ایک سو پچاس جعلی اصحاب( جلدچہارم )
 

چوتھا حصہ :
رسول خداۖ کے ہم عصر ہونے کے سبب اصحاب
اس گروہ میں سیف کے خیالی کردار حسب ذیل ہیں:
٧٠۔قر قرہ یا قرفتہ بن زاہر تیممی وائلی
٧١۔ نائل بن جعشم ،ابو نباتہ تیمی اعرجی
٧٢۔ سعد بن عمیلہ فزاری
٧٣۔ قریب بن ظفر عبدی
٧٤۔ عامر بن عبدالاسد ، یا عبدالاسود
سترواں جعلی صحابی قرقرہ یا قرفتہ بن زاہر
اصحاب کی زندگی کے حالات پر روشنی ڈالنے والی کتابوں میں ہمیں ایسے چہرے بھی ملتے ہیں ، جنھیں مصنف نے صرف اس سبب سے رسولۖ خدا کے صحابیوں میں شامل کیا ہے کہ وہ آنحضرت ۖ کے ہمعصر تھے ۔ ان کے بارے میں ''لہ اِدراکُ'' کی قید لگا کر ان کے حالات لکھے گئے ہیں !
کتاب کے اس حصہ میں ہم سیف کے اس قسم کے جعلی اصحاب کی جانچ پڑتال کرتے ہیں اور نمونہ کے طور پر ایسے چند اصحاب کا تعارف کرتے ہیں .
مذکورہ صحابی کے حالات کی تشریح میں ابن حجر نے اپنی کتاب ''اصابہ ''میں یوں لکھا ہے :
وہ ان اشخاص میں سے ہے جس نے رسول خداۖ کا زمانہ درک کیا ہے ۔
سیف بن عمر اور طبری نے اسے من جملہ ان افراد میں شمار کیا ہے کہ سعد بن ابی وقاص نے اسے ''رستم فرخ زاد ''کی خواہش کے مطابق ا س سے مذاکرہ کرنے کے لئے بھیجا تھا ۔
ابن فتحون نے اس صحابی کو ابن عبدالبر کی کتاب ''استیعاب ''سے درک کیا ہے۔(ز) (ابن حجر کی بات کا خاتمہ )
ابن حجر نے اپنی کتاب ''اصابہ ''میں اس صحابی کو ''تیمی پہنچوایاہے ،جبکہ سیف کی روایت کے مطابق ''تاریخ طبری ''میں ''تیمی وائلی '' اور طبری کے بعض نسخوں میں ''وابلی '' لکھا گیا ہے۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ عرب قبائل میں بہت سے ایسے خاندان اور گروہ پائے جاتے ہیں جنھیں ''تیمی ''اور ''وائلی ''شہرت حاصل ہے ،البتہ ہم نہ سمجھ سکے کہ سیف نے اپنے اس صحابی کو ان میں سے کس قبیلہ سے خلق کیا ہے ۔
اگر سیف نے ''قر قرہ '' کو قبیلہ ''والبی'' سے بھی خلق کیا ہوگا تووہ بھی ''بنی اسد کے والبہ بن حارث ''کی اولاد ہیں ۔ اس صورت میں یہ احتمال ممکن ہے کہ لفظ تیمی اس کی کتاب کے نسخہ برداروں کے ذریعہ غلطی سے لکھ دیا گیا ہے۔

سعد وقاص کی مجلس ِ مشاورت:
طبری نے قادسیہ کی جنگ کے وقائع اور اتفاقات کے ضمن میں لکھا ہے :
سعد وقاص نے مندرجہ ذیل افراد کو جو سب زیرک اور دانا عرب تھے کو سپہ سالار اعظم کے خیمہ میں جمع ہونے کا حکم دیا :
١۔ مغیرة بن شعبہ
٢۔بسر ابن ابی رُھم
٣۔ عرفجتہ بن ہر ثمہ
٤۔حذیفتہ بن محصن
٥۔ربعی بن عامر
٦۔قرفتہ بن زاہر تیمی وائلی
٧۔مذعور بن عدی عَجَلی
٨۔مضارب بن یزید عجلی
٩۔معبد بن مرّہ عجلی ۔
جب سب لوگ کمانڈر انچیف کی خدمت میں حاضر ہوئے تو سعد نے ان سے مخاطب ہو کر کہا:
میں نے فیصلہ کیا ہے کہ تم لوگوں کو ان ایرانیوں کے پاس بھیجوں ۔تم لوگوں کی کیا رائے ہے ؟
سب نے جواب دیا :
ہم صرف آپ کے حکم کی اطاعت کریں گے اور اس سے آگے نہیں بڑھیں گے ۔ اگر کوئی ایسا مسئلہ پیش آئے جس میں آپ کا واضح حکم موجود نہ ہوتواس صورت میں جس چیز کو شائستہ ترین تشخیص دیں گے ،اسی پر عمل کریں گے ۔سیف کہتا ہے اس دوران ربعی نے اپنا نقطئہ نظر یوں بیان کیا :
اگر ہم اجتماعی طور پر ان کے پاس جائیں گے تو وہ خیال کریں گے کہ ہم نے انھیں قابل قدر اور معززجانا ہے ۔لہذا یہ ہے کہ ہر بار ہم میں صرف ایک شخص ان کے پاس جائے اورکوئی دوسرا اس کے ساتھ نہ ہو۔
سعد نے اس نظر یہ کو قبول کیا اور ربعی کو پہلے قاصد کے عنوان سے منتخب کیا۔
سپہ سالار اعظم کے حکم کی تعمیل ،میں سعد کے پہلے سفیر کے عنوان سے ر بعی نے ''رستم فر خ زاد'' کے خیمہ کا رخ کیا اور ....(یہاں تک کہ وہ کہتا ہے :)
جب رستم کمانڈر انچیف کے خیمہ میں داخل ہوا اور اپنی مخصوص جگہ پر بیٹھ گیا ، تو ربعی نے سوار حالت میں اپنے گھوڑے کو کمانڈر انچیف کے خیمہ میں بچھے ہوئے قالینوں پر دوڑایا اور کچھ چلنے کے بعد دو پشتی کو اٹھا کرگھوڑے کی لگام کو مضبوطی کے ساتھ ان سے باندھا۔
اس کے بعد نیزے کو ہاتھ سے دباتے ہوئے اور اس کی نوک کو فرش اور تکیوں چبھوتے ہوئے اور ان میں سوراخ کرتے ہوئے آگے بڑھتا گیا۔
اس طرح چلتے ہوئے کوئی قالین یا تکیہ ربعی کے نیز کی نوک کی ضرب سے نہ بچ سکا جو کچھ راستے میں آتا اسے پھاڑتے اور سوراخ کرتے ہوئے آگے بڑھتا ہوا ایرانیوں کے کمانڈر انچیف رستم کے تخت کے نزدیک پہنچا ۔ وہاں پر محافظوں نے مزاحمت کی تو وہ بھی وہیں پر زمین پر بیٹھ گیا اور نیزہ کو زور سے فرش پر مار کے نصب کیا اور...... (یہاں تک کہ وہ کہتا ہے :)
دو سر ے دن ایرانیوں نے سعد کو پیغا م بھیجا کہ اسی کل والے شخض کو ان کے پا س بھیجے۔لیکن سعد نے اس بار حز یفہ بن محصن کو بھیجا۔حذ یفہ کے خیمہ میں جا تے وقت موبمو ربعی کی ر فتار کی تکرار کی۔ تیسرے دن ایرانیوں نے سعد سے کہا کہ کسی اور کو بھیجے۔ اس بار سعد نے ''مغیرة بن شعبہ '' کو بھیجا ۔۔۔(داستان کے آخرتک)!
بے شک طبری نے بڑی تکلیف اٹھا کر سیف کے حق میں انتہا ئی عقیدت دکھائی ہے اورسیف کی دوروایتوں میں ذکر ہوئی اس سراپا مضحکہ اور مذاق پر مبنی داستان کو اپنی کتاب ۔تاریخ کبیر کے آٹھ صفحوں پر درج کیا ہے ! جبکہ اس افسانہ سے پہلے اسی موضوع کی ایک دوسری نقل کر کے اپنی کتاب کے دو صفحوں کو زینت بخشی ہے !!

سفیروں کی داستان کے راویوں کی پڑتال :
سیف نے اپنی داستان کے راویوں کے طور پر مندرذیل ناموں کا ذکر کیاہے :
١۔نضر نے رفیل سے یعنی سیف کے ایک جعلی راوی نے سیف کے ہی دوسرے جعلی راوی سے !
٢۔ محمد ،یا محمد بن عبداﷲ بن سواد نویرہ ۔
٣۔زیاد یازیاد بن سرجس احمری ۔اس سے پہلے ہم نے بارہا کہاہے کہ یہ سیف کی خیالی راوی ہیں
٤۔ چند دوسرے نامعلوم اور بے نام افراد

سفیروں کی حقیقی داستان:
ابن اسحاق اور طبری نے بھی اپنی تاریخ میں سعد وقاص کے رستم فرخ زاد کے پاس سفیر بھیجنے کی روایت کو یوں بیان کیا ہے :
جب رستم نے اپنے سپاہیوں کے ہمراہ مسلمانوں کے مقابلے میں پہنچ کر خیمے لگادئے ' توسعدوقاص کو ایک پیغام بھیجا اور اس سے تقاضا کیا کہ کسی تجربہ کار اوردانا شخص کو اس کے پاس بھیجے تاکہ وہ اس سے گفتگو کرے ۔رستم کے درخواست کے جواب میں ''مغیرة بن شعبہ ''کا انتخاب کیا گیا اور اسے رستم سے ملاقات کرنے پر مأ مور کیا گیا....
داستان کے آخر تک جو مفصل ہے ، اس میں کہیں اس بیہودہ رفتار کا ذکر نہیں ہے ۔
یہ داستان تقریباً اسی مضمون میں بلاذری کی ''فتوح البلدان''اور دینوری کی ''اخبار الطوال''
میں بھی درج ہوئی ہے ۔

بحث کا نتیجہ:
سیف تنہا شخص ہے جس نے نو ہوشیار اور عقلمندعربوں کے ساتھ سعدوقاص کے مشاورتی جلسہ جن میںاس نے اپنے قرقرة یا قرفئہ کو بھی شامل کیا تھا ،کی روایت نقل کی ہے ۔
وہ تنہا شخص ہے جس نے ان مشیروں میں سے تین اشخاص کی رستم سے گفتگو کا ذکر کیا ہے ، جن میں سے ایک کو ''مغیرة بن شعبہ '' شمار کیا ہے ۔ اس کے علاوہ سعد کے سفیروں پر بیہودہ اور غیر عاقلانہ رفتار کی تہمت لگاتا ہے ! سیف تنہا شخص ہے جس نے اس داستان کو آب و تاب کے ساتھ بیان کر کے ایسے راویوں کے ذریعہاسکی تشریح کی ہے جن کا حقیقت میں کوئی وجود ہی نہیں ہے ۔ اورسرانجام طبری جیسے تاریخ لکھنے والے علماء نے اسے من وعن اپنی معتبر و گراں قدر تاریخ کی کتاب میںسیف سے نقل کر کے درج کیا ہے ۔
جب ابن حجر کی باری آتی ہے تو وہ بھی سیف کی روایتوں پر اعتماد کر کے اس کے'' قر قرہ'' کورسول خداۖ کے صحابیوں کی فہرست میں قرار دیتا ہے ۔
اور عبارت ''لہ ادراکُ'' کی قید لگا کر اس کا صحابی ہونا ثابت کرتا ہے اور اپنے کلام کے آخر میں حرف ''ز''درج کر کے اعلان کر تا ہے کہ اس صحابی کے حالات کی تشریح کر کے اس نے دوسرے تذکرہ نگاروں پر اضافہ کیاہے ۔
دوسری طرف سے یعقوبی ١ ابن کثیر اور ابن خلدون جیسے علماء نے بھی اس داستان کو طبری سے نقل کرکے خلا صہ کے طور پر اپنی تاریخ کی کتابوں میں درج کیا ہے ۔
..............
١۔ یہ بھی ممکن ہے کہ یعقوبی نے اس داستان کا خلاصہ بلاواسطہ سیف بن عمر کی کتاب ''فتوح سے نقل کیا ہو۔

مصادر و مآ خذ
قر قرہ بن زاہر کے حالات:
١۔''اصابہ '' ابن حجر (٣/٢٥٧) نمبر: ٧٢٨٤
''والبی ''کا نسب:
١۔جمہرہ''انساب'' ابن حزم (١٩٤)
٢۔''نہایتہ الارب'' قلقشندی (٤٠٣)

سعد وقاص کے سفیروں کے بارے میں سیف کی روایت:
١۔''تاریخ طبری '' (١/٢٢٦٩۔٢٢٧٧)
٢۔''تاریخ ابن اثیر''(٢/٣٥٧۔٣٦٠)
٣۔''تاریخ ابن کثیر '' (٧/٣٩۔٤٠)
٤۔''تاریخ ابن خلدون'' (٣٢١٢۔٣٢٢)
٥۔''تاریخ یعقوبی '' (٢/١٤٤)

حقیقی داستان اور ''مغیرة بن شعبہ '' کاسعد کے سفیر کی حیثیت سے جانا :
١۔''تاریخ طبری '' ( ١/٢٣٥١)
٢۔''فتوح البلدان '' بلاذری (٣٥١)
٣۔''اخبار الطوال'' دینوری (١٢٠)

٧١واں جعلی صحابی ابوُنُبا تہ نائل
یہ صحابی ابن حجر کی کتاب ''اصابہ '' کے اس حصہ میں درج میں کیا گیا ہے جو ''مخضرمین '' سے مخصوص ہے ۔
مخضرمین '' ان اصحاب کو کہا جاتا ہے جنہوں نے اپنی زندگی کا آدھا حصہ عصر جاہلیت میں دوسرا آدھا حصہ عصرِ رسول اﷲ ۖ اوراسلام کے دامن میں گزاراہو۔
ابن حجر نے اس صحابی کو یوں پہچنوایا ہے :

ابو نباتہ نائل اعرجی :
کتاب ''فتوح'' میں سیف کے کہنے کے مطابق اس صحابی نے عصرِ رسول خداۖ کو درک کیا ہے اور عراق کی جنگ میں براہ راست شرکت کی ہے ۔
نائل نے ایرانی پہلوان شہر یار کے ساتھ دست بدست لڑائی میں اس پر غلبہ پایا اوراسے موت کے گھاٹ اتاردیا اور اس کا قیمتی لباس اور دست بند غنیمت کے طور پر لے لئے۔
نائل پہلا عربی شہسوار ہے جس نے ہاتھ میں دست بند پہنا ہے !
(ابن حجر کی بات کا خاتمہ)
اس تشریح سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ سیف بن عمر نے اپنے اس صحابی کو ''اعرجی ''خلق کیا ہے ۔
کہ یہ ،''اعرج ،حارث بن کعب بن سعد بن زید مناةبن تمیم '' سے نسبت ہے ۔
لہذا معلوم ہوا کہ یہ دلیرسوار ، شہر یا ر کو مارنے والا عرب ،ایرانی دلاوروں کے لباس اور قیمتی دست بند کوغنیمت میں لینے والا سردار اور شجاع تمیمی اورسیف کا ہم قبیلہ ہے !

ابو نباتہ کی شہر یار سے زورآزمائی کی داستان :
طبری نے ١١ھ کی روداد کے ضمن میں ''بابل ،کوثی '' کی جنگ کی حسب ذیل داستان کو سیف بن عمر سے نقل کرکے یوں بیان کیا ہے :
''زہرة بن حویہّ'' جو سپاہ اسلام کے ہر اورل دستہ کاسپہ سالار تھا ، وہ کوثی ، کے اطراف میں شہریار نامی ''باب''کے ایک زمیندار جس کی حکومت کامرکزکوثی تھا اور اس کی کثیر فوج سے روبرو ہوا۔
دونوں فوجیں ایک دوسرے کے آمنے سامنے نبردآزما ئی کے لئے آمادہ ہوئیں ۔شہر یارنے میدان کار زار میں قدم رکھ کر رجزخوانی کر مبارزہ طلبی کی اور پکار کر کہا :
کیاتم میں ایساکوئی مرد ، سوار اور جنگجوں نہیں ہے جو میرے مقابلہ میں آئے تاکہ میںاسے دوسروں کے لئے عبرت کا نمونہ بنا دو ں !!
زہرہ نے اس کے جواب میں فریاد بلند کرتے ہوئے کہا:
میں خود چاہتا تھا کہ تیرے مقا بلے میں آئوں ،لیکن جب تیری باتوں کو سنا ،تو تیرے ساتھ جنگ کو حقیر سمجھ کر کسی دوسرے کو تیرے مقابلے میں بھیجتا ہوں۔
اگر تو نے اس کیساتھ مقابلہ کی جرأت پیداکی تو خداکی مرضی سے تیرے کفر و گمراہی کی وجہ سے وہ تجھے نابود کرکے رکھدے گا اور اگر اس کے چنگل سے فرار کرنے میں کامیاب ہوا تو اپنے ایک معمولی اور سادہ شخص کے مقابل سیبھاگا ہے، یہ کہنے کے بعد حکم دیا تاکہ ''ابو نباتہ ، نائل بن جعشم اعرجی''جو بنی تمیم کا ایک دلاور تھا شہر یارسے لڑنے کے لئے آگے بڑھے۔
دونوںپہلوان اپنے ہاتھوں میں نیزے لے کر ایک دوسرے ثابت قدمی کے ساتھ نبردآزمائی کرنے لگے ۔
جوں ہی شہر یارنے اپنے حریف کی طاقت کا اندازہ کیا ،نیزہ پھینک کراپنے آپ کو اس کے ساتھ زور آزمائی کے لئے آمادہ کیا ۔ نائل نے بھی اپنے نیزہ کو دور پھینک دیا اور شہر یار سے دست و گریبان ہونے کیلئے تیار ہو گیا۔ اس کے بعد دونوں نے نیام سے تلواریں کھینچ لیںاور باری باری ایک دوسرے پر وار کرنے لگے ۔لیکن سے کوئی نتیجہ نہ نکلا تو مجبور ہو کر تلواریں پھینک کر تیزی سے ایک دوسرے کے گریبان کو پکڑ لیا اور زور ے ایک دوسرے کو کھینچ لیا دونوں گھوڑوں سے گر پڑے ۔ ایک کشمکش کے بعد شہر یارنے اپنے حریف کو زمین سے بلند کیا اور ایسے زمین پر دے مارا جیسے اس کے سر پر ایک عمارت گر گئی ہو۔اس کے بعد اسے مضبوطی سے اپنے دوپیروں کے درمیان کس کرکمرسے خنجر کونکال کر اس کے سینے پر مارنیوالا ہی تھا کہ اتفاقاّ اس کا انگوٹھا نائل کے منہ میں چلا گیا۔ اس نے بلافاصلہ اسے اپنے دانتوں کے درمیا ن زور سے پکڑ کر کاٹ لیا ۔اس طرح شہر یارکے انگوٹھے کی ہڈی ٹوٹ گئی اور وہ درد کے مارے بے ہوش جو گیا ۔نائل نے فرصت غنیمت سمجھ کر فوراً سے اپنے سینے سے گرا کر اس کے سینے پر سوارہوگیااور اسی خنجر کو اس کے ہاتھ سے چھینلیا اور اس کے بدن سے زرہ کو ہٹا کر اس کے سینہ اور پہلو پر پے درپے ضرب لگا ئی اوراسے موت کے گھاٹ اتاردیا!
نائل فاتحانہ طورپر اپنے مقتول کے سینہ سے بلند ہوا ۔ اس کے خون میں لت پت لباس اور اس کا دست بند بھی کھینچ کر نکال لیا۔اس کے بعد اپنے گھوڑے کی لگام کو پکڈ کر اپنے کیمپ کی طرف چلا۔!
شہریار کے سپاہیوں نے جب اپنے سپہسالار اور سردار کو قتل ہوئے دیکھا تو مقابلہ کی طاقت نہ لاکر مختلف شہروں کی طرف بھاگ کھڑے ہوئے ۔
''زہرہ '' کسی مزاحمت کے بغیر اپنے سپاہیوں کے ہمراہ'' کوثی '' ١ میں داخل ہوا اور وہاں پر تب تک ٹھہرارہا جب تک سعد وقاص پہنچ گیا۔
''کوثی ''میں داخل ہونے کے بعد سعد نے نائل سے ملاقات کی اورجب ،ماجراسے مطلع ہوا تو اس کہا :
نائل !میں تم سے چاہتا ہوں کہ شہریارکا دست بنداور لباس زیب تن کرکے اس کے گھوڑے پر سوار ہو،یہ سب چیز یں تم کو مبارک ہو !
نائل اٹھا ۔ سپہ سالار اعظم کا حکم بجالانے کے لئے باہر چلاگیا ۔اس کے بعد جو سعد نے حکم دیاتھااس پر عمل کیا ۔ پھر دوبارہ سعد کی خدمت میں حاضر ہوا۔
سعد نے دیکھنے کے بعد حکم دیاکہ دست بند اتار لے اور اس سے صرف جنگ کے دوران استفادہ کر ے ۔
١۔''کوثی ''عراق میں ''بابل ''کی سرزمینوں کا ایک حصہ ہے ۔
نائل پہلا عراقی مسلمان مرد ہے جس نے دست بند پہنا ہے ۔(طبری کی بات کا خاتمہ)

افسانۂ نائل کے راوی:
سیف نے نائل کے افسانہ اور شہر یار سے اس کی نبردآزمائی کے بارے میں دواشخاص کو راوی کے عنوان سے پیش کیاہے کہ دونوں اس کے ذہن کی مخلوق اورجعلی ہیں ۔ یہ حسب ذیل ہیں:
١۔نضر بن سری
٢۔ابن رفیل١

حقیقی داستان:
دینوری نے اپنی کتاب ''اخبار الطوال ''میں قادسیہ کی جنگ میں ایرانیوں کی شکست کے بعد لکھا ہے :
شکست کے نتیجہ میں ایرانیوں نے ''دیر کعب ''تک عقب نشینی کی اور وہاں پر پڑاؤ ڈالا۔ ساسانیوں کے آخر ی پادشاہ یزدگرد کے حکم سے ''نخارجان '' ان کی مدد کے لئے آیا تھا ، دیر کعب میں ان سے ملا۔اس نے فراریوں کو روک کر پھر سے انھیںمنظم کیا۔''نخارجان ''نے فوج کی تشکیل نو کر کے ان کو مختلف گروہوں اور
..............
١۔ ہم نے '' رفیل'' نام کو بلاذری کی کتاب '' فتوح البلدان'' میں دیکھا ہے ۔ لیکن اس کا سراغ پیدا نہ کرسکے کہ کسی نے ابن رفیل نامی اس کے بیٹے کا بھی ذکر کیا ہو۔ جیسا کہ سیف نے کہا ہے۔
دستوں میں تقسیم کردیا ، اور موقع و محل کو مشخص کر کے دو بارہ مسلمانوں سے نبردآزما ہونے کے لئے آمادہ کیا ۔ اسی اثنا ء میں مسلمان سپاہی بھی آپہنچے اور دونوں فوجیں ایک دوسرے کے خلاف صف آراء ہوئیں ۔
''نخارجان '' ایرانی فوج میں سے پہلا پہلوان تھا جس نے میدان کا زار میں قدم رکھ کر فریاد بلند کی :
مرد! مرد!
اس طرح مسلمان فوج سے اپنے لئے ہم پلہ جواں طلب کیا ۔
''نخار جان '' کے جواب میں ''مخنف بن سلیم ازدی ،کے بھائی '' زہیربن سلیم''نے میدان کار زار کی طرف رخ کیا اور اس کے مقابلہ میں آ کھڑا ہوا ۔
نخار جان ایک ہٹا کٹا تنومند پہلوان تھا اور ''زہیر '' اس کے بر خلاف دبلا پتلا لیکن قومی اندام تھا۔
جوں ہی ''نخار جان'' کی نظر اپنے حریف پر پڑی اور اس کا اپنے سے مواز نہ کیا تو اچانک اپنے گھوڑے سے اچھل کر اپنے آپ کوزہیر پر گرادیا ۔دونوں زمین پر گرگئے اور ایک دوسرے پر غلبہ حاصل کرنے کے لئے زور آزمائی کرنے لگے ۔لیکن سر انجام نخار جان زہیر پر غلبہ کر کے اس کے سینے پر سوار ہوگیا ۔
وہ خنجر کو ہاتھ میں لئے اس کے سر کو تن سے جدا کرنا چاہتاتھا کہ
اسی کشمکش میں ''نخارجان '' کا انگوٹھا زہیر کے منہ میں چلا گیا ۔زہیر نے بھی اسے زور سے کاٹ لیا ۔نخارجان درد سے ناتواں ہوکر طاقت کھو بیٹھا ۔زہیر نے اس فرصت سے استفادہ کرتے ہوئے اس کو پٹک دیا اور اس کے سینے پر سوار ہوا اور زرہ کو ہٹا کر اس کا پیٹ چاک کر کے اسے موت کے گھاٹ اتاردیا۔
'نخارجان'' کاگھوڑا جو تربیت یافتہ تھا دور سے اس ماجراکا مشاہدہ کر رہا تھا۔زہیرنے اپنے مقتول کا لباس تمیمی زرہ اور دست بند کو لے کر اس کے گھوڑے پر سوار ہو کر سعد وقاص کی خدمت میں پہنچا۔سعد نے ان تمام غنائم کو اسے بخش دیا اور حکم دیا کہ اسے زیب تن کرے ۔زہیرحکم کی تعمیل کرتے ہوئے نخارجان کی زرہ کو زیب تن کرکے ، اس کی رزمی ٹوپی کو سر پر رکھ کر ، اس کی قبا کو دوش پر رکھ کر اور اس کے دست بند کو ہاتھ میں پہن سعد وقاص کی خدمت میں حاضر ہوا۔
زہیر پہلا عرب مرد ہے جس نے ہاتھ میں دست بند پہنا ہے ۔

بحث و تحقیق کا نتیجہ:
سیف نے اصل روایت کو تحریف کر کے جنگجو ؤ ں کے نام بھی حسب ذیل بدل دئے ہیں :
١۔''باب'' کے بڑے زمیندار شہریار کو ''کوثی '' میں ایرانی سردار نخارجان کی جگہ پر بٹھا دیا ہے۔
٢۔ حریف کے قا تل اور مقتول کے اموال لینے والے کو اپنے جعلی صحابی بنی تمیم کے ایک دلاور ''ابونباتہ'' کے طور پر پہنچوایا ہے اور اسے حقیقی جنگجو زہیر ین سلیم ازدی جو سبائی اور شیعیان علی سے تھا کی جگہ پر بھٹا دیاہے ۔
سیف نے ابو نباتہ کو عد نانی .خاص کر اپنے قبیلہ تمیم سے خلق کیا ہے ۔ تاکہ حریف ایرانی جنگجو کے جنگی غنائم کو اپنے خاندان کے لئے مخصوص کرے جس طرح قعقا ع تمیمی کو خلق کیا تھا کہ بادشاہوں کے جنگی ساز و سامان کو اپنے لئے مخصوص کرے ١۔
سیف نے ابو نباتہ کو پہلا عرب سوار ظاہر کیا ہے جس نے عراق میں دستہ دست بند پہنا ہے ۔ جس طرح اپنے حرملہ اور سلما ے تمیمی کو پہلے جنگ جوؤں کے طور پر تعارف کرایا ہے کہ جنہوں نے سب سے پہلے ایران کی سرز مین پر قدم رکھا ہے ۔٢ اور ہم نے اس سے پہلے دیکھا ہے کہ سیف نے کتنے اس قسم کے پہلے مقام خلق کر کے انھیں اپنے خاندان تمیم کے جعلی افراد سے مخصوص کیا ہے ۔
سیف نے اپنے باطنی اور قبیلگی تعصبات کی بناپر جنگوں میں فتحیا بیوں اور غنائم جنگی حاصل کرنے کے افتخارات کو یمانی قحطانی افراد سے سلب کر کے انھیں عدنانی مضری افراد کے نام درج کیا ہے۔جیسے اس نے اس قسم کی رفتار ''عمار یا سر٣،اور ابو موسیٰ اشعری'' یمانی قحطانی سے روا رکھی تھی ٤
سیف ابو نباتہ کے افسانہ کو اپنے خیالی و مخلوق راویوں سے روایت کرتا ہے ۔ اس کے بعد طبری بھی اس سے نقل کر کے اپنی کتاب میں درج کرتا ہے ۔
..............
١۔اس کتاب کی پہلی جلد (١/٢٠٠۔٢٠٢)ملاحظ ہو۔
٢۔.............دوسری جلد(٢/٢٣٨۔۔٢٤٠) ملاحظ ہو
٣۔ ''فتوح البلدان '' بلاذری میں جو فتوح عمار یا سر کے بارے میں آیا ہے اور اس قسم کے فتوحات جو سیف کی روایتوں کے مطابق تاریخ طبری میں آئے ہیں ، ان میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔
٤۔ ''حرملہ بن مربط اور زربن عبداﷲ '' کے حالات اس کتاب کی ج ٢ میں ملاحظہ ہو۔
سرانجام اسی افسانہ کو ابن اثیر،ابن کثیر اور ابن خلدون طبری سے نقل کر کے اپنی تاریخوں میں خلاصہ کے طورپر درج کرتے ہیں ۔
جب سیف ''زہیر ''کے مبارزہ کی داستان میں سیائیوں و قحطانیوں کے بارے میں منقبت دیکھتا ہے تو آرام سے نہیں بیٹھتا اور بہرصورت اسے اس سے چھین کر بڑی مہارت کے ساتھ قبیلہ تمیم سے جعل کئے گئے اپنے پہلوان کے نام درج کر تا ہے ۔
اس دوران ''ابن حجر '' جیسا علامٔہ اس قسم کے فخر و مبات کے سزاوار تنہا اصحاب رسول ۖ کوجانتا ہے اور اس کے پیش نظر سیف کی مخلوق ابو نباتہ تمیمی سیف کی روایت کے مطابق جو سپہ سالار نہ تھا تاکہ صحابی کے خاص قاعدہ کے تحت اسے بھی صحابی بناتا ،لہذا اسے اس عبارت ''لہ ادارک ''کی قید سے یعنی اس نے عصر رسولۖ خدا کو درک کیاہے ، رسول خداۖ کے صحابیوں کی فہرست میں قرار دیتا ہے اور اس کیلئے الگ سے شرح حال لکھتا ہے ۔ وہ اپنی کتاب کے ایک حصہ میں ''تیسراحصہ ، مخضرمین ''کے عنوان سے یعنی وہ اصحاب جنہوں نے جاہلیت اور اسلام دونوں کو درک کیا ہے کو صحابی شمار کرتا ہے اس قاعدہ کے تحت وہ سیف کے جعل کردہ ''ابو نباتہ نائل '' کو صحابی شمار کرتا ہے اور اس پر شرح حال لکھتا ہے ، تاکہ اس طرح رسول خداۖ کی اصحاب کے تعداد کو بڑھا سکے ۔

مصادر و مآخذ
ابو نباتہ نائل تمیمی کے حالات :
١۔''اصابہ'' ابن حجر (٣/٥٥٠) نمبر : ٨٨٤٦
حارث کانسب ،لفظ ''اعرج '' کے تحت :
١۔ ''جمہرہ ٔ انساب '' ابن حزم (٢١٦)
٢۔ ''معجم قبائل عرب '' (١/٣٤)

شہر یار کے ساتھ نائل کے لڑنے کی داستان :
١۔ ''تاریخ طبری '' (١/٢٤٢٢۔ ٢٤٢٤)
٢۔''تاریخ ابن اثیر '' (٢/٣٩٤)
٣۔ ''تاریخ ابن کثیر '' (٧/٦٠)
٤۔''تاریخ ابن خلدون '' (٢/٣٢٩)

زہیر بن سلیم اور نخارجان کی لڑائی سے متعلق روایات
١۔''اخبار الطوال '' دینوری (١٢٣)
٢۔''فتوح البدان '' بلاذری ( ٣٦٦)