ایک سو پچاس جعلی اصحاب( جلدچہارم )
 

٧٧واں جعلی صحابی خصفۂ تیمی
یہ صحابی ' ابن حجر کی ''اصابہ '' میں یوں پہنچوایا گیا ہے :

خصفہ تیمی:
طبری نے روایت کی ہے کہ خصفہ تیمی کو علاء حضرمی نے ارتداد کی جنگوںمیں اپنی فوج کے ایک حصہ کا کمانڈر مقرر کیا ہے ۔
ہم نے بھی بارہا کہا ہے کہ قدما کی رسم یہ تھی کہ جنگو ں میں صحابیوں کے علاوہ کسی اور کو سپہ سالاری کے عہدہ پرفائزنہیں کرتے تھے ۔(ابن حجر کی بات کا خاتمہ)
اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ ابن حجر نے اسی استدلال کی بنا ء پر ''خصفہ '' کو بعنوان صحابی قبول کیا ہے ، بجائے اس کے کہ اصل خبر پر کوئی تحقیق کرے ۔
لیکن اس خبر کی اصلیت کے بارے میں ہم نے گزشتہ صفحات میں ''عامر بن عبدالاسد ''کے حالات کے ضمن میں سیف کی روایت میں پڑھا ہے کہ علاء حضرمی نے عامر اور دوسرے لوگوں کو ایک پیغام کے ذریعہ حکم دیا تھا کی مرتدوں کی نقل و حرکت میں رکا وٹ بنیں۔
طبری سیف سے نقل کر کے اس داستان کے ضمن میں لکھتا ہے :
علاء نے ''خصفۂ تیمی'' اور ''مثنی بن حارث شیبانی '' کے نام ایک جیسے پیغام بھیجے ۔ وہ بھی مرتدو ں کے راستے میں گھات لگاکر بیٹھے اور ان کی ہر قسم کی فعالیت کو معطل کر کے رکھدیا ۔

داستان کا سرچشمہ :
ہم نے اس سے پہلے کہا ہے کہ سیف بن عمر نے اس داستان کو اول سے آخر تک خود جعل کیا ہے ۔ اور اسے ''سہل بن یوسف بن سہل ''جیسے راویوں کی زبانی جاری کیا ہے کہ دونوں باپ بیٹے سیف کے جعلی اصحاب میں سے ہیں ۔ ہم نے بارہا ان کے جعلی و خیالی ہونے کا تذکردیا ہے ۔
لیکن درج ذیل علماء نے''خصفہ ''کے افسانہ کو نقل کرنے کا براہ راست اقدام کیاہے :
١۔طبری نے اسے بلاواسطہ سیف سے نقل کر کے اپنی تاریخ میں درج کیا ہے ۔
٢۔ ابن اثیر نے اسے طبری سے نقل کیاہے .
٣۔ ابن حجر نے سیف کی روایت پر اعتماد کر کے اس کے اسی ایک مختصر جملہ میں ، جس میں خصفہ کا نام آیا ہے ، سے استفادہ کرتے ہوئے اسے رسول خداۖ کے پہلے درجے کے صحابیوں میں قرار دیا ہے ۔ اور اس کے حالات پر حرف''خ'' کے تحت شرح لکھی ہے اور آخرمیں اپنے مشہور قاعدہ کی بھی قید لگادی ہے ۔

ایک اور جعلی صحابی :
ابن حجر نے ''خصفہ ٔ تیمی ''کے حالات پر روشنی ڈالنے سے پہلے ایک مجہول راوی سے ایک دوسری روایت پر استناد کر کے خصفہ یا ابن خصفہ یا خصیفہ نام کے ایک دوسرے شخص کو رسول خداۖ کے صحابی کے عنوان سے درج کیا ہے ۔
ابن اثیر نے بھی ایسا ہی کر تے ہوئے اسی مجہول راوی پر اعتماد کر کے ان ناموں کو رسول اﷲۖکے صحابیوں کے زمرہ میں قرار دیا ہے !
ان دوعلماء نے ایک بار ایک مجہول راوی کے کہنے پر اعتماد کر کے '' خصفہ '' یا ''ابن خصفہ '' یا خصیفہ نام کے صحابیوں کو پہچنوایا ہے اور دوسری بار جھوٹے ورزندیقی سیف کی روایتسے استناد کر کے خصفہ تیمی کو صحابی جان کر اس کے حالات لکھے ہیں !
جی ہا ں !یہی وجہ ہے کہ مکتب خلفاء کے پیروؤں کے درمیا ن جعلی اصحاب کی تعداد فرواں پائی جاتی ہے ۔

مصادر و مآخذ
خصفہ تمیی کے حالات :
١۔ ''اصابہ '' ابن حجر ( ١/٤٢٨) حصہ اول نمبر: ٢٦٦٩

خصفہ تمیی کے بارے میں سیف کی روایت:
١؛تاریخ طبری (١/١٩٧)

خصفہ یا ابن خصفہ کے حالات:
١۔''اسدالغابہ'' ابن اثیر (٢/١٩٧)
٢۔''تجرید'' ذہبی (١/١٧١)
٣۔''اصابہ ابن حجر (١/٤٢٧۔٤٢٨) نمبر: ٢٢٦٨

٧٨واں جعلی صحابی یزید بن قینان
اس صحابی کے حالات ہم ابن حجر کی کتاب ''اصابہ '' میں یوں پڑھتے ہیں :

یزید بن قینان:بنی مالک بن سعد سے۔
سیف بن عمر نے اپنی کتاب ''فتوح ''اور طبری نے اپنی تاریخ میں اس کانام لیا ہے اور لکھا ہے کہ ''عکرمہ بن ابی جہل '' نے اسے چند ساتھیوں کے ہمراہ ارتداد کی جنگوں میں شریک کیا ہے اور قبائل ''کندہ '' کے مرتددں کی سرکو بی کے لئے مأموریت دی ہے
اس صحابی کو ابن فتحون نے ابن عبدالبر کی کتاب ''استعیاب '' سے دریافت کیا ہے۔خدا بہتر جانتا ہے .(ابن حجر کی بات کا خاتمہ )

نسب:
سیف کے اس جعلی صحابی کے باپ کا نام ''تاریخ طبری '' میں ایک جگہ پر ''قناّن '' اور ایک دوسرے نسخہ میں ''فتیان ''درج ہوا ہے ۔
لیکن سعد کا نام جواس کے سلسلہ ٔ نسب میں نظر آتا ہے اور بنی مالک اس سے پیدا ہوئے ہیں وہ''ابن زید مناةبن تمیم ''تھا ۔

یزید قینان کی داستان تاریخ طبری میں:
طبری ١١ھ کے حوادث کے ضمن میں ''اخبار ارتداد حضرموت '' اور ''جنگ نجیر'' والے حصہ میں سیف بن عمر سے نقل کر کے لکھتا ہے :
عکرمہ نے اپنے جنگجو سواروں کو ''قبائل کندہ '' میں منتشر کیا اور انھیں حکم دیا کہ انھیں کچل کے رکھدیں ۔ اس مہم میںماموریت پانے والے سرداروں میں بنی مالک بن سعد سے'' یزید بن قنان ' ' بھی تھا .
عکرمہ کے سواروں کے اس حملہ کے نتیجہ میں ''بقری '' اور بنی ھند'' سے ''برہوت'' تک کے تمام باشندے قتل عام ہوئے ۔(طبری کی بات کا خاتمہ )
سیف کی روایت میں ''نجیر ''کی جنگ کی بات کہی گئی ہے اور یہ حضر مو ت کے نزدیک ایک قلعہ تھا ، جہا ں پر اشعت بن قیس کی سرپرستی میں کندی افراد ابوبکر کے سپاہیوں کے محاصرہ میں آگئے تھے۔
جب محاصرہ روز بروز سخت ہوتا گیا تو اشعت نے بڑی بے غیرتی سے اپنے رشتہ داروںمیں سے سترافراد کے لئے امان حاصل کی، اس کے بعد اپنے دوسرے ساتھیوں کے بارے میں کسی قسم کی پروا کئے بغیرحکم دیا کہ قلعہ کے دروازے خلیفہ کے سپاہیوں کے لئے کھول دیں!
ابو بکر کے سپاہیوں نے قلعہ کے اندر یورش کی اور اشعث اور امان یافتہ اشخاص کے علاوہ اس کے باقی تمام باوفا ساتھیوں جن کی تعداد سات سو امراء اور کند کے عوامی سپاہیوں پر مشتمل تھی قتل عام کئے گئے ! ان کی لاشوں کو بے گور و کفن زمین پر پڑا رکھا گیا ،ان کی عورتوں کو اسیر بنا یا گیا اور ان کے مال و منال کو لوٹ لیا گیا !!
سیف کی اس روایت میں جن مقامات کا نام آیا ہے ، وہ حسب ذیل ہیں :
١۔برہوت، یہ یمن میں ایک بیابان کانام ہے ۔
٢۔ بقران ، یمن کے اطراف میں ایک علاقہ کو کہاجاتا ہے .لیکن ہم نے ''بقری '' نام کی کوئی جگہ جغرافیہ کی کتابوں میں کہیں نہیں پائی ۔ خدا بہتر جانتا ہے کہ ''بقری '' کو خلق کرنے میں سیف کا مقصد کیا تھا ؟!

یزید قینان کی روایت کی پڑتال :
سیف تنہا شخص ہے جس نے یزید قینان کی داستان کو ''سہل ''اور اس کے باپ''یوسف '' کی زبانی نقل کیا ہے ۔ اس جھوٹے نے روایت کو اپنے جعلی راویوں کی زبان پرجاری کیا ہے۔

بحث کا نتیجہ:
سیف تنہا شخص ہے جس نے عکرمہ بن ابی جہل کی طرف سے ''یزید بن قینان'' کو سیف کے بقول مرتد لوگوں کی سرکوبی اور انھیں قتل کرنے کے حکم کی روایت کی ہے .
سیف تنہا شخص ہے جس نے اس لشکر کشی میں ''بقری بنی ھند تا برہوت '' کے باشندوں کے قتل عام کی بات کہی ہے ۔واضح ہے کہ اس قسم کے جھوٹ کو کہنے میں اس کا مقصد خاندان تمیم کی شجاعتوں اور دلاوریوں کو چار چاند لگاکر ان کی شہرت کرنا ہے ۔
دوسری جانب سیف ارتداد کی جنگوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے اور ان جنگوں کے بارے میں سنسنی خیز اور رونگٹے کھڑے کردینے والی خبروں کو گڑھ کے پیش کرنے میں یہ مقصد رکھتا تھا کہ جس طرح بھی ممکن ہو سکے یہ ثابت کرے کہ اسلام نے عرب قبائل کے دلوں میں کوئی خاص نفوذ نہیں کیا تھا ۔ اس لئے جوں ہی پیغمبر اسلام ۖ نے رحلت فرمائی ، وہ آسانی کے ساتھ آپ ۖ کی دین سے منہ موڈکر پھرسے جاہلیت اور بت پرستی کی طرف پلٹ گئے ۔اور یہ خلیفہ ابوبکر تھے جنہوں نے تلوار کے ذریعہ اسلام کو دوبارہ استحکام بخشا ہے !
تاریخ اسلام پر سیف کے روا رکھے گئے ان خوفنا ک جرائم کے بعد طبری جیسے بزرگ عالم کی باری میں آتی ہے اور وہ اس عیار' جس پر جھوٹ بولنے اور زندیقی ہونے کا الزام بھی ہے، کے افسانوں کو اپنی گراں قدر اورمعتبر کتاب میں درج کرتا ہے۔
کچھ وقت گزرنے کے بعد ایک اور عالم ابن فتحون آکر سیف کی روایتوں پر اعتماد کرتے ہوئے ''یزید بن قینان '' کو ابن عبدالبر کی کتاب ''استعیا ب '' سے دریافت کرتا ہے !
اورسرانجام ابن حجر سیف کے خیالات کی مخلوق''یزید بن قینا ن '' کو رسول خداۖ کے اصحاب کی فہرست میں قرار دیتا ہے اور اس کے حالات لکھ کر اپنی کتا ب ''اصابہ ' میں درج کرتا ہے ۔

مصادر و مآخذ
یزید بن قینان کے حالات :
١۔''اصابہ'' ابن حجر (٣/٦٣٥) تیسرا حصہ نمبر:٩٤١٢

یزید بن قینان کی داستان کے بارے میں سیف کی روایت :
١۔''تاریخ طبری '' (١/٢٠٠١۔٢٠٠٧)

اشعث بن قیس کی داستان اور '' کندہ '' کا ارتداد:
١۔''فتوح'' ابن اعثم (١/٥٦۔٨٧)
٢۔''فتوح البلدان '' بلاذری (١٢٠۔١٢٤)
٣۔''عبداﷲبن سبائ''(٢/٢٨٧۔٣٠٤)
٤۔''معجم البلدان'' حموی لفظ ''نجیر '' (٤/٧٦٢۔٧٦٤) اور لفظ ''حضر موت'' (٢/٢٨٤۔٢٨٧)

سیف کے اجعل کردہ مقامات کی تشریح:
١۔''معجم البلدان '' حموی لفظ ''بقرہ '' (١/٦٩٩)
لفظ ''برہوت '' (١/٥٩٨)