ایک سو پچاس جعلی اصحاب( جلدچہارم )
 

تیسرا حصہّ:
مختلف قبائل سے چند اصحاب
٦٧۔ عبداﷲبن حفص قرشی۔
٦٨۔ ابو حبیش عامری کلابی ۔
٦٩۔حارث بن مرہ جہنی۔
٦٧ واں جعلی صحابی عبداﷲبن حفص قرشی
ابن حجر نے اپنی کتاب ''اصابہ ''میں اس صحابی کا یوں تعارف کرایا ہے :

عبداﷲ بن حفص بن غانم قرشی :
سیف بن عمر نے اپنی کتاب اورطبری نے اپنی تاریخ میں لکھا ہے کہ ''یمامہ '' کی جنگ میں مہاجرین کا پرچم عبداﷲ بن حفص کے ہاتھ میں تھا اور وہ اسی جنگ میں قتل ہوا ہے(ز)
ابن حجر کی مورد استتناد روایت '' تاریخ طبری '' میں سیف بن عمر سے( مبشرین فضیل اور سالم بن عبداﷲ) سے یوں نقل ہوئی ہے :
''یمامہ '' کی جنگ میں مہاجرین کا پرچم پہلے ''عبداﷲ بن حفص بن غانم '' کے ہاتھ میں تھا جو قتل ہو گیا اس کے بعد یہ پرچم ابوحذیفہ کے آ زاد کئے گئے غلام ''سالم ''کے ہاتھ میں دیدیا گیا ۔
انہی مطالب کو ابن اثیر نے طبری سے نقل کر کے اپنی تاریخ میں ثبت کیا ہے ۔ ان کے علاوہ کسی اور مصدر میں عبداﷲ حفص کا نام دکھا ئی نہیں دیتا ہے:

حقیقت کیا ہے؟
بلا ذری نے اپنی کتاب ''فتوح البلدان '' میں ،ذہبی نے ''تاریخ اسلام '' میں اورابن کثیر نے اپنی ''تاریخ ''میں لکھا ہے کہ ''یمامہ ''کی جنگ میں مہاجرین کا پرچم ابو حذیفہ کے آزاد کئے ہوئے غلام ''سالم '' کے ہاتھ میں تھا ۔ مزید کسی اورکے نام کا ذکر تک نہیں کیاہے ۔ اس کے علاوہ کسی بھی ایسے مصدر میں جس نے سیف روایت نقل نہ کی ہو عبداﷲ حفص کانام اور یمامہ کی جنگ میں اس کی شرکت کا اشارہ تک نہیں ملتا ہے ۔
لیکن ابن حجر نے ''تاریخ طبری ''اور سیف کی کتاب ''فتوح '' کی طرف رجوع کر کے ''عبداﷲ حفص '' کے وجود پر یقین کر کے اسے رسول خداۖ کا صحابی تصور کیا ہے اور اس کے حالات کی اپنی کتاب ''اصابہ ''کے پہلے حصہ میں تشریح کی ہے ۔
علامہ ابن حجر نے مجبوری کے عالم میں اپنے اس تصور کے بارے میں اس دلیل پر تکیہ کیا ہے کہ ان دو بزرگواروں یعنی ''طبری ''اور سیف نے کہا ہے کہ '' یمامہ '' کی جنگ میں مہاجرین کا پر چم ''عبداﷲ حفص ''کے ہاتھوں میں تھا۔
چونکہ ''عبداﷲ اور دوسرے مہاجرین ''قرشی ''تھے ، اس لئے اس نے ایسا سمجھا ہے کہ قرشیوں کہ رسم یہ تھی کہ جنگوںمیںاپنے پرچم کو قرشی کے علاوہ کسی اورکے ہاتھ میں نہیں دیتے تھے !
ابن حجر نے عبداﷲ کے حالات بیان کرتے ہوئے آخر میں علامت (ز) لکھی ہے تاکہ اس کا اشارہ کرے کہ اس صحابی کے حالات پر روشنی ڈالنے میں اس نے دوسرے مصنفین کے مقابلے میں اصحاب کے حالات بیان کرنے میں اضافہ کیاہے !

عبداﷲحفص کے افسانہ کے راوی :
سیف نے اس افسانہ کے راوی کے طور پر ''مبشربن فضیل '' کا نام لیاہے ،اور طبری نے سیف کی پندرہ روایات اس راوی سے نقل کی ہیں ۔
ابن حجر اپنی دوسری کتاب ''لسان المیزان ''، جو راویوں کی پہنچان سے مخصوص ہے ،میں لکھتا ہے :
مبشربن فضیل سیف بن عمر کے فستائخ میں اوراس کی روایت کا ماخذ ہے ۔
لیکن علامہ ابن حجرکے نقطہ نظر کے بر خلاف ہم یہ کہتے ہیں کہ ''مبشربن فضیل ''اس قدر گمنام و مجہول نہیں ہے بلکہ وہ سیف کے خیالی اور فرضی راویوں کی ایک طولانی صف میں کھڑا اس انتظار میں ہے کہ سیف کس افسانے کو اس کی زبان سے جاری کر تا ہے !!

عبداﷲ کے افسانہ کانتیجہ:
١۔سیف نے اس افسانہ میں ایک قرشی و مہاجر صحابی کو خلق کیا ہے تاکہ مہاجرین کے پرچم کو یمامہ کی جنگ میں اس کے ہاتھ میں تھمائے اور وہ اسی جنگ میں قتل ہوکر تمیمیوں کے افتخارات کی تعداد کو بھی بڑھادے ۔
٢۔ سیف نے عبداﷲ حفص کو اکیلے ہی خلق کیا ہے تاکہ طبری اس سے نقل کر کے اپنی کتاب میںدرج کرے ۔ سرانجام ابن حجر نے ''عبداﷲحفص '' نامی ایک قرشی صحابی کو پانے میںسیف کی کتاب ''فتوح '' اور ''تاریخ طبری '' کو اپنے لئے ایک معتبر اور قابل اعتماد راہنما قرار دیا ہے، اور اپنے اس مطلب کے آخر پر علامت (ز) لکھ کر مشخص کرتا ہے کہ اس نے اس صحابی کے حالات دوسرے تذکرہ نویسوں پراضافہ کیا ہے ۔

مصادر و مآخذ
عبداﷲ حفص کے حالات:
١۔ ''اصابہ '' ابن حجر (٢/٢٨٢) حصہ اول نمبر : ٤٦٣٠
٢۔ ''تاریخ طبری '' (١/١٩٤٥)
٣۔ تاریخ ابن اثیر( ٢/٢٧٦)

جنگ '' یمامہ '' میں مہاجرین کاحقیقی پر چمدار:
١۔''فتوح البلدان'' بلاذری
٢۔''تاریخ اسلام'' ذہبی
٣۔تاریخ ابن کثیر (٦/٣٢٦)

مبشر بن فضیل کے حالات:
١۔ ''لسان المیزان'' ابن حجر(٥/١٣)

٦٨واں جعلی صحابی ابو حبیش
اس صحابی کے بارے میں ابن حجر کی کتاب ''اصابہ '' میں یوں آیا ہے :

ابوحبیش بن ذی ا للّحیہ عامری کلابی :
سیف نے اپنی کتاب ''فتوح '' میں اس کا نام لیا ہے اور کہا ہے کہ خالدبن ولید جب عراق میں داخل ہونے کے بعد معروف صحابیوں کو مختلف علاقوں کے حکمران کے طورپر منتخب کر رہا تھا ، تو اس نے ابو حبیش کو ''ہوازن'' کے لئے مأمور کیااوروہاں کی حکومت اسے سونپی ۔
ابن فتحون نے اس صحابی کو ابن عبدالبر کی ''استئعئیاب '' سے دریافت کیاہے ۔

ابو حبیش کا نسب
سیف نے اس صحابی کو قبائل مضر کے بنی عامر بن کلاب بن ربیعہ بن عامر'' سے خلق کیا ہے .
ابن حزم نے اس طائفہ کے نسب کو اپنی کتاب ''جمھرہ انساب '' میں درج کیا ہے ۔لیکن اس میں سیف کے اس دلاور صحابی کا کہیں نام و نشان نہیں ملتا!
لیکن ''ذولحیہ کلابی '' کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اس کانا م ''شُریح بن عامر '' تھا۔ بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ اس کانام ''ضحاک بن قیس '' تھا ۔ اس سے روایت نقل کی گئی ہے کہ اس نے رسول خداۖ سے پوچھا:
کیا انجام دئے گئے کام کو دوبارہ شروع کریں؟رسول خداۖ نے جواب میں فرمایا:
ہر شخص ایک کام کے لئے خلق ہوا ہے!
بغوی نے کہا ہے :
میں اس حدیث کے علاوہ اس سے کسی اورچیز کے بارے میں مطلع نہیں ہوں !
علماء نے صرف اسی ایک روایت پر اعتماد کر کے ''ذولحیہ ''کو بھی صحابی جان کر اس کے حالات پر روشنی ڈالی ہے .
ہم نہیں جانتے ہیں کہ '' ذو لحیہ '' کی انکشاف کی گئی یہ حدیث ۔جس پر استناد کر کے اس کے حالات پر روشنی ڈالی گئی ہے ۔کس قدر صحیح اورقابل اعتبار ہے !! لیکن بالفرض اس حدیث کے صحیح ہونے اور ''ذولحیہ ''نام کے کسی شخص کے حقیقی طور پر موجود ہونے کی صورت میں بھی کیا سیف اس حدیث اوراس نام کے کسی شخص سے روبرو ہوا ہے اور ابوحبیش کو اس سے جوڑا ہے؟ یہ ایسا مسئلہ ہے اور ابھی تک معلوم نہ ہو سکا ۔١
..............
١۔ ''ذولحیہ '' نام کے شخص کے صحیح اور موجود ہونے کے بارے میں بحث و تحقیق کرنے کے لئے دسیوں مصادر پر اسلام میں چھان بین کرنیکی ضرورت ہے جو اسوقت ہمارے لئے ممکن نہیں ہے ۔

ابو حبیش کی حدیث پر ایک بحث:
ہم نے ''تاریخ طبری '' میں کوئی ایسی چیز نہیں پائی جو اس پر دلالت کرتی ہو کہ خالد بن ولید نے ابوحبیش نامی کسی شخص کو ''ہوازان '' کی مأموریت سونپی ہو ۔لیکن جو چیز ہے وہ یہ ہے کہ ہم نے رسول اﷲۖ کے ایلچیوں کے بارے میں سیف بن عمر سے نقل کر کے ذکر کیا ہے کہ:
رسول خداۖنے اپنے دوسرے ایلچیوں کے ضمن میں '' نعیم بن مسعود اشجعی''کو ''ابن ذولحیہ ''اور ''ابن مشیمصۂ جُبیری '' کے پاس بھیجا اورانھیںپیغمبری کے مدعی''اسودعنسی'' سے جنگ کر کے اسے کچل دینے کی ترغیب دی ہے ۔
ہم یہ نہیں جانتے کہ یہ ''ابن ذولحیہ '' وہی زیربحث '' ابو حبیش ہے یا یہ کہ سیف نے اس نام کے دوشخص خلق کئے ہیں ۔
اور یہ بھی معلوم نہیں کہ سیف نے ابوحبیش کے نام کو '' ابو حبیش بن مطلّب قرشی ''سے لیا ہے یا نہیں ۔بلاذری نے جو ''انساب الاشراف'' میں کہا ہے اس کے مطابق اسی ابو حبیش بن مطّلب کے بیٹے ''سائب '' نے ابو سفیان کی بیٹی ''جویریہّ '' سے شادی کی ہے ۔ یایہ کہ یوں ہی سیف کے ذہن میں ایسا نام آیا ہے اور اس نے اسے اپنے جعلی صحابی کے لئے منتخب کیا ہے ۔
لیکن یہ واضح ہے کہ ''جبیش بن دلجہ قینی '' جس کا نام تاریخ طبری اور تاریخ یعقوبی میں آیا ہے سیف کے جعلی ''ابو حبیش عامری کلابی ''سے جدا ہے ۔کیونکہ دیگر بہت سے اختلافات اختلاف پہلا ''بنی قضاعہ ''سے ہے اور دوسرا (جعلی )''عامری کلابی '' ہے ۔

مصادرو مآخذ
ذولحیہُ کلابی کے حالات:
١۔''اصابٔہ'' ابن حجر (١/٤٧٥)
٢۔''استیعاب ابن '' عبدالبر ''اصابہ '' کے حاشیہ پر ( ١/٤٧٦) کہ اسے بصرہ کا باشندہ جاناہے ۔
٣۔''تاریخ بخاری'' (١/٢٦٥) ۔حصہ اول نمبر : ٩٠٩
٤۔''تقریب التہذیب '' ( ١/٢٣٨) ۔ اس میں آیا ہے کہ ''ابو داؤد ''نے اس کی حدیث کو ''قدر ''میں درج کیا ہے ۔
٥۔''اسدالغابہ '' ابن اثیر (٢/١٤٤)

ذولحیہ کا نسب:
١۔''جمہرۂ انساب'' ابن حزم (٢٨٢)
٢۔''تاریخ طبری'' (ا/١٧٩٩)
٣۔''اصابہ '' ابن حجر (٤/٣٦) نمبر:٢١٢
٤۔''انساب الاشراف'' بلاذری (١/٤٤٠)

حبیش بن دلجہ ٔ قینی کے حالات:
١۔تاریخ طبری (٢/٥٧٨ و ٥٧٩ و ٦٤٢)
٢۔ تاریخ یعقوبی طبع ''دارصادر'' (٢٥١۔ ٢٥٢)

ذولحیہ کلابی'شریح بن عامر یا ضحاک بن قیس کے حالات:
١۔''تہذیب التہذیب'' (٣/٢٢٣) شرح حال : ٤٢٦
٢۔حدیث ذولحیہ تاریخ بخاری میں ذکر ہوئی ہے ۔