ایک سو پچاس جعلی اصحاب( جلدچہارم )
 

ساتواں حصہّ:
حضرت ابوبکر کی جنگوں میں شرکت کرنے کے سبب بننے والا اصحاب
٨٧۔سیف بن نعمان لخمی
٨٨۔ ثمامہ بن اوس طائی
٨٩۔مہلہل بن زید طائی
٩٠۔غزال ھمدانی
٩١۔معاویہ بن آنَس سلمی
٩٢۔جرادبن مالک تمیمی
٩٣۔عبد بن غوث حمیری
حضرت ابو بکر کی سپاہ کو مدد پہنچانے کے سبب بننے والے اصحاب۔
٧٩واں جعلی صحابی سیف بن نعمان
اس صحابی کو ابن حجر نے اپنی کتاب ''اصابہ '' میں یوں پہچنوایا ہے :

سیف بن نعمان لخمی :
سیف بن عمر نے اپنی کتاب ''فتوح '' میں لکھا ہے کہ ''سیف بن نعمان '' نے حضرت ابوبکر کی خلافت کے اوائل میں ''اسامہ بن زید'' کیساتھ ''بنی جُذام'' کی جنگ میں شرکت کی ہے اور اس کے کچھ اشعار بھی درج کئے ہیں (ز)(ابن حجر کی بات کا خاتمہ)

اس صحابی کا نسب :
سیف بن عمرنے اس صحابی کو ''لخمی '' خلق کیا ہے کہ یہ '' بنی زید بن کہلان کے ابن سبأ کے مالک بن عدّی '' کے '' لخم ''سے نسبت ہے ۔ لخم و جذام دو قبیلے تھے اور یمن میں زندگی بسر کرتے تھے۔

سیف بن نعمان اور بنی جذام کی جنگ:
اسامہ بن زید کی جُذام سے جنگ کی خبر ١١ھکے حوارث کے ضمن میں تاریخ طبری میں آئی ہے لیکن اس میں سیف بن عمر کے خلق کئے گئے اور منظور نظر سیف بن نعمان کا کہن نام و نشان نہیں ہے ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ابن حجر نے اس صحابی کے حالات کو بلا واسطہ سیف بن عمر کی کتاب ''فتوح '' سے نقل کیا ہے اور طبری نے اسے نقل نہیں کیا ہے۔
اس کے علاوہ سیف بن نعمان کا نام ابن حجر کی کتاب ''اصابہ '' کے علاوہ اسلامی منابع و مصادر کی کسی اور کتاب میں نہیں پایا جاتا ہے ۔ اس لئے قاعدہ کے مطابق ہم نے اس سیف بن نعمان لخمی کو سیف بن عمر کے جعلی اصحاب میں شمار کیا ہے ۔ ابن حجر نے سیف بن نعمان لخمی کو اپنی کتاب کے تیسرے حصہ میں قرار دیا ہے کیونکہ سیف بن عمر نے کہا ہے کہ اس نے ابو بکر کی خلافت کے اوائل میں جذامیوں کی جنگ میں شرکت کی ہے !
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ سیف کا ''سیف بن نعمان لخمی'' '' سیف بن نعمانی'' سے الگ ہے کہ بخاری نے اپنی تاریخ میں اس کے حالات پر روشنی ڈالی ہے اور جس سیف کا بخاری نے نام لیا ہے وہ ''تابعین '' کے شاگردوں میںسے تھا نہ یہ کہ خود صحابی ہوتا ۔

مصادر و مآخذ.
سیف بن نعمان لخمی کے حالات:
١۔''اصابہ'' ابن حجر (٢/١١٨) تیسرا حصہ نمبر:٣٧٢٦

خاندان لخمی کا نسب:
١'۔'اللباب'' (٣/٦٨)

اسامہ بن زید کی جذا میوں سے جنگ:
١۔تاریخ طبری (١/١٨٧٢)

سیف بن نعمان ، شاگرد و پیرو تابعین کے حالات:
١۔تاریخ بخاری (٢/١٧٢) دوسرا حصہ نمبر:٢٣٧٠

٨٨واں جعلی صحابی ثمامہ بن اوس
ابن حجر اس صحابی کے تعارف میں یوں لکھتاہے :

ثمامہ بن اوس بن ثابت بن لام طائی :
سیف بن عمر نے اپنی کتاب''فتوح'' میں اس کا ذکرکیا ہے اور لکھا ہے کہ حضرت ابوبکر کی خلافت کے دوران جب '' ضرار بن ازور'' طلیحہ'' سے نبرو ازما تھا ، ثمامہ بن اوس'' نے اسے یعنی ضرار کو حسب ذیل مضمون کا ایک پیغام بھیجا ہے :
میرے ساتھہ'' جلدیلہ'' کے پانچ سو جنگجو ہیں۔۔۔۔۔(تاآخرداستان)
اس مو ضوع سے یہ مطلب نکلتا ہے کہ اس نے جاہلیت کا زمانہ دیکھا ہے ۔(ز) (ابن حجر کی بات کا خاتمہ)
مذکورہ داستان کہ جس کے بارے میں ابن حجر نے صرف ایک اشارہ کیا ہے ، طبری نے ١١ ھ کی روداد کے ضمن میں '' طلیحہ سے ملحق ہونے کے بارے میں غطفان کی باقی خبر کو'' کے عنوان سے کہ جب وہ طلیحہ سے ملحقہ ہوئے ہیں ''عمارة بن فلان اسدی '' کے ذریعہ سیف سے نقل کر کے اپنی تاریخ میں حسب ذیل درج کیا ہے :
جب طلیحہ اسلام سے منہ موڑ کر مرتد ہو ا ، تو رسول خداۖ نے ''ضرار بن ازور '[ کو مأ مور کیا کہ بنی اسد '' میں آنحضرتۖ کے کارگزاروںسے رابط قائم کرکے انھیں طلیحہ کی بغاوت کو سر کو ب کرنے کے لئے آمادہ کرے ۔
رسول خداۖ کے اشارہ پر طلیحہ سے جنگ کرنے کے لئے ایک سپاہ آمادہ ہوئی اور مسلمانوں نے ''واردات'' کے مرتدوں اور ''سمیرا'' مشرکوں کو سر کوب کرنے کے لئے مور چے سنبھالے۔ دوسری طرف ذوالخمار بن عوف جذمی '' اور اس کے ساتھی بھی ''طلیحہ '' کے مقابلہ میں کھڑے ہوگئے ۔
اسی اثنا ء میں '' ثمامہ بن اوس بن لام طائی '[ نے اس کے لئے پیغام بھیجا کہ:
میرے ساتھ ''جدیلہ '' کے پانچ سو جنگجو ہیں ، اگر کوئی مہم پیش آئے اور تمہارے لئے کام مشکل ہو تو ہم ''قردودہ یا النسر '' کی بلندیوں کے نذدیک مورچے سنبھالے ہوئے ہیں اور ہر لمحہ تمہاری مدد کے لئے تیار ہیں ۔
ہم اس بحث پر دوبارہ روشنی ڈالیں گے ۔

٨٩واںجعلی صحابی مہلہل بن زید
ابن حجر نے اس صحابی کا یوں تعارف کر ایا ہے :

مہلہل بن زید الخیل طائی :
''طی '' کی طرف سے رسول خداۖ کی خدمت میں پہنچنے والے نمایندوں میں اس صحابی کا نام دکھائی نہیں دیتا ہے .، بہر حال سیف بن عمر نے اپنی کتاب ''فتوح '' میں اس کا نام لیا ہے اور لکھا ہے کہ جب ''ضرار بن ازور'' پیغمبری کے مدعی ''طلیحہ '' سے لڑ رہا تھا ، ''مہلہل بن زید صا ئی '' نے اس کے لئے پیغام بھیجا ہے کہ اگر طلیحہ سے جنگ میں مشکل سے دو چار ہوئے تو ہمیں اطلاع دینا ہم ، عرب جنگجوؤ ں کے ہمراہ ''اکناف ''،'' قید'' کے کنارے پر مورچے سنبھالے ہوئے ہیں ، اور تمہاری مدد کے لئے حاضر ہیں۔
یہ مطلب اس بات کی دلیل ہے کہ اس صحابی' مہلہل بن یزیدنے رسول خداۖ کا زمانہ دیکھا ہے ،کیونکہ ''طلیحہ '' کی داستان ابوبکر کے زمانہ میں پیش آئی ہے اور اس کا باپ یزید الخیل بھی معروف صحابی ہے ۔ (ابن حجر کی بات کا خاتمہ )
مہلہل بن زید کا نام سیف کی ایک دوسری روایت میں ٢٢ھ کے حوارث کے ضمن میں ''تاریخ طبری '' میں آیا ہے ۔ طبری نے اس روایت میں سیف سے نقل کر کے لکھا ہے :
''نعیم بن مقر ن '' نے علاقہ ''دستبی'' کے نظم و انتظا م کوفہ کے سردار وں''عصمتہ ابن عبداﷲضبّی'' اور ''مہلہل بن زید طائی '' میں تقسیم کیا اور ۔۔۔ (یہاں تک کہ کہتاہے :)
یہ لوگ ( یعنی عصمتہ ابن عبداﷲ اور مہلہل ) پہلے حاکم تھے جو علاقہ دستبی سے ''دیلمیوں '' سے جنگ کے لئے اٹھے ہیں ۔
یہ بات قابل بیان ہے کہ ''اسدالغابہ '' تجرید '' اور اصابہ '' میں '' مسلمہ البضی '' کی روایت کی بناپر ایک اور ''مہلہل '' کے حالات کی تشریح ملتی ہے کہ ابن حجر نے اس کی پہچان کے سلسلے میں لکھا ہے :
اس صحابی کو پہچنوانے کے سدمہ میں ایک ایسے راوی کانام ملتا ہے جو سخت مجہول اور نامعلوم ہے !
اس لحاظ سے ابن حجر کی کتاب ''اصابہ '' میں رسول خداۖ کے صحابی کے عنوان سے دو مہلہل دکھائی دیتے ہیں جو حسب ذیل ہیں :
١۔ مہلہل طائی ، کہ ابن حجر نے اس کے حالات کی تفصیل سیف بن عمر سے نقل کی ہے ۔
٢۔مہلہل مجہول النسب : اس کے حالات کی تشریح ایک مہجول اور نا معلوم راوی سے نقل کی گئی ہے ۔

ثمامہ و مہلہل کے بارے میں ایک مجموعی بحث
ہم دوبارہ اصل داستان کی طرف پلٹتے ہیں:
طبری نے ١١ھ کے حوادث کے ضمن میں سیف بن عمر سے نقل کرکے لکھا ہے کہ جب طلیحہ مرتد ہوا اور اس نے پیغمبری کا دعویٰ کیا ، تو رسول خداۖ نے '' ضراربن ازور '' کو حکم دیا کہ قبائل بنی اسد میں آنحضرت ۖ کے کارگزاروں اورگماشتوں سے رابطہ برقرار کرکے انھیں طلیحہ کی بغاوت کو کچلنے کے لئے آمادہ کرے ۔
رسول خداۖ کے حکم سے مسلمان آمادہ ہو کر طلیحہ سے لڑنے کے لئے باہر نکلے اور انہوں نے ''واردات'' کے مقام پر اور مشرکوں نے ''سمیرا'' کے مقام پر مورچے سنبھالے ۔ ''ذوالخمار بن عوف جذمی '' نے طلیحہ کے مقابلے میں اپنی سپاہ کو لا کھڑا کیا تھا۔
اسی اثنا ء میں '' ثمامہ بن اوس بن لام طائی '' نے ذوالخمار '' کو پیغام بھیجاکہ میں ''جدیلہ '' کے پانچ سو جنگجؤ ئی کے ہمراہ '' قردودہ یا انسر'' کی بلندیوں کے پاس مورچے سنبھالے ہوئے ہوں ، اگر طلیحہ سے جنگ میں کوئی مشکل پیش آئی تو ہم تمہاری مدد کے لئے آمادہ ہیں
مہلہل بن زید نے بھی ذو الخمار کو پیغام بھیجا کہ میرے ساتھ قبیلہ ٔ طے '' غوثی '' کے جنگجو ہیں اور ہم نے ''فید '' کے اطراف میں مورچے سنبھالے ہیں ۔ اگر طلیحہ کے ساتھ تمہیں جنگ میں کوئی مشکل پیش آئی تو ہم مدد کے لئے آمادہ ہیں ۔
سیف نے یہاں پر خصوصی تاکید کی ہے کہ طی کے جنگجو ''ذوالخمار بن عوف '' کے گرد جمع ہو کر اس کے حکم کی اطاعت کررہے تھے ۔

''ثمامہ اور مہلہل '' کے اسناد:
اس سے پہلے کہ ہم سیف کی روایت اور اس کی روایت کو سمجھنے میں ابن حجر کے مغالطہ کے بارے میں بحث کریں ، مناسب ہے کہ پہلے یہ دیکھیں کہ سیف نے اپنے افسانہ کو کن راویوں کی زبان سے جاری کیا ہے اوریہ افسانہ کس طرح اسلامی منابع و مصادر میں درج ہو اہے
سیف نے اپنی روایت کو ''طلحہ بن اعلم اور حبیب بن ربیعہ اسدی سے اور عمارة بن فلانی اسلامی '' سے روایت کی ہے کہ ان میں ''حبیب وعمارہ '' اس کے جعلی راوی ہیں ۔

معتبر منابع میں سیف کا افسانہ:
سیف کی یہی جعلی روایت مندرجہ ذیل جغرافیا کی کتابوں اور رسول خداۖ کے صحابیوں کے حالات پر مشتمل کتابوں میں نظر آتی ہے۔
عالم اسلام کا عفلیم جغرافیہ دان یاقوت حموی اپنی کتاب '' معجم البلدان '' میں لفظ '' اکناف '' کے سلسلے میں لکھتاہے :

''اکناف'':
جب طلیحہ بن خویلد نے پیغمبری کا دعویٰ کیا اور ''سمیرا'' میں پڑاؤ ڈالا۔ مہلہل بن زید طائی نے اس کے لئے پیغام بھیجا کہ میرے ساتھ ''غوث '' کے دلیراور جنگجوہیں ، اگر کوئی مسٔلہ پیش آیا اور کسی قسم ضرورت محسوس کی ، تو ہم نے ''اکناف '' میں ''فید''کے نزدیک مورچے سنبھالے ہیں ۔
حموی نے بھی لفظ ''سمیراء '' کے سلسلہ میں سیف کی اسی روایت کی طرف اشارہ کیا ہے اور مہلہل کے طلیحہ کو مدد کرنے کی روایت کی ہے ۔
اس کے علاوہ وہ لفظ ''قردودہ '' کے بارے میں لکھتا ہے :
جب طلیحہ بن خولید نے پیغمبری کا ادعا کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔( یہاں تک کہتا ہے :)
ثمامہ بن اوس نے پیغام بھیجا کہ میرے ہمراہ جدیلہ کے پانچ سو دلاور جنگجو ہیں اگر تجھہ پر کوئی مشکل گزری اور ہماری مدد کی ضرورت کا احساس کیا تو ہم '' قر دودہ'' میں مورچے سنبھالے ہوئے ہیں . اس طرح حموی جیسا دانشمند اور محقق اپنی گراں قدر کتاب میں دوجگہ پر لکھتاہے کہ مہلہل نے طلیحہ کو پیغام بھیجا اور اپنی اور اپنے ساتھیوں کی طرف سے مدد کرنے کا اعلان کیا ہے .
جبکہ ہم نے دیکھا کہ ابن حجر ثمامہ اور مہلہل کے حالات کی تشریح میں لکھتا ہے کہ ان دوصحابیوں نے ''ضر ار بن ازور ''کے لئے پیغام بھیجا ہے اور طلیحہ سے اس کی جنگ میں مدد کرنے کی پیشکش کی ہے ، جبکہ ان دونوں عالموں نے مغالطہ کیا ہے ، کیونکہ :
تاریخ طبری میں موجود سیف کی روایت میں بالترتیب ''طلیحہ ، ضرار اور ذوالخمار '' کے نام آئے ہیں ۔ اور عبارت ''وَاَرسَلَ اِلَیہِ''جہاں پر سیف کہتا ہے :''واقبل ذوالخمار بن عوف جذمی حتی نذل بازاء طلیحہ و ارسل الیہ۔۔' میں ( اس کی ) ضمیر داستان کے آخری شخص ذوالخمارکی طرف پلٹتی ہے ۔ یعنی ثمامہ و مہلہل نے ''ذوالخمار '' کے لئے پیغام بھیجا ہے اور اپنی طرف سے مدد کی پیشکش کی ہے نہ کہ ضرار یا طلیحہ کے لئے اس کے علاوہ سیف نے افراد ''صیٰ '' کی طرف سے ذوالخمار کو مدد کرنے کی آمادگی کے سلسلہ میں بیان کیا ہے کہ '' طی'' کے جنگجو ''ذوالخمار'' کے گرد جمع ہو کر اس کے حکم کی اطاعت کرنے پر آمادہ تھے ۔
یہ اتفاق اس لحاظ سے پیش آیا تھا کہ جاہلیت کے زمانہ میں قبائل '' بنی اسد ، غطفان اور طی'' کے درمیا ن یکجہی اور ایک دوسرے کے خلاف جنگ نہ کرنے کا ایک معاہدہ طے پا یا تھا ۔ لیکن رسول خداۖ کی بعثت سے پہلے ایک زمانہ میں قبائل بنی اسد اور غطفان طیٰ کے خلاف متحد ہوئے اور ''جدیلہ و غوث '' کے قبیلوں کو ان کے وطن و گھر سے نکال باہر کرکے آوارہ کردیا تھا ۔
قبیلہ عُوف کے افراد نے اس پیمان شکنی سے چشم پوشی کرتے ہوئے غطفان سے جدا ہو کر '' جدیلہ و غوث '' کے قبیلوں کو چلے جانے سے روکا اور ان کے ساتھ دوبارہ عہدو پیمان باندھا اور عملاً افراد ''طی'' سے اپنی مدد کا مظاہرہ کیا ۔بنی طی نے بھی وہا ں سے چلے جانے سے اجتناب کیا اور بدستور اپنی جگہ پر باقی رہے ۔۔۔۔(تا آخر)۔
ہم یہاں پر دیکھتے ہیں سیف نے قبائلی تعصب کے پیش نظر ایسا دکھایا ہے کہ '' جدیلہ '' کے افراد ''ثمامہ بن اوس کے ساتھ اور ''غوثی '' کے دلاورں نے مہلہل بن ''زید کی کمانڈ میں ذوالخمار '' کی مدد کے لئے قبائل طی کو اپنے ساتھ لے کر اپنی آمادگی کا اعلان کیا تھا ، نہ کہ ضرار بن ازور کی مدد کرنے کے لئے جس کی ابن حجر نے صراحت کی ہے ۔

خلاصہ :
سیف تنہا شخص ہے جس نے یہ روایت بیان کی ہے اور ابن حجر نے اس کے ایک حصہ پر اعتماد کر کے ''ثمامہ اور مہلہل '' کے حالات لکھا کر انھیں رسول خداۖ کے صحابیوں کی فہرست میں شمار کیا ہے ۔
یہ دانشمند ثمامہ کے حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے اخذ کرتا ہے کہ اس صحابی نے جاہلیت کا زمانہ دیکھا ہے ۔ اور مہلہل کے حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتا ہے کہ اس صحابی نے رسول خداۖ کا زمانہ دیکھا ہے اور اس حکم کو وہاں سے جاری کرتا ہے کہ ''طلیحہ بن خولید کی داستان ابوبکر کے زمانہ میں پیش آئی ہے ''
اور مہلہل کے حالات کی تشریح کی ابتداء میں کہتاہے :
اس کا نام طی کے نمایندوں میں نہیں پایا جاتا ہے ۔
ان نمائندوں سے ابن حجر کی مراد قبیلہ طی کے منتخب شدہ وہ پندرہ افراد ہیں جو ١٠ھ میں ''زید الخیل اور ''قبیصہ '' کی سرپرستی میں رسول خداۖ کی خدمت میں پہنچے تھے ، اور آنحضرتۖنے زید کا ''زیدالخیر''نام رکھا تھا جو قبیلہ میں واپس آنے کے بعد فوت ہوگیا ۔ ابن حجر نے اسی نسبت سے مہلہل کے حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے :
اس کا باپ زیدالخیل ایک معروف صحابی ہے ۔
زیدالخیل طائی کے بیٹے :
ابن حزم نے اپنی کتاب ''انساب '' میں زید کے بیٹوں کا ذکر یوں کیا ہے:
زیدالخیرکے بیٹے حسب ذیل تھے :

مکنف ، عروہ ، حنظلہ اور حریث
ابن کلبی نے بھی زید کے بیٹوں کا ایک ایک کرکے نام لیا ہے ۔ لیکن ان دو مصادر ۔ انساب ابن حزم و ابن کلبی ۔ اور دیگر معتبر مصادرمیں ''مہلہل بن زید الخیل طائی '' نام کا کہیں کوئی سراغ نہیں ملتا اور اسی طرح قبیلہ ء طیمیں ''ثمانہ بن اوس طائی ' ' نام کا کوئی شخص موجود نہیں ہے
اب رہی، ابو الفرج اصفہانی کی بات جسے وہ اپنی کتاب ''اغانی ''میں در ج کرکے کہتا ہے :
زید کے تین بیٹے تھے ، یہ شب شاعر تھے ، ان کے نام عروہ ، حریث اور مہلہل تھے لیکن لوگ زید کے دوفرزندوں ''عروہ اور حریث '' کے علاوہ اس کے کسی اور بیٹے کے بارہ میں یقین نہیں رکھتے ہیں ۔
معلوم ہو تا ہے کہ ابوالفرج نے اس مطلب کوذکر کرتے وقت سیف کی روایت کو مدنظر رکھا ہے۔

مصادر ومآخذ
٭تمامہ بن اوس طائی کے حالات:
١۔''اصابہ ''ابن حجر (١/٢٠٧) تیسرا حصہ نمبر: ٩٧٨

٭مہلہل بن زید طائی کے حالات:
١۔اصابہ ابن حجر (٣/٤٧٨۔٤٧٩) نمبر:٨٤٧٣

٭مہلہل مجہول النسب کے حالات:
١۔''اسدالغابہ '' ابن اثیر (٤/٤٢٥)
٢۔''تجرید'' ذہبی (٢/٩٩)
٣۔''اصابہ '' ابن حجر (٣/٤٤٧)

٭طلیحہ ،ثمامہ اور مہلہل کی داستان کے بارے میں سیف کی روایت :
١۔''تاریخ طبری '' (١/١٨٩١۔١٨٩٣)،(١/٢١٤٩۔٢٦٥٠)
٭ذید الخیل کا نسب :
١۔''جمہرہ انساب '' ابن حزم (٤٠٣)
٢۔''تلخیص جمہرہ ابن کلبی ''
(٢٦٠) نسخہ فوٹوکاپی کتابخانہ آیتہ اللہ نجفی مرعشی قسم۔

٭طی کے بارے میں ایک تشریح :
١۔تلخیص جمہرہ ابن کلبی (٢٦٠)
٢۔''اغانی '' ابو الفرج افہانی طبع ساسی (١٦/٤٧)

٭طی کے نمایندوں کی داستان :
١۔''تاریخ ابن خلدون'' (٢/٢٥٩)
''اکناف، انسر ،سمیرا اور قردودہ '' کی تشریح:
١۔ ''معجم البلدان '' یا قوت حموی