس دانہ کی ہے جس سے سات بالیاں پیدا ہوں اور پھر ہر بالی میں سو دانے ہوں اور خدا جس کے لئے چاہتا ہے اضافہ بھی کر دیتا ہے کہ وہ صاحب و سعت بھی ہے اور علیم و دانا بھی ۔
٢) اور جن لوگوں نے خدا کو چھوڑکر دوسرے سرپرست بنالئے ہیں ان کی مثال مکڑی جیسی ہے کہ اس نے گھر تو بنالیا لیکن سب سے کمزور گھر مکڑی کا گھر ہو تا ہے ۔
٣) اورخدا نے ایمان والوں کے لئے فرعون کی زوجہ کی مثال بیان کی ہے اس نے دعا کی کہ پرورگار میرے لئے جنت میں ایک گھر بنادے اور مجھے فرعون اور اس کے کاروبار سے نجات دلادے اور اس پوری ظالم قوم سے نجات عطاکردے ۔

٢۔ خرافہ:
خرافہ، باطل اور بہیودہ کلام کے معنی میں آیا ہے کہ سننے والے کو مجذوب کرنے کے ساتھ ساتھ تعجب میں ڈالتا ہے ۔ اس کے وجود میں آنے کی داستان یوں بیان کی گئی ہے ۔
قبیلہ ء بنی '' عذرہ یا جہینہ '' کے ایک شخص کانام ''خرافہ '' تھا ۔ جنات اسے اغوا کرکے لے گئے اور ایک مدت تک اپنے پاس رکھا !! خرافہ جنوں کے قبضہ سے آزاد ہونے اور اپنے گھر انے میں واپس آنے کے بعد ، جنات کے پاس گذاری مدت کے بارے میں تعجب خیز اور حیرت ناک چیزیں کہتا تھا اور لوگ بھی اس کی داستانو ں کی تکرار کرتے ہوئے کہتے تھے کہ '' یہ داستانیں خرافہ ہیں !!'' اور یہی مطلب رفتہ رفتہ معروف ہوا کہ ہر بے بنیاد اور تعجب خیز داستان جو رات کی سرگرمیوں کے لئے بیان کی جاتی تھی ، خرافہ کہلانے لگی ۔

٣۔اسطورہ :
اسطورہ یا افسانہ ان باتوں کو کہتے ہیں جو باطل ، بہیودہ ، جھوٹ ، درہم برہم اور نامرتب ہوں لیکن ظاہر میں صیحح اور سچ دکھائی دیں اور دل کش لگیں۔
لفظ ''استورہ'' قران مجید میں سات موقع پر لفظ ''اولین '' کا نصاف بن کر آیا ہے ، من جملہ فرماتا ہے :
یقول الذینَ کَفَرُوا اِن ھٰذا اِلاّ اَساَطیرُ الا وَّلیِنَ(١) (انعام/٢٥)
اس بنا پر مذکورہ الفاظ کے معنیٰ و مفہوم خلاصہ کے طور پر حسب ذیل ہوں گے :
مَثَل : یہ لفظ ایسی جگہ پر استعمال ہو تا ہے جہاں پر کسی مطلب کی وضاحت یا انتباہ مقصود ہو۔
''خرافہ '': ایسی بے بنیاد باتوں کو کہا جاتا ہے ، جو دلچسپ ہوں ۔ اور '' حدیث خزافہ 'وہ عجیب اور حیرت انگیز اور دلچسپ داستانیں ہیں جو شب باشی کی محفلوں کے لئے گڑھ لی جاتی ہیں ۔
''اسطورہ و ''افسانہ'' وہ مطلب اور جھوٹی اور بے بنیاد داستانیں ہیں ، جنھیں کہنے والا چالاکی ، مہارت اور چرب زبانی سے آراستہ کرکے سچ اور صحیح بنا دیتاہے ۔ ہم نے کہا کہ یہ لفظ قرآن مجید میں سات مواقع پر لفظ ''اولین'' پر اضافہ ہواہے ۔
اس بنا ء پر مناسب ہے کہ ہم ''کلیلہ دمنہ'' کی داستانوں کو جو بیشتر لوگوں کی ہدائت رہنمائی ، انتباہ اور عبرت کے لئے مرتب کی گئی ہیں ۔ اَمثال کہیں ۔
''الف لیلوی'' داستانوں کو' کہ کہنے اور سننے والا یا گانے والا اس کے مو صنوعات کے صیحح نہ ہونے پر اتفاق نظر رکھتے ہیں اور جو شب باشی کے لئے تنظیم کی گئی ہیں ۔ خرافہ کہیں ۔
''اسود متنبی'' اور فرشتہ ء شیطان کی داستانوں کو جن کا کہنے والا سیف ان کے صیحح ہونے کا تظاہر کرتا ہے ، لیکن سننے اور پڑھنے والے ان کے غلط ہونے پر یقین رکھتے ہیں 'خرافہ داستانیں جانییں ۔اسطورہ یا افسانہ کو حیرت انگیز داستانوں میں شمار کریں جو مطلب کی وضاحت میںہیںاور نہ انھیں شب باشیوں کے لئے مرتب کی گئی ہیں اور نہ ان میں سیف جن وپری کی بات کرتا ہے ۔ بلکہ یہ ایسے مطالب ہیں جو حقیقت اور سچ سے کوسو ں دور ہیں، افسانہ ساز اس کے مناظر کو فصاحت اور زیبابیا نی سے دلچسپ اور جذاب بنا کر ایسی آب و تاب اور سنجید گی کے ساتھ بیان کرتا ہے کہ گویا بالکل مسلم اور ناقابل انکار حقائق لگتے ہیں !

سیف کی داستا نوں کا کیا نام رکھیں ؟
یہاںپر جب ہم سیف کی داستانوں پر ۔گذشتہ بحث کے پیش نظر نگاہ ڈالتے ہیں تو دیکھتے ہیں افسانہ کے علاوہ ان کے لئے کسی اور نام کو منتخب نہیں کرسکتے کیونکہ اس کے علاوہ کوئی اور نام ان کے لئے مناسب نظر نہیں آتا ہے۔ چونکہ سیف نے ایسی بات نہیں کہی ہے جو مثال کے موضوع کو واضح کرے یا دلیل و رہنما ہو اور نہ انھیں شب باشی کی سرگرمی کے لئے خلق کیا ہے اور نہ جن و پری کی بات کرتا ہے، اگر چہ وہ کبھی کبھار اپنی بات کی تائید کے لئے جنات و پریوں کو بھی کھینچ لایا ہے اور ان کی زبان سے دلچسپ باتیں کہلوائی ہیں !
بلکہ اس کی داستانیں اس سے بدتر ہیں ، کیونکہ یہ ایسے مطالب پر مشتمل ہیں جو سچ اور حقا ئق سے کوسوں دور ہیں اور سیف نے اپنی شیرین بیانی سے ان سنسنی خیز مناظر کو مجسم کر کے تعجب خیز حدتک گڑھ کرتا ریخ اسلام کے مسلم اور یقینی حقائق کے روپ میں پیش کر دیا ہے !!
اور ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے لغت نویسوں نے بھی ایسی داستانوں کو ان خصوصیات کے پیش نظر ''اساطیر '' و افسانہ کہا ہے ، خاص کر جب ہم لغتِ عرب پر اعتماد کرتے ہیں جو ہمارے زیر بحث علوم و معارف اسلامی کے مربوط الفاظ اور اصطلاحات سے مالاما ل ہے ، نہ اس کے علاوہ کسی اور چیز پر ۔۔
حقیقت میں اگر ہم دوسروں کے تخصص کے سلسلے میں مطالعہ کررہے ہوں ، تو ہم ناچار ہوں گے کہ ان کی اصطلاحات کو حتی الامکان عربی میں اپنے ان الفاظ میں تبدیل کریں جو مکمل طور پر وہی معنی رکھتے ہوں ، اور یہ تب ہے جب ہم مثال کے طور پر بابل اور یونان کے خداؤں کی داستانوں کے مطالعہ کا ارادہ رکھتے ہوں!
بہر حال اگر ہم ناقد محترم کی پیروی کرتے ہوئے ، امت اسلامیہ سے مربوط علوم و معارف کے بارے میں دوسروں کے الفاظ اور اصطلاحات پر بھی اعتماد رکریں تو بھی معلوم ہو جائے گا کہ لفظ ''افسانہ '' سیف کی داستانوں کے لئے مناسب ترین نام ہے کیا ایسا نہیں کہا جاتا ہے کہ : دوسروں نے افسانہ کانام ان بڑی اور حیرت انگیز رودادوں کے لئے رکھاہے جن کے وجود میں آنے میںخداؤں ۔ پریوں اورعالم بالا کے موجودات کا ہاتھ تھا ؟
سیف کی داستانوں کی بھی بالکل یہی حالت ہے کہ ہم اپنے مطالب کے حسن ختام کے طور پر چند،نمونے نقل کرتے ہیں :

سیف کی داستانوں کے چند نمونے:
سیف اپنی داستانوں میں بڑی اورحیرت انگیز رودادوں کی بات کرتاہے جو اس کے خیال کے مطابق اسلام کے ابتدا ئی ایام میں اسلام کے سپاہیوں اور دوسری قوموں کے درمیان یا خوداصحاب رسولۖ کے درمیان وجود میں آئی ہیں ، اور غالباً یہ داستانیں معجزہ اور حیرت انگیز اتفاقات پر مشتمل ہیں ، بالکل اس طرح جیسے بابل اور یونان کے خداؤں کے قصوں میں آیا ہے !
١۔'' قادسیہ'' کی جنگ کی داستان پر توجہ فرمائیے کہ بقول سیف ابن رفیل اپنے باپ سے نقل کرتے ہوئے بیان کرتا ہے :
ایرانی فوج کاسپہ سالار اعظم ، رستم فرخ زاد اس دیر میں سوگیا ۔ اس نے خواب میں دیکھا کہ آسمان سے ایک فرشتہ اترا اور سیدھے ایرانیوں کے کیمپ میںداخل ہو ااور کسی تاخیر کے بغیر تمام جنگی سازو سامان کو اپنے قبضہ میں لے کر اس پر مہر لگادی تاکہ انہیں بیکار بنادے ۔۔۔
سیف کسی تاخیر کے بغیر ایک دوسری روایت میں کہتاہے :
جب رستم نے نجف کی بلندیوں پر مستقرہو کر اپنے جنگی مورچوں کو مضبوط کیا تو پھر اسی فرشتہ کو خواب میں دیکھا !
اب کی بار دیکھا کہ یہ فرشتہ پیغمبر اسلام ۖ کے ہمراہ آسمان سے اترا اور ایرانیوں کے کیمپ میں داخل ہونے کے بعد ان کے تمام فوجی ساز و سامام پر قبضہ کرکے ان پر مہر لگادی تاکہ انھیں بیکار کردے ، ا س کے بعد انھیں رسول خداۖ کی خدمت میں پیش کیا ۔ پیغمبر خداۖ نے بھی ان سب سازو سامان کو عمر کے حوالے کردیا سیف اسی داستان کوجاری رکھتے ہوئے کہتا ہے :
جب ''رفیل'' نے اس موضوع ۔۔۔خدا ، اس کے پیغمبرا اور فرشتوں کی ، جنگ کے امور میں اور اسلام کے سپاہیوں کی تائید میں ، براہ راست مداخلت ۔۔۔ کا مشاہدہ کیا تو وہ اسلام کا گرویدہ ہو گیا اور اسی سبب سے مسلمان بنا۔
٢۔ سیف فتح '' بہر سیر = ویہ ارد شر '' کی داستان میں مدعی ہوتا ہے کہ عالم بالا کے فرشتوں نے '' ابو مفزر تمیمی '' کی زبان پر ایسا اثر ڈالا کہ جس کے نتیجہ میں اس نے ایران کے پادشاہ کے پیغام کا جواب اس کے قاصد کو فارسی میں یوں دیا:
جب تک ہم '' افریدون' کا شہد اور '' کوثی'' کے چکوترے نہ کھائیں ہمارے درمیان دوستی قائم نہیں ہوسکتی ہے !!
'' ابو مفزر تمیمی'' نے یہ گفتگو روان اور خالص فارسی میں زبان پر جاری کی بغیر اس کے کہ خود بھی سمجھ سکے کہ کیا بول رہا ہے ! یا اسلام کے سپاہیوں میں سے ایک شخص بھی نہیں سمجھ سکا کہ وہ کیا بول رہا تھا !!
جب ایران کے پادشاہ کو '' ابو مفزر'' کے جواب کے بارے میں معلوم ہو کہ اس نے فارسی میں جواب دیا تھا تو بولا افسوس ہے مجھ پر ! فرشتے ان کی زبان پر بات رکھتے ہیں تا کہ وہ ہمیں ہماری اپنی زبان میں جواب دیں!!
٢۔ سیف '' جلولا '' کی جنگ کے بعد ''یزدگرد'' کے فرار کی داستان میں لکھتا ہے :
'' جلولا'' میں ایرانیوں کی شکست کے بعد '' یزدگرد'' رے کی طرف بھاگ گیا اور پورے راستہ میں محمل سے باہر قدم نہ رکھا بلکہ وہیں پر سوتا بھی تھا ۔ پادشاہ کا محمل لے جانے والا اونٹ ایک لمحہ بھی راستہ میں کہیں نہیں رکتا تھا ! اور دربار کے نوکر بھی کہیں پر آرام نہیں کرتے تھے حتی راستہ میں ایک جگہ پر دریا سے عبور کرنے پر مجبور ہوئے۔
محافظوں نے اس احتمال سے پادشاہ کو نیند سے بیدار کیا کہ کہیں دریا کو عبور کرتے وقت پانی محمل میں داخل ہو کر پادشاہ کو تکلیف نہ پہنچائے
١۔ اس نے بیدار کئے جانے پر سخت بر ہم ہوتے ہوئے ان سے مخاطب ہوکر کہا:
کیا نا مناسب کام تم لوگوں نے انجام دیا ! خدا کی قسم اگر مجھے اپنے حال پر چھوڑدیتے ، تو مجھے معلوم ہوجاتا کہ اس امت ۔۔ اسلام ۔۔ کی کتنی مدت باقی بچی ہے !!
میں خواب میں دیکھ رہا تھا کہ محمد ۖ کے ساتھ خدا کے حضور پہنچا ہوں اور خدا نے محمد ۖ سے کہا: میں نے تیری حکومت اور تیری امت کی شہرت کو ایک سو سال قرار دیا ہے !
محمد ۖ نے خدا سے کہا :
مزید بڑھادے۔
خدا نے نے کہا
اچھا ایک سو دس سال
محمد ۖ نے پھر سے کہا :
میرے واسطے اور بڑھادے
خدا نے کہا :
کوئی مشکل نہیں ، ایک سو بیس سال !
محمد ۖ نے پریشان اور ناراضگی کے عالم میں جواب دیا :
تو ہی جانے!!
یہیں پر تھا کہ تم لوگوں نے مجھے بیدار کیا اور مجھے فرصت نہ دی کہ اس گفتگو کو آخر تک سن سکتا کیونکہ اگر تم نے مجھے اپنے حال پر چھوڑدیا ہوتا تو سر انجام مجھے پتا چل جاتا کہ اس امت کی کتنی عمر ہے !!

لفظ '' افسانہ ''سیف کی داستانوں کیلئے مناسب ہے
سیف کی اغلب داستانوں کی یہی حالت ہے ۔
وہ بعض اوقات اپنی داستانوں کے سورماؤں کو فرشتوں اور پریوں کے روپ میں پیش کرتا ہے اور ایسادکھائی دیتا ہے کہ عالم بالا کے ہدایت کار مسلسل اس کے ساتھ رابطہ برقرار دکئے ہوئے ہیں اور تمام مواقع پر اس کے مشیر و راہنما ہیں !
سیف اپنی تمام تخلیقات اور افسانوں میں صدر اسلام کی چند عادی اور غیر معروف شخصیتوں کے مقام و منزلت کو اس قدر بلند کرنے میں پوری طرح کامیاب ہوا ہے کہ دنیا کے لوگ خاص کر مسلمان انھیں فوق بشر بلکہ عالم بالا کے فرشتے سمجھ لیں !!
میں نے مدتوں سیف کی روایتوں اور اس کے اخبار کے مطالعہ و تحقیق کے بعد اسلامی مآخذ اور تاریخ میں ان کے پھیلاؤ کی وسعت کو اور مسلمانون کے افکار و عقائد پر ان کے مسلسل اثرات کو اچھی طرح محسوس کیاہے ۔
اس لحاظ سے اور گزشتہ بحث کے پیش نظر میں نے '' افسانہ '' سے مناسب تر کوئی لفظ ، سیف کی داستانوں کیلئے پیدا نہیں کیا خاص کر جب وہ خلافت '' عثمان '' سے لے کر ''جمل '' کی جنگ تک اصحاب کی آپسی لڑائی جھگڑوں کی داستان سرائی کرتا ہے'یا جب اصحاب اور دوسرے اقوام کے درمیان کشمکش کو بیان کرتا ہے ۔ کیونکہ یہ سب '' بابل اور یونان '' کے خداؤں کے جئسے افسانے ہیں ۔
البتہ اس کی وہ داستانیں ، جنھیں میں نے کتا ب'' عبد اللہ بن سبا '' کی دوسری جلد میں '' خرافی افسانوں ّ'' کے عنوان کے تحت ذکر کیا ہے ، مستثنیٰ ہیں ۔
مذکورہ کتاب کا وہ حصہ سیف کی ان داستانوں پر مشتمل ہے جنھیں اس نے اسود '' متنبی کذاب'' اور جنوں کی خیالی مخلوق'' شیطان شاہ '' کے بارے میں ہیں ۔
اگر چہ اسود کی داستانوں کو ایسی خیالی مخلوق کے پیش نظر '' خرافی روایات'' کہہ سکتے ہیں ، لیکن میں نے ایسی داستانوں کے اس مجموعہ کو اس لحاظ سے '' خرافائی افسانے '' نام رکھا ہے کہ ان میں '' جنات'' اور '' پریوں '' اور حیرت انگیز کام دوسری داستانوں وکی نسبت زیادہ دکھائے گئے ہیں ۔
آخر میں اپنے ناقد محترم کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے اپنے مخلصانہ عقیدہ کی بناپر چند نکات کا طرف ہماری توجہ مبذول کرائی جنہیں وہ خطا یا غلطی سمجھتے تھے۔