ایک سو پچاس جعلی اصحاب( جلدچہارم )
 

٥٦واں جعلی صحابی ہزہاز بن عمرو
ابن "ابن " حجر کی کتاب ''اصابہ '' میں ہزہاز کی زندگی کے حالات پر یوں روشنی ڈالی گئی ہے:

ہزہاز بن عمروعجلی:
طبری نے اپنی تاریخ میں لکھا ہے کہ جب '' ابو عبیدہ ثقفی '' پیدل اور سوار فوجوں کے دستوں کو سعد وقاص کی نصرت کے لئے عراق بھیجنے کے لئے منظم کر رہا تھا ، تو اس نے عمر کے حکم سے دو دستوں میں سے ایک کی کمانڈ''ہزہاز'' کے ذمہ سونپی ۔ ''ہزہاز ''نے قادسیہ کی جنگ کے ''اغواث ''نامی دوسرے دن میدان کارزار میں قدم رکھا اور سعد کی سپاہ کی مدد کی ۔
ابن "ابن " فتحون نے اس صحابی کو ابن عبدالبر کی کتاب استعیاب سے استدراک کیاہے ۔
اس سے پہلے بھی ہم نے کہا ہے کہ قدماجنگجوں میں صحابی کے علاوہ کسی کو سپہ سالار منتخب نہیں نہیں کرتے تھے ۔(ابن حجر کی بات کا خاتمہ)
جو کچھ بیان ہوا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ابن "ابن " حجرنے ہزہاز کے بارے میں تاریخ طبری کو اپنی روایت کا ماخذ قرار دیا ہے ۔ ہم بھی اس کی تلاش کریں گے کہ طبری نے اس روایت کو کہاں سے نقل کیا ہے اور اپنی اس روایت کے مصدر کے طور پر کسی کا یا کن اشخاص کا نام لیا ہے ۔
طبری نے پوری کی پوری روایت اور وہ روایت کی تفصیل جس کے سلسلے میں ابن "ابن " حجر قادسیہ کی جنگ کے ضمن میں اشارہ سیف سے نقل کر کے اپنی کتاب کے تین صفحوں میں درج کیاہے اورہم دیکھتے ہیں کہ اس نے اس روایت کے منبع کے طور پر صراحت کے ساتھ سیف کا نام لیاہے۔
اس لحاظ سے ایسا لگتا ہے کہ طبری کی روایت کا طولانی ہونا اس امرکا سبب بنا ہے کہ روایت کا مصدر جو سیف پر تمام ہوتاہے علاّمہ ابن "ابن " حجر کی نظروں سے پوشیدہ رہا۔ اس لئے انہوں نے داستان کو طبری سے نقل کیا ہے اور اس کے اصلی راوی یعنی سیف کا کہیں نام نہیں لیا ہے ۔

داستان ہزہاز کے راوی :
سیف نے اپنے مآ خذ کے طور پر ''محمد ''کانام لیا ہے اور ہم جانتے ہیں کہ وہ ''محمد بن عبداﷲ بن سواد نویرہ '' ہے اور اس کے بارے میں ہم نے کہا ہے کہ پہلے وہ سیف کے خیالات کا پروردہ ہے اور حقیقت میں وجود نہیں رکھتا ہے ۔

سیف کی نظر میں ہزہاز کا نسب :
سیف نے اپنے جعلی صحابی کا نسب وعجلی منتخب کیا ہے اور یہ عدنان کے ایک قبیلہ سے صعب بن علی بن بکروائل کے نواسہ عجل بن لجیم'' سے ایک نسبت ہے۔
لیکن جس داستان کی طرف ابن حجری نے اشارہ کیاہے ، ہم نے اسے '' قعقاع بن عمرو تمیمی کے حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے ''تاریخ طبری ''سے نقل کر کے اسی کتاب کی پہلی جلد میں مفصل طور پر درج کیا ہے اور اس کی تکرار کی ضرورت محسوس نہیں کرتے ہیں۔
یہ قابل ذکر ہے کہ اسی طبری نے خلیفہ عمر کے حاکم کے مطابق سپہ سالاراعظم سعد وقاص کے قادسیہ کی جنگ میں ''ابو عبیدہ'' کی طرف سے کمک رسانی کے موضوع کو ابن "ابن " اسحاق سے نقل کر کے تفصیل سے لکھاہے ۔ لیکن اس میں کسی صورت میں قعقاع اور اس کے کارناموں کا ذکر نہیںہے ۔ اس کے علاوہ ''ہزہاز '' اور اس کے ماتحت فوج اور اس کے قادسیہ کی جنگ کے دوسرے دن دس دس افرا د کے گروہوں میں شرکت کا کہیں سراغ نہیں ملتا!

بحث و تحقیق کا نتیجہ:
اس جانچ پڑتال سے یہ نتیجہ حاصل ہوتاہے کہ سیف بن عمر تنہا شخص ہے جس نے ''ہزہاز عجلی ''کی خبر اور قادسیہ کی جنگ میں دو فوجی دستوں میں سے ایک پر اس کی کمانڈکی روایت کی ہے اور طبری نے اسے اپنی تاریخ میں سیف سے نقل کر کے درج کیاہے ۔
ابن "ابن " حجر نے بھی تاریخ طبری میں ذکر ہوئی اس خبر پر اعتماد کرتے ہوئے اور اس بات پر کہ ''جنگوں میں صحابی کے علاوہ کسی اور کو سپہ سالار منتخب نہیں کرتے تھے '' ''ہزاز '' کو صحابی تصور کر کے اپنی کتاب ''اصابہ ''میں مخصوص جگہ معین کرتے ہوئے اس کے حالات پر روشنی ڈالی ہے ۔
ہم نے ''فوج کے سپہ سالار ''کے عنوان کے تحت اسی کتاب کے مقدمہ میں اس روایت کے مصدر پر اور یہ کہ مذکورہ خبر تاریخی حقائق اور رود ادوں سے کس حدتک مطابقت رکھتی ہے ، تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔
ابن حجر نے کہا ہے کہ ''ابن فتحون '' نے '' ہزہاز '' کو ابن "ابن " عبدالبر کی '' استیعاب '' پر اضافہ کر کے اس سے استددراک کیا ہے ۔
کیا معلوم شاید ''ابن ابی شیبہ '' کی روایت اور صحابی کی شناخت کے لئے جعل کئے گئے قاعدہ نے ابن "ابن " فتحون کو فریب دیکر اسے اسی قاعدہ کے تحت سیف کے ہزہاز کو صحابی پہچاننے پر مجبور کیاہو!!

مصادر و مآ خذ
ہزہاز بن عمرو کے حالات :
١۔ابن حجر کی ''اصابہ '' (٣/٥٧٠)حصہ اول ،شرح حال نمبر : ٨٩٥٩

ہزہاز کے بارے میں سیف کی روایت :
١۔تاریخ طبری (١/٢٣٠٥)قادسیہ کی جنگ کے وقائع نیز ابن "ابن " اسحاق سے اس کی روایت۔ (١/٢٣٤٩۔٢٣٥٠)

عجلی کا شجرہ نسب :
١۔''لباب الانساب '' (٢/١٢٤)
٢۔ابن حزم کی ''جمھرۂ انساب '' (٣٠٩)اور(٣١٢۔٣١٣)

٥٧واں جعلی صحابی حمیضتہ بن نعمان بارقی
ابن "ابن " حجر نے اپنی کتاب ''اصابہ '' میں اس صحابی کا تعارف یوں کرایاہے:

حمیضتہ بن نعمان بن حمیضئہ بارقی:
سیف نے روایت کی ہے کہ خلیفہ عمر نے اسے ''سراة'' کے باشندوں پر ممور کیا، اور ان کی کمانڈ بھی اسے سونپی ہے ۔ اس کے بعد ١٤ ھ کے اوائل میں اسے سعد وقاص کے ہمراہ عراق کی مموریت پر بھیجا ۔ طبری نے بھی حمیضہ کے بارے میں ان ہی مطالب کو اپنی تاریخ میں درج کیا ہے ۔اس سے پہلے ہم نے کہا ہے کہ قدما جنگجوں میں صحابی کے علاوہ کسی کو سپہ سالاری کے عہدے پر فائز نہیں کرتے تھے ۔ (ز)(ابن "ابن " حجر کی بات کاخاتمہ ) "(ابن حجر کی بات کاخاتمہ )"
لیکن طبری ،قادسیہ کی جنگ کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے سیف بن عمر تمیمی سے نقل کر کے لکھتاہے :
جس وقت سپہ سالار اعظم سعد وقاص مدینہ سے عراق کی طر ف لشکر کشی کرنے کی تیاریاں کر رہاتھا تو اس کے ماتحت قبائل ''بارق، المع اور غامد'' کے سات سو جنگجوؤں اور'' سراة'' کے باشندوں سے دیگر افراد نے کوچ کیا ، ان کی کمانڈر حمیضتہ بن نعمان بارقی کر رہا تھا!

حمیضہ کا نسب :
سیف نے حمیضتہ کو قبیلۂ''بارق ''سے خلق کیا ہے ،اور اس کے ماتحت سپاہیوں کو قبائل ''بارق ، المع اور غامد''سے خلق کیاہے کہ وہ سب خاندان ''خزاعۂ ازد قحطانی '' سے تعلق رکھتے تھے ۔''سراة'' میںزندگی بسر کرنے والے ''ازدی '' اپنی سکونت کے علاقوں کے اعتبار سے چا ر حصوں میں تقسیم کئے گئے ہیں:

١۔''ازدشنوء ' ' یہ یمن میں ایک علاقہ تھاَ۔
٢۔''ازدسراة'' ، تنہامہ '' اور ''یمن '' کے درمیان کے پہاڑی علاقوں کو کہاجاتا تھا جو سرزمین عرفات سے صنعاتک پھیلے تھے اور سراة ثقیف ، سراة فہم ، سراة عدوان اور سراة ازد'' پر مشتمل تھے۔
٣۔ ازدغسّان
٤۔ ازد عمان
لہذا سیف بن عمر نے حمیضہ اور اس کے ساتھیوں کو ''خزاعہ'' سے خلق کیا کہ ان کی رہائش گاہ مکہ کے اطراف میں واقع تھی۔
بعثت سے پہلے ''خزاعہ'' کے قبائل اور '' بنی کنانہ عدنانی'' کے درمیان اتحاد و یکجہتی کا عہد و پیمان باندھا گیا تھا ، لیکن جب قریش رسول خدا ۖ سے مخالفت پر اتر آئے تو ''خزاعہ'' نے آنحضرت ۖ کی حمایت کا اعلان کرکے آپ ۖ کے ساتھ پیمان باندھا۔
ہم دوبارہ اپنے موصنوع پر آکر حمیضہ کی روایت پر اپنی بحث کو جاری رکھتے ہیں ۔ طبری نے سیف سے نقل کر کے قادسیہ کی جنگ سے پہلے اسلا م کے سپاہیوں کے مقدماتی حملوں کے بارے میں اس طرح لکھا ہے ۔
سواد تمیمی اور حمیضہ بارقی میںسے ہر ایک نے ایک سو سپا ہیوں کی کمانڈ میں ایرانی فوجوں پر حملہ کیااور دشمن کے قلب میں نفوذکر کے کثیر مقدار میں مال غنیمت حاصل کیا ۔
اس واقعہ کی خبر ایرانی فوج کے کمانڈر انچیف ''رستم فرخ زاد''کو پہنچی تو اس نے چند چابک سوارو ں کو حملہ آور وں کی گوشمالی اور غارت کئے گئے مال و منال کو واپس لینے کے لے ان کے پیچھے روانہ کیا ۔
دوسری طرف مسلمانوں کے ایرانیوں پر اچانک حملے کی خبر سعد وقاص کو پہنچی ، جس نے پہلے ہی یہ کاروائی کرنے سے منع کیا تھا ، اس نے مجبور ہوکر ''عاصم بن عمر تیممی ''اور ''جابر اسدی '' کو ان کی مدد کے لئے روانہ کیا اور ان کی روانگی کے وقت عاصم سے مخاطب ہو کر کہا:
اگر دشمن سے لڑنے کا فیصلہ کیا تو کمانڈر تم ہو ۔
اس دوران ایرانی فوجیوں نے بین ا لنہرین میں مسلمانوں پر حملہ کر کے ان کا محاصرہ کر لیا تاکہ غارت کیا ہوا مال واپس لے لیں۔سواد نے جب ناگفتہ بہ حالات کا مشاہدہ کیا تو حمیضہ سے مخاطب ہو کر بو لا:
اختیا ر تیرے ہاتھ میں ہے ۔ یاتم ایرانیوں سے لڑتے ہوئے انہیں مشغول رکھو تاکہ میں جنگی غنائم کو میدان کا رزار سے باہرلے جاؤں یا یہ کہ میں ان سے جنگ کروں اور تم اس مال و منال کو صحیح و سالم منزل مقصود تک پہنچاو ۔ حمیضہ نے جواب دیا :
تم رہو اور ان کومشغول تاکہ میں مال کو محفوظ جگہ تک پہنچادوں ۔ سواد نے موافقت کر کے ایرانیوں سے جنگ شروع کی اور انہیں مشغول رکھااور حمیضہ نے غنائم کو میدان سے باہر نکال لے گیا ۔ راستے میںاس نے عاصم کے سواروں کو دیکھایہ گمان کرتے ہوئے کہ ایرانی سوار ہیں ، ہٹ کر راستہ بدل دیا تا کہ ان سے جھڑپ نہ ہوجائے ۔ لیکن جلدی ہی انہوں نے ایک دوسرے کو پہچان لیا ، لہذا حمیضہ نے اطمینان کے ساتھ اپنا سفر جاری رکھا اور عاصم بھی سواد کی مدد کیلئے آگیبڑھ گیا۔
اس دوران ایرانیوں نے '' سواد'' سے جنگ کرتے ہوئے اپنا کچھ مال اور ان کامال اپنے قبضہ میں لے لیا لیکن عاصم کے میدان کارزار میں داخل ہونے پر رفو پر رفوچکر ہوگئے اور اپنا سب مال وہیں پر چھوڈ دیا جو ''سواد'' کے ہاتھ آگیا ! عاصم ،جابر اور سواد ، صحیح وسالم اور فاتحانہ طور پربہت سے جنگی غنائم لے کر سعد کی خدمت میں پہنچے۔
طبری نے ایک دوسری روایت میں سیف سے نقل کر کے قادسیہ کی جنگ کے وقائع کے بارے میں یوں خبردی ہے :
اس جنگ میں قبیلہ ، جعفی ، قحطانی اور یمانی ایرانی فوجیوں کے ایک زرہ پوش دستے پر حملہ آور ہوئے۔ جعفی تیز تلواروں کو لئے ہوئے ان پر ٹوٹ پڑے ،لیکن انتہائی تعجب سے مشاہدہ کیا کہ ان کی تلوار یں ان پر کارگر ثابت نہیں ہوئیں ۔ لہذا شکست کھاکر واپس لوٹنے پر مجبور ہوئے ۔ حمیضہ نے جب اس بے محل عقب نشینی کامشاہدہ کیا تو بلند آواز میں ان سے مخاطب ہو کر بولا :
تمہیں کیا ہو گیا ؟! جعفیوں نے جواب دیا :
ہمارا اسلحہ ان پر کا ر گر ثابت نہیں ہورہا ہے !حمیضہ نے کہا ؛
یہ کیا کہہ رہے ہو ؟ اسی جگہ پر ٹھہرو تاکہ تمہیں دکھادوں اس کے بعد پاس سے گزرتے ہوئے ایک ایرانی سپاہی پر حملہ آور ہوا اور نیزہ سے اس کی کمر توڑ کر اعلان کیا:
دیکھا یہ تم لوگوں کے ہاتھوں قتل ہونے کے علاوہ کسی اور چیز کے لئے یہاں نہیں آئے ہیں۔؟!
جعفیوں نے حمیضہ کے اعلان کو سننے کے بعد بلند ہتمی کا احساس کرتے ہوئے ایک تیز حملہ کیا اور دشمن کو تہس نہس کرکے انھیں پیچھے ہٹنے پر مجبور کیا!!

حمیضہ کے افسانہ میں سیف کے راوی :
سیف نے درج ذیل افراد کا اپنی روایتوں کے راویوں کے طور پر تعارف کرایا ہے :
١۔''محمد '' کہ یہ وہی ''محمد بن عبداﷲبن سواد نویرہ '' ہے ،جسے خود اس نے خلق کیا ہے۔
٢۔''محمد بن جریری عبدی'' یہ بھی سیف کا جعلی راوی ہے اور حقیقت میں وجود نہیں رکھتاہے ۔
٣۔''عابس جعفی ''اور اس کے باپ
٤۔''ابو عابس جعفی '' کانام لیاہے کہ دونوں باپ بیٹے اس کے جعل کردہ ہیں:اور ہمیں یہ معلوم نہ ہوسکا کہ اس نے '' ابو عابس ''کا کیانام رکھاہے :

حمیضہ کے افسانہ کا خلاصہ اوراس کی پڑتال:
سیف نے اپنے افسانوی سورماحمیضہ کو عدنانیوں کے ہم پیمان کے طورپر خلق کیا ہے اور اس کی شجاعت و دلاوریوں کا ذکر کیا ہے اور بزدل یمانیوں کی رسوائی اورجنگی ناتوانی کہ انہوں نے نام نہادپیمان میں بھی شرکت نہیں کی تھی کا مذاق اُ ڑاتاہے ۔
لیکن اس کے باوجود جب اسی پہلوان حمیضہ کو سواد تمیمی کے مقابلے میں قراردیتا ہے ، تواس وقت تمیمی سردار کی شخصیت ،بزرگی اور دلاوری کو اس سے بلند تردکھاتا ہے ۔ کیونکہ یہ ''سوادتمیمی ''ہے جو بزگواری کے ساتھ جنگ میں شرکت کرنے یا غنائم جنگی کو لے جانے کا اختیارحمیضہ کو دیتا ہے ،یہ بذات خود سیف کے ہم قبیلہ سواد تمیمی کی شرافت ،بزرگواری اور شجاعت کی علامت ہے نہ کہ کوئی اور چیز!
سیف اس داستان کی منصوبہ بندی کے بعد ایک بار پھر حمیضہ کے تانباک چہرے ،سر بلند ی اور جنگی غنائم کو ایرانیوں کی دسترس سے دور کرنے اور اس کی ہم رزموں کی شجاعت کو نمایاں کر کے اس کی شخصیت واعتبار کو بڑھا وادیتاہے۔
سر انجام تمام سر بلند یاں اور افتخارات قبیلہ تمیم یعنی سیف بن عمر کے قبیلہ کی طرف پلٹ کر آتیہیں۔ کیونکہ تمام مشکلات کو حل کرنے والے اور مصیبت میں پھنسے لوگوں کو آزاد کرنے والے سردار اور پہلوان تمیم کابے مثال دلاور''عاصم بن عمرو'' اور اس کا ساتھی ''جابر اسدی ''ہیں جو حمیضہ اور اس کے ساتھیوں کو آزاد کرنے کے لئے میدان میں قدم رکھتے ہیں اور میدان کو دشمن کے وجود سے پاک کرتے ہیں ۔ جی ہاں یہ عاصم بن عمرو ہے کہ صرف اس کا نام سن کے ہی دشمن فر ا ر کو قر ا ر پر تر جیح د یتا ہے۔آ خر کا ریہی مطا لب تھے جنھو ں نے ا بن حجر کو ا س با ت پر مجبو ر کیا ہے کہ سیف کی با تو ں پر اعتماد کر کے اپنی کتا ب ''اصا بہ'' میں''حمیضہ''اور سیف کے دیگر خیا لی مخلو قا ت کو مخصو ص جگہ د ے اور انھیں ر سو ل خد اۖ کے دو سرے حقیقی ا صحا ب کی فہر ست میں قرار دیکر ان کے حا لا ت پر ر و شنی ڈا لے۔
جو کچھہ ہم نے یہاں تک بیان کیا وہ '' حمیضہ ''کی بیرونی جنگوں میں سر گرمیوں سے مربوط تھا۔جبکہ طبری نے سیف سے نقل کر کے کچھ داخلی سرگرمیوں جیسے مرتد ہونے اور ارتداد کی بغاوت شروع کرنے کوبھی حمیضہ سے نسبت دی ہے۔طبری اس سلسلہ میں اور یمانیوں کے ارتداد کی خبر کے ضمن میں لکھتا ہے :
خلیفہ ابوبکر نے اپنے کارندوں اورگماشتوں کو پیغام اور ایلچی بھیج کر مرتدوں سے جنگ کرنے کامصمم ارادہ کیا۔ من جملہ ''طائف کے گورنر ''عثمان بن ابی العاص'' کو لکھا کہ اپنی مأموریت کے علاقہ میںاسلام پر ثابت قدم و پائدار رہنے والوں کی مدد کر کے علاقہ کے مرتدوں کو کچل دے۔طائف کے گورنر نے حکم کی اطاعت کرتے ہوئے طائف کے لوگوں میںسے ایک گروہ کو ''عثمان بن ابی ربیعہ ''کی کمانڈمیں مأموریت دی کہ''حمیضہ بن نعمان '' کی سرکر دی گی میں قبائل ''ازد ،بجلیہ اور خثعم ''کے مرتدوں کے اجتماع کی وجہ سے برپاشدہ بغاوت کوکچل دیں ۔
عثمان بن ابی ربیعہ نے ''شنوء ''پر حملہ کیا اور مرتدوں سے نبردآزما ہوا ،مرتدوں نے مقابلہ کی ہمت نہ کرتے ہوئے شکست کھاکر پسپائی اختیار کرتے ہوئے فرار کیااور حمیضہ کو تن تنہا اپنی قسمت پر چھوڈ دیا ۔
حمیضہ نے اپنے آپ کو مشکل سے میدان کارزاسے دورکیا اور بے یار و مدد گار پہاڑوں اور صحراوں کی طرف بھاگ گیا۔
عثمان بن ربیعہ ''نے اس فتحیابی کواپنے اشعار میں یوں بیان کیاہے :
ہم نے مرتدوں کے گروہ کو تتر بتر کر کے ان کی سرزمین کو تباہ وبرباد کردیا۔یہ ان کے مکرو فریب کا انجام ہے۔
قبیلہ بارق برقی بہت اچھل رہا تھا لیکن ''جب ہمارے مقابلے میں آیا تو بے پانی کے بادل کے ماننداور اپنی عظمت و شان و شوکت کھو بیٹھا۔
سیف نے اس شعر کے دوسرے مصرع میں '' بارق ''اور ''حمیضہ بارقی''کی طرف واضع اشارہ کیا ہے ۔
حمیضہ بارقی اور اس کے برے انجام کے بارے میں سیف کی اس داستان ،اور ابو بکر کے ذریعہ نقل کی گئی اس روایت میں کہ اس نے کبھی مرتدسے مدد طلب نہیں کی ہے ، یایہ کہ عمر نے ان میں سے دس افراد سے زیادہ کو سپہ سالاری کا عہدہ نہیں سونپا ہے نیز اس کی دوسری روایت کہ خلیفہ عمر نے حمیضہ کو سات سو جنگجوؤں کی سپہ سالاری سونپ کر قادسیہ کی جنگ میں مأ موریت دی تھی، سے سخت اختلاف رکھتی ہے !
کیا سیف نے یہ نہیں کہاہے کہ ابوبکر نے اپنی زندگی میں کسی بھی مرتد سے مدد طلب نہیں کی ہے ؟!،
کیا اس نے خود یہ بات نہیںکہی ہے کہ عمر اگرچہ ان سے مدد لیتے تھے لیکن ہر گز ان کو سپہ سالاری کا عہدہ نہیں سونپتے تھے مگر چند گنے چنے افراد کو جن کی تعداد دس تک نہیں پہنچی ہے ؟
اگر یہ مطالب سچ اور حقیقت ہیں تو خلیفہ ٔ مسلمین عمر نے کیسے مرتد اور خدااور اس کے پیغمبرۖکے دین سے منحرف ''حمیضہ ''کو سات سو سپاہیوں کا سپہ سالار منصوب کیا اور وہ بھی ایک معروف جنگ یعنی قادسیہ کی جنگ میں؟!!
ابن ماکولانے کوشش کی ہے کہ ان دونوں متناقض روایتوں کو سیف کی زبانی اپنی کتاب ''اکمال '' میں ایک جگہ پر درج کرے ۔وہ لکھتا ہے:
حمیضہ بارقی مرتد ہونے کے بعد دوبارہ اسلام کی آغوش میں آیا وہ قادسیہ کی جنگ میں فوج کے ایک حصہ کا سپہ سالار تھا۔
اس حساب سے معلوم ہوتا ہے کہ ابن حجر نے حمیضہ کے ارتداد کی خبر کو ایک خاص مقصد کے پیش نظر اپنی کتاب''اصابہ ''میں درج نہیں کیاہے بلکہ عمداً اس سے چشم پوشی کی ہے ۔کیونکہ اسے یقین تھاکہ اصحاب کو پہنچاننے کے اس کے قاعدے اس بات کا سخت ٹکراؤ ہے اوراس صورت میں اس کے لے ایسے چہرے کو رسو ل خد اۖ کے اصحا ب کے ز مر ہ میں قرا ر دینے کی کو ئی گنجا لش با قی نہیں ر ہتی۔