٨٤ واں جعلی صحابی
معاویہ عذری
ابن حجر نے اپنی کتاب میں لکھا ہے :
معاویہ عذری :
سیف بن عمر نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ابوبکر نے ایک خط میں اسے حکم دیا ہے کہ دین سے منحرف لوگوں اور مرتدوں سے لڑنے میں کسی قسم کی کسر باقی نہ رکھے۔ اور ہم نے بارہا کہا ہے کہ قدما صحابی کے علاوہ کسی اور کو سپہ سالاری کے عہدہ پر منتخب نہیں کرتے تھے ۔(ابن حجر کی بات کا خاتمہ )
اس صحابی کے لئے سیف نے کیا نسب لکھا :
تاریخ طبری اور ''اصابہ '' میں سیف کی روایت کے مطابق اس صحابی کا نسب''عذری'' ہے۔ شہرت کی بنا پر یہ نسبت ''قضاعہ '' کے ایک قبیلہ ''عذرةبن سعد ھذیم ''تک پہنچتا ہے اور سیف کی مراد بھی یہی نسب تھا کیونکہ وہ سعد بن حذیم کے ارتداد کی بات کرتا ہے ۔
لیکن تاریخ ابن عساکر میں یہ نسب ''عدوی'' ذکر ہوا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ یہ غلط ہے ۔
معاویہ عذری کی داستان :
جس روایت کو ابن حجر نے معاویہ ٔ عذری ''کے تعارف میں درج کیا ہے اور ابن عساکر اور طبری نے اسی کو اپنی تاریخ کی کتابوں میں درج کیا ہے ، ہم نے اس کو ''پینتالیسویں جعلی صحابی '' ''عمروبن حکم قضاعی ''١ کے حالات میں بیان کیا ہے۔
سیف کی اس روایت میں آیا تھا:
قبیلہ ٔ سعد ھذیم معاویہ اور اس کے ہم فکروں کا ایک گروہ مر تد ہوگیا۔ ان کے ارتداد کے نتیجہ میں ابوبکر نے ایک خط کے ذریعہ امام حسین کی بیٹی سکینہ کے جدماوری ، ''امرالقیس بن فلان '' اور ''عمروبن حکم '' کو حکم دیا کہ ''زمیل''سے نبردآزما ہونے کے لئے آمادہ ہو جایئں اور اسی قسم کا ایک دوسرا خط مغاویۂ عذری '' کے نام بھیجا۔
اور جب ''اسامہ بن زید ''واپس لوٹ کر ''قبائل قضاعہ ''میں پہنچا تو ابوبکر کے حکم کے مطابق ۔۔ (داستان کے آخر تک )
ابن حجر نے سیف کے اس مختصر جملہ یعنی:معاویہ عذری کو بھی ایسا ہی ایک خط لکھا ہے، پر تکیہ کر کے اس پر لباسِ وجود زیب تن کیا ہے اور طرح اسے رسول خدا ۖ کے صحابیوں کے پہلے دستہ میں شامل کرنے بعد اس کے حالات لکھے ہیں !!
یہ عالم اس تنہانام کو رسول خداۖ کے صحابی کے عنوان سے پہچنوانے کے سلسلے میں یوں
..............
١) ١٥٠ صحابی ساختگی (٣/١٩٥۔١٩٨)
استدلال کرتا ہے کہ ''ہم نے بارہا کہا ہے کہ قدمانے۔۔۔۔تاآخر)
جبکہ ہم نے اس روایت کے صیحح نہ ہونے کے سلسلہ میں حقائق اور تاریخی روداوں سے اس کا موازنہ کر کے اسی کتاب کی ابتداء میں مفصل بحث کی ہے اور اب اس کی تکرار ضروری نہیں سمجھتے ہیں۔
مصادر و مآخذ
معاویہ عذری کے حالات:
١۔''اصابہ '' ابن حجر (٣/٤١٧) حصہ اول نمبر : ٨٠٨٧
سعد ھذیم کے ارتداد کے بارے میں سیف کی روایت:
١۔''تاریخ طبری '' (١/١٨٧٢)
٢۔''تاریخ ابن عساکر '' (١/٤٣٢)
بنی عذرہ کا نسب
١۔''اللبا ب'' (٢/١٢٩)
٨٥واں جعلی صحابی
ایک جعلی صحابی کے دو چہرے
شہر ذویناف (ذویناق)
ابن حجر نے اپنی کتاب ''اصابہ ''میں لفظ''ذیناق'' کے تحت لکھاہے :
اس صحابی کے حالات کی تشریح لفظ ''شہر'' کے تحت کی جائے گی(ز)
اس کے بعد لفظ'' شہر ْ'' کے تحت لکھتا ہے :
''شہر ذویناق'' یمن کا ایک علاقائی فرماں رواتھا ۔ طبری نے اس کانام ایک روایت کے تحت اپنی کتاب میں یوں درج کیاہے :
ابوبکر نے ''عمیر ذومران ، سعید ذی رود اور شہر ذی یناق '' کو ایک خط کے ضمن میں حکم دیا کہ ''فیروز'' کی اطاعت کریں اورمرتدوں کے ایک ساتھ جنگ میں اس کے احکام پر عمل کریں ۔(ز)
ابن حجر کی بات کا خاتمہ )
اب ہم دیکھتے ہیں کہ طبری کی روایت کی داستان کیا تھی ۔
طبری نے اپنی تاریخ میں '' یمانیوں کا دوسرا ارتداد'' کے عنوان سے اور ١١ھ کی روداد کے تحت سیف بن عمر سے نقل کر کے لکھا ہے :
جب رسول خداۖ کی وفات کی خبر یمن کے لوگوں کو پہنچی تو ''قیس بن عبدیغوث مکشوح '' نے سرکشی کرکے ''فیروز، داذویہ ا ورجشیش''کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا ۔
ابوبکر نے ، ''عمرذی مران ، سعید ذی زود، سمیفع ذی کلاع، حوشب ذی ظلیم اور شہر ذی یناف '' کے نام لکھے گئے ایک خط میں اٹھیں اسلام سے متمسک ہونے ، خدا کی اطاعت کرنے اور لوگوں کی خدمت کرنے کی دعوت دی اور وعدہ کیاکہ ان کی مدد کیلئے ایک سپاہ کو بھی بھیجیں گے۔
اس خط کا متن یوں ہے :
ابوبکر ،جانشین رسول خداۖ کی طرف سے ''عمیر بن افلح ذی مران ، سعید بن عاقب ذی زود ، سمیفع ناکورذیکلاع ، حوشب ذی ظلیم اورشہری ذی یناف '' کے نام۔
امابعد، ایرانیوں کی مدد کے لئے جلدی کرو اور ان کے دشمنوں سے لڑو اور انھیں اپنی پناہ میںلے لو ، ''فیروز''کی اطاعت کرو اس کی خدمت کرنے کی کوشش کرووہ میری طرف سے اس علاقہ کا حکمراں ہے .
ابوبکر نے اس خط کو ان سرداروں کے نام اس حالت میں لکھا کہ اس زمانہ میں وہ علاقہ''فیروز، دازویہ ،جشیش اورقیس '' کی باہمی حکمرانی میں تھا ۔ اس کے باوجود ابوبکرنے اس خط کے ذریعہ یمن کی حکومت کاحاکم فیروزکو منصوب کیا اور اس کے اس نئے عہدہ کا یمن کے سرداروں کو اعلان کیا ۔
جب یہ خبر ''قیس کوپہنچی توسخت بر ہم ہوا اور انتقام پر ُاتر آیا ۔ لہذا اس نے ذی کلاع کے نام ایک خط میں لکھا کہ ایرانی خانہ بدوش اور آوارہ لوگ ہیں اورآپ کی سرزمیوں میں سردار بن بیٹھے ہیں اور اگر انھیں فرصت دی جائے تو ہمیشہ آپ لوگوں پر سرداری کرتے رہیں گے۔ میرے خیال میں عقلمندی یہی ہے کہ ہم ان کے سرداروں کو قتل کر ڈالیں اور باقی لوگوں کو اپنے وطن سے نکال باہر کریں
ذی کلاع اور دیگر سرداروں نے اگر چہ قیس کے خط پر کوئی اعتنا نہ کیا لیکن فیروز اور دوسرے ایرانیوں کو بھی اپنے حال پر چھوڑ دیااوران کی کوئی مدد نہیں کی.
قیس نے اکیلے ہی ایرانی سرداروں کو قتل کرکے باقی سب لوگوں کو یمن کی سرزمین سے بھگانے پر کمر کس لی . سرانجام اس مقصد کو پانے کے لئے فرصت کی تلاش میں تھا. بالاخراس نے پیغمبری کے مدعی ''اسود عنسی '' جوکچھ مدت پہلے قتل کیا گیا تھا اور اس کے حامی یمن کے شہروں میں پراکندہ ہوگئے تھے ' ان کو اپنے مقصد کے لئے مناسب جانا۔لہذا اس نے مخفی طور سے ان کے ساتھ رابطہ قائم کیا اور انھیں اپنے گرد جمع کیا .وہ بھی ایک پناہ کی تلاش میں تھے ، قیس کی دعوت قبول کرکے اس کی مدد کرنے کے لئے آمادہ ہو گئے۔ اس مخفیا نہ رابطہ سے کوئی آگاہ نہ ہوا۔
زیادہ دیر نہ گزری تھی کہ یمن کے شہر صنعا میں یہ افواہ پھیلی کہ اسودعنسی کے حامی شہر پر قبضہ کرنے کے لئے آرہے ہیں . اس موقع پرقیس ریاکار نہ طور پر فوراً فیروزاور دازویہ '' کے پاس پہنچا اور خوف و وحشت کے عالم میں موجودہ حالات پران سے صلاح و مشورہ کرنے لگا تاکہ وہ شک نہ کریں کہ اس قضیہ میں اس کا اپنا ہاتھ ہے ۔ اس قدر ریا کاری اور مکاری سے پیش آیا کہ انہوں نے اس کی باتوں پر یقین کر لیااوراس کی رانمہایوئں سے مطمئن ہوگئے ۔
حکومت کا تختہ الٹنے میں قیس کی فریب کاریا ں:
دوسرے دن قیس نے ایک دعوت کا اہتمام کیا اور ''فیروز''داذویہ اور جشیش کو بھی اس میں شرکت کی دعوت دی ۔
داذویہ نے اپنے دو دوستوں سے پہلے قیس کے گھر میں قدم رکھا اور قیس نے بھی فرصت کو غنیمت سمجھ کر بے رحمی کے ساتھ اس کو
فوراً قتل کر ڈالا اور اس طرح اپنی راہ میں موجود رکاوٹوں میں سے ایک کو ہٹا نے میں کامیاب ہوا .
زیادہ وقت نہ گزرا تھا کہ ''فیروز ''بھی آپہنچا ۔ جوں ہی قیس کے گھر کے قریب پہنچا اس نے دو عورتوں کوجن کے مکانوں کی چھتیں ایک دوسرے کے روبرو تھیں یہ کہتے ہوئے سنا :
بیچارہ فیروز!وہ بھی اپنے دوست ''داذویہ'' کے مانند قتل کیا جائے گا!
فیروز یہ باتیں سنکر ہل کے رہ گیا اور فوراً پر وہا ں سے ہٹ گیا ۔
اسی حالت میں جشیش بھی آپہنچا اور رودا د سے مطلع ہوا اوردونوں جلدی سے وہا ں سے بھاگ کھڑے ہوئے ۔
قیس کے محافظوں اور حامیوں کو فیرز اور اس کے ساتھی کے فرار کے بارے میں ذرا دیر سے خبر ملی ۔ انہوں نے ان کا پیچھا کیا
لیکن فیروز اور جشیش بڑی تیزی کے ساتھہ ان سے دور ہو کر ''خولاں'' کے پہاڑ کی طرف بھاگ گئے تھے ،جہاں پر فیروز کے ماموں اور اس کے رشتہ دار رہتے تھے ، انہوں نے ان کے ہاں پناہ لے لی ۔قیس کے سپا ہی بھی مجبور ہو کر واپس لوٹے اور ماجر ا قیس سے بیان کیا ۔
قیس نے کسی مزاحمت کے بغیر صنعا پرحملہ کیا اور اسے بڑی آسانی کے ساتھ فتح کیا اور اس کے اطراف کے علاقوں پر بھی
قبضہ جما لیا ۔اسی اثنا ء میں ''اسودعنسی'' کے سوار بھی مشہرصنعا میں داخل ہوگئے اور قیس کی ہمت افزائی کی .
اس دوران یمن کے لوگوں کی ایک جماعت فیروز کے گرد جمع ہوگئی ۔ اور اس نے بھی ان حالات کے بارہ میں خلیفہ ابو بکر کو رپورٹ بھیجی۔ عام لوگ بھی جن کے سرداروں کے نام ابوبکر نے''فیروز''کی اطاعت کے سلسلے میں خط لکھا تھا ، قیس کے گرد جمع ہوگئے ، لیکن ان کے سرداروں نے اس ماجرا کے سلسلے میں گوشہ نشینی اختیار کی ۔
قیس نے ایرانیوں کی نابودی کا بگل بجادیا اور انھیں تین حصوں میں تقسیم کردیا ۔ ایک وہ گروہ تھا جنہوں نے تسلیم ہوکر اس کی اطاعت اختیار کر لی تھی ،انھیں قیس نے ان کے رشتہ داروں کے ہمراہ پناہ دیدی ۔ اور فیروزکی وفا داری پر باقی رہنے والے لوگوں کو دوگروہوں میں
تقسیم کر دیا۔ ان میں سے ایک گروہ کو عدن بھیجدیا تاکہ وہا ں سے سمندری راستہ سے ایران چلے جائیں ۔ دوسرے گروہ کو براہ راست خشکی کے راستے ایران بھیجدیا اور ان سے کہا کہ اپنے وطن واپس چلے جاؤ۔ دونوں گروہوں کے ساتھ اپنے مامور بھی رکھے۔ (فیروز ) کے بیوی بچوں کو اس گروہ کے ہمراہ بھیجا جنھیں زمینی راستہ سے ایران بھیجدیا گیا تھا اور داذویہ کے رشتہ دار سمندری راستے سے بھیجدئے گئے تھے ۔
فیروز کی قیس سے جنگ:
جب فیروذ،قیس کے اس کام سے آگاہ ہوا تو اس نے قیس سے جنگ کرنے کا فیصلہ کیا اوراس منصوبہ پر عمل کرنے کی غرض سے ''
''بنی عقیل بن ربیعہ بن عامر صعصعہ'' کے پاس ایک قاصد بھیجا اوراس سے مدد طلب کی ، انہوں نے اس کی درخواست منظورکی اور اس کی مدد کے لئے آگئے ۔
ایک اور قاصد کو ''عک '' بھیجا اور عکیوں سے بھی مدد طلب کی ۔ بنی عقیل کے سپاہی جو فیروز کی مدد کے لئے آئے تھے ، ''معاویہ''نامی حلفاء کا ایک شخص ان کا سپہ سالار تھا ۔راستے میں اس گروہ کی اس قافلے سے مڈبھیڑ ہوئی جسے قیس کے کچھ سوار اسیروں کے طور پر ایران لے جارئے تھے ۔ ایک شدید جنگ میں قیس کے تمام سوار مارے گئے اور اسیروں کے خاندان آزاد کرالئے گئے ۔
عکیوں کے سپاہیوں کی بھی راستے میںدوسرے گروہ سے مڈبھیڑ ہوئی اور ان کے درمیان بھی ایک گھمسان کی جنگ کے بعد تمام سپاہی مارے گئے اور ایرانی اسراء آزاد کرالئے گئے ۔
اس فتح و کامرانی کے بعد عقیلی اور عکی جنگجو فیروز کی مدد کے لئے آگے بڑھے۔فیروز بھی ان کی اور دوسرے یمینوں کی مدد سے جو اس سے ملحق ہوئے تھے، قیس سے جنگ کرنے کے لئے باہر نکلا اور شہر صنعاکے باہر قیس کے سپاہیوں سے نبرد آزما ہوا ۔ ان دو فوجیو ں کے درمیان ایک گھمسان کی جنگ چھڑ گئی ۔ یہ جنگ سرانجام قیس اور اس کے ساتھیوں کی برُی شکست پر تمام ہوئی ۔ اس جنگ میں قیس اور اس کے چند رشتہ دار بڑی مشکل سے زند ہ بچ نکلنے میں کامیاب ہوئے ۔
عمر وبن معدی کرب نے ''قیس '' کی سرزنش میں یہ اشعار کہے ہیں :
تم نے صیحح وفاداری نہیں کی بلکہ اس کے برعکس مکروفریب سے کا م لیا ۔ اس دوران ایک تجربہ کار اور سختیاںبرداشت کئے ہوئے شخص کے علاوہ کوئی یہ مشکلات برداشت نہیں کر سکتا ۔ اس حملے سے قیس کیسے افتخار کا تاج اپنے سر پر رکھ سکتا ہے جبکہ اس کا وہی حقدارہے جو اس کاسزاوارہو۔
قیس نے عمروکے طنزاور سرزنش کے جواب میں اشعار کہے :
میں نے اپنی قوم کے ساتھ بے وفائی اور ظلم نہیں کیا ہے ۔
میں نے ان ظالموں کے خلاف ایک جرأتمندفوج تشکیل دی جنہوں نے قبائل ''عمروومرثد'' پر حملہ کیا تھا ۔
میں ایرانیوں کے ساتھ جنگ میں ایک دلیر اورشجاع اور باعزت پہلوان تھا ۔
داذویہ تمہارے لئے فخرو مباہا ت کا سبب نہیں ہے ، وہ ایسا ہے جس نے اس کے ہاں پناہ لی اس کو دشمن کے حوالے کیا ہے ۔
اور فیروز تو اس نے کل تم پر ظلم کیاہے اور تمہارے مال ومنال کو لوٹ چکا ہے اور تمہارے خاندان کو نابود کر چکا ہے ،لیکن آج
اس نے ناتواں اور ذلیل و خوار ہو کر تمہارے ہاں پناہ لے لی ہے !!
طبری اس داستان کے ضمن میں سیف سے نقل کر کے لکھتا ہے :
ابوبکر نے قیس کی گوشمالی اوراسود عنسی کے فراری سپاہیو ں کا پیچھا کرنے کے لئے ''مھاجر بن ابی امیہ ''کا انتخاب کیا ۔ مھاجر بن ابی امیہ ان
سب کو قتل عام کر کے فاتحانہ طور پر صنعا میں داخل ہوا اور قیس کو قیدی بناکرابوبکر کی خدمت میں بھیجدیا ۔ ابوبکر کی نگاہ جب قیس
پر پڑی ، تو انہوں نے پوچھا :
قیس !کیاتم نے خدا کے بندں سے جنگ کی ہے اور انھیں قتل کیا ہے ؟
اور مومنوں و مسلمانو ں کے بجائے دین سے مخرف مرتدوں و کافروں سے دوستی کرکے مدد طلب کی ہے؟
ابوبکر نے فیصلہ کیا کہ اگر داذویہ کے قتل میں قیس کی شرکت ثابت ہوجائے تو اسے قصاص کے طور پر سزائے موت دے گا
لیکن قیس نے پوری طاقت کے ساتھ اس قسم کے بے رحمانہ قتل کے الزام سے انکار کر دیا۔ سرانجام کافی دلائل وثبوت مہیانہ ہونے ٍکی وجہ سے ابوبکر نے قیس کو معاف کردیا اور نتیجہ کے طور پر وہ بھی صیحح وسالم اپنے گھر اورخاندان میں واپس چلاگیا۔(طبری کی بات کا خاتمہ )
اس افسانہ کے راویوں کی تحقیق:
سیف نے اس روایت میں درج ذیل نام بعنوان راوی ذکر کئے ہیں :
١۔ مستینر بن یزید
٢۔عروة بن غزیہ دثینی ۔ ان دو کا نام سند کے طور پر روایت میں دوبار ذکر کیا گیا ہے ۔
٣۔ سہل بن یوسف ۔ روایت میں اس کا ایک بارنام آیا ہے ۔ ہم نے اس سے پہلے بارہا کہا ہے کہ سیف کے یہ تینوں راوی جعلی ہیں اور ان کا حقیقت میں کوئی وجود نہیں ہے ۔
اصل حقیقت:
قیس کی داستان اور اس پر داذو یہ کے قتل کے الزام کے بارے میں بلاذری کی کتاب فتوح البلدان ۔ جس میں سیف ابن عمر سے روایت نقل نہیں کی گئی ہے، میں یوں لکھا ہے :
قیس کو ''داذویہ '' کو قتل کرنے کا ملزم ٹھہر یا گیا ۔ یہ خبر اور یہ کہ وہ ایرانیوں کو صنعاسے نکال باہر کرنا چاہتا ہے اس کی خبر بھی، ابوبکر کو پہنچی۔ ابوبکر اس خبر کو سن کر سخت برہم ہوئے ، اور صنعا میں مامور اپنے کاگزار ''مہاجر بن ابی امیہ'کو لکھا کہ قیس کوفوراً گرفتار کر کے مدینہ بیھجدے ۔
قیس کے مدینہ میں خلیفہ کی خدمت میں پہنچنے کے بعد ابوبکر نے منبر رسول خداۖ کے پاس اسے پچاس بارقسم دی کہ '' اس نے داذویہ کو قتل نہیں کیا ہے ۔''
قیس نے خلیفہ کے حکم مطابق قسم کھائی ، ابوبکر نے بھی اسے چھوڑ دیا اور اس کو دیگر سپاہیوں کے ہمراہ رومیوں سے جنگ کرنے کے لئے شام کے محا ذکی طرف روانہ کر دیا ۔
تاریخی حقائق اور سیف کا افسانہ:
داستان کی حقیقت یہ تھی کہ قیس پر ''داوذیہ'' کو قتل کرنے اور ایرانیوں کو صنعا سے نکال باہر کرنے کی تدبیر کا الزام تھا۔ اس لئے ابوبکر نے اپنے کارگزار کو حکم دیا تھا کہ صنعا میں داخل ہونے کے بعد قیس کو گرفتار کر کے اس کے پاس مدینہ بھیجدے ۔ قیس نے بھی مدینہ پہنچ کر خلیفہ کے پاس قسم کھائی کہ داذویہ کے قتل میں اس کا دخل نہیں تھا ۔ اورخلیفہ نے اسے جنگ کے لئے شام بھیجدیا۔ قیس کی پوری روایت یہی تھی اور بس!
لیکن، سیف اپنی تخلیق توانائی سے استفادہ کرتے ہوئے اس مختصر اور جھوٹی داستان کے شاخ وبرگ نکال کراسے ایک طویل افسانہ میں تبدیل کر دیتا ہے . اور اسے ارتداد کے دوسرے افسانوں کے ساتھ بڑی آب و تاب کے ساتھ '' یمنیوں کے دوسرے ارتداد'' کے عنوان سے اپنی کتاب میں درج کرتا ہے ۔
وہ اپنے افسانہ میں سب سے پہلے قیس کو ابوبکر کے فیروز کو یمن پر حاکم منصوب کرنے کے حکم کے نتیجہ میں فیروز،جشیش اور داذویہ کے خلاف اکساتا ہے اور اس کے بعد منظر کشی کرکے داذویہ کو قتل کراتا ہے ، اس کے بعد اسود عنسی کی تتر بتر ہوئی سپاہ کو اس کے گرد جمع کرکے صنعااور اس کے اطراف کے تمام علاقوں پر قابض کراتا ہے ، اس کے بعد ایرانیوں کے خاندان کو اس کے ذریعہ دوگر و ہوں میں تقسیم کر اکے ایک حصہ کو آبی راستہ سے اور دوسرے گروہ کو خشکی کے راستہ سے ان کے اپنے وطن ایران روانہ کراتا ہے ۔ آخر کار عرب قبائل فیروز کی مدد کے لئے آتے ہیں اور خلیفہ کی طرف سے بھیجے گئے سپاہیوں کی ہمت افزائی اور ''مھاجر بن ابی امیہ '' کے ذریعہ قیس کی حکومت کا شیرازہ بکھیر کے رکھدیتا ہے اور قیس کو گرفتا ر کر کے دست بستہ خلیفہ ابوبکر کی خدمت میں مدینہ بھیجتا ہے۔
سیف کے اس افسانہ نے امام المورخین طبری کی تاریخ کبیر کے دس صفحوں میں جگہ لی ہے .
سیف نے اس افسانہ میں چھہ راوی پیش کئے ہیں اور ہر ایک کو دوسرے پر ناظر و موید قرار دیتا ہے کہ اس میں حقیقی راویوں کے ساتھ ساتھ اس کے جعلی اور خیالی راوی بھی نظر آتے ہیں ۔
سیف نے اس افسانہ کا نام'' یمانیوں کا دوسرا ارتداد '' رکھا ہے اور طبری نے بھی اسے اسی عنوان سے اپنی تاریخ میں نقل کیا ہے.
طبری کے بعد اس کے مکتب کے شاگردوں جیسے ابن اکثیر اور ابن خلدون میں سے ہر ایک نے اپنی باری پر اس افسانہ کو اس سے نقل کر کے اپنی تاریخ کی کتابوں میں درج کیا ہے ۔ یہیں سے یہ موصنوع ارتداد کی دوسرے روایتوں ، اور اسی نام سے دوسری خونیں جنگوں اور بے رحمانہ قتل عاموں نے اسلام کے دشمنوں کے ہاتھوں میںایک زندہ دلیل دیدی ہے تاکہ وہ اس ذریعہ ادعا کر یں کہ اسلام تلوار کی ضرب اور زور زبردستی سے قائم ہو ا ہے نہ کہ کسی اور چیز سے ! عجیب بات یہ ہے کہ ابن حجر جیسے صحابی شناس علامہ نے سیف کی اس روایت کاپورا پورا فائدہ اٹھا کر ،اس سے ''ذویناق''اور شہر ''نامی دو اصحاب انکشاف کئے ہر ایک کے لئے الگ سے اپنی کتا ب ''اصابہ'' میں شرح لکھی اور ان کے آخر میں حرف(ز) لکھا ہے تاکہ سب جان لیں کہ ان کا صرف ابن حجر نے انکشاف کیا ہے نہ کہ کسی اورنے !
اس عالمنے ''ذویناق''کو اصحاب کے پہلے طبقہ میں رکھا ہے ، لیکن اس کی داستان کو ''شہر '' کی داستان کے حوالہ کیا ہے ۔
''شہر '' کی داستان اور اس کے حالات کو اپنی کتاب کے تیسرے حصہ میں درج کیا ہے اور اس کی روایت کو طبری سے نقل کیاہے اور ہم نے دیکھا کہ طبری نے خود اس داستان کو سیف بن عمر سے نقل کیا ہے اور اس کانام بھی ''شہر ذونیاف '' رکھا ہے نہ ''ذونیاق''۔!
٨٦واں جعلی صحابی
معاویہ ثقفی
ابن حجر نے اس صحابی کے حالات کے سلسلہ میں ''یمانیوں کا دوسرا ارتداد'' نامی سیف کی روایت سے استفادہ کر کے یوں لکھا ہے :
معاویہ ثقفی احلاف سے :
طبری نے لکھا ہے کہ خلافت ابوبکر کی ابتداء میں '' معاویہ ثقفی'' بنی عقیل کے جنگجوؤں کے ایک گروہ کی سرپرستی میں ''فیروزدیلمی '' کی مدد کے لئے گیا تھا اور اس نے یمینوں کے مرتدوں کے چنگل سے اس کے رشتہ داروں کو نجات دلائی ہے ۔
سیف بن عمر نے بھی ان ہی مطالب کو درج کرکے اضافہ کیا ہے کہ معاویہ ثقفی''کی رہبری میں عقیلیوں نے فیروز دیلمی کے رشتہ داروں کو ''اسودعنسی کے مارے جانے سے پہلے ''قیس بن عبدلغیوث'' کی قید سے نجات دلائی ہے ۔ اس کے بعد ابن حجر مزید لکھتا ہے :
اس صحابی کا نسب ''عقیلی '' تھا ، گو یاوہ ''بنی عقیل ثقیف ''سے تھا ۔ ہم نے اس سے پہلے بھی یاددہا نی کی ہے کہ ۔ قریشوںاور ثقیفیوں میں سے وہ لوگ جنہوں نے ابوبکر کے زمانے میں یا ان ہی دنوں میں جنگوں میںشرکت کی تھی ، چونکہ وہ حجتہ الوداع میں حاضر تھے اس لئے رسول خداۖکے صحابی شمار ہوتے ہیں!(ابن حجر کی بات کا خاتمہ)
ابن حجر نے اپنی کتاب کی اسی جلد میں چند صفحات کے بعد ''معاویہ عقیلی ''نام کے ایک اورصحابی کے حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے ان ہی مذکورہ مطالب کو حسب ذیل لکھا ہے :
معاویہ ٔ عقیلی :
وہ ان افراد میں سے ہے کہ جس نے رسول خداۖ کا زمانہ دیکھاہے ۔ سیف بن عمر نے اپنی کتاب''فتوح'' میں اس کا نام لیا ہے اور کہتا ہے کہ اس نے ''فیروزویلمی کے خاندان اور دوسرے ایراینوں کو قیس کی قید سے نجات دلائی ہے . اس ماجرا کی تفصیل یوں ہے :
جب ''قیس بن مکشوح '' نے صنعا پر قبضہ کیا اور ایرانی عورتوں اور بچوں کو پکڑ کر یمن سے بالکل باہر کیا تو فیروز نے ان کی نجات کے لئے بنی عقیل سے مدد طلب کی اور اس کے نتیجہ میں عقیلوں نے ''معاویہ '' کی سرپرستی میں اس کی مدد کی اور راستے میں قیس کے سواروں کو پکڑ کر ان سے ایک جنگ لڑنے کے بعد انھیں باگھنے پر مجبور کیا۔ اس طرح ایرانی عورتوں اور بچوں کو ان سے آزاد کر انے میں کامیاب ہوئے۔ فیروز نے بھی چند اشعار کے ذریعہ ''معاویہ '' اور عقیلیوں کی قدر دانی کی ہے ۔(ابن حجر کی بات کا خاتمہ)
ابن حجر ''معاویہ ثقفی '' اور ''معاویہ عقیلی'' نام کے دو صحابیوں کو تنہا سیف کی روایت سے انکشاف کرکے مغالطہ کا شکار ہوا ہے ۔ اس نے ایک بار اس تنہا ''معاویہ کو ثقفی جان کر اس کے حالات پر روشنی ڈالی اور اسے طبقہ اول کے صحابیوں میں شمار کیا ہے اور دوسری دفعہ بھی اسی کو '' عقیلی'' کہکر صحابیوں کے تیسرے طبقہ میںشمار ہے ۔
اس کی ایک دوسری فاش غلطیی یہ ہے کہ وہ کہتا ہے :
اس صحابی کا نسب ''عقیلی '' ہے اور گویا ''بنی عقیل ثقیف''سے ہے !
ابن حجر اس لئے اس کوو ہم کا شکار ہو ا ہے کہ سیف بن عمر نے کہا ہے کہ:
فیروزنے ''بنی عقیل بن ربیعہ بن عامر بن صعصعہ '' کو ایک قاصد بھیجا اور اس سے مدد طلب کی ۔ عقیلی ، حلفاء سے ''معاویہ نام کے ایک شخص کی سرپرستی میں اس کی مدد کے لئے آگے ئ۔۔۔۔۔۔۔(تاآخر)
جبکہ ''عقیل بن ربیعہ بن عامر '' کی عقیلی اولاد معا ویہ بن بکربن ھوازن'' کی اولاد میں سے ہیں ، کہ انھیں ''عقیل '' کہتے تھے اور وہ بحرین میں زندگی بسر کرتے تھے ۔ لیکن''ثقیف '' ''منبہ بن بکر بن ہو زان'' کی اولاد تھے اور طائف میں رہتے تھے ۔
اس لحاظ سے سیف کا معاویہ عقیلی '' ثقفی '' نہیں ہوسکتا ہے تاکہ ابن حجر اوراس کے ہمفکروں کے تصور کی بنیاد پر اس معاویہ کو صحابیوںکی فہرست میں قرار دیا جاسکے ۔
اور اس معاویہ ٔ ثقفی کو غلطی سے ''معاویہ ثقفی بصری '' خیال نہیں کیا جانا چاہئے ۔کیونکہ ''معاویہ بصری بن عبدالکریم بن عبدالرحمان'' ، ثقیف کا اور ابوبکرہ کا آزاد کردہ ، ''ضال'' نام سے معروف ہے ١٨٠ھ میں وفات پائی ہے ۔
اور یہ جو ابن حجر کہتا ہے ، ''قریش وثقیف'' سے جن لوگوں نے ابوبکر کے زمانہ کی جنگوں میں شرکت کی ہے ،وہ اصحاب میں شمار ہوتے ہیں ، انشاء اﷲآیندہ ا س پر بحث و تحقیق کریں گے ،
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہاس عالم نے ،سیف کی اسی روایت کے پیش نظر ''سعید عافر'' کو رسول خداۖ کے اصحاب میں شمار کرتے ہوئے اس کے بارے میں کہا ہے :
سعید بن عافر:
یہ ان پانچ افراد میں سے ہے جنھیں ابوبکر نے خط لکھ کر ''فیروز ویلمی ''کی مدد کرنے کا حکم دیا ہے ۔۔۔(تاآخر کلام ابن حجر)
ہم اس سعید بن عافر کو ان افراد میں سے شمار کرتے ہیں کہ سیف نے جن کیلئے صحابیت کو گڑھ لیا ہے۔ انشاء اﷲ ہم اس کتاب کے اگلے صفحات میں اس سعید اور اس جیسے دوسرے اشخاص کے بارے میں تفصیل سے روشنی ڈالیں گے ۔
افسانہ ''شہرو معاویہ'' سے سیف کانتیجہ :
سیف نے ''قیس ''کے صنعا میں ابوبکرکے منصوب حاکم کے خلاف شورش کے افسانہ میں رسول خداۖ کے لئے مندرجہ ذیل دوصحابی جعل کئے ہیں ۔
١۔شہر ذویناف،یا (ذویناق)
٢۔معاویہ ٔثقفی
ان کو جعل کرنے کے علاوہ سیف بن عمر نے درج ذیل حقیقی اشخاص:
٣:معاویۂ عقیلی ۔
٤۔سعید بن عافر اور ان جیسے دیگر اشخاص کو ،جن کے حالات پر ہم بعد میںروشنی ڈالیں گے،رسول خداۖ کے صحابی شمار کیا ہے ۔
اس کے علاوہ سیف نے ایسی روایت گڑھ کر اپنے قبیلہ کے دیر ینہ دشمنوں یعنی یمانی اور قحطانیوں پردوبار مرتد ہونے اور دین اسلام سے مخرف ہونے کی تہمت لگا کر ان کی سرزنش اور ملامت کی ہے ۔
سیف کے ان ہی جھوٹ کے پلندوں کی وجہ سے ، یہ اتہامات اسلام کے معتبر منابع ومصادر میں حقیقی اور تاریخی مآخذ کے طور پر درج کئے گئے ہیں تاکہ یمانی وقحطانیوں کے لئے رسوائی کے علاوہ خود اسلام کے پپیکر پر ایک کاری ضرب واقع ہو ! کیونکہ سیف نے ارتداد کی جنگوں کے تعجب انگریزافسانوں کو خلق کرکے ، لشکر کشیوں اور ہزارہا بے گناہ انسانوں کا خون بہا کر یہ دکھلایا ہے کہ اسلام زورزبردستی ، تلوار کی ضرب ، خون کی ہولی کھیل کر اور خوف ودہشت کے ذریعہ پھیلا ہے نہ کہ کسی اور چیز سے ۔افسوس ہے کہ اس کے افسانوں کو اسلام کی معتبر تاریخ کی کتابوں میں جگہ ملنے کی وجہ سے اس کے مقاصد پورے ہوئے ہیں ۔!
مصادر و مآخذ
ذویناف کے حالات:
١۔''اصابہ'' ابن حجر (١/٤٧٧) حصہ اول نمبر:٢٤٨٣
شہر کے حالات:
١۔اصابہ ابن حجر (٢/١٦٣) حصہ سوم نمبر:٢٩٨٧
معاویہ ثقفی کے حالات:
١۔اصابہ ابن حجر (٣/٤١٧) حصہ اول نمبر:٨٠٨٦
معاویہ عقیلی کے حالات:
''اصابہ''ابن حجر ٣/٤٧٣) حصہ سوم نمبر:٨٤٨٣
افسانہ شہر ، معاویہ ، اور قیس کے بارے میں سیف کی روایات:
١۔''تاریخ طبری '' (١/١٩٨٩۔١٩٩٩)
٢۔''تاریخ ابن اثیر'' (٢/٢٨٧۔٢٨٩)
٣۔تاریخ ابن کثیر (٦/٣٣١)
٤۔''تاریخ ابن خلدون'' (٢/٢٧٤۔٢٧٨)
داستان قیس کے بارے میں تاریخی حقائق:
١۔''فتوح بلدان'' بلاذری (١٢٧)
معاویہ بن عبدالکریم کے حالات:
١۔''جرم و تعدیل'' (٤/٣٨١) حصہ اول نمبر: ١٧٤٩
٢۔''تاریخ بخاری '' (٤/٣٣٧) حصہ اول نمبر: ١٤٥١
٣۔''تذھیب الکمال'' (٣٢٦)
|