ایک سو پچاس جعلی اصحاب( جلدچہارم )
 

٩٠واں جعلی صحابی غزال ہمدانی
ابن حجر نے اس صحابی کو یوں پہچنوایا ہے :

غزال ھمدانی :
سیف بن عمر نے اس سے ایک شعر نقل کیا ہے کہ جس میں غزال نے ''اسودعنسی '' کی ہجو کی ہے اوراس کے قاتل کی ستائش کی ہے ۔حسب ذیل ہے :
افسوس !کہ ہماری اور ہمارے مردوں کی یہ قسمت نہ تھی کہ ہمارے ہاتھوں وہ ۔ اسود ۔ موت کے گھاٹ اتاراجاتا اور نابود ہوتا !(ابن حجر کی بات کا خاتمہ)
سیف نے اس کے لئے جس نسب کو منتخب کیا ہے وہ ھمدانی ہے کہ یہ ''ھمدان بن مالک ''سے ایک نسبت ہے ۔ جو قبائل قحطان سے بنی زید بن کہلون کا پوتا تھا ۔

غزال ھمدانی کی داستان روایت :
ابن حجر نے جو روایت سیف سے نقل کر کے غزال ھمدانی کے بارے میں درج کی ہے ، اسے طبری نے اپنی تاریخ میں درج نہیں کیا ہے ۔ لیکن اس کے بجائے ١٧ھ کو حوادث کے ضمن میں ایک دوسری روایت سیف سے نقل کرکے اپنی کتاب میں درج کی ہے اور اس میںکہتا ہے :
حلیفہ عمر ابن خطاب نے اس سال ایرانیوں سے جنگی تیاریوں کے ضمن میں مختلف پر چموں کو معروف جنگی افراد کے نام سے وابستہ کیا اور انھیں ابن ام غزال کے ہاتھ ان کے لئے بھیجدیا ۔
اور ٢١ ھ کے حوارث کے ضمن میں ''یزد گرد کے خراسان کی طرف فرار'' کے عنوان سے سیف سے نقل کر کے لکھتا ہے :
احنف بن قیس جب یزد گرد سو مّ ، آخری ساسانی پادشاہ کا پیچھا کرتے ہوئے مروا نشاہ جہا ں '' میں داخل ہوا ، تو کوفہ کی طرف سے ایک فوج چار نامور عرب افسروںکی سرکرد گی میں کہ ان میں سے ایک ''ابن ام غزال ھمدانی '' بھی تھا ، اس کی مدد کے لئے پہنچی۔

افسانہ غزال میں سیف کے اسناد:
طبری کے مطابق سیف نے مندرجہ ذیل ناموں کو راوی کے طور پرپیش کیا ہے :
١۔محمد ، یا محمد بن عبداﷲ بن سواد نویرہ ۔
٢۔ مہلب یا مہلب بن عقبہ اسدی ۔ اور اس سے پہلے ہم نے کہا ہے کہ یہ دونوں راوی سیف کے ذہن کی تخلیق ہیں اور خارج میں وجود نہیں رکھتے .

بحث کا نتیجہ :
غزال ہمدانی کے بارے میں سیف کی روایتوں پر بحث و تحقیق کے بعد یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ابن حجر نے سیف بن عمر کی روایتوں پر اعتماد کیا ہے ۔ یہ جو اس نے کہا ہے کہ غزال نے ایک شعر کہا ہے اور اس میں ''اسود عنسی '' کی ہجو کی ہے اور اس کے قاتل کی ستائش کی ہے ، اس سے اس نے یہ تصور کیا ہے کہ سیف کے غزال ہمدانی نے حضرت ابوبکر کے زمانہ کی ارتداد کی جنگو ں کو دیکھا ہو گا ، لہذا یہ صحابی ہے ! اس لحاظ سے اس نے اس صحابی کو اپنی کتاب کے تیسرے حصہ میں قرار دیا ہے ۔
واضح ہے کہ اگر اس عالم نے سیف کی روایت پر تا ریخ طبری '' میں دقت کی ہوتی تو دیکھ لیتا کہ یہی صحابی خلیفہ عمر کی طرف سے سرداری اور سپہ سالاری کے پر چم لے کر جاتا ہے ، تو بے شک اسے اپنی کتاب کے پہلے حصے میں جگہ دیتا اور صحابیوں کے سرداروں کے زمرے میں قرار دیتا ! اور معروف قاعدہ '' قدماء کی رسم یہ تھی ۔۔۔۔۔'' اس پر لاگو کرکے اس کے حالات مفصل طور پر لکھتا !!

مصادر و ما خذ
٭ غزال ھمدانی کے حالات:
١۔''اصابہ'' ابن حجر (٣/١٨٩) حصہ سوم نمبر: ٦٩٣٥

٭غزال ھمدانی کے بارے میں سیف کی روایت
١۔'' تاریخ طبری '' (١/٢٥٦٩۔٢٦٨٣)

٭قبائل ھمدان کا نسب
١۔ '' جمہرہ انساب'' ابن حزم (٣٩٢۔٣٩٥)

٩١واں جعلی صحابی معاویہ بن انس
ابن حجر اس صحابی کے تعارف میں لکھتا ہے :

معاویہ بن انس سلمی :
سیف بن عمر نے اپنی کتاب ''فتوح'' میں اس کا نام لیا ہے ۔ اور اس نے سہل بن یوسف سے ، اس نے قاسم بن محمد سے نقل کرکے لکھا ہے کہ معاویہ بن انس ان افراد میں سے تھا جس نے پیغمبر خُداۖ کی حیا ت میں پیغمبری کا دعویٰ کرنے والے اسود عنسی سے جنگ کی ہے ۔
(ابن حجر کی بات کا خاتمہ)

اس صحابی کا نسب :
ابن حجر نے اپنی کتاب میںاسے '' سلمی '' معرفی کیا ہے ، اور یہ نام بعض قبائل ''عدنان وقحطان '' سے منسوب ہے ۔ ہمیں یہ معلوم نہ ہوسکا کہ سیف نے اپنے اس صحابی کو ان میں سے کس قبیلہ سے پیدا کیا ہے ۔
یہ بھی قابل ذکر ہے کہ تاریخ طبری '' میں ''معاویہ ابن انس '' کا نام نسب کے ذکر کے بغیر آیا ہے ۔ یہاں سے پتہ چلتا ہے کہ ابن حجر نے اس نسب کو براہ راست سیف کی کتاب سے نقل کیا ہے ۔

معاویہ انس کی روایت اور داستان :
جو کچھ ابن حجر نے ''معاویہ انس'' کے حالات اس کے تعارف میں سیف کی کتاب فتوح سے نقل کیا ہے ، طبری نے اس کو اپنی تاریخ میں درج نہیں کیا ہے ، بلکہ اس نے ١١ھ کے حوارث کے ضمن میں سیف سے نقل کرکیے ایک روایت میں یمن کے مرتدوں کا ذکر نے اور رسول خداۖ کے '' مکہ ، طائف ، عک ، اشعر یین اور صنعاء میں موجود آنحضرت ۖ کے گماشتوں اور کارگزاروں جن میں بعض جعلی اصحاب بھی نظر آتے ہیں۔ کا نام لینے کے بعد لکھا ہے :
رسول خداۖ کی حیات کے زمانہ میں اسود صنعا میں داخل ہوا ۔ رسول خداۖ نے چند سفیروں کو بھیج کر اور چند سفیروں کو خطوط لکھ کر اسودکامحاصرہ کرایااور سر انجام اسود قتل کیا گیا اور علاقہ میں امن وامان بر قرار ہوا ۔
اس کے بعد طبری سیف سے نقل کرکے اس داستان کو یوں لکھتا ہے :
اسود کے قتل ہونے کے بعد اس کے سپاہی '' نجران '' اور '' صنعا '' کے درمیان آشفتہ حال اور دربدر ہوئے، نہ کسی کو پناہ گاہ پاتے تھے اور نہ کوئی انھیں پناہ دیتا تھا اور نہ کوئی ان کی حمایت کرنے پر حاضر تھا ۔ تا وقتیکہ رسول خداۖ کی رحلت کی خبر اس علاقہ میں پہنچی تو یمن اور اس کے شہر بغاوتوں اور اضطراب سے دوچار ہوئے ۔ اس اثناء میں عمروبن معدی کرب سرزمین ''قروة بن مسیک '' میں اور معا ویہ بن انس اسود عنسی کے فرار یوں کے درمیان رفت و آمد میں مشغول تھے ،ابوبکر نے رسول خداۖ کی پیروی کرتے ہوئے سفراء کو ا روانہ کرنے اور خطوط لکھنے کا سلسلہ شروع کیا تاکہ یمن مرتدوں کے خلاف کاروائی کرے اور یہاں تک کہ اسامہ بن زید واپس لوٹا اور۔۔۔۔۔۔(تاآخر داستان)

افسانہ ٔ معاویہ میں سیف کے اسناد:
'' تاریخ طبری '' اور ابن حجر کی ''اصابہ '' میں معاویہ کے حالات کی تشریح میں سیف کی کتاب ''فتوح '' سے ''سہل بن یوسف '' اس داستان کا راوی ہے ۔ سیف نے اس کو سلمی اور انصار کہا ہے ۔ جیسا کہ ہم نے اس سے پہلے بارہا کہا ہے کہ اس قسم کاراوی حقیقت میں وجود نہیں رکھتا ہے اور یہ سیف بن عمر کی خیالی تخلیق ہے ۔

افسانہ ٔ معاویہ سے سیف کا مقصد :
سیف نے اسود کے قتل ہونے کے بعد اپنے افسانوں میں یمانیوں پر دو بار مرتد اور اسلام سے منحرف ہونے کی تہمت لگائی ہے ۔ سیف کی نظر میں ان کاپہلا ارتداد وہی تھا جس پر بحث ہوئی ان کے دوسرے ارتداد کا ذکر شہر ''ذویناف '' یا ''ذویناق '' کی روایت کے سلسلہ میں گزرا ہے ۔
سیف نے ان دو ارتدادوں کے سلسلہ میںیمانیوں پر جھوٹی تہمت لگائی ہے ، اس طرح اس نے ، ماہروں ، فوجیوں ، افسروں کو نصب کرنے ، ضروری احتیاط برتنے،بر وقت اقدامات اور نرم رویہ اپنانے، جنگی میدانوں میںحکمت عملی اور سرکوبی وغیرہ جیسے کارنامے بیان کرکے رجزخوانیاں کی ہیں۔سیف تنہا شخص ہے جس نے یمانیوں کے دوبار مرتد ہونے کی روایت کی ہے ، اور اس سلسلہ میں تمام روایتوں اور افسانوں کو گڑھ لیا ہے ۔ وہ اسلام اور اس کی تاریخ کے خلاف انجام دئے گئے اپنے اس ظلم میں اچھی طرح جانتا تھا کہ کہاں پر کس طرح ضرب لگائے !
وہ اس طرح کے حوارث کی تشریح میں واقعی اورجعلی اصحاب دونوں کی ستائش کرتا ہے اور ان کے بارہ میں ایسی باتیں کہنا اور علما ء اورمورخوںکو ان کی شجاعت وجواں مردی ، دلیری ، کارناموں ، حکمت عملی اور ان کی دور اندیشی کے مقابلہ میں اس حد تک تعجب میں ڈالتا ہے کہ وہ ان اصحاب کے مناقب و اوصاف سے چشم پوشی نہیں کر سکتے ۔لہذا وہ مجبور ہو کر اس کے ان افسانوں کو اپنی کتابوں میں بعض تفصیل سے اور بعض خلاصہ اور اشارہ کے طور پر درج کرتے ہیں ۔
اس قسم کے علماء میںامام المورخین طبری ہراول دستے کی حیثیت رکھتا ہے سیف کی تمام روایتوں کو نقل کرکے اس نے پورے حوصلہ اور فراغت سے اپنی کتاب میںدرج کرتا ہے ۔
طبری کے بعد ابن اثیر ، ابن کثیر اور ابن خلدون نے بھی جو کچھہ طبری نے سیف سے نقل کیا ہے ، انہوں نے اس سے نقل کرکے اپنی تاریخ کی کتابوںمیں درج کیاہے !
اس ترتیب سے ارتداد کی جنگجوں سے مربوط روایتیں ، خاص کروہ جنگیں جو اصل'' میںوجود میں ہی نہیں آئی ہیں ، سیف بن عمر کی زبان سے نقل ہو کر !اسلام کی معتبر اور گرانقدر کتابوں کے متون میں درج ہو کر زبان زد خاص وعام ہوئی ہیں ۔ ان علماء کے سیف سے اس قسم کے مخلصانہ تعاون کے نتیجہ میں ، سیف اپنی مرضی کے مطابق اسلام کو پہنچوانے کے اپنے مقصد میں کامیاب ہوا ہے ۔ کیونکہ سیف کی باتوں سے مجموعی طور پر یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اسلام تلوار کی ضرب اور بے گناہوں کے خون کی ہولی کھیلنے سے مستحکم ہو کر پھیلا ہے نہ یہ کہ اس نے اپنے پیرؤ ں کے دلوں میں اثر کر کے استحکام حاصل کیا ہے !! اور یہ وہ بہترین حربہ ہے جو سیف نے اسلام کے دشمنوں کے ہاتھ دیا ہے تاکہ وہ اسے دلیل کے طور پر پیش کریں اور اس سے دین اسلام پر کاری ضرب لگائیں ۔ کیا سیف اس کے علاوہ کوئی اور زچیز چاہتا تھا؟
ابن حجر نے بھی ان ہی مطالب سے متاثر ہو کر اور سیف کی اس قسم کی روایتوں کی طرف رجوع کر کے اس کے جعلی اصحاب کے حالات پر اپنی کتاب ''اصابہ '' میں روشنی ڈالی ہے ، اس ''طرح معاویہ بن انس '' کے حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے اسے اپنی کتاب کے پہلے حصہ کے صحابیوں میں درج کیا ہے ۔

مصادر و ما خذ
٭معاویہ بن انس کے حالات:
١۔ ''اصابہ '' ابن حجر (٣/٤١٠)حصہ اول نمبر: ٨٠٦٠

٭یمانیو ں کے ارتداد کے بارے میں سیف کی روایت :
١۔'' تاریخ طبری'' (١/١٩٨٢۔١٩٨٤)
٢۔ ''تاریخ ابن اثیر '' (٢/٢٨٦۔٢٨٧)
٣۔''تاریخ ابن کثیر'' (٦/٣٣١)
٤۔''تاریخ ابن خلدون'' (٢/٢٧٤)

٭سلمیوں کا نسب:
١۔ ''اللباب'' (٥٥٣۔٥٥٤)

٩٢واں جعلی صحابی جراد بن مالک
ابن حجر اس صحابی کے حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتا ہے :

جراد بن مالک نویرہ :
سیف بن عمر نے اپنی کتا ب ''فتوح '' میں اس کانام لے کر لکھا ہے کہ وہ اپنے باپ مالک نویرہ کے ساتھ قتل ہوا ہے ۔ اس کے چچا '' متمم '' نے چند غمناک اشعار میں اس کا سو گ منایا ہے ۔
ہم انشاء اﷲ جلدی ہی حرف ''م'' کی وضاحت میں اس کے حالات اور مالک نویرہ کے قتل ہونے کی داستان پر روشنی ڈالیں گے ۔(ز)(ابن حجر کی بات کا خاتمہ)

سیف کے اس صحابی کا نسب :
سیف نے ''جراد'' کو خلق کر کے اسے ''مالک نویرہ تمیمی ''یر بوعی سے جوڑ دیا ہے . جیسے اس نے ''ام قرفہ صغری'' کو خلق کرکے اسے ''مالک بن حذیفہ فزاری اسے نسبت دے دی ہے ۔ یا جس طرح ''سہل بن مالک انصاری '' کو خلق کر کے اسے '' کعب بن مالک انصاری '' خزر جی سے نسبت دے دی ہے ، یا یہ کہ خلید کو خلق کرکے ''منذر بن ساوی عیدی'' تمیمی سے جوڑ دیا ہے یا اسی طرح اس کے دوسرے صحابہ وغیرہ صحابہ وغیرہ۔!!

روایت کے استاد:
ابن حجر نے جراد بن مالک نویرہ '' کے بارے میں سیف کی روایت کے ماخذ کا ذکر نہیں کیا ہے تاکہ ہم اس پر بحث کرتے ۔ لیکن مالک نویرہ کے قتل ہونے کی روایت کو ہم نے کتاب '' عبداﷲابن سبا ' کی پہلی جلد میں درج کیا ہے اور اسی کتاب کی دوسری جلد میں بھی اس واقعہ کے بارے میں بیشتر مطالب کی طرف اشارہ کر چکے ہیں (١)
یہ بھی قابل ذکر ہے کہ جن منابع میں مالک نویرہ کے قتل کئے جانے کی روایت موجود ہے ، ان میں اس کے ''جراد '' نامی بیٹے کا کہیں کوئی ذکر نہیں ہے ، جس کے بارے میں سیف کہتا ہے کہ اپنے باپ کے ساتھ ماراگیا ہے ۔
یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ طبری اور دوسرے علماء کے درمیان، جنہوں نے اپنی کتابوں میںسیف کی روایتوں کو نقل کرنے میں پہل کی ہے ، ان میں سے ابن حجر کے علاوہ کسی عالمنے اس قسم کی روایت کو سیف بن عمر سے اپنی کتاب میں نقل نہیںکیا ہے ۔

افسانہ کا نتیجہ:
ابن حجر نے سیف کی اس روایت پر اعتماد کرکے' کہ جراد کو ارتداد کی جنگوں میں اپنے باپ مالک نویرہ کے ساتھ قتل کیاگیا ہے ، اس کے لئے اپنی کتاب ''اصابہ '' میں مخصوص جگہ معین کی ہے اور اسے رسول خداۖ کے صحابی کے عنوان سے ذکر کیا ہے ۔
..............
١۔عبداﷲابن سباء تالیف مؤ لف محترم (١/١٥٠۔١٥٣)و (٢/٣٠٦۔٣٠٧)
جلیل القدر عالم ''سید شرف الدین عاملی '' نے بھی ابن حجر کی روایت پر اعتماد کرکے مغالطہ کا شکار ہو کر '' جراد بن مالک نویرہ '' کو من جملہ اصحاب جانتے ہوئے اسے شیعہ اور پیرو امیرالمؤ ممنین علی بن ابیطالب جانا ہے ۔
اس دانشمند نے اس نتیجہ کو اس لئے اخذ کیا ہے کہ ابن حجر نے کہا ہے کہ جراد کو اپنے باپ مالک نویرہ کے ہمراہ قتل کیا گیا ہے ۔چونکہ مالک نویرہ کا قتل خلافت ابوبکر سے مخالفت اور امیرالمؤمنین حضرت علی کی خلافت کی حمایت کی وجہ سے انجام پایا تھا ، اس لئے ناگزیر طور پر اس کا بیٹا جراد من جملہ اصحاب وشعۂ امام تھا ۔ علامہ سید شرف الوبن کی بات ان کی گراں قدر کتاب ''فصول المھمہ '' کے حصہّ دوّم میں حرف ''ج کے تحت بعینہ یوں لکھی ہے :
''جراد بن مالک بن نویرہ تمیمی ، جو ''بطاح '' کی جنگ میں اپنے باپ کے ساتھ قتل کیا گیا ہے ،اوراس کے چچا '' متمم''نے اس کا سوگ منایا ہے '' سید شرف الدین نے نہ صرف یہاں پر اپنی روایت کے مصدر کا ذکر نہیں کیا ہے بلکہ انہوںنے کہیں پر بھی اصحاب شیعہ و پیروان امیرالمؤمنین کے تعارف میں اپنی روایت کے مصدر و مآخذ کو مشخص نہیں کیاہے ۔ اور اپنی بات کے آغاز میں اس سلسلے میں کہتے ہیں:
جو کچھ نادان اور بیوقوف لوگ شیعوں کے بارے میں لکہتے ہیں یاتصور کرتے ہیں اس کاربط شیعوں سے کہا ں ہے؟انہوں نے ۔جیسا کہ ''استیصاب ''''اسد الغابہ'' اور ''اصابہ'' جیسی کتابوں میں آیا ہے' مکتب امیر المومنین کی پیروی کرتے ہوئے ایسے بزرگ اصحاب کی اقتداء کی ہے کہ موضوع کی اہمیت کے پیش نظر اور اپنے مدارک کی تکمیل کے لئے ہم بعض ایسے ا صحاب رسول خداۖ کے نام نقل کرتے ہیں جو امیر المومنین کے شبہ بھی شمار ہوتے ہیں۔ اس کے بعد شبہ شرف الدین حروف تہجی کی بنیاد پر ایسے اصحاب کے نام ذکر کرتے ہیں کہ ہم نے جراد کے حالات حرف (ج) میں ذکر کئے ہیں۔
یہ عالم صرف (ط) کے ذیل میں ''طاھر ابو ھالہ تمیمی'' کو بھی جو سیف ابن عمر کا جعلی کردہ ہے شیعان علی میں تصور کیا ہے' سیف کے خیالی (جعلی جو شیعان امیر المومنین شمار ہوتے ہیں ان کی تعداد صرف ان دو (جرادو ظاہر) پر تمام نہیں ہوتی جنہیں عالم بذرگوارسعید شرف الفین نے کتاب ''فصول المھمہ'' میں آکر کیا ہے۔
شیخ طوسیٰ علی اللہ مقامہ نے اپنی کتاب ''رجال'' میں قعقاع بن عمرو تمیمی'' کو بھی امام کے شعبوںمیں جانا ہے۔
ان کی پیروی میں علماے رجال نے ہمارے زمانہ تک سیف کی ان خیالی مخلوقات اسی طرح پہچانا ہے۔ ''مامقانی'' نے بھی سیف کے ''زیاد بن حنظلہ تمیمی''کو اپنی کتاب ''تنقیح المقالی'' ،میں شیعہ علی کے طور پر درج کیا ہے پس نافع بن اسود تمیی '' بھی سزا وار تر ہے کہ شیعہ علی شمار کیا جائے ،کیونکہ سیف بن عمر نے اسے صفین کی جنگ میںاہم کردار سونپا ہے اور اس کی زبانی ایک زیباشعر بھی کہا ہے۔
اس قسم کے اصحاب کو جیسا کہ ہم نے اپنی جگہ پر ان کے بارے میں وضاحت کی ہے ، خدا نے ابھی تک خلق نہیں کیا ہے کہ پیرو امیرالمومنین ہوں یانہ ہوں بلکہ یہ سب زندیقی سیف بن عمر کے خیالات کی مخلوق ہیں کہ اس نے انھیں اپنے خاندان تمیم سے رسول خداۖ کے صحابی کے طور پر خلق کیا ہے ۔ اور ایک ہزار سال سے زیادہ عرصہ گزررہا ہے کہ اس نے عالم اسلام کے علماء و دانشمندوں کواپنے جعل کئے گئے افسانوں میں مشغول و حیران کررکھاہے ۔ ہم نہیں جانتے کہ یہ حیرت اور پریشانی کب تک جاری رہے گی! کیا علما اور دانشور حضرات اس بات کی اجازت دیں گے کہ ہم سیف کے اس قسم کے جعلی اصحاب کو رسول خداۖ کے اصحاب کی فہرست سے نکال باہر کریں؟ یا پھر وہ اسی بات پر قائم رہنا چاہتے ہیں کہ آنحضرتۖ کے اصحاب میں ایسے صحابیوں میں ایسے اصحاب کا اضافہ ہوتارہے جن کو ابھی خدا نے پیداہی نہیں کیا ہے اور یہ تاریخ و رجالی کتابوں میں بدستور درج ہوتے رہیں ؟!

مصادر و مآخذ
جراد بن مالک نویرہ کے حالات:
١۔ ''اصابہ '' ابن حجر (١/٢٦٠٠) تیسرا حصہ حرف ''ج''
٢۔ ''فضول الحھمہ '' سید شرف الدین ۔ طبح نجف ١٣٧٥ ھ مقصد دوم حصہ دوم (١٧٧ ۔١٧٨)

قعقاع بن عمرو کے حالات:
١۔'' اصابہ ابن حجر '' (٣/٢٣٠) نمبر: ٧١٢٩
٢۔تاریخ طبری (١/٣١٥٦) و ( ١/٣٠٠٩۔٣٠١٣)و (٣٠٨٨)و(٣١٤٩)و(٣١٥٠)
٣۔''تاریخ ابن اثیر '' (٣/١٧٠۔٢٧١)
٤۔''تاریخ ابن کثیر'' (٧/١٦٧)
ٍٍٍ ٥۔''تاریخ ابن خلدون' (٢/٤٢٥)
٦۔١٥٠صحابی ساختگی (١/١٢٩۔٢٧٠)

ٍٍ طاہر ابو ہالہ کے حالات:
١۔''اصابہ '' ابن حجر (٢/٢١٤)
٢۔١٥٠ صحابی ساختگی (٢/٢٥٣۔٢٦٦)

زیاد بن حنظلہ کے حالات:
١۔''تاریخ طبری '' (١/٢٦٣٥و٢٩٠٣و٢٣٩٥و٢٤١٠)
٢۔''١٥٠صحابی ساختگی '' (٢/١١٣۔١٣٤)

نافع بن اسود کے حالات:
١۔''اصابہ '' ابن حجر (٣/٥٥٠) تیسرا حصہ نمبر:٨٨٥٠
٢۔١٥٠صحابی ساختگی (٢/٧٧۔٩٦)