ایک سو پچاس جعلی اصحاب( جلدچہارم )
 

٧٩واں جعلی صحابی صیحان بن صوحان
اس صحابی کے تعارف میں ابن حجر یوں لکھتا ہے :

صیحان بن صوحان عبدی :
سیف بن عمر نے اس کا نام لیا ہے اوراس کے ارتداد کی جنگوں میں شرکت کی خبر دی ہے ۔ ماجرا کی تفصیل حسب ذیل ہے:
اسی وقت جبکہ عمان میں '' لقیط بن مالک ازدی '' پیغمبر ی کا دعویٰ کر رہا تھا،ابوبکر کے حکم سے ''عکرمہ بن ابوجہل '' عرفجہ ، جبیر اور عبید ''اس سے جنگ کرنے کے لئے روانہ ہوئے ،لیکن مشرکین کی فوج کی کثرت کی وجہ سے ایسے حالات پیدا ہوئے کہ قریب تھا ''لقیط '' خلیفہ کے سپاہیوں پر غلبہ پاجا ئے اورانہیں نابود کر کے رکھدے ۔ اسی اثنا ء میں ''حارث بن راشد '' اور ''صیحان بن صوحان عبدی '' کی سرکردگی میں قبائل بنی ناجیہ ابوعبدالقیس کے سپاہی ان کی مدد کے لئے آپہنچے ۔ ان کے آنے سے مسلمان فوج بڑھ گئی اور لقیط کے ساتھی شکست کھاگئے ۔ بالآخر لقیط اپنے دس ہزار ساتھیوں کے ساتھ اس جنگ میں ماراگیا (ز)(ابن حجر کی بات کا خاتمہ )

اس صحابی کا نسب :
سیف نے اپنے اس جعلی صحابی کو ''عبدی '' کہا ہے ۔ اور یہ قبائل عدنان سے ''عبدالقیس بن افصیٰ'' کی طرف نسبت ہے لیکن طبری نے اپنی تاریخ میں سیف بن عمر سے نقل کرکے اس نسب کو ''سیحان بن صو حان '' (حرف سین) کے لئے درج کیا ہے !
ابن ماکو لا کی کتاب ''اکمال '' میں بھی سیف بن عمر سے نقل کر کے لقیط سے جنگ میں بجائے ''حارث بن راشد'' اور ''صیحان بن صوحان''بالترتیب '' خریت بن راشد'' اور '' سیحان بن صوحان '' درج کیا گیا ہے . ابن ماکو لا لکھتاہے :
اور ''خریت بن راشد''اور ''سیحان بن صوحان '' لقیط بن مالک ازدی کے خلاف جنگ میں بنی ناجیہ اورعبدالقیس کے سپاہیوں کے سپہ سالار تھے ۔ ابن حجر نے اپنی کتاب''اصابہ '' میں حرف ''سین '' کے تحت ''سیحان بن صوحان '' کے حالات پر الگ سے روشنی ڈالی ہے ۔ گمان کیا جاتا ہے کہ ابن حجر کے پاس کتاب سیف یا تاریخ طبری کے موجود نسخوں نے اسے غلطی سے دوچار کیا ہے تاکہ اپنی کتاب ''اصابہ '' میں ایک دوسرے صحابی کو ''سیحان بن صوحان '' کے نام سے درج کرئے۔
جبکہ نسب شناسوں ، جیسے ابن درید نے اپنی کتاب ''اشتقاق '' میں ، ابن خیاط نے طبقات''میں اثیر نے کتاب ''اللباب'' میں صوحان کے تین بیٹے بنام ''زید '' صعصعہ اور سیحان صراحت سے درج کئیہیں ۔ چوتھا بیٹا بنام صیحا ن بن صوحان خلق کیا گیا ہے اور ابن حجر نے اسے بھی صوحان سے منسوب کر دیا ہے ۔ احتمال یہ ہے کہ مغالطہ ''تاریخ طبری کے اس نسخہ کی کتابت کی غلطی کی وجہ سے انجام پایا ہے جو ابن حجر کے پاس موجود تھا نتیجہ میں اس عالمنے رسول خداۖ کے جعلی صحابیوں کی تعداد میں اضافہ کر دیاہے ۔

٨٠واں جعلی صحابی عبادناجی
ابن حجر نے اپنی کتاب ''اصابہ '' میں اس صحابی کا یوں تعارف کرایا ہے :

عبادناجی :
سیف بن عمر نے اپنی کتاب میں اس کا نام ذکر کیا ہے.
عباد ان افراد میں سے ہے جس نے رسولۖخدا کازمانہ درک کیا ہے .اور ابوبکرکے زمانہ کی بعض فتوحات میں شرکت کی ہے ۔ز

نسب :
ایسا لگتا ہے کہ سیف نے لفظ ''ناجی'' سے قبائل عدنان کے '' بنی سامة بن لوی '' کے منسوبین مراد لئے ہیں یہ وہ خاندان ہے جسے سیف نے اپنے افسانہ میں ''خر ّیت بن راشد'' کے ہمراہ ''دبا'' کی جنگ میں شریک کیا ہے !
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ہالینڈکا مشہور دانشمند و مستشرق''ایم ۔جے ۔ڈی گویجی ''١


١)M.J.Degoejeمشہور ہالینڈی مستشرق ۔ اس کے جملہ آثار میں سے ''تاریخ طبری ''اور اس کی فہرست ہے کہ ''مکتبة الجغرافیین فی العرب''کی طرف سے ١٨٠١ ء لیڈن میں طبع ہوئی ہے اور ہم نے اپنے مباحث کے دوران اس کی طرف رجوع کیا ہے۔
سیف کے'' عباد ناجی'' کاتعارف کرانے میں مغالطہ سے دوچار ہوا ہے ، جہاں وہ ''تاریخ طبری ''کی اپنی فہرست میں لکھتاہے :
گویایہ شخص''عباد بن منصور'' ہے ، کیونکہ عباد بن منصورناجی ایک محدث تھا ،جو ١٢٩ھ سے ١٤٥ھ تک بصرہ کے قاضی کے عہدہ پر فائز تھا اور ١٥٢ھ میں فوت ہوا ہے ۔
''ڈی گویجی'' کی یہ بات سیف کی روایت سے مغایرت رکھتی ہے ، کیونکہ اس ''عباد ناجی '' کو سیف نے ١١ھ میں ''خریت بن راشد '' کے ہمراہ''دبا''کی جنگ اور قتل عام میں شرکت کرتے دکھایا ہے ، اور اسی سبب سے ابن حجر نے اسے رسول خداۖ کے صحابیوں کی فہرست میں قرار دیا ہے ۔ ظاہر ہے کہ ١١ھ سے ١٥٢ھ تک ایک لمبا زمانی فاصلہ ہے
ابن حجر نے ''عباد ناجی '' کو اس اعتقاد پر کہ اس نے بقول سیف جنگ ''دبا'' میں شرکت کی ہے ، ''لہ ادراکُ''کی عبارت سے استفادہ کرکے اس کا بعنوان صحابی تعارف کرایا ہے ، اگر چہ سیف نے اس جنگ میں اس کو کوئی عہدہ نہیں سونپا ہے بلکہ صرف اُن اشعار پر اکتفا کی ہے ، جو اس نے اس کی زبان پر جاری کئے ہیں ١
..............
ا۔ یہ اشعار ان تین صحابیوں کے بارے میں ایک جامع بحث میں بیان کئے جائیں گے۔

٨١واں جعلی صحابی شحریب
اس صحابی کے بارہ میں ابن حجر نے یوں لکھا ہے :

شحریب ، بنی نجرات سے ایک شخص:
وہ من جملہ ان افراد میں سے ہے جس نے رسول خداۖ کا زمانہ درک کیا ہے ۔
سیف بن عمر نے سہل بن یوسف سے اس نے ابوبکر صدیق کے پوتے قاسم بن محمد سے روایت کی ہے '' شحریب '' نے ''عکرمہ بن ابی جہل ''کے ہمراہ یمن کے مرتدوں کے خلاف جنگ میں شرکت کی ہے ۔ عکرمہ نے اس فتح کی نوید اورغنائم کا پانچواں حصہ شجریب کے ہمراہ ابو بکر کی خدمت میں مدینہ بھیجا ہے ۔(ز)(ابن حجر کی بات کا خاتمہ)

اس صحابی کا نسب:
ابن حجر کی ''اصابہ '' میں شحریب کو ''بنی بخرات'' کے ایک شخص کے طور پر درج کیا گیا ہے،جبکہ طبری نے سیف کی روایت کے مطابق اپنی تاریخ میں ''شخریت'' ''بنی شخرات'' سے ایک شخص کے طور پر ذکر کیا ہے ! ہمارے خیال میں یہ مغالطہ ''تاریخ طبری ''کی نسخہ برداری کرتے وقت کتابت کی غلطی سے وجود میں آیا ہے۔
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اگر بقول ِسیف ''تاریخ طبری '' ، شحریب '' سپہ سالاری کے عہدہ پر فائز تھا ١،لیکن چونکہ لشکر اسلام سے ملحق ہونے سے پہلے اسلام سے منہ موڑ کر مرتد ہو گیاتھا ، لہذا سے ابن حجر نے خصو صی حکم ''لہ ادراک''جاری کر کے اسے رسول خداۖ کے صحابی کے زمرہ میں قرار دیا ہے ۔
..............
١۔اس کی داستان '' ان تین اصحاب کے بارے میں ایک جامع بحث'' میں آئے گی۔


ان تین اصحاب کے بارے میں ایک جامع بحث

صیحان ،عبادناجی اورشحریب
طبری نے ''عمان ، مہرہ اور یمن '' کے باشندوں کے ارتداد کے بارے میں سیف سے نقل کرکے ایک مفصل شرح لکھی ہے ۔ ہم اس کا خلاصہ ذیل میں قاریئن کی خدمت میں پیش کرتے ہیں:
لقیط بن مالک عمان میں مرتد ہوا ۔ دوسرے جھوٹے پیغمبر ی کا دعوی کر نے والوں کی طرح اس نے بھی پیغمبر ی کا دعویٰ کیا اور ''دبا'' کی طرف چلاگیا۔ وہا ں پر تبلیغ کرنے لگا اورچند پیرو بھی بنالئے ۔
ابو بکر نے اس کے فتنہ کو کچلنے کے لئے عکرمہ ابوجہل '' کو عرفجہ اور حذیفہ کے ہمراہ ایک سپاہ کی معیت میں ''دبا '' کی طرف روانہ کیا ۔ اسلام کے سپاہیوں اورلقیط کے حامیوں کے درمیان ایک شدید جنگ چھڑگئی ، اور نزدیک تھا کہ لقیط اور اس کے سپاہی کا میاب ہوجائیں کہ ''خریت بن راشد'' کی کمانڈ میں ''بنی ناجیہ ''اور سیحان بن صوحان ، کی کمانڈ میں ''عبدالقیس''کے قبیلہ کی طرف سے مسلمانوں کے لئے مدد پہنچی اور عکرمہ اور اس کے ساتھیوں کی ہمت افزائی ہوئی ،نتیجہ کے طور پر لقیط اور اسکی سپاہ شکست کھاکرنا بود ہوگئی ۔
اس جنگ میں مشرکین کے دس ہزار افراد قتل ہوگئے۔اسلام کے سپاہیوں نے فراریوں کا پیچھا کیا اور سب موت کے گھاٹ اتاردیا ان کی عورتوں اور بچوں کو اسیربنالیا اور ان کے مال ومنال کو غنیمت کے طور پر اپنے قبضے میں لے لیا !
اس فتح و کامیابی میں غلاموں کاپانچواں حصہ جو ابو بکر کی خدمت میں مدینہ بھیجا گیا ان کی تعداد آٹھ سو افرادتھی ! عباد ناجی نے اس فتح پر درج ذیل اشعار کہے ہیں:
اپنی جان کی قسم '' لقیط بن مالک '' کا چہرہ ایسا برااور بدصورت ہو چکا تھا کہ اس نے لومڑی کے چہرہ کو بھی سیاہ کر رکھا تھا۔
وہ خود کو اور اپنے ساتھیوں کو ابوبکر کے برابر جانتا تھا لہذا خلیج میں مہلک اور خطرناک امواج سے ٹکرایا۔
جس راہ کو لقیط نے انتحاب کیا تھا نہ اس کی عقل نے اسے اس سے پیچھے ہٹا یا اور نہ اپنے حریف کو شکست دے سکا۔
سرانجام ہمارے سواروںنے ان کے اونٹ بار سمیت کھینچ لائے۔ نئی سطر سے اس کے بعد طبری کہتا ہے:
عکرمہ وہا ں سے ''مہرہ'' کی طرف روانہ ہوا۔ وہا ںکے مشرکین دوگرو ہوں میں تقسیم ہوگئے تھے ہر گروہ کا سردار اپنے کو مطلق سردارجانتا تھا ۔ بنی شخرات کے شخریت نامی ایک شخص کے گرد لوگوں کی ایک جماعت جمع ہوئی تھی ۔ دوسرا کہ ''مہرہ ''کے تمام باشنددے جس کے زیر فرمان تھے بنی محارب سے ''مصبح '' نامی ایک شخص تھا ۔
عکرمہ نے جب دوسرداروں کے حاکمیت کے مسلئہ پر آپسی اختلاف کا مشاہدہ کیا اور شخریت کے ساتھیوں کی تعداد کمدیکھی تو ۔ اسے پھر سے اسلام کی طرف پلٹنے کی دعوت دی اوراس دلجوئی کی ۔ شخریت نے یہ دعوت قبول کی اور اسلام لے آیا ۔سیف کہتا ہے کہ مشرکین کے سپاہیوں نے ''جبروت ''و نضدون '[ کے درمیان صحرا ۔ جو مہرہ کے بیامان ہیںکو پر کر رکھا تھا ۔
عکرمہ جب شخریت کی طرف سے بے فکر ہواتو اس نے ''مصبح'' کو بھی پیغام بیھجا اور اسے بھی پھر سے اسلام قبول کرنے کی دعوت دی ۔ لیکن مصبح اپنے حامیوں کی کثرت کی وجہ سے مغرور ہو کر تسلیم نہیں ہوا بلکہ شخریت کے جدا ہونے پر بھی سخت برہم ہوا۔
جب عکرمہ مصبح کی طرف سے مایوس ہوا ، تو اس نے شخریت کیہمراہ اس کی طرف قدم بڑھایا ۔ کچھ تعاقب و فرار کے بعد نجد کے مقام پر دونوں سپاہ ایک دوسرے سے روبرو ہوئے اور ''دبا'' سے بھی سخت جنگ چھڑ گئی.
سر انجام خدائے تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح وکامیابی عطا کی اور مشرکین کو بری شکست کاسامنا کرنا پڑا۔مصبح مارا گیا اس کے ساتھی بھاگ گئے ۔مسلمانوں نے ان کا پیچھا کیا اور انھیں تہ تیغ کر کے انہیں قتل و مجروح کیا اور ان کے مال و منال کو غنیمت میں لے لیا ۔
غنائم جنگی میں اور چیزوں کے علاوہ ان کی دو ہزار بخیب اور آزاد عورتوں کو بھی اسیر کیا !!
عکرمہ نے جنگی غنائم کے پانچویں حصہ کو مشخص کر کے ''شخریت ''کے ہاتھ ابوبکر کی خدمت میں بھیجدیا ۔ اس کے بعد اس علاقہ کے مسلئہ کو خاتمہ دینے کے لئے حکم دیاکہ '' نجد، ریاضہ الروضہ 'ساحل ، جزائر ،مرّ ،لبّان ، جیروت ، ظہور، صبرات ، ینعب اورذات الخیم '' کے باشندوے ایک جگہ جمع ہوجائیں ۔ جب وہ لوگ جمع ہوئے تو انہوں نے ایک بار پھر اسلام قبول کر کے عکرمہ کے ساتھ عہدو پیمان باندھا اور اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کیا ۔
علجوم محاربی نے مندرجہ ذیل اشعار میں اس شکست کے بارے میں یوں کہا ہے :
خدا ئے تعا لےٰ نے شخریت اور ''ھیثم و قرضم ''کے قبائل ۔جو ہمارے خلاف اٹھے تھے ۔ کو سزادیدی۔
ظالموں اور بدکاروں کی پاداش ،کیونکہ انہوں نے پیمان کو توڑا ہمارے ساتھ تعلقات کو اپنے لئے خوار سمجھا ۔
اے عکرمہ ! اگر میرے خاندان کے کارنامے اور ان کی مدد تیرے ہمراہ نہ ہوتی تو تجھ پرفرار کا راستہ زمین و آسمان میں بند ہوجاتا ۔
ہم اس جنگ میں ایسے تھے جیسے ایک ہاتھ نے دوسرے ہاتھ کو مضبوطی سے پکڑرکھا ہو ! اس لئے ہمیں رنج و محنت کا سامنا کر نا پڑا۔

اس داستان میں سیف کے راویوں کی پڑتال :
اس داستان میں سیف کے راوی حسب ذیل ہیں:
١۔سہل بن یوسف انصاری سلمی :
٢:غصن بن قاسم
ہم نے مذکورہ دوراویوں کے بارے میں بارہا کہا ہے کہ وہ حقیقت میں وجود نہیں رکھتے بلکہ جعلی راوی ہیں

حقیقت ماجرا:
بلاذری نے اپنی کتاب ''فتوح البلدان ''میں لکھا ہے :
رسول خداۖ کی رحلت کے بعد قبیلۂ ''ازد '' نے اسلام سے منہ موڑا اور مرتد ہوگیا ۔ اس کی رہبری ''لقیط بن مالک ذوالتاّج'' کے ہاتھ میں تھی ۔ یہ لوگ ''دبا'' کیطرف بڑھے ۔ ابوبکر نے قبیلۂ ازد سے ''حذیفہ بن محصن بارقی'' اور ''عکرمہ بن ابی جہل مخرومی'' کو ایک گروہ کے ہمراہ ان کی سرکوبی کے لئے مامو کیا ۔
حذیفہ اوراس کے ساتھیوں نے ''دبا '' میں لقیط اور اس ساتھیوں سے جنگ کی،لقیط مارا گیا اور ''دبا'' کے باشنددوں کاایک گروہ اسیر ہوا ، انھیں ابوبکر کی خدمت میں مدینہ بھیج دیا گیا ، اس طرح یہ ماجر ا ختم ہوا اور قبیلۂ ''ازد '' دوبارہ اسلام لے آیا۔
بلاذری اضافہ کرکے لکھتا ہے :
''مہرہ بن حیدان بن عمرو قضا عہ '' کے کچھ گھرانے آپس میں جمع ہوئے ، عکرمہ ان کی طرف بڑھا لیکن ان سے جنگ نہیں کی ،کیو نکہ انہوں نے اپنے مال کی زکا ت خلیفہ کو ادا کر دی اور جان بچالی۔
ابن عثم نے اپنی کتاب ''فتوح'' میں لکھا ہے :
عکرمہ نے اس جنگ میں ''دبا'' کے ایک سوافراد کو قتل کر ڈالا تب وہ ہتھیا ر ڈال کر تسلیم ہوئے ۔ اس کے بعد ان کے سرداروں کے سرتن سے جدا کئے اور باقی بچے تین سو جنگی اور چار سو عورتوں اور بچوں کو اسیر بنا کر ابوبکر کے پاس مدینہ بھیج دیا۔
ابوبکر نے حکم دیا کہ مردوں کے سرتن سے جدا کئے جائیں اور ان کی عورتوں اور بچوں کو فروخت کیا جائے ۔ لیکن عمر نے شفاعت کی اور کہا یہ مسلمان ہیں اور قسم کھاتے ہیں کہ ہم نے کبھی اسلام منہ نہیں موڑ ا تھا ۔ یہاں پر ابوبکر نے اپنا فیصلہ بدل دیا کہ ان کے مال و منال پر قبضہ کر کے انہیں زندان بھیجدیا جائے ۔ یہ ابوبکر کے زمانے میں قیدی بنے رہے ۔ عمر نے خلافت ہاتھ میں لینے کے بعد انھیں آزاد کیا۔

جانچ پڑتال کا نتیجہ :
سیف کہتا ہے کہ مسلمانوں نے ''دبا''کی جنگ میں مشرکین کے دس ہزار افراد قتل کردئے اور اسراء کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ صرف ان کا پانچوں حصہ آٹھ سو افراد پر مشتمل ابوبکر کی خدمت میں مدینہ بھیحا گیا !!
جب کہ دوسروں نے مقتولین واسرا حتیٰ ان کے سردار جن کے سرتن فتح کے بعد سے جدا کر کے قتل کیا گیا سب کی تعداد کل ملاکر آٹھ سو افراد بتائی ہے ۔
سیف کہتا ہے کہ ''مہرہ'' کی جنگ میں مشرکین دو گرو ہوں میں تقسیم ہو کر ریاست کے مسٔلہ پر ایک دوسرے سے جھگڑ پڑے تھے ۔ ان میں سے ایک بنام شخریت مسلمانوں سے جاملا اور مسلمانوں کے ساتھ مل کر مشرکین کی بیخ کنی کی اور ''دبا'' سے شدید تر جنگ ان کے ساتھ ہوئی۔ عکرمہ نے ان کے سردار کو قتل کیا اور باقی لوگوں کو خاک و خون میں غلطان کیا اور دل خواہ حدتک ان کو قتل ومجروح کر کے رکھدیا ۔ نیز دو ہزار نجیب اور آزاد عورتوںکو جنگی غنائم کے ساتھ ابوبکر کی خدمت میںمدینہ بھیجدیا ۔ اس فتح کے بعد اس علاقہ کے لوگوں نے اسلام کے سامنے سر تسلیم خم کیا اور دوبارہ اسلام کے دائرہ میں آئے جبکہ دوسروں نے کہا ہے کہ :
جون ہی عکرمہ اور اس کے ساتھی ''مھرہ '' کے نزدیک پہنچے وہا ں کے باشندوں نے زکات و مالیا ت دینے کا عہد کیا اور جنگ کی مصیبت سے اپنے آپ کو نجات دیدی ۔
جھوٹااور زندیقی سیف تن تنہا ان افسانوں کو جعل کر تا ہے تاکہ خون کے دریا بہا کر ، جانی تلفات کو حد سے زیا د ہ دکھا کر ، انسانوںکی بے احترامی کر کے صدر اسلام کے مسلمانوں کو بے رحم اور قسی القلب دکھا ئے اور اسلام اور مسلمانوں کو اس طرح پیش کرتا ہے جس کی وہ تمنا اور آرزو رکھتا ہے ۔
افسوس اس بات پر ہے کہ طبری جیسا عالم سیف کے ان تمام جھوٹ کے پلندوں کو اس کی اصلیت و حقیقیت کو جانتے ہوئے بھی اپنی تاریخ میں نقل کرتا ہے !!
اور جب ابن اثیر ، ابن کثیر اور ابن خلدون جیسے علماء کی باری آتی ہے تو وہ بھی ان مطالب کو طبری سے نقل کر کے اپنی تاریخ کی کتابوں میں منعکس کرتے ہیں ۔
یاقوت حموی نے بھی سیف کی روایتوں پر اعتماد کر کے اس کے خیا لی مقامات جیسے ،جیروت ، ریاضتہ الروضہ ، ذات الخیم ، صبرات' ظہور ، لبان ،المر ، ینصب اور ان جیسی دیگر جگہوں کو اپنی کتاب ''معجم البلدان'' میں درج کر کے ان پر شرحیں لکھی ہیں ۔
سرانجام علامہ ابن حجر سیف کے افسانوں کے اداکاروں کو رسول خداۖ کے صحابیوں کی فہرست میں قرار دیتا ہے ۔اور''لہ ادراکُ''کا حکم جاری کرکے ان کی زندگی کے حالات پر روشنی ڈالتا ہے ۔اور اپنی بات کے خاتمہ پر حرف ''ز'' لکھ کر اعلا ن کر تا ہے کہ اس نے اس صحابی کا انکشاف کیاہے اور اس کے حالات پر شرح لکھکر دوسرے تذکرہ نویسوں پر اضافہ کیا ہے ۔

مصادر و مآخذ
صیحان بن صوحان کے بارے میں :
١۔''اصابہ ابن حجر (٢/١٩٣) دوسرا حصہ نمبر:٤٤٣١

عباد ناجی کے بارے میں :
١۔''اصابہ ''ابن حجر (٣/٨٧) تیسرا حصہ نمبر : ٦٢٩٨)

شحریب کے بارے میں:
''اصابہ'' ابن حجر (٢/١٦٠) نمبر: ٣٩٦٢

خریت بن راشد کے بارے میں:
١۔''اکمال '' ابن ماکولا (٢/٤٣٢)

سیحان بن صو حان کے بارے میں:
١۔''اصابہ '' ابن حجر ( ٢/١٠٢) نمبر: ٣٦٣٠

تین صحابیوں کے بارے میں سیف کی روایتیں :
١۔''تاریخ طبری'' (١/١٩٧٩)

جنگ ''دبا' کے حقا ئق :
١۔''تاریخ اعثم '' (١/٧٤)
٢۔''فتوح البلدان'' بلاذری (٩٢۔٩٣) عمان کی خبر میں

عباد بن منصور ناجی کے بارے میں :
١۔''فہرست تاریخ طبری '' (٣٠٩)
٢۔''تاریخ طبری '' (٢/١٩٨٤)و(٢/٢٠١٧)و(٣/١١و٧٥و٨١و٨٤و٩١و٣١٩)
کہ جہاں بصرہ میں اس کے منصب قضاوت کے بارے میں گفتگو آئی ہے۔
٣۔خلاصہ تذھیب الکمال '' (١٥٨) اس کی تاریخ و فات بھی ذکر کی گئی ہے۔
٤۔''جرح و تعدیل '' (١/٨٦) تیسرا حصہ

صوحان کے بیٹوں کے نام :
١۔''جمہرۂ انساب '' ابن حزم (٢٩٧) لفظ ''بنی عجل''
٢۔''اللباب '' ابن اثیر (٢/٦٢)
٣۔''تاریخ خلیفہ بن خیاط'' (١/١٧٢)
٤۔''طبقات''ابن خیاط (١/٣٢٧)سیف کی روایتوں میں ذکر ہوئے

سیف کی روایتوں میں مذکور اس داستان کے مقامات کی تفصیلات :
١۔''معجم البلدان'' حموی لفظ:
خیم (٢/٥١٠)
ریاضتہ الروضتہ (٢/٨٨١)
جیروت (٢/١٧٥)
صبرات (٣/٣٦٦)
ظہور (٣/٥٨٢)
اللبّان (٤/٣٤٥)
المر (٤/٤٩٥)
ینعب (٤/١٠٤١)