ایک سو پچاس جعلی اصحاب( جلدچہارم )
 

٧٤واں جعلی صحابی عامر بن عبدالا سد
ابن حجر نے اپنی کتاب'' اصابہ '' میں اس صحابی کے حالات کی یوں تشریح کی ہے :

عامر بن عبدالاسد:
اس نے رسول خداۖ کا زمانہ درک کیاہے .
طبری نے اپنی تاریخ میں لکھا ہے کہ ''علاء حضرمی '' نے ایک خط کے ذریعہ اسے حکم دیا کہ مرتدوں کو کچلنے ، ان سے جنگ کرنے اور ان کے بارے میں اطلاعات کسب کرنے میں کوئی دقییقہ اٹھا نہ رکھے ۔ انہی مطالب کو ابن فتحون نے ذکر کیا ہے ۔ لیکن اس صحابی کے نسب کے بارے میں کوئی ذکر نہیں کیا ہے
لیکن میری نظر میں اگر یہ عامر ''ام مسلمہ'' کے پہلے شوہر ''ابو سلمہ بن عبدالاسد مخزومی ''کا بھائی ہوگا، تو وہ رسول خداۖکے صحابیوں میں سے ہے ۔(ز)(ابن حجر کی بات کا خاتمہ)
عامر بن عبدالاسد کانام سیف کی دو روایتوں کے تحت ''تاریخ طبری '' میں آیا ہے۔پہلی روایت میں طبری کہتا ہے :
١١ھ میں ''بحرین '' میں ارتداد کی جنگوں کے ضمن میں ''حطم'' اور اس ساتھیوں کے ارتداد کے بارے میں کچھ سیف کی روایتوں سے معلوم ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ ...
اور علاء حضرمی کی ان کے ساتھ نبردآزمائی اور ان پر غلبہ پانے کے بعد کے حالات کے بارے میں تشریح کرتے ہوئے یوں بیان کرتا ہے :
اکثر فراری '' دارین '' کی طرف بھاگ گئے اور کشتیوں میں سوار ہوا کر اپنی جان بچائی اور باقی لوگ بھی اپنے شہروں کی طرف چلے گئے ۔ علاء نے بھی ایک خط کے ذریعہ'' بکر بن وائل '' جیسے ثابت قسم مسلمانوں کو اور ایک پیغام کے ذریعہ ''عتیبہ بن نہاس اور عامر بن عبدالاسود ''کو حکم دیا کہ مرتدوں پر ہر طرف سے راستہ بند کردیں اور اپنے فرایض پر عمل کریں ...
اس کے بعد طبری سیف کی روایت کو یوں جاری رکھتا ہے :
انہوں نے بھی راہیں بند کیں اوران کی ہر قسم کی سر گرمیوں کے لئے رکاوٹ بنے ۔نتیجہ کے طور پر ان میںسے بعض لوگوں نے معافی مانگی اور اپنی گزشتہ کارکردگیوں پر پیشمانی کا اظہار کیا ، ان کی معافی قبول کی گئی اور وہ امن سے رہنے لگے ۔بعض لوگوں نے ان کی تجویز کو رد کر کے توبہ کرنے سے اجتناب کیا اور''دارین ''کی طرف بھاگ گئے ۔(داستان کے آخر تک )
ابن حجر نے ''عامر بن عبدالاسد '' کے حالات پر روشنی ڈالتے وقت سیف کی اس روایت کو مدنظر رکھا ہے ۔کہ لکھتا ہے ۔
علاء حضرمی نے ایک خط کے ذریعہ اسے حکم دیا ۔۔۔ (سیف کی روایت کے آخر تک)
سیف کی دوسری روایت جس میں ''عامر ''کا نام لیا گیا ہے ، تاریخ طبری میں ١٧ھ کے وقائع کے ضمن میں ''تستر ''میں ''ھرمزان '' کی جنگ کے موضوع کے تحت وہ ہے کہ کہتا ہے :
سیف نے لکھا ہے کہ ''بصرہ '' کے دلاوروں اور پہلوانوں کے ایک گروہ نے ایرانیوں کے ساتھ دست بدست لڑائی میں ہر ایک نے ایرانی سپاہیوں کے سو افراد کو موت کے گھاٹ اتارا ہے ۔
اس کے بعد سیف کہتا ہے:
کو فیوں میں بھی بعض دلاور و پہلوان موجود تھے جنہوں نے نما یا ں کارنامے انجام دئے ہیں ،جیسے ''حبیب بن قرّة '' ، '' ربعی بن عامر '' اور عامر بن عبدالاسد ١'' کہ یہ رئیسوں اور سرداروں اور فرماں روا کے ہم پلہ تھا ۔۔۔۔ (تاآخر روایت )
سیف نے ''عامر '' کے بارے میں اپنی روایت میںدرج ذیل ناموں کو راوی اورمآخذکے طور پر پہنچوایا ہے :
١۔ ''صعب بن عطیہ بن بلال ' یہ تینوں یعنی باپ بیٹا اورپوتہ سیف کی مخلوق اور جعلی ہیں ۔
٢۔ محمد و ملہب یا محمد بن عبداﷲ بن سواد اور مہلب بن عقبہ اسلامی ، کہ یہ دونوں بھی اس کے جعلی راویوں میں سے ہیں ۔
..............
١۔تاریخ طبری کے بعض نسخوں میں ''عبد الاسود'' آیا ہے۔
سیف نے عامر کے باپ کا کیا نام رکھا ہے ؟
ہم نے دیکھا ہے کہ ایک جگہ پر عامر کے باپ کا نام ''عبدالاسد '' آیا ہے اور دوسری جگہ پر عبدالاسود ۔ قابل ذکر ہے کہ عامر کے باپ کا نام سیف کی دوسری روایت میں ''تاریخ طبری '' کے بعض نسخوں میں '' عبدالاسود آیا ہے اور دیگر جگہوں پر عبدالاسد ثبت ہو ا ہے اور بعید نہیں ہے کہ یہ نام پہلی روایت میں بھی۔ ابن حجر واین فتحون کے پاس موجود تاریخ طبری کے نسخوں میں''عبدالاسد'' ہوگا کہ ابن حجر نے اسے ''عامر بن عبدالاسد '' پہچنوایا ہے ۔

ام سلمہ کا دیور :
اور ، یہ کہ ابن حجر عامر کے حالات کے آخر پر لکھتا ہے :
اگر یہ شخص ام سلمہ کے پہلے شوہر ابو سلمتہ بن عبدالاسد مخزورمی '' کا بھائی ہوگا تو وہ صحابی تھا ۔
نسب شناسو ں نے ''ابو سلمہ'' کے لئے '' عامر '' نام کا کوئی بھائی پیش نہیں کیا ہے ۔انہوں نے عبدالاسد کے لئے درج ذیل تین بیٹوں کا نام لیاہے :
عبدالاسد کے بیٹووں میں سے ایک '' ابوسلمہ'' ہے کہ اس کا نام عبداﷲ تھا اور وہ رسول خداۖ سے پہلے '' ام المؤمینین ام سلمہ'' کا شوہر تھا ۔
دوسرا ''اسود بن عبدالاسد '' ہے ، یہ مسخرہ کرنے والوں میں سے تھا اوررسول خدا ۖ اور آپ کے دین کا مذاق اڑاتا تھا اور جنگ بدر میں کفر کی حالت میں قتل ہوا ہے ۔
اور تیسرے کا نام ''سفیان بن عبداالاسد تھا ''
اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ ''عبدالاسد '' کے بیٹوں میں ''عامر '' نام کا کوئی بیٹا نہیں تھا کہ ابن حجر اسے صحابی بنائے ۔
دوسری جانب ہم دیکھتے ہیں کہ علامہ ابن حجر ''عامر '' کا تعارف کراتے ہوئے ''لہ ادارک'' کی عبارت سے استفادہ کرتے ہیں، اس سے ان کی مراد یہ ہے کہ اس شخص نے رسول خداۖ کا زمانہ درک کیا ہے ۔ اور اس طرح اسے تیسرے درجہ کے صحابیوں میں قرار دیکر اس کے حالات پر اپنی کتاب کے اس حصہ میں روشنی ڈالی ہے ۔
یہا ں پر یہ بات قابل ذکر ہے کہ دوسری روایت کے مطابق سیف نے اپنی مخلوق ''عامر '' کو ''عراق' کی جنگوں اور تستر میں '' ھر مزان '' کی جنگ میں سعد وقاص کے ہمراہ شرکت کرتے دکھا یا ہے ۔ حق یہ تھا کہ ہم بھی اسے (عراق کی جنگجوں میںسپہ سالار کے عنوان سے ) سیف کے جعلی صحابیوں کی فہرست میں قرار دیتے ۔
لیکن ایسا نہ کرنے میں ہمارا مقصد یہ تھا کہ مکتب خلفاء کے علماکے ''لہ ادراکُ'' کی عبارت سے ان کے مقصد کو مکمل طور پر مشخص کردیں۔

مصادر و مآخذ
عامر بن عبدالاسد کے حالات:
١۔''اصابہ'' ابن حجر (٣/٨٦) حصہ سوم نمبر: ٦٢٨٧

عامر کے بارے میں سیف کی روایتیں :
١۔ ''تاریخ طبری '' ( ١/١٩٧١) ، (١/٢٥٥٤)

عبدالاسد مخزوری کا نسب:
انساب '' ابن حزم (١٤٤)