٥٥ واں جعلی صحابی
مالک بن ربیعہ
ابن "ابن " حجر کی کتاب ''اصابہ ''میں یہ صحابی یوں پہچنوایا گیا ہے :
مالک بن ربیعہ بنی تیم ربا ب ١سے تعلق رکھتاتھا ۔ وہ سعد بن ابی وقاص کا ایک کرنیل تھا ، جس نے خلافت عمر کے اوائل میں اس کے ساتھ عراق کی طرف عزیمت کی تھی ۔
قادسیہ کی جنگ کے سپہ سالار اعظم سعد وقاص نے مالک بن ربیعہ کو اپنی سپاہ کے ایک دستہ کی کمانڈ سونپی تھی ۔
ابو جعفر محمدبن جریر طبری نے بھی مالک بن ربیعہ کے بارے میں ان ہی مطلب کو درج کیا ہے اورہم اسے پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ قدما کی یہ رسمتھی کہ وہ جنگ میں صحابی کے علاوہ کسی اور کو سپہ سالار معین نہیں کرتے تھے ۔(ابن حجر کی بات کا خاتمہ )
مالک بن ربیعہ کے بارے میں ابن "ابن " حجر کی تشریح کے تین حصے ہیں، پہلا حصہ شجرہ ٔنسب پر مشتمل ہے ۔ہم
..............
١۔ ابن حجر کی کتاب ''اصابہ '' میں '' بنی تیم مرة رباب '' آیا ہے ،ہم نے انساب عرب میں اس قسم کے نسب کو نہیں پایا ہے یہ وہی ''بنی تیم رباب ''ہونا چاہئے ، جس کا ہم نے متن میں ذکر کیاہے ۔
حسب ذیل اس پر بحث کرتے ہیں ۔
١ ۔ عراق کی ''جنگ ِ قادسیہ میں سعد بن ابی وقاص کی طرف سے قبیلۂ تیم رباب کے ''مالک بن ربیعہ''کو ایک فوجی دستہ کے سپہ سالار کے عنوان سے انتصاب کی روایت صرف تاریخ طبری میں وہ بھی سیف بن عمر تمیمی سے نقل کر کے درج کی گئی ہے کہیں اورنہیں ہے!!
٢۔ اس انتصاب اور اس سے مربوط دیگر و قائع کے بارے میں طبری نے صراحت کے ساتھ سیف کانام لے کر اپنی کتاب کے چھ صفحات پر مفصل روشنی ڈالی ہے ۔ شاید خبر کا طولانی ہونا سبب بن گیا ہوکہ علامہ ابن "ابن " حجر کی نظر اس روایت کے اصلی منبع یعنی سیف بن عمر پر نہ پڑی ہو اور اس طرح اس نے مالک بن ربیعہ کے حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے صراحت کے ساتھ ''تاریخ طبری ''کو اس کا منبع بیان کیاہے۔
قادسیہ کی جنگ میں فوج کے ایک دستہ کے لئے''مالک بن ربیعہ کے سپہ سالار بننے کے سلسلہ میں جس نکتہ سے استفادہ کیا گیا ہے ، اور جسے تاریخ طبری نے درج کیاہے ، حسب ِ ذیل ہے؛
سیف نے ''طلحہ '' سے اس نے '' کیسان صنبیہ کی بیٹی '' سے اور اس نے قا دسیہ کی جنگ کے ایک اسیر سے روایت کی ہے ....(یہاں تک کہ وہ کہتاہے:)
اسی طرح اسلامی فوجی کے سپہ سالار اعظم سعد وقاص نے '' مالک بن ربیعہ تیمی تیم رباب وائلی'' کو''مساور بن نعمان تیمی ربیعی '' کے ہمراہ ایک اور فوجی دستہ کے کمانڈر کے طور پر منتخب کیا۔
ان دو کمانڈرو ں نے اپنے ماتحت افراد کے ساتھ علاقہ''قیوم '' پر حملہ کیا۔ قبائل '' تغلب ونمر'' کے اونٹ ہنکالے گئے، اور اس علاقہ کے لوگوں کا قتل عام کیا اور فاتحانہ طور پر صبح سویرے سعد کی خدمت میں حاضر ہوگئے (طبری کی بات کا خاتمہ )
٣۔ ہم نے ابن "ابن " حجر کی بیان کردہ روایت کہ '' قدما صحابی کے علاوہ کسی دوسرے کو سپہ سالار ی کے عہدہ پرمنتخب نہیں کرتے تھے ''پر پہلے ہی مفصل بحث کی ہے ۔
اور ہمیںیاد ہے کہ ابن حجر نے مذکورہ خبر کو ''بشر بن عبداﷲ کے حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے ''ابن ابی شیبہ '' سے نقل کر کے اپنی کتاب میں درج کیا ہے ۔
اور ہم یہ بھی نہیں بھولے ہیںکہ ابن "ابن " حجر نے اپنی کتاب کے مقدمہ میں تاکید کی ہے کہ کتاب ''اصابہ '' کو تین حصوں میں تقسیم کرنے اور اس کے پہلے حصہ کو سپہ سالار ی کے عہدہ فائز اصحاب کے لئے مخصوص کرنے کا سبب وہی '' ابن ابی شیبہ '' کی روایت تھی ۔
٤۔اب رہا ، سیف کے اس جعلی صحابی کا نسب ،ابن حجر نے اپنی کتاب اصابہ میں اسے ''تیمی اور بنی تیم مرّہ رباب ''کے نام سے پہچنوایا ہے اور ہم نے کہا ہے کہ یہ نسب ظاہراً غلط ہے ، اور صحیح ''تیم رباب '' ہے ''مرة '' نہیں ہے ۔
قبائل '' بنی منات '' کے ایک مجموعہ کو ''رباب'' کہاجاتاہے۔ انہوں نے اپنے چچیرے بھائیوں ''یعنی بنی سعد منات ''کے خلاف قبیلۂ ''ضبّہ ''کے ساتھ پیمان باندھا تھا ۔ انہوں نے اس پیمان کے عقد کے وقت یکجہتی کے طور پر اپنے ہاتھوں کو ''رُب ''سے پرایک برتن میں ڈبویاتھا۔
اوراسی مناسبت سے ''تیم بن عبد منات ''کے فرزندوں نے ''تیم رباب ''کی شہرت پائی ہے۔
لیکن یہ کہ تاریخ طبری میں مالک بن ربیعہ کی نسبت ''بنی تیم رباب وائلی ''سے دی گئی ہے ہم نہ سمجھ سکے کہ ''وائلی ''سے سیف کی مراد کیا تھی۔ اگر وائلی سے مراد ''عوف بن عبد منات ادّ ''کے نواسہ ''وائل بن قیس '' کی طرف نسبت ہے جو'' تیم رباب'' کے رشتہ دار تھے تو وہ ایک دوسرے کے چچیرے بھائی ہیں ۔
اگر ''وائلی ''سے سیف کا مقصد قبائل سیاء سے جذام کے نواسہ ''وائل بن مالک '' سے قرابت داری ہو تو یہ قبیلہ ''تیم رباب '' قبائل عدنان میں سے ہے اور یہ آپس میں جمع نہیں ہوسکتے اور نسب کے لحاظ سے آپس میں کافی اختلاف و فاصلہ رکھتے ہیں ۔
ہم نہیں جانتے کہ سیف اس مسئلہ اور ان دو نسب کی دوری سے آگاہ تھا یا اپنے شیوہ کے مطابق اس نے عمداً ''بنی تیم رباب وائلی ''لکھا ہے اور اس کا مقصد دانشمندوںکو حقا ئق سے گمراہ اور شبہ سے دو چار کرنا اور تحقیق سے سلسلے میں اختلاف ایجاد کرنا تھا؟
یایہ کہ خوش فہمی کے عالم میں یہ قبول کریں کہ سیف میں کسی قسم کا چھل کپٹ نہیں تھا بلکہ وہ ایک غلط فہمی سے دوچار ہوا ہے ، تو یہ بعید نظر آتا ہے کیونکہ سیف کی تحریروں سے صاف ظاہر ہے کہ وہ انساب عرب کے بارے وسیع علم رکھتا تھا۔
تیسری صورت یہ ہے کہ انساب عرب کے بارے میں سیف دوسرے صاحب تالیف نسب شناسوں کی نسبت کافی اطلاعات رکھتاتھا اور وہ ایسے قبیلوں کو بھی جانتاتھا کہ دوسرے ان سے لا علم تھے اسلئے اس نے اپنے مالک بن ربیعہ کو ایسے ہی قبیلوں سے نسبت دی ہے !!
بہرحال بعید نہیں ہے کہ ابن "ابن " حجر نے سیف کے مالک بن ربیعہ کے نسب میں اس نقص کو پاکر مالک بن ربیعہ کے حالات پر شرح لکھتے وقت اس کا شجرہ نسب لکھنے سے پرہیز کیا ہے۔
افسانہ مالک کے مآخذ کی پڑتال
سیف نے اپنے مالک بن ربیعہ کی قادسیہ کی جنگ میں فوجیوں کے ایک دستہ کی سپہ سالار ی کی خبر کو بقول :
طلحہ نے کیسان ضبیہ کی بیٹی سے '' اس نے جنگ قادسیہ کے ایک اسیر سے نقل کیا ہے!! اور نہ ہم جانتے ہیں اور نہ کوئی دوسرا ستارہ شناس کہ سیف کا یہ طلحہ کون ہے !
کیسان ضبیّہ کی بیٹی کا کیا نام تھا اور خود کیسان ضبیہ کون ہے ؟!
بالآخر قادسیہ کی جنگ کے اس بدقسمت اسیر کا نام کیاتھا؟!
ہم نے بیکار اپنا قمیتی وقت صرف کر کے مختلف کتابوں ، روائی مناطع اور اسلامی مصادر ومآ خذ میں جستجوں کی تاکہ شائد کیسان ضبیہ کی بیٹی کا کہیں سراغ ملے۔ لیکن ہماری یہ ساری تلاش بے نتیجہ ثابت ہوئی ۔
گذشتہ بحث کا خلاصہ اور نتیجہ :
ہم نے دیکھا کہ سیف بن عمر تنہا شخص ہے جس نے سعد وقاص کے حکم سے ''مالک بن ربیعہ ''اور ''مساور '' کی ایک فوجی دستے کی سپہ سالاری ، اور ان کے علاقہ ''قیوم '' پر حملہ کرنے کی روایت بیانں کی ہے ۔
اس کے علاوہ ہم نے دیکھا کہ سیف نے ''مالک بن ربیعہ ''کے لئے ایک حیرت انگیز شجرہ نسب گھڑلیا ہے اور اسے کسی پروا کے بغیر اپنی کتا ب میں میں درج کیاہے ، نامعلوم اور مجہول راویوں کو کسی لحاظ کے بغیر سند اور مأخذکے طور پر پہچنوایا ہے!
اور آخر ہم میں نے محترم عالم ابن "ابن " حجر کو دیکھا کہ اس نے سیف کے افسانہ کے دو خیالی اشخاص مالک و مساور کورسول خداۖ کے مسلح اور حقیقی اصحاب کے طور پر پہچنوا کر ان کے حالات کی شرح لکھی ہے۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ سیف کے افسانہ میں ''مالک اور مساور '' کے ''فیوم '' نامی ایک جگہ پر چڑھائی کا ذکر آیا ہے ۔اب ہم دیکھتے ہیں کہ ''فیوم'' کہاں پر واقع ہے ۔
جہاں تک معلوم ہے ''فیوم '' مصر میں ایک معروف جگہ ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ سیف اس سے پورے طور پر مطلع تھا اور لہذا اس نے اسی کی ہم نام جگہ کو عراق میں خلق کیا ہے!
یہ اسلامی جغرافیہ شناس اور محترم عالم یاقوت حموی ہے جس نے سیف کی باتوں پر اعتماد کر کے اس کے ''فیوم '' کو اپنی کتاب ''معجم البلدان'' میں خصوصی طور پر جگہ معین کر کے لکھاہے :
''فیوم '' دوجگہوں کانام ہے ۔ ایک مصر میں ہے اور دوسری عراق میں شہر ''ھیت ''کے نزدیک۔
اس کے بعد یاقوت حموی نے اپنی کتاب میں مصر کے ''فیوم '' کے بارے میں تین صفحوں پر مفصل تشریح کی ہے ۔آخر میں چونکہ عراق کی ''فیوم '' نامی جگہ کے بارے میں کچھ تھا ہی نہیں جسے وہ لکھتا ،اس لئے صرف اتنا لکھنے پر اکتفاکرتاہے:
یہ فیوم عراق میں شہر ''ھیت '' کے نزدیک ہے ۔
ایسا لگتا ہے حموی کے شہر ''ھیت '' کو انتخاب کرنے کا سبب یہ تھا کہ سیف کے افسانہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ''فیوم '' نامی جگہ قادسیہ کے اطراف میں واقع تھی ۔چونکہ ھیت قادسیہ کے نزدیک ہے ۔لہذا یاقوت حموی نے بھی اندھا دھند ایک اندازہ سے کہہ دیا کہ ''فیوم ''عراق کے شہر ھیت کے نزدیک واقع ہے ۔ جبکہ یہ خبر بنیادی طور پر جھوٹ اور من گڑھت ہے اور ''فیوم '' نامی یہ جگہ بھی سیف کے دوسرے مطالب کی طرح اس کے خیالات کی تخلیق ہے اور حقیقت میں وجود نہیں رکھتی ہے ۔
یاقوت نے اس غلط فہمی کو اپنی دوسری کتاب '' المشترک ''جو ہم نام مقامات کے لئیمخصوص ہے میں تکرار کرتے ہوئے لکھاہے :
''فیوم '' دو جگہوں کا نام ہے ''
اس کے بعد جو کچھ اس سلسلے میں اپنی ''معجم'' میں درج کیا ہے اسے یہاں پر''المشترک''میں بھی ذکر کرتا ہے۔
یہاں پر یہ گمان تقویت پاتا ہے شاید سیف بن عمر نے اپنے افسانہ کے خیالی اداکار مالک بن ربیعہ تیمی کے نام کو بھی ''مالک بن ربیعہ ،ابو اسید ساعدی انصاری ''یا '' ابن "ابن " وھب قرشی '' یا ان کے علاوہ کسی اور کے نام سے لیا ہوگا تاکہ علماء و محققین کو گمراہ کرکے حیران و پریشان کر ے کیونکہ اصحاب میں اسی ہم نامی کے مسئلہ نے کتنے محققین اور علماء کو پریشان اور تشویش سے دو چار کر کے گمراہی اور غلطی کا مرتکب بنایا ہے۔
مصادر و مآخذ
مالک بن ربیعہ کے حالات:
١۔ابن حجر کی ''اصابہ '' (٣/٣٢٤) پہلا حصہ
٢۔ تاریخ طبری (ا/٢٢٤٤۔٢٢٤٥) قادسیہ کے وقائع کے ضمن میں ۔
''رباب ''کے نسب کے بارے میں:
١۔''جمہرہ انساب العرب '' ابن "ابن " حزم (١٩٨)
٢۔ لباب الانساب'' لفظ ''رباب '' (١٢٠)
٣۔ ''عجالہ ھمدانی'' لفظ ''وائلی '' (١٢٠) اور جذامی (٣٨)
مالک بن ربیعہ انصاری کے حالات :
١۔ابن حجر ''اصابہ '' (٣/٣٢٤)
٢۔ابن سعد کی'' طبقات'' (٥/٢٠٠)
٣۔''صفین '' نصر مزاحم (٥٠٦)
٤۔ تقریب التہذیب
٥۔عقدالفرائد
٦۔مسند احمد حنبل
|