ایک سو پچاس جعلی اصحاب( جلدچہارم )
 

٧٢واں جعلی صحابی سعد بن عمیلہ
ابن حجر کی ''اصابہ '' میں اس صحابی کا یوں تعارف ہوا ہے :

سعد بن عملیہ فزاری :
اس نے عصر رسول خداۖ کو درک کیا ہے ۔سیف بن عمر نے اپنی کتاب ''فتوح '' میں لکھا ہے کہ سعد وقاص نے سعد بن عمیلہ کو اپنے نمائند ہ کے طور پر خلیفہ ٔ عمر کے پاس بھیجا تھا تاکہ قادسیہ کی فتح کی نوید کو ان خدمت میں پہنچا دے (ز) (ابن حجر کی بات کاخاتمہ )
سیف نے جو نسب اپنے اس جعلی صحابی کے لئے منتخب کیا ہے وہ ''فزاری '' ہے جو حقیقت میں ''فزارةبن ذبیان بن بغیص بن .... قیس عیلان عدنانی '' کی طرف نسبت ہے ۔
ابن حجر نے اس کے حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے سیف کی کتاب ''فتوح '' کی قید لگاتے ہوئے سعد بن عملیہ کے سعد وقا ص کی طرف سے نمائندہ کے طور پر عمر کی خدمت میں پہنچنے کے بارے میں خبردی ہے ۔ اس مطلب کو طبری نے سیف بن عمر سے نقل کر کے ، لیکن مزید تفصیل کے ساتھ اپنی تاریخ میں درج کیا ہے ۔ وہ کہتاہے :
جب قادسیہ کی جنگ ختم ہوئی تو سعد وقاص نے اس عظیم فتح کی نوید خلیفہ عمر کو لکھی ساتھ ہی مقتولین اور مجر و حین کے نام بھی اپنے علم کی حدتک اس میں لکھ دئے ۔خط کو سعد بن عملیہ فرازی کے ہاتھ دیکر خلیفہ کی خدمت میں مدینہ بھیجدیا ۔

سعد کی روایت کے راویوںپر تحقیق :
سیف نے'' سعد عمیلہ ''کی داستان کو مندرجہ ذیل تین راویوں سے مستحکم کیا ہے تاکہ قارئین یہ تصور کریں سعد کی خبرتین روایتوں میں آئی ہے :
١۔نضر بن سری نے رفیل بن میسورسے .
٢۔ محمد ،یا محمد بن عبداﷲ بن سواد .
٣۔ مہلب یا مہلب بن عقبۂ اسدی ۔
٤۔ چند دیگربے نام افراد۔
ہم اپنی گزشتہ بحثوں میں بارہا ان ناموں سے روبرو ہوئے ہیںاور کہا ہے کہ یہ سیف کے حبل کردہ تھے اور حقیقت میں وجودنہیں رکھتے ہیں ، اس صورت میں بے نام افراد کا حال معلوم ہی ہے کیا ہوگا !!

داستان کا نتیجہ :
سیف ، اس عدنانی مضری صحابی کو خلق کرکے خوشخبری کا پیغام لے کر مضری خلیفہ ٔ وقت عمر کی خدمت میں بھیجتا ہے تاکہ مسلمانوںکی عظیم اورفیصلہ کن جنگ میں سعد وقاص مضری کی سپہ سالاری میں حاصل کی گئی فتح و کامیابی کی نوید ان کو پہنچادے اور یہ افتخارات صرف مضری قبیلہ کے افراد کے درمیا ن ردبدل ہوجائیں۔
اس دروان ابن حجر جیسا علامہ ٔ آگے بڑھتا ہے تاکہ رسول خداۖ کے اس صحابی کو اس عظیم نعمت کے کسب کرنے سے محروم نہ رکھے بلکہ قادسیہ کی جنگ کی فتح و کامیابی کی بشارت دینے والے کی حیثیت بھی اس میں بڑھادے۔لیکن جو شرائط اور قواعد انہوں نے ابن ابیشیبہ کی روایت کی بنیاد پر ( کہ جس کے راوی بھی نامعلوم و مجہول ہیں اور ان کی اس کو کوئی پر وا نہیں ہے ) وضع کئے ہیں ، اس صحابی پر صادق نہیں آتے ،اور سیف نے بھی نہیں کہا ہے یہ سعد عمیلہ کسی سپہ سالاری کے عہدہ پر فائز تھا ، تاکہ اس کی بنیا د پر اسے رسول خداۖ کے صحابیوں میں شامل کیا جاتا !
اس بناپر ابن حجر اس مسئلہ کا علاج تلاش کرنے کی فکر میں لگتا ہے تاکہ اسے رسول خداۖکا صحابی بنائے۔لہذا سیف کی اس روایت اور''لہ ادراک'' کی قید کا سہارا لے کر مسئلہ کو حل کرتا ہے اور سعد عمیلہ رسولۖاﷲ کے ان صحابیوں میں قرار پاتا ہے جس نے آنحضرت ۖکا زمانہ درک کیا ہے ۔
ابن حجر اس صحابی کی تشریح کے آخر میں حرف (ز) لکھ کر یہ کہنا چاہتا ہے کہ اس صحابی کو اس نے پہچانوایا ہے اور اس کے حالات دیگر تذکرہ نویسوں کو معلوم نہیں ہیں۔

مصادر ومآخذ
سعد بن عمیلہ فزاری کے حالات :
١۔''اصابہ '' ابن حجر ( ٢/١١٠) حصہ سوم نمبر ٣٦٧٣

سعد بن عمیلہ کے بارے میں سیف کی روایت :
١۔''تاریخ ''طبری '' (١/٢٣٣٩۔٢٣٤٠) ،(٢٣٦٦)

''فزارہ'' کا نسب :
''جمہرہ انساب '' ابن حزم ( ٢٥٥۔٢٥٩)

٧٣واں جعلی صحابی قریب بن ظفر عبدی
ابن حجر نے اپنی کتاب ''اصابہ '' میں اس صحابی کا یوں تعارف کرایا ہے :

قریب بن ظفر :
وہ من جملہ ان افراد میں سے ہے جس نے رسولۖخدا کا زمانہ درک کیا ہے اس نے ''نہاوند'' کی جنگ میں سعد وقاص کا پیغام خلیفہ ٔ عمر کو پہنچایا تھا۔
جب '' قریب ''خلیفہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنا تعارف کیا تو خلیفہ نے اس کے اور اس کے باپ کے نام کو فالِ نیک شمار کیا اور کہا:
ظفر قریب = فتح نزدیک ہے ۔
اس کے بعد ''نعمان بن مقرن '' کی سپہ سالاری کا حکم جاری کیا ۔
یہ داستان ٢١ھمیں واقع ہوئی ہے ... (ابن حجر کی بات کا خاتمہ )
جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں ابن حجر نے اس تشریح میں نہ ''قریب '' کے نسب کا ذکر کیا ہے اور نہ اس روایت کے راویوں کانام لیاہے ۔لیکن طبری نے اپنی تاریخ میں سیف کی دو روایتوں کے مطابق نہاوند کے واقعہ اور ٢١ھ کے حوارت کیضمن میں ان دونوں موضوعات کو واضح کیا ہے١ ۔ وہ پہلی روایت میں لکھتاہے :
جس وقت سعد وقاص کوفہ میں گورنر کے عہدہ پر فائزہ تھا ، ایران کی تازہ دم فوج ''نہاوند '' میں عربوں سے نبردآزمائی کے لئے جمع ہو رہی تھی ۔سعد نے اس موضوع کو ایک خط کے ذریعہ خلیفہ کی خدمت میں پہنچادیا اور اس کے ضمن میں ایرانیوں کے ساتھ جنگ میں کوفیوں کی شرکت کی درخواست بھی خلیفہ تک پہنچادی ۔
اس خط کے روانہ کرنے کے بعد ، چونکہ کوفیوں نے خلیفہ کی خدمت میں سعد وقاص کی شکایت کی تھی ،اس لئے سعد مجبور ہو کر عبداللہ بن عتبان کوکوفہ میں اپناجانشین مقرر کر کے خلیفہ کے دیدار کے لئے راہی مدینہ ہوا ۔
سعد نے ایرانیوں کے ''نہاوند ''میں اجتماع کی رپورٹ پہلے ہی ''قریب بن ظفرعبدی ''کے ہاتھ خلیفہ کی خدمت میں بھیج دی تھی ۔
جب ''قریب '' خلیفہ عمر کی خدمت میں حاضر ہوا تو عمر نے اس پوچھا :
تمہارا نام کیا ہے ؟
اس نے جواب دیا:
قریب۔
١۔طبر ی نے ٢١ھ کے وقا ئع اور روداد کو اپنی کتاب میں ثبت کرتے وقت سیف کی مذکورہ دوروایتوںکو ،جو وقائع نہاوند کی حکایت کرتی ہیں ، درج کیا ہے ، ایسا نہیں ہے کہ سیف نے تاریخ وقوع کو ٢١ھ جانا ہے بلکہ سیف نے اپنی روایتوں میں اس بات کی صراحت کی ہے کہ نہاوند کی جنگ ١٨ھ میں واقع ہوئی ہے .
تمہارے باپ کا کیانام ہے ؟ ''قریب نے جواب دیا :
ظفر ،عمر نے اس کے اور اس کے باپ کے نام کو فال نیک قرار دیکر کہا:
انشاء اﷲ (ظفر قریب) فتح و کامیابی نزدیک ہے .
طبری دوسری روایت میںخلیفہ کی طرف سے ایرانیوں کے ساتھ جنگ میں ''نُعمان مقرن'' کے سپہ سالار مقرر کئے جانے کے حکم کی بات کرنے کے بعد سیف سے نقل کرکے لکھتا ہے :
''قریب '' نعمان مقرن کی خدمت میں پہنچا اور خلیفہ کا اس مضمون کا ایک خط اس کے ہاتھ میں دیا :
عرب فوج اورعصر جاہلیت کے نامور شخدلیر تیرے اختیار میں ہیں۔ ان سے ان لوگوں سے کمتر استفادہ کرو جو جنگ اور اس کے فنون کے بارہ زیادہ معلومات نہیں رکھتے' اور نہ یتیموں کے جنگ میں ان کی رائے اور عقل سے فائدہ اٹھاؤ۔
''طلیحہ بن خویلد '' اور عمر وبن معدی کرب '' سے جو چاہوپوچھ لو لیکن ہر گز انہیں کوئی کام نہ سونپنا !
سیف کہتا ہے کہ نہاوند کی فتح ، کوفہ پر ''عبداﷲ بن عبداﷲ بن عتبان'' کی حکومت کے زمانہ میں واقع ہوئی ہے۔

افسانۂ قریب کے اسناد کی پڑتال :
سیف نے اپنے ''قریب بن ظفر '' کے افسانہ کو ایسے راویوں کی زبانی نقل کیا ہے جو حقیقت میں وجود نہیں رکھتے تھے ،ہم نے ان کے جعلی ہونے کی بارہا تاکید کی ہے ۔یہ راوی حسب ذیل ہیں :
١۔ محمد ، یا محمد بن عبداﷲ بن سواد نویرہ ۔
٢۔ مہلب ،یا مہلب بن عقبہ اسلامی ۔
٣۔ حمزہ ،یا حمزہ بن علی بن محتفنر ۔
٤۔ چند دوسرے مجہول افراد ، جیسے ''عمرو '' معلوم نہیں ہے سیف نے اس سے کو ن سا شخص خیا ل کیا ہے ۔ کیا اسے '' ریاّ ن '' کا بیٹا جعل کیا ہے یا فرزند ''تمام '' یہ دونوں بھی اس کے جعلی راوی ہیں اوراس کے دیگر راویوں کی طرح وجود نہیں رکھتے ہیں ؟!

واقعہ نہاوند کی حقیقی داستان
واقعہ''نہاوند ''کو دیگر مورخین نے دوسری صورت میں درج کیاہے ، کہ اس میں''قریب بن ظفر '' ''عبداﷲ بن عبداﷲ بن عتبان''کی جانشینی اورسیف کے دوسرے جھوٹ کا کہیں نام و نشان نہیں پایا جاتا ۔ یہ لوگ ، من جملہ بلاذری اپنی کتاب ''فتوح البلدان ''اور دینوری اپنی کتاب '' اخبار الطوال''میں لکھتے ہیں :
''عماریاسر'' نے جو اس زمانہ میں کوفہ کے حاکم تھے ، نہاوند میں ایرانیوں کے اجتماع کی خبر خلیفہ عمر کی خدمت میں پہنچائی...(آخر داستان تک )
اسی طرح ''خلیفہ بن خیاط '' ، بلاذری '' اور دینوری '' نے لکھا ہے کہ ''نعمان بن مقرن '' کی سپہ سالاری کا حکم خلیفہ نے ''سائب بن اقرع '' کے ذریعہ اس تک پہنچایا ہے ۔
اس بناء پر ان علماء کی باتوں سے یہ نتیجہ نکلتاہے کہ نہاوند کی فتح کوفہ پر ''عمار یاسر '' کی حکومت کے زمانہ میں ،کوفیو ں کی شکایت پر سعدوقاص کی معزولی کے بعد واقع ہوئی ہے ، نہ کہ عتبان کے نواسہ عبداﷲ کے زمانہ میں ۔
خلیفہ عمر کے فرمان کا حامل بھی '' سائب بن اقرع ''تھانہ کہ ''قریب بن ظفر''

بحث و تحقیق کا نتیجہ
''تاریخ طبری ''میں درج ہوئی سیف بن عمر کی روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ سیف نے اپنے اس جعلی صحابی کو '' عبدی ''نام سے یاد کیاہے ، کہ یہ ''قبائل عدنان بنی ربیعہ بن نزار سے عبدالقیس بن افصی'' سے نسبت ہے ۔
سیف نے نہاوند کی جنگ واقع ہونے کی تاریخ میں تحریف کر کے اسے ١٨ھ میں واقع ہونا لکھا ہے جبکہ ابن اسحاق اور دوسروں کی راویت کے مطابق یہ جنگ ٢١ ھ میں واقع ہوئی ہے !
سیف نے نہاوند کی جنگ کے دوران کوفہ کے حاکم بالتریب سعد وقاص اور عتبان کے پوتہ عبداﷲ بتلایا ہے اور اور انھیں عمار یا سر سبائی قحطان کی جگہ پر بٹھا دیا ہے ۔
'' سائب بن اقرع ''خلیفہ کی طرف سے ''نعمان بن مقرن '' کی سپہ سالاری کافرمان لانے والا قاصد اورمامور تھا ،لیکن سیف نے اپنی پسند کے مطابق اس کی جگہ پر اپنے ایک خیالی شخص ''قریب بن ظفر '' کو رکھاہے ۔تاریخ میں اس وسیع دخل و تصرف کے بعد سیف ان سب واقعات کی ایسے راویوں سے روایت کرتا ہے جوحقیقت میں وجودنہیں رکھتے تھے !!
اور ابھی زیادہ زمانہ نہیں گزراتھا کہ'' طبری '' جیسا عالم اور نامورمورخ سیف کے ان تمام جھوٹ اور افسانوں کو اس سے نقل کر کے اس کے نام کے ذکر سے اپنی تاریخ کبیر میں درج کر تا ہے !
سرانجام طبری کے بعد دوسرے علماء جیسے ، ابن اثیر،ابن کثیر اور میرخواند طبری کے نقش قدم پر چل کر طبری کے مطالب کو اپنی تاریخ کی کتابوں میں درج کرتے ہیں البتہ اس فرق کے ساتھ کہ ابن اثیر نے خلیفہ کے ایلچی کا نام ذکر نہیں کیا ہے ،اور میر خواند وابن اثیر نے اس افسا نہ کو نقل کرنے میں اختصار سے کام لیا ہے اور جب ابن حجر کی باری آتی ہے تو گویا یہ عالم یہ چاہتا ہے کہ خلیفۂ مسلمین کے قاصد ہونے کا امتیازبھی رسول خداۖ کے صحابی کے لئے محفوظ رکھے ۔ اس لحاظ سے ''قریب بن ظفر '' کو اصحاب کی فہرست میں قرار دیتا ہے ۔ اور احتیاط کے طور پر کہ اس سلسلے میں جھوٹ نہ کہا ہو ، اس کے حالات کی تشریح میں اپنی کتاب کے تیسرے حصہ میں ''لہ ادراکُ'' کا عنوان ثبت کرتا ہے اور اس طرح اس کے صحابی ہونے کی دلیل پیش کرتا ہے ۔

مصادر و مآخذ
قریب بن ظفر کے حالات :
١۔''اصابہ'' ابن حجر (٣/٢٥٧) نمبر : ٧٢٨٦
٢۔''تاریخ ابن کثیر'' (٧/١٠٧)
٣۔''تاریخ ابن اثیر '' ٣/٥۔١٠) طبع یورپ
٤۔ ''رو ضتہ الصفا'' میر خواند (٢/٦٩٣)

کوفہ پر عماریا سرکی حکومت اور نہاوند کی جنگ:
١۔ ''فتوح البلدان '' بلاذری (٣٧١)
٢۔ تاریخ خلیفہ بن خیاط (١/١٢٠)
٣۔''اخبار الطوال'' دینوری (١٣٤۔١٣٥)

عبدی کا نسب :
١۔''جمہرہ انساب'' ابن حزم (٢٩٥)
٢۔''لباب الانساب'' (٢/١١٣)

جنگ نہاوند کی حقیقی تاریخ :
١۔ ''تاریخ طبری '' (١/٢٥٩٦)
٢۔تاریخ ابن کثیر ( ٧/١٠٥) کہ اس میں تاکید کی گئی ہے کہ سیف نے نہاوند کی جنگ کی تاریخ وقوع ١٧ھ بتائی ہے ،جبکہ ایسالگتا ہے کہ ابن کثیر یہاں پر غلطی کا شکار ہوا ہے ۔