٥٨ واں جعلی صحابی
جابراسدی
ابن حجر نے اپنی کتاب ''اصابہ'' میں اس صحابی کا یوں تعارف کرایاہے :
جابر اسدی :سیف بن عمر نے اپنی کتاب ''فتوح ''میں اس کا نام لے کر لکھا ہے کہ قادسیہ کی جنگ کے سپہ سالار اعظم ''سعد وقاص '' نے فوج کے ایک دستہ کی سپہ سالاری کا عہدہ ''جابراسدی ''کو سونپا تھا۔
ہم نے اس سے پہلے کہاہے کہ قدماکی رسم یہ تھی کہ وہ صحابی کے علاوہ اور کسی کو سپہ سالاری کے عہدے پر منصوب نہیں کرتے تھے ۔(ز)(ابن حجر کی بات کا خاتمہ)
ابن حجر نے ''حمیضہ '' و''جابر'' کے حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے صراحت کے ساتھ کہا ہے کہ ان سے مربوط اس روایت کو اس نے سیف بن عمر سے نقل کیا ہے اور اس پر تأکید کی ہے ۔طبری نے بھی ان دو صحابیوں کے بارے میں انہیں مطالب کو درج کیا ہے ۔جب ہم نے ''تاریخ طبری '' کامطالعہ کیا تو متوجہ ہوئے کہ طبری نے بھی ان افسانوں کو سیف بن عمر سے نقل کیا ہے اور ''قادسیہ ''کی جنگ میں ''عاصم بن عمرو''کے ساتھ جابر کا نام بھی لیا ہے !اس کے علاوہ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ ابن ججر نے ''حمیضہ و جابر ''کے حا لات پر روشنی ڈالتے ہوئے ''ابن ابی شیبہ '' کی اس روایت کہ ''قدما کی رسمتھی کہ....'' پر استناد کر کے یہ نتیجہ لیا ہے کہ ''حمیضہ و جابر ''چونکہ جنگ میں سپہ سالاررہ چکے ہیں لہذا صحابی تھے !!
وہ اس امر سے غافل تھا کہ یہ روایت بھی سیف کی جھوٹی اور بے بنیاد روایتوں سے لی گئی ہے، جبکہ سیف کا حال معلوم ہے !
بہر حال ابن حجر نے سیف کے ہر ایک جعلی صحابی و چہرے کو اپنی کتاب ''اصابہ ''میں ایک خاص نمبر کے تحت ثبت کیا ہے ، توجہ فرمایئے:
١۔ صحابی نمبر :١٨٤٨''حمیضہ بارقی ''علامت رمز(ز)
٢۔ صحابی نمبر :١٠٤٠''جابر اسدی ''علامت رمز(ز)
جی ہاں ،ابن حجر نے تنہاابن ابی شیبہ کی روایت پر استنادکر کے سیف کے دو جعلی چہروں کو صحابی قبول کیاہے اور مذکورہ نمبروںکے ساتھ اپنی معتبر کتاب '' اصابہ ''میں ان کے حالات پر روشنی ڈالی ہے۔ ہم نے بھی اس حیرت انگیز روایت کے حقا ئق نیز مسلّم تاریخی رودادوںکے ساتھ مخالفت کی کیفیت کو اپنی جگہ پر بیان کیاہے ۔
مکتبِ خلفاء کے پیرو علماء نے اسی روایت کو مستند قراردے کر سیف کے خیالی اور افسانوں دلاوروں کو اصحاب کے طورپر قبول کر کے انھیں رسول خداۖ کے حقیقی اصحاب کی فہرست میں درج کیا ہے اور ان کے حالات پر روشنی ڈالی ہے ۔ کیونکہ سیف نے کہا ہے کہ قدما نے انھیں سپہ سالار کے عہدے پر منتخب کیا ہے !!
ان علماء نے بعض اصحاب کے حالات کی تشریح میں مذکورہ قاعدہ کی طرف اشارہ کر کے اس سے استناد کیاہے اور بعض دوسروںکے حالاتمیں اس روایت سے چشم پوش کر کے سادگی کے ساتھ گزر گئے ہیں اور ان کی طرف اشارہ کرنے پرہیز کیا ہے۔
٥٩واں جعلی صحابی
عثمان بن ربیعۂ ثقفی
ابن حجر نے اس صحابی کے بارے میں یوں لکھا ہے :
عثمان بن ربیعہ ثقفی:
سیف نے اپنی کتاب ''فتوح '' میں اس کا ذکر کرکے لکھا ہے کہ ''عثمان بن ابی العاص '' طائف کے گورنر نے عثمان بن ربیعہ کو رسول خداۖ کی وفات کے بعد ابو بکر کی خلافت کے زمانے میںمأموریت دی کہ ''شنوء '' میں جمع ہوئے ''ازد''کے مرتدوں کو کچل دے ۔
عثمان نے اس حکم پر عمل کرتے ہوئے ان پر حملہ کیااور انھیں بری طرح شکست دیدی ۔اس فتح پر اس نے یہ اشعارکہے ہیں :
ان کے اجتماع کو ہم نے تتر بتر کیا اور ان کی سرزمین کو نابود کردیا اور یہ ان کے مکروفریب کا برُا انجام تھا۔
وہ برق جو قبیلۂ بارق سے چمکی تھی جب ہمارے مقابلہ میں آئی تو بے پانی کے بادلوں کی طرح اس نے اپنا چہرہ افق میں چھپا لیا اور اپنی چمک کھو بیٹھی۔(ابن حجر کی بات کا خاتمہ)
توجہ فرمایا کہ ابن حجر نے عثمان بن ربیعہ کو صحابی ثابت کرنے کے لئے بیان کی گئی اس روایت میں حمیضہ کا کوئی ذکر نہیں کیاہے ، جبکہ سیف کی روایتوں کے مطابق وہ اس جنگ میں مرتد وں کا سرکردہ تھا!ہم نے اس موصنوع کی علت کو حمیضہ کے حالات کے آخر بیان کیا ہے ،وہاں ملاحظہ فرمائیے ۔
اس صحابی کا نسب
اس سے پہلے ہم نے کہا کہ طبری نے سیف سے روایت کی ہے کہ طائف کے گورنر عثمان بن ابی العاص نے عثمان بن ربیعہ کو شنوء کی بغاوت کچلے پر مأ مور کیا۔۔۔(تاآخر)
چونکہ ''طائف''ثقفیوں'' کی رہائش گاہ تھی ، اس لئے ابن حجر نے یہ گمان کیا ہے کہ یہ عثمان ربیعہ ''ثقفی '' ہونا چاہئے ۔
اس کے پیش نظر کہ سیف نے اس سلسلہ میں صراحت سے کچھ نہیں کہا ہے اور جس روایت سے اس عالم نے عثمان کے حالات کے بارے میں استفادہ و استناد کیا ہے ، اس میں اس قسم کی نسبت کا کہیں ذکر نہیں ہے !لیکن اس کے باوجود ابن حجر نے سیف کے جعلی صحابی کو ''ثقفی '' کہا ہے اور ''عثمان بن ربیعہ ثقفی '' کے عنوان سے اس کا تعارف کرایا ہے !!
عثمان بن ربیعہ کے افسانہ میں سیف کے راوی:
سیف نے عثمان بن ربیعہ کی داستان میں صرف ''سہل '' کو راوی کے عنوان سے پہچنوایا ہے کہ اسے ''سہل بن یوسف انصاری سلمی'' کہتے ہیں ، اورپہلے بھی ہم نے کہا ہے کہ یہ سہل بھی اس کے جعلی راویوں میں سے ہے اور حقیقت میں وجود نہیں رکھتا ۔!
بحث کا نتیجہ :
ان تین چہروں :''حمیضہ بارقی'' ، ''جابر اسدی '' اور ''عثمان بن ربیعہ '' کے بارے میں جو کچھ ہم نے بیان کیا ہے اس سے نتیجہ حاصل ہوتاہے کہ :
٤۔اور وہ تنہا شخص ہے جس نے مذکورہ قبائل پر اس قسم کے جھوٹ اور ارتداد کی تہمت لگائی ہے اور ان کی شکست اور ان کے سرغنہ حمیضہ کے فرار کی خبردی ہے !
حمیضۂ بارقی کے بارے میں :
١۔ سیف تنہا شخص ہے جس نے قادسیہ کی جنگ میں حمیضہ نام کے کسی شخص کے سات سو ''ازدی''سپاہیوں کے سپہ سالار ہونے کا ذکر کیا ہے ۔
٢۔ وہ تنہا شخص ہے جس نے حمیضہ بارقی اور قادسیہ کی جنگ میں اس کے کارناموں کی داستان گڑھی ہے ۔
٣۔وہ تنہا شخص ہے جس نے '' حمیضہ ''کی سر کرد گی میں '' شنوء '' نام کی جگہ پر قبائل ''ازد، بجیلہ اور خثعم '' کے مرتدوں کے اجتماع کی خبردی ہے ۔
٤۔اور وہ تنہا شخص ہے جس نے مذکورہ قبائل پر اس قسم کے جھوٹ اور ارتداد کی تہمت لگائی ہے اور ان کی شکست اور ان کے سرغنہ حمیضہ کے فرار کی خبردی ہے !
جابر اسدی کے بارے میں :
١۔سیف تنہا شخص ہے جس نے قادسیہ کی جنگ میں فوج کے ایک دستہ پر جابر اسدی کی سپہ سالاری کی بات کہی ہے ۔
٢۔ وہ تنہا شخص ہے جو یہ کہتا ہے کہ سعد وقاص نے '' عاصم بن عمرو اور جابر اسدی کی سرکر دگی میں ایک فوج کو قادسیہ کی جنگ سے پہلے ایرانیوں سے لڑنے والے اپنے ایک گشتی دستے کی نجات کے لئے روانہ کیا ہے ۔
عثمان بن ربیعہ کے بارے میں :
١۔ سیف وہ تنہا شخص ہے جس نے عثمان بن ربیعہ کی داستان بیان کی ہے ۔ ہم یہ نہ سمجھ سکے کہ کیا اس نے سرے سے اس نام و داستان کو یوں ہی کسی مقدمہ کے بغیر گڑھ لیا ہے یا یہ کہ اس کے نام کو '' ربیعہ بن عثمان ،صحابی قرشی جمحی''جو حبشہ کے مھاجروں میں سے تھا ،کے نام کے مستعار لیاہے ، یا کسی اور نام سے۔
٢۔اور وہ تنہا شخص ہے جو یہ کہتا ہے کہ طائف کے گورنر ''عثمان بن ابی العاص '' نے عثمان بن ربیعہ کو ''شنوء '' کے مرتدوں کی بغاوت کی سر کو بی کے لئے طائف سے روانہ کیا ہے ۔
جس کے نتیجہ میں اس نے ان کے اجتماع کو تتر بتر کرکے ان کے سر غنہ کو بھگا دیا تھا ۔
اور ہم نے دیکھا کہ ان سب باتوں کو سیف بن عمر نے اپنی پانچ جعلی راویوں کی زبانی کہلوایا ہے جو ہر گز وجود نہیں رکھتے۔
بالآخر امام المؤرخین محمد بن جریر طبری نے سیف بن عمر تمیمی سے نقل کر کے ان تمام افسانوں کو اپنی تاریخ کبیر میں درج کیا ہے اور اس کے بعد دوسرے تاریخ نویسوں جیسے ابن اثیر اور ابن خلدون نے بھی انھیں تاریخ طبری سے نقل کر کے اپنی کتابوں میں درج کیا ہے۔
اس کے علاوہ ابن حجر کے کہنے پر ابن فتحون نے سیف کی روایتوں پر اعتماد کر کے جابر اسدی کو صحابی تصور کیا ہے اور اس کے نام کو ابن عبدابر کی کتاب ''استیصاب ''میں دریافت کیا ہے۔
سر انجام ابن حجر نے سیف کی تمام روایتوں پر اعتماد کر کے '' حمیضہ بارقی ''،''جابر اسدی '' اور ''عثمان ربیعہ ''کو صحابی جانا ہے اور انہی روایتوں سے استناد کر کے انھیں رسول خداۖ کے حقیقی اصحاب کی فہرست میں قرار دیا ہے۔
اس طرح سیف بن عمر تمیمی جیسے ایک معروف شخص جس پر زندیقی ہونے کا الزام تھا
کی روایتوں کی معتبر اسلامی منابع اور مصادر میں وسیع اشاعت ہوئی ہے اور گزشتہ بارہ صدیوں سے اس عیارِ زمانہ کے افسانوں ، تحریفات اور دخل و تصرف نے علماء و محققین کو اپنی طرف مشغول کر کے انھیں تاریخی حقائق کے بارے میں حیران و گمراہ رکھا ہے ۔ ہمیں معلوم نہیں کیا علماو محققین ایسی حالات میں ان آ لود گیوں سے اسلامی مصادر و مآخذ کو پاک کرنے کیلئے موافقت کریں گے یا حسب سابق ان کے عادی ہو کر کے خو ش فہمی کی بنا پر کسی قیمت پر انھیں چھوڑ نے کے لئے تیار نہیں ہوں گے؟!
مصادر و مآ خذ
حمیضہ کے بارے میں سیف کی روایت :
١۔ ''تاریخ طبری '' (١/٢٢١٨،٢٢٥٨۔٢٢٥٩،٢٣٣٤)
٢۔''تاریخ ابن اثیر '' (٢/٢٨٦،٣٤٧،٣٥٥)
٣۔تاریخ ابن خلدون (٢/٣١٦)
٤۔ ابن حجرکی ''اصابہ '' (١/٣٥٧)حصہ اول ترجمہ نمبر:١٨٤٨
٥۔ابن ماکولا کی 'اکمال' (٢/٥٣٦)
قبائل خزاعہ کا نسب اور ان کے عہدوپیمان:
١۔ابن حزم کی ''جمھرہ انساب '' (٣٧٧)و(٤٧٣)
٢۔حموی کی ''معجم البلدان'' (١/٣٩،٥٧)
''سراة'' کی تشریح:
١۔یاقوت حموی کی '' معجم البدان '' (٣/٦٥)
جابراسدی کے بارے میں سیف کی روایت :
١۔ابن حجر کی ''اصابہ '' (١/٢١٧)حصہ اول تر جمہ نمبر :١٠٤٠
٢۔''تاریخ طبری '' (١/٢٢٥٨)
٣۔''تاریخ ابن اثیر'' (٢/٢٥٦)طبع یورپ
عثمان بن ربیعہ کے حالات:
١۔ابن حجر کی ''اصابہ '' (٢/٤٥٢)حصہ اول ترجمہ نبر:٥٤٣٩
٢۔''تاریخ طبری '' (١/١٩٨٥)
ربیعہ بن عثمان قرشی کے حالات:
١۔'' طبقات ابن سعد'' (٤/١٤٩)حصہ اول
٢۔''سیرةابن ہشام'' (٣/٤١٦)
جمحی کا نسب:
١۔''اللباب ''(١/٢٣٦)
٢۔ابن سعد نے ''طبقات'' (٥/٣٦٦)میں ''محمد بن عثمان مخزوی'' نام کے ایک محدث کا ذکر کیا ہے اور اسے طبقۂ پنجم میں شمار کیا ہے ۔
|