اصحاب کو پہچاننے کا ایک طریقہ
سپہ سالاری
کتاب کے اس حصہ میں ہم سیف کے ایسے جعلی اصحاب کے حالات پر روشنی ڈالیں گے جنہیں مکتبِ خلفاء کے علماء نے صرف اس بناء پر کہ سیف نے اسلام کی فتوحات میں سردار اور سپہ سالار کی حیثیت سے ان کا نام لیا ہے ، انہیں پیغمبرخداۖ کے حقیقی اصحاب قرار دیکر ان کے حالات پر روشنی ڈالی ہے اور انہیں اس عنوان سے درج کیاہے ۔
ابن "ابن " حجر اپنی کتاب " اصابہ " کے مقدمہ میں " صحابی کی تعریف" میں یوں لکھتے ہیں:
جو کچھ ہمیں صحابی کی پہچان کے سلسلے میں اپنے اسلاف سے مختصر اور یہاں وہاں سے ہاتھ آیا ہے ، اگر چہ وہ یقینی اور واضح نص نہیں ہے ، پھر بھی وہ مطلب ہے جسے " ابن "ابن " ابی شیبہ " ١ نے ایک ناقابل اعتراض مآ خد سے نقل کر کے اپنی کتاب
..............
١۔ ابوبکر ، عبداﷲ بن محمد بن ابراہیم بن عثمان بن ابی شیبہ کوفی عبنسی (وفات ٢٣٥ھ)ہے ۔ انکی تصنیفات میں سے صرف تین حصے حیدر آباد دکن میں شائع ہوئے ہیں ۔
''مصنف'' میں یوں درج ہے : صدر اسلام کے جنگوں میں رسم یہ تھی کہ صحابی کے علاوہ کسی اور کو سپہ سالار کے طور پر منتخب نہیں کرتے تھے۔
یہ عالم ابن حجر اپنی کتاب کے دوسرے حصہ میں '' صحابی کو پہچاننے کا ایک راستہ'' کے عنوان کے تحت لکھتا ہے :
ایک قاعدہ موجود ہے جس کے ذریعہ بہت سے لوگوں کا صحابی ہونا ثابت ہوتا ہے۔یہ قاعدہ تین علا متوںپر مشتمل ہے۔ ان تین علامتوں میں سے کسی ایک کی موجودگی کسی فرد میں موجود گی اس امر کے لئے کافی ہے کہ اس شخص پر رسول خداۖ کا صحابی ہونے کا حکم لگایا جائے۔
ان میں پہلی علامت یہ ہے جسے ابن "ابن " ابی شیبہ نے ایک ناقابل اعتراض منبع سے نقل کر کے اپنی کتاب میں لکھاہے :
صدراسلام کے جنگوں میں رسم یہ تھی کہ صحابی کے علاوہ کسی اور کو سپہ سالار کے طور پر منتخب نہیں کیا جاتا تھا۔
اس کے بعد ابن "ابن " حجر اپنی بات کے سلسلہ کو جاری رکھتے ہوئے لکھتے ہیں :
اگر کوئی شخص اسلام کی جنگجوں اور فتوحات کی رودادوں اور روایتوں کی تحقیق اور جستجو کرے تو اسے اس قسم کے اصحاب کی بڑی تعداد ملے گی جن کا ہم نے اپنی کتاب کے ابتدائی حصہ میں ذکر کیا ہے ۔ (ابن حجر کی بات کا خاتمہ)
ہم نے ابن "ابن " حجر کی اس روایت کے بارے تحقیق اور جستجو کرنے کا اراد کیا جسے اس نے ابن ابی شیبہ سے نقل کیا ہے اور ابن حجر اور اس کے ہم فکروں نے اس روایت کو صحابی کی پہچان کے لئے قطعی دلیل قرار دیکر اصحاب کے حالت پر تشریح و تفسیریں لکھی ہیں، لیکن اس راستہ میں تمام تلاش و کوششوں کے باوجود اس روایت کے مصدر و مآخذکے طور پر سیف کے علاوہ کسی کو نہیں پایا ۔ اسی طرح تاریخ طبری اور تاریخ ابن عسا کرنے بھی یہی مطلب لکھا ہے ۔ یہ علماء سیف سے نقل کر کے لکھتے ہیں :
١۔ جنگوں میں افسر اور سپہ سالارا صحاب میں سے منتخب ہوتے تھے ، مگر یہ کہ ان میں سے کوئی موجود نہ ہوتا ۔
٢ ۔طبری ایک اور روایت کے مطابق سیف سے نقل کرتا ہے :
''عمر بن محمد ''نے ''شعبی'' سے روایت کی ہے کہ اس نے کہا:
انہی دنوں ، جب خلیفہ ابوبکر نے ''خالد بن ولید و عیاض بن غنم '' کو ماموریت پر عراق بھیجا تھاتو انھیں لکھا تھا :
جن لوگوں نے مرتدوں سے جنگ کی اور رسول خداۖ کے بعد اسلام پر باقی رہے، ان کی ایک فوج تشکیل دو۔اس فوج میں اور تمہارے ہمراہ کسی بھی مرتد کو جنگ میں شرکت نے کاتب تک حق نہیں ہے جب تک میرا حکم پہنچے۔
اس کے بعد شعبی اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہتا ہے :
ابوبکر کی خلا فت کے زمانہ میں کسی مرتد نے جنگجوں میں شرکت نہیں کی ۔
٣۔مزید طبری سیف سے نقل کر کے اسی مأخذکے مطابق لکھتا ہے:
خلیفہ ابوبکر جب تک زندہ تھے ، کسی بھی جنگ میں مرتدوں سے مدد طلب نہیں کی ۔ لیکن خلیفہ عمر ان سے مدد لیتے تھے ، مگر ، انھیں کبھی سپہ سالار نہیں بناتے تھے ، مگر ایک مختصر تعداد کو یہ عہدہ سونپا ہے جن کی تعداد دس افراد یا اس سے کم تر تھی ۔ وہ صحابی کو سپہ سالا ر کے عہدہ پر انتخاب کرنے میں کبھی غفلت نہیں کرتے تھے ۔
٤۔ اس نے ایک اور روایت میں سیف سے نقل کر کے لکھا ہے :
سب کہتے ہیں کہ ابو بکر نے ارتداد کے جنگوں ،عراق پر لشکر کشی اور ایرانیوں سے جنگ میں مرتدوں کے گروہ سے مدد طلب نہیں کی ہے۔ وہ مرتدوںسے سپاہی کی حیثیت سے تو کام لیتے تھے لیکن ان میں سے کسی ایک کو امیر یا سپہ سالارمنتخب نہیں کرتے تھے ۔ سیف نے اس مطلب کو متعدد روایتوں میں بیان کرتے ہوئے یہ ثابت کرنے کی زبردست کوشش کی ہے کہ ابوبکر اور عمر کی خلافت کے زمانہ میں اسلام کے سپاہیوں کی کمانڈ ہمیشہ صحابی کے ہاتھ میں ہوتی تھی اور صحابی کے علاوہ کسی کو یہ عہدہ نہیںسونپا جاتاتھا ۔ لیکن یہ تمام حالات سیف کی مذکورہ روایتوں کے باوجود خلیفہ عمر کی طرف سے ''اِمرؤ القیس'' کی ''قضاعہ'' ١کے مسلمان پر حکومت جس نے اس سے پہلے ایک رکعت نماز بھی نہیں پڑھی تھی کے ساتھ واضع تناقص رکھتے ہیں ۔ درج ذیل داستان ملا حظہ فرمائیے:
ابوالفرج اصفہانی اپنی کتاب ''اغانی '' میں یوں لکھتے ہیں :
''اِمرؤ القیس '' نے عمر کے ہاتھوں پر اسلام قبول کیا ۔اور اس سے پہلے کہ اس
..............
١۔ قضاعہ '' حیدان ، بہراء ، بلی اور جہینہ '' وغیرہ قبائل پر مشمل ایک بڑے قبائل کا مجموعہ ہے ۔ ابن "ابن " حزم نے اپنی کتاب انساب (٤٤٠۔۔٤٦٠) میں اس کی تشریح کی ہے ۔ اس کا مرکز پہلے ''شجر'' اس کے بعد ''نجران ''اور اس کے بعد شام میں تھا ۔ اس قبیلہ کی سرزمینوں کی حدود وسیع تھیں اور یہ شام ، عراق اور حجاز تک پہلی ہوئی تھی ۔ معجم القبائل العربیہ۔ لفظ قضاعہ (٢/٩٥٧) ملاحظہ ہو
نے ایک رکعت نماز پڑھی ہو اس کو خلیفہنے حکومت و ولایت پر منصوب کیا۔
اصفہانی نے داستان کی تفصیل کو مذکورہ خبر کے بعد 'عوف بن خارجہ مّری'' سے نقل کر کے اپنی کتاب اغانی میں یوں لکھا ہے:
عمر ابن "ابن " خطاب کی خلافت کے دوران ایک دن میں ان کے پاس بیٹھا تھا ۔کہ ایک شخص داخل ہوا ، اس کے سر کے دونوں طرف تھوڑے سے بال دکھائی دیتے تھے ۔اس کے پیر ٹیڑھے تھے، پاؤں کے انگلیا ں ایک دوسرے کے اوپر اور ایڑیاں اس کے شانوں کے موازی تھیں ۔
وہ لوگوںکو دھکا دیتے ہوئے اور ان کے سروں پر سے گزر کر آگے بڑھ رہا تھا اور اس طرح اس نے اپنے آپ کو عمر کے روبروپہنچا دیا اور خلافت کی رسم کے مطابق آداب بجالائے:
عمر نے اس سے پوچھا :
تم کون ہو؟
اس شخص نے جواب دیا:
میں ایک عیسائی ہوں اور میرا نام ''امرئو القیس بن عدی کلبی'' ہے۔
عمر نے اسے پہچان لیا ،اور اس سے پوچھا ۔
اچھا ! کیا چاہتے ہو؟
امرئو القیس نے جواب دیا:
مسلمان ہونا چاہتا ہوں۔
عمر نے اسے اسلام کی تعلیم دی اور اس نے قبول کیا ۔ اسی اثنا ء میں خلیفہ نے حکم دیاکہ ایک نیزہ لایا جا ئے ، اس کے بعد اس پر ایک پر چم نصب کر کے ''امرؤالقیس ''کے ہاتھ میں دیدیا اور اسے شام کے علاقہ قضایئہ کے مسلمانوں پر حاکم مقر ر کر دیا۔
''امرئوالقیس '' پرچم مضبوطی سے ہاتھ میں لئے ہوئے اس حالت میں خلیفہ سے رخصت ہوا کہ پرچم اس کے سر پر لہرا رہا تھا ....(داستان آخر تک '' اغانی ''میں )
''علقمہ بن علاثۂ کلبی '' کی ارتداد کے بعد حکومت کی داستان بھی سیف کی روایتوں سے تناقض رکھتی ہے ۔ یہ روایت اصفہانی کی ''اغانی'' اور ابن "ابن " حجر کی ''اصابہ '' میں اس کے حالات کی تشریح کے ضمن میں درج ہوئی ہے جو حسب ذیل ہے :
علقمہ رسول خداۖ کے زمانے میں اسلام لایا اور اسے آنحضرتۖ کی مصاحبت کا شرف حاصل ہوا تھا ۔ لیکن اس نے آنحضرتۖ کے بعد ابوبکرۖ کی خلافت کے دوران اسلام سے منہ موڑ لیا اور مرتد ہوگیا ۔ ابوبکر ۖ نے مجبور ہو کر ، اس کے پیچھے خالدبن ولید کو بھیج دیا ۔ جب علقمہ اس موضوع سے باخبر ہوا تو چھپ گیا ۔ کہتے ہیں کہ بعد میں علقمہ معافی مانگ کر خلیفہ کی خدمت میں پہنچا اور دوبارسلام لایا۔
ابن "ابن " حجر نے علقمہ کے بارے میں اپنی کتاب ''اصابہ '' میں مندرجہ ذیل مطالب بھی درج کئے ہیں؛
عمر نے اپنی حکومت کے دوران علقمہ پر شراب پینے کے جرم میں حد شرعی جاری کی۔ علقمہ اس کی وجہ سے خفا ہو کر مرتد ہوگیا اور روم کی طرف چلا گیا اس نے روم بادشاہ کے پاس جاکر اپنا تعارف کرایا۔ پادشاہ نے اس کا استقبال کیا اور اس کی پہچان کے سلسلے میں اس سے سوال کیا ۔
کیا تم ''عامر بن طفیل '' کے چچیرے بھائی ہو ؟
پادشاہ کے اس طرح سوال کرنے سے علقمہ کی شخصیت مجروح ہوئی ، اس لئے وہ خفا ہو کرغصہ کی حالت میں بولا:
ایسا لگتا ہے کہ آپ مجھے عامر کی نسبت کے علاوہ کسی اور طریقہ سے نہیں پہچانتے؟ اس کے بعد اٹھ کے باہر نکلا اور مدینہ واپس لوٹ کر دوبارہ اسلام لایا۔ لیکن علقمہ کے عمر کی طرف سے حکومت حاصل کرنے کی داستان ابن "ابن " حجر کی '' اصابہ '' اور ابو الفرج اصفہانی کی ''اغانی'' میں درج ہوئی ہے ۔ ہم یہاں پر اسے ''اغانی '' سے نقل کرتے ہیں ؛ علقمہ اسلام سے منہ موڑنے کے بعد ایک مدت تک مدینہ ے دوری اور دربدری تحمل کرنے کے بعد سرانجام دوبارہ مدینہ واپس آیا اور لوگوں کی نظروں سے چھپ کیراہی مسجد ہوا اور ایک کونے میں مخفی ہوگیا ۔
رات کے وقت عمر مسجد میں داخل ہوئے،لیکن علقمہ نے اندھیرے کی وجہ سے صحیح طور پر انھیں نہیں پہچاناکہ یہ داخل ہونے والا کون تھا ۔ عمر کی خالد بن ولید جو علقمہ کا دوست تھا سے شباہت کی وجہ سے علقمہ نے گمان کیا مسجد میں داخل ہونے والا خالد بن ولید ہے ۔ لہذا اس کے ساتھ گفتگو شروع کرتے ہوئے پوچھا:
بالاخر اس نیتمہیں کام سے برطرف کر دیا ؟
گویا عمر نے علقمہ کو پہچان لیا تھا اور اس کی غلط فہمی سے آگاہ ہو چکا تھا ، لہذا اس فرصت سے استفادہ کرتے ہوئے چالاکی کے ساتھ خالد کے انداز میں جواب دیا۔
ہاں ! ایسا ہی ہے !
علقمہ نے متاثر انداز میں کہا!
معلوم ہے ، یہ نظر بد اور حسد کے علاوہ کچھ نہیں ہے ، تمہارے ساتھ یہ ظلمحسد کے وجہ سے ہوا ہے !
عمر نے فرصت کوغنیمت سمجھ کر عیّارانہ انداز میں علقمہ سے پوچھا :
کیا تم مدد کر و گے تاکہ عمر سے اپناا نتقا م لے لوں؟
علقمہ نے بلافاصلہ جواب دیا۔
خدا کی پناہ ، عمر ہم پر فرمانبرداری و اطاعت کا حق رکھتے ہیں ، ہمیں حق نہیں ہے ان کے خلاف کوئی کام کریں اور ان کے مخالفت کریں !
سرانجام عمر ، یا علقمہ کے خیال میں خالد ۔ اٹھ کر مسجد سے چلے گئے ۔
دوسرے دن عمر لوگوںسے ملاقات کرنے کے لئے آمادہ ہوئے اسی اثنا ء میں خالد علقمہ کے ہمراہ داخل ہوا اور دونو ںایک ساتھ ایک جگہ پر بیٹھ گئے ۔
تھوڑی دیر کے بعد ایک مناسب فرصت پر عمر نے علقمہ کی طرف رخ کر کے سوال کیا:
اچھا علقمہ ! کیا تم نے وہ باتیں خالد سے کیں؟
علقمہ ، عمر کا سوال سنکر الجھن میں پڑگیا ، چند لمحہ خاموشی کے بعد اسے کل رات کی وہ ساری باتیں یاد آئیں جو اس نے خالد سے کی تھیں۔ لہذا فوری طور پر خالد سے مخاطب ہو کر بلند آواز میں پوچھا :
ابو سلیمان ! کیا تو نے اس سے کوئی بات کہی ہے ؟
خالد نے جواب دیا :
وائے ہو ہم تم پر ، خدا کی قسم اس ملاقات سے پہلے میں نے اس کو دیکھا تک نہیں ہے ۔ اس وقت خالد نے فراست سے مطلب کو سمجھ لیا اور بولا:
ایساتو نہیں ہے تو نے ان کو خلیفہ کی طرف اشارہ کر کے مجھ سے پہلے کہیں دیکھا ہواور غلط فہمی سے میری جگہ پر انھیں لے لیا ہوگا؟
علقمہ نے جواب دیا۔
ہاں خدا کی قسم ، صحیح ہے میں نے تیرے بجائے انھیں دیکھا تھا۔
اس کے بعد خلیفہ سے مخاطب ہو کر بولا :
اے امیرالمؤمنین !آپ نے توخیر و خوبی کے علاوہ کوئی چیز مجھ سے نہیں سنی ہے ، کیا ایسا نہیں ہے ؟
عمر نے جواب دیا : صحیح ہے ۔ کیا تم پسند کرتے ہو کہ ''حوران '' ١کی گورنری تمہیں دیدوں؟
علقمہ نے جواب دیا :
جی ہاں .
اس کے بعد عمر نے ''حوران '' کی حکومت کا فران علقمہ کے ہاتھ میں دیدیا اور وہ زندگی کے آخری دن تک اس حکومت پر پرقرار رہا اور وہیں پر وفات پائی ۔''حطیئہ'' نے اس کے سوگ میں یوں کہا ہے:.....( آخر تک )
ابن حجر نے اس داستان کے ضمنمیں یوں اضافہ کیا ہے:
عمر ''حوران ''کی حکومت کا فرما ن علقمہ کے ہاتھ میں دینے کے بعد لوگوں سے مخاطب ہو کر بولے:
اگر میرے پاس اس قسم کے باوفا اشخاص ہوتے ، تو وہ میرے لئے تمام دنیا کی دولت سے قمیتی تھے .
بحث کا نتیجہ :
ہم نے مشاہدہ کیا کہ مکتب خلفاء کے پیرو علماء نے '' ابن "ابن " ابی شیبہ ''سے نقل کیا ہے کہ اس نے ''ایک قابل اعتبار منبع و مصدر '' سے روایت کی ہے کہ ''اسلاف کی رسم یہ تھی کہ جنگوں میں صحابی کے علاوہ کسی کو سپہ سالار نہیں بنایا جاتا تھا.''
ان علماء نے اس قسم کی روایت کے مصدر کے بارے میں ''صحیح ''یا '' حسن'' کی اصطلاحات سے استفادہ نہیں کیا ہے بلکہ صرف اتنا کہا ہے کہ'' ایک ایسے منبع سے جس پر کوئی اعتراض نہیں ہے''۔ اور اس طرح اس مآخذ کی قدر وقیمت اور اعتبار کو کافی حد تک گھٹا کے رکھدیا ہے۔
ہم نے سیف بن عمر کو بھی یہ کہتے ہوئے پایا:
فوج کے سپہ سالار سب صحابی تھے ۔
ابو بکر جنگوں میں مرتد وں سے مدد حاصل نہیں کرتے تھے اور حکم دیدیا تھا کہ ان سے مدد طلب نہ کریں ۔ اس لئے ان جنگوں میں کسی مرتدنے شرکت نہیں کی ہے !
عمر مرتدوں کو سپاہ کے طور پر قبول کرتے تھے ، لیکن ان میں سے انگشت شمار افراد کے علاوہ ، جن کی تعداد مشکل سے دس افراد تک پہنچی تھی ، کسی کو سپہ سالار نہیں بنایا خود آپ صحابی کو فوج کا سپہ سالار بنانے سے کبھی غفلت نہیں کرتے تھے۔
یہ وہ مطالب تھے جنہیں مکتب خلفاء کے دانشمندوں نے اصحاب کی شناخت اور پہچان کے طور پر ذکر کیا ہے۔
لیکن ہم نے ان سب ادعاو'ں کے باوجود دیکھا کہ خلیفۂ عمر نے اس کے برخلاف'' علقمہ'' کو جو مرتدہوگیاتھا ، ''حوران '' کے حاکم کے طور پر منصوب کیا جبکہ شامی امراء اور حکام اس زمانے میں فوج کی کمانڈ بھی سنبھالتے تھے ، اس مفہوم میں کہ شام کاحاکم اور گورنر وہاں کی فوج پر ، فلسطین کا حاکم وہاں کی فوج پر اور قنسرین کا فرمان روا علاقہ قنسرین کی فوج کا کمانڈر بھی تھا ۔
خلاصہ یہ کہ ہر علاقہ کا حاکم و فرماں روا صلح کے زمانے میں مطلق حاکم اور جنگ کے زمانے میں افسر اور سپہ سالار بھی ہوتا تھا۔
اس کے علاوہ ہم نے دیکھا کہ خلیفۂ دوم نے ایک نو مسلم عیسائی کے ہاتھوں میں حکمرانی کا پرچماس وقت دیدیا جب کہ اسلام لانے کے بعد اس نے ابھی تک ایک نماز بھی نہیں پڑھی تھی ، جبکہ اس زمانے کے رسم کے مطابق ایسا پرچم ایسے شخص کو دیا جاتا تھا جو ایک قبیلہ کو جنگ میں شرکت کرنے کے لئے آمادہ کرتا تھا۔کیونکہ ان دنوں فوج منظمکرنے کا کام قبیلوں کی بنیاد پر ہوا کرتا تھا اور یہ رسم جنگ صفین اور ، حادثۂ کربلا بلکہ اس کے بعد بھی رائج تھی ۔
اس بنا پر خلیفۂ عمر نے ''امرئو القیس کلبی '' کو جو قبیلہ کلب سے تھا اور قضاء نام کے ایک بڑے قبیلہ کا ایک جزتھا ، تمام قبائل قضاعہ پر حاکم مقرر کیا اور اس طرح سپاہ قضاعہ کی سپہ سالاری بھی اسے سونپ دی تا کہ وہ ان کی مدد سے رومیوں کے ساتھ جنگ میں شرکت کر ے اور اسلام کی طرف سے کفر و الحاد سے جنگ کرے !
اس حساب سے مکتب خلفاء کے علماء نے صحابی کی پہچان کے لئے جو قاعدہ وضع کیاہے وہ باطل اور بے بنیاد ہے ۔ کیونکہ اس کا مآ خذ بھی ضعیف ہے اور جو کچھ کہا گیا ہے تاریخی واقعات اور روداد سے بھی فرق بھی رکھتا ہے۔
اس کے باوجود انہی علماء نے اس خیالی اور جھو ٹے قاعدہ کی خوش فہمی پر دسیوں بلکہ سینکڑوں جعلی چہروں کو رسول خداۖ کے حقیقی اصحاب کی فہرست میں قرار دے کر ان کے حالات لکھے ہیں۔
ہم آنے والی بحث میں سیف کے چند ایسے جعلی اصحاب کے حالات پر روشنی ڈالیں گے جن کو اس نے خاص طور پر سپہ سالار کے عہدوں پر فائز کیا ہے اور مختلف و متعدد روایتوں کے ذریعہ ان کے نام پر اخبار جعل کئے ہیں تاکہ اس طرح اپنے جھوٹ کو علما ء کی نظروں سے چھپا سکے اور اس کے علاوہ اسلام کی احادیث کر شہبہ میں ڈال کر ہمارے مصادر و مآخذ کو ہے اعتبار اور مجروح کر دے۔
سیف کے اس خطرناک مقصد کے بارے میں افسوس کے ساتھ کہنا پڑتاہے کہ بعض علماء نے سیف کی اس سلسلے میں قرار واقعی مدد کی ہے اور اس طرح اس کو اپنے مقاصد تک پہنچے کی خوش فہمی کو اس پر اور اس کی احادیث پر اعتماد کر کے شرمندہ تعبیر کیا ہے کیونکہ انہوں نے اس کے اسلام کے خلاف ظلم و خیانت پر مبنی کئے گئے افسانوی اصحاب و سورمائوں کو اسلام کے مصادر و مآ خذ میں قرار دے کر انھیں رسول خداۖ کے حقیقی اصحاب کی فہرست میں ثبت کیا ہے۔ کیا پتا ہے شاید سیف نے اپنی اتنی کامیابیوں کو خواب میں بھی نہیںسوچا ہو گ
مصادر و مآ خذ
صحابی کی پہچان کے سلسلہ میں '' ابن ابی شیبہ '' کی روایت کے بارے میں ابن حجر کا بیان :
١۔'' ابن "ابن " حجر ''کی کتاب '' اصابہ '' (١/١٣) اور (١/١٦)
ابن ابی "ابن " شیبہ کی روایت کے بارے میں خبری منابع و مآخذ :
١ ۔ تاریخ طبری ١٣ ھ کے حوادث کے ضمن میں (١/٢١٥١)
٢۔ تاریخ ابن "ابن " عساکر (١/٥١٤)
مرتدوں کے ساتھ عمر و ابو بکر کی روش پر سیف کی روایت :
١۔ تاریخ طبری (١/٢٠٢٠تا٢٠٢١)اور (١/٢٤٥٧ تا٢٤٥٨)اور (١/٢٢٢٥)
''امرئو القیس'' کی حکوت کی داستان:
١۔ابوافرج اصفہائی کی ''اغانی '' طبع ساسی (٤ا/١٥٧۔١٥٨)
٢۔ابن حزم کی ''جمھرہ '' (ص٤٥٧) بطور خلاصہ
''علقمہ بن علاثہ ، کلبی ''کی داستان :
١۔ابن حجر کی ''اصابہ'' (٢/٤٩٦۔۔٤٩٨)
٢۔اصفہانی کی ''اغانی'' (١٥/٥٦)
علقمہ و عامر کے اختلاف کی داستان:
١۔ ''اغانی '' (١٥/٥٠تا٥٥)
٢۔ ابن حزم کی ''جمھرہ'' (ص٢٨٤)
قضاعہ کا نسب:
ابن حزم کی '' جمہرہ انساب '' (٤٤٠۔٤٦٢)
|