ایک سو پچاس جعلی اصحاب( جلدچہارم )
 

٩٣واں جعلی صحابی عبدبن غوث حمیری
عراق میں سپاہ ِحضرت ابوبکر کو مدد کر نے کے سبب بننے والا صحابی :
ابن حجر نے اپنی کتاب''اصابہ '' میں اس صحابی کایوں تعارف کرایا ہے :

عبد بن غوث حمیری :
سیف بن عمر نے لکھا ہے کہ جب ''عیاض بن غنم '' عراق میں ایرانیوں سے نبردآزما تھا ، اس نے سپاہ کی کمی کے بارے میں خلیفہ سے شکایت کی اور اس سے مدد طلب کی ۔ حضرت ابو بکر نے ''عبد بن غوث ''حمیری کو اس کی مدد کیلئے بھیجا (ز) (ابن حجر کی بات کا خاتمہ )

اس صحابی کا نسب :
سیف کے اس جعلی صحابی کے باپ کے بارے میں تاریخ طبری کے بعض نسخوں میں ''غوث '' اور بعض دوسرے نسخوں میں '' یغوث '' اور اکثر نسخوں میں ''عوف '' لکھا ہے لیکن تاریخ ابن خلدون میں ''عوف '' لکھا گیا ہے !!
اور ''حمیری ' یشجب قحطان کے پوتے ''حمیربن سبا ء '' سے نسبت ہے یہ یمن کے اصلی قبائل میں سے ایک قبیلہ تھا ۔

انوکھا جھوٹ:
طبری نے ١٢ھ کے حوارث اور روداد کے ضمن میں سیف سے نقل کرکے اپنی تاریخ میں لکھا ہے :
جب خالدبن ولید '' یمامہ '' کی جنگ سے فارغ ہوا ، تو حضرت ابوبکر نے اسے یوں لکھا :
خدائے تعا لےٰ نے فتح تجھے نصیب کی ، اب عراق کی طرف روانہ ہو ، تاکہ وہاں پر ''عیاض سے ملاقات کرو۔
اس کے بعد ایک الگ خط میں ''عیاض بن غنم '' کو ۔جو ''نباج'' اور ''حجاز '' کے درمیان مقیم تھا یوں حکم دیا :
اسی طرح آگے بڑھتے رہو یہاں تک کہ ''مصیخ '' پہنچ جاؤ۔ اور وہاں اس علاقہ کی بلندیوں سے ''عراق''پر حملہ کرو اور اس علاقہ میں اپنی پیشروی کو اس قدر جاری رکھوکہ خالدبن ولید کے پاس پہنچ جاؤ ۔ وہا ں پر مستقر ہونے کے بعد اپنے سپاہیوں میںسے جو بھی مائل ہوا سے اپنے وطن جانے کی اجازت دینا ۔ ان کو ہر گز زبردستی فوجی چھاؤنی میں روکے نہ رکھنا ۔
جب ابوبکر کا خط خالد اور عیاض کو پہنچا ، انہوں نے خلیفہ کا حکم اپنے سپاہیوں تک پہنچا دیا ۔ مدینہ باشند ے اور اس کے اطراف کے لوگ ان دوپہلوانوں سے دوری اختیا ر کرکے فوجی چھاونی سے چلے گئے۔ اس لئے انہوں نے مجبور ہو کر ابوبکرسے مدد چاہی۔ ان کی مدد کی درخواست کے جواب میں خلیفہ نے ''قعقاع بن عمرو تمیمی '' کو خالد کی مدد کے لئے اورعبد بن غوث حمیری '' کو ''عیاض بن غنم ' کی مدد کے لئے بھیجا و۔۔۔۔۔۔۔(تاآخر داستان)
سیف تنہا شخص ہے جس نے خلیفہ ابوبکر کے حکم سے ''عیاض بن غنم '' کی عراق کی طرف عزیمت کی روایت کی ہے اور اس کے اور دوسرے عرب سردار خالد بن ولید کے بارے میں داستانیں گڑھیہیں۔
طبری پہلا عالم ہے جس نے ان افسانوں کو سیف بن عمر نے نقل کرکے اپنی تاریخ کی معتبر کتاب میںدرج کیا ہے .
ابن اثیر اور ابن خلدوں نے بھی انہیں افسانوں کو'' تاریخ طبری سے نقل کرکے اپنی کتابوں میںعراق کے اخبار کے عنوان سے درج کیا ہے ۔

تاریخی حقائق :
سیف نے اپنے افسانہ میں لکھا ہے کہ خلیفہ ابو بکرکے حکم سے ''عیاض بن غنم '' عراق کی طرف روانہ ہوا ۔ اس فوری حکم کے نتیجہ میں اس کے سپاہیوں کی تعداد گھٹ گئی اور وہ مدد طلب کرنے پر مجبور ہوا ۔ خلیفہ نے عبدبن غوث حمیری کواس کی مدد کے لئے بھیجا اور قعقاع بن عمرو تمیمی کو خالدبن ولید کی مدد کے لئے بھیجا۔
ان تمام مطالب کو طبری نے سیف سے نقل کیاہے ۔جیسا کہ ہم نے کہا کہ ابن اثیر اور ابن خلدون نے بھی ان ہی مطالب کو ''تاریخ طبری '' سے نقل کرکے اپنی تاریخ کی کتابوں میں درج کیا ہے ، جبکہ حقیقت کچھ اور ہے۔ جنھوںنے سیف کی روایتیں نقل نہیں کی ہیں اور اس کی بات پر اعتماد نہیںکیاہے جیسے ''خلیفہ بن خیاط'' نے اپنی تاریخ میں اور بلا ذری نے ''فتوح البلدان '' میں لکھا ہے :
عیاض بن غنم ''ابوعبیدہ جراح'' کے ساتھ شام کے محاذ پر سرگرم عمل تھا اورکفر کے سپاہیوں سے لڑرہا تھا ۔
شام کے سپہ سالارابو عبیدہ نے مرتے وقت عیاض کو اپنا جانشین مقرر کیا اور خلیفہ عمر نے بھی اس انتخاب کی تائد و تصویب کی اور کچھ مدت کے بعد ''جزیرہ '' کی حکومت بھی اسے سونپ دی ۔
عیا ض آخر عمر تک وہاں پر موجود تھا ، اورجزیرہ سے باہر نہیں نکلا۔ اس علاقہ میں چند دیگر جنگوں کے دوران فتحیا بیاں حاصل کرنے کے بعد ٢٠ ھ میں وفات کر گیا ۔
اس حساب سے ، عیاض بن غنم کسی صورت میں ان دنوںعراق کی جنگو ں میں حاضر نہیں ہوسکا ہے۔ بلکہ سیف نے اکیلے اس افسانہ کو خلق کیا ہے اور اس کے لئے ''عبد بن عوف '' یا ''غوث حمیری '' کو رسول خداۖ کے صحابی عنوان سے خلق کیا ہے ۔
ابن حجر نے بھی سیف کی روایتوں پر اعتماد کر کے اس کے ''عبید بن عوف''کو رسول خداۖ کے تیسرے طبقہ کے صحا بیوں میں شمار کیا ہے اور اس کے حالات لکھے ہیں۔
اس کے علاوہ سیف نے ''مصیخ'' نامی ایک جگہ کو بھی خلق کیا ہے تاکہ جغرافیہ کے علماء یا قوت حموی اس قسم کے مکان کے وجود کا اپنی کتاب''معجم البلدان '' میںذکر کریں۔ عبدالمومن نے بھی اپنی کتاب ''مرصدالاطلاع'' میں یاقوت حموی کی بات کو نقل کیا ہے ۔
اس طرح سیف بن عمر جیسے جھوٹے اور زندیقی شخص کا یہ حیرت انگیز جھوٹ اور افسانہ عالم اسلام کے علمی اور تاریخی مصادر ومنابع میں پھیل گیا ہے اور اایک ہزار سال سے زیادہ عرصہ گزر رہا ہے کہ علماء و دانشوروں کو اپنی طرف مشغول کرکے حیرت و تعجب سے دوچار کئے ہوئیہے ۔

مصادر و مآخذ
١۔''اصابہ '' ابن حجر (٣/١٠٠)تیسرا حصہ نمبر :٦٣٩٠
حمیریوں کا نسب
''جمہرہ انساب'' ابن حزم (٤٣٢۔٤٣٩)
٢۔''اللباب'' (٣٢٢)

عیاض کے بارے میں سیف کی روایت
١۔''تاریخ طبری '' (١/٢٠٢٠۔٢٠٢١)
٢۔''تاریخ ابن اثیر '' (٢/٢٩٤)
٣۔''تاریخ ابن خلدون'' (٢/٢٩٥)

عیاض بن غنم کے حالات:
١۔''اصابہ'' ابن حجر (٣/٥٠)

عیاض کی جنگوں کی داستان :
١۔ ''تاریخ خلیفہ بن خیاط'' (١١٠،١٢٠،١٣٠)
٢۔''فتوح البلدان'' بلاذری ۔فلسطین،قنسرین،جزیرہ ، ملطیہ اور موصل کے بارے میں ۔
..............
اُنہی د نوں ، جب اس کتاب کی پہلی جلد پہلی بار طبع ہو کر علم و دانش کی دنیا میں منظر عام پر آئی ، لکھنے والوں کے قلم ، اور دانشوروں کے نظریات، اخبارو مجلات اورحتی بعض اسلامی ممالک کے ذرایع ابلاغ حرکت میں آگئے اور اس سلسلہ میں بحث اور اظہا ر نظر کرنے لگے ۔ لیکن علمی بحث و تحقیق میں مصروف ہونے اور دیگر مسائل روز کی وجہ سے یہ فرصت پیدا نہ ہو سکی کہ ان کی تنقید و تحقیق کر کے ان کا جواب دینے بیٹھوں ۔ چونکہ ان سب میں جناب ہادی علوی '' کا مقالہ ۔جو اسی کتاب کے ابتداء میں درج ہو ا ہے ' اہمیت کا حامل ہے ، لہذا مناسب سمجھا کہ اس کے بعض مطالب اور نظریات پر قدرے بحث و تحقیق کی جائے۔