کتاب ١٥٠ جعلی اصحاب کے سلسلہ میں
دل کو ہلا دینے والی ایک تاریخی بحث
زیر نظر مقالہ ، دانشمند محترم جناب ''ہادی علوی'' کا اس کتاب کے سلسلہ میں تجزیہ ہے ، جو ٢٦ اگست ١٩٦٨ ء کو بغداد کے ایک روزنامہ ''تاخی'' اور مجلہ '' رسالة الاسلام '' کے شمار ٩ اور ١٠ میں جمادی الاول ١٣٨٨ ھ کو شائع ہوا ہے۔ جسے ہم نے اس کتاب کے مقدمہ کے طور پر درج کرنا بجا اور مناسب سمجھا ہے۔
تاریخ ، ایک وسیع کھیت کے مانند ہے ، جس پر ہر قسم کے بیج بوئے جاسکتے ہیں دیگر چیزوں کے مقابلہ میں اس پر زیادہ قسم کے بیج بوئے جاسکے ہیں ۔ دیگر چیزوں کے مقابلہ میں اس پر زیادہ قلم فرسائی کی جاسکتی ہے ۔
شاید تاریخ لکھنے والوں کی اس لئے کثرت ہے کہ اس پر قلم اٹھا نا آسان ہے ۔ یا اس علم کے تحت تاریخی رودادوں اور مو ضوعات کی اہمیت یا ہمارے زمانے میں یا مستقبل میں اس کے اثرات کی اہمیت اس کی کثرت و فراوانی کا باعث بنی ہے ۔
بہر حال تاریخ ، سادہ و آسان نہیں ہے ۔ لیکن اس وقت آسان بن جاتی ہے کہ جب لکھنے والا اس حالت میں ہو کہ اس سے داستان گڑھ لے اور اس داستان کے ذریعہ آرام طلب اور اپنے آپ سے بے خبر لوگوں کو سردیوں کی طوفانی راتوں میں اپنی میٹھی زبان سے گرم کر کے انہیں عیش و طرب میں مشغول کرے ۔
اگر ہم تاریخ پر علمی نقطۂ نظر سے نگاہ ڈالیں اور اس کے سنجیدہ مسائل کو سمجھنے کے لئے عاقلانہ کوشش کریں ، تو محسوس کریں گے کہ تاریخ اتنی آسان وسادہ نہیںہے جتنا عام طور پر سمجھا جاتا ہے۔ مگر اسی مقدار تک کہ ہم آسانی کے ساتھ اس میں تحقیق کریں اور اس کے منابع و مآخذکو پیدا کر کے ضروری تلاش و جستجوں کرکے نتیجہ تک پہنچیں ۔ یہ تین چیز یعنی تحقیق ، بحث اور نتیجہ حاصل کرنا ۔ ہر علم کی بنیاد ہے اور ان چیزوں کو حاصل کرنااغلب محنت و تکلیف کے بغیر ممکن نہیں ہے۔
واضح ہے کہ تاریخی تحقیق کی قدروقیمت ، اس سلسلے میں انجام دی جانے والی تلاش و جستجوپر منحصر ہے ۔ لیکن یہ تلاش و کوشش بے لوث اور اخلاص پر مبنی ہونی چاہئے اور مورد بحث موضوع بھی مشخص اور یکساں طرز پر ہونا چاہئے ۔
ان واضع روشن اور سادہ حقائق کے پیش نظر ہم آسانی کے ساتھ کہہ سکتے ہیں ۔کہ کتاب ''١٥٠ جعلی اصحاب ''قابل احترام کتابوں میں سے ایک ہے ۔ کیونکہ اس کتاب میں زیر بحث موضوعات کے انتخاب میں جس دقت ا ور باریک بینی کا خیال رکھا گیا ہے وہ طولانی اور عمیق کوششوں کا مظہر ہے ۔ اس میں انتہائی صبر و شکیبائی سے کام لیا گیاہے اور یہی تمام علمی بحث و تحقیق کا مقصد ہے۔
اس کے با وجود کہ اس کتاب نے اپنے اصلی مقصد کو صیغہ راز میں رکھا ہے ۔ ،لیکن اس کا موضوعبحث، تحقیق کرنے والے تمام لوگوں خواہ عرب ہوں یامستشرقین کے لئے ایک گراں قیمت و مستند علمی مآخذ و منبع ہے۔
اس کتاب کے مصنف جناب ''سید مرتضیٰ عسکری ''بغداد کے معروف علماء میں سے ہیں ۔ موصوف نے جو بحث اس کتاب میں شروع کی ہے ، حقیقت میں ان کی اس بحث کا سلسلہ ہے جو انہوں نے اپنی دوسری کتاب "عبداﷲ بن سبا"میں ذکر کیا ہے۔
مولف نے ان دو کتابوں میں "سیف بن عمر"نامی ایک مورّخ کا نام لیا ہے جس نے بنی امیّہ اور بنی عباس کی حکومت کو درک کیا ہے ۔ اس زمانے میں جب عالم اسلام میں کتابیں لکھنے کا رواج تھا،اس مورّخ نے بھی اسلام کی فتوحات اور لشکر کشیوں پر روشنی ڈالی ہے۔
اگرچہ سیف کی کتاب "فتوح" مفقود ہوگئی ہے اور اس وقت موجود نہیں ہے ۔لیکن اس میں لکھی گئی روایتیں اور تاریخی وقائع و روداد پوری کی پوری ان مشہور ،معروف اور معتبر منابع میں درج ہیں ،جنہوں نے سیف کی بات پر اعتبار کیا ہے اوران میں سب سے پیش قدم ''تاریخ طبری'' ہے۔
جناب عسکری نے اس بحث و تحقیق میں ثابت کیا ہے کہ سیف بن عمر، ایک جھو ٹ بولنے والا اور جھوٹ گڑھنے والا مورّخ تھا اور اس نے حوادث اور رودادوں کو اپنی خیالی دنیا میں خلق کیا ہے اور انھیں صحیح اور معقول دکھانے کے لئے ایک سلسلہ وار اغراض و مقاصد سے استفادہ کیا ہے جن کا اصل موضوع جس کی بناء پر اس قسم کی روداد تحریر کی گئی ہیں سے کوئی ربط نظر نہیں آتاہے ۔ ان علل و عوامل میں سے بعض حسب ذیل ہیں ۔
١۔اموی حکام کی مصلحتوں کا تحفظ :
سیف نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ اسی حکومت کے دامن میں گزار اہے۔ اس کی داستانوں اور اس کی روایتوں میں بنی امیہ کی طرفداری اور ان کی مصلحتوں کا تحفظ واضع طور پر دکھائی دیتا ہے۔
٢۔قبیلۂ تمیم کے منافع کی رعایت :
سیف نے اس سلسلہ میں تعصب کا کمال دکھایاہے۔
اس نے اس تعصب کو سیف نے قبیلۂ تمیم کے نامدار اور معروف سرداروں اور بہادروں کی اسلام کی فتوحات میں دلاور یوں اور شجاعتوں کے کارناموں کی تشریح کرتے ہوئے منعکس کیا ہے۔
جناب عسکری کا یہ عقیدہ ہے کہ یہ سب داستانیں سیف کے افسانے اور اس کے خیال کی تخلیق ہیں اور ان میں کوئی حقیقت نہیں ہے ۔
٣۔ اسلام کی تاریخ میں شبہہ ایجاد کرکے اس میں رخنہ ڈالنا :
مؤلف محترم نے اسے سیف کی زند یقیت کا نتیجہجانا ہے ۔
سیف نے اپنی داستانوں میں بہت سے چہروں کو رسول خداۖ کے صحابیوں کے طور پر خلق کیا ہے ۔ جنا ب عسکری کے شمار کے مطابق اس کے جعلی صحابیوں کی تعداد ١٥٠ تک پہنچی ہے ۔
اس کے علاوہ سیف نے اپنی داستانوں کے لئے راویوں کے طور پر بعض چہرے ، اماکن اور بہت سی جغرافیائی جگہیں خلق کی ہیں ۔ ان کا ، نہ صرف جغرافیہ کے نقشہ میں کوئی سراغ نہیں ملتا ہے بلکہ سرے سے گیتی پر ان کا وجود نہیں ہے ۔ اس کے علاوہ اس نے بے شمار حوادث ،روداد اور وقائع بھی خلق کئے ہیں ۔
دانشمند محترم کی اس کتاب میں سیف بن عمر کے ٣٩ جعلی اصحاب اور خیالی پہلو انوںکے بارے میںمفصل بحث ، تحقیق و تجزیہ کیا گیا ہے۔ جناب عسکری کا پکا اعتقاد ہے کہ اس قسم کی وقائع میں ایسے چہروں کا ہرگز وجود نہیں تھا۔
جناب عسکری کی یہ تحقیق درج ذیل نکات پر مشتمل ہے :
١۔سیف بن عمر اس قسم کی روایتوں کا تنہا مصدر و ماخذ ہے طبری نے ان روایتوں کو اس سے نقل کیا ہے اور اس کے بعد ابن "ابن " اثیر ، ابن کثیر اور ابن خلد وں نے ان ہی روایتوں کو طبری سے نقل کر کے اپنی کتابوں میں درج کیا ہے۔
طبری کے علاوہ چند گنے چنے مؤرخین کے پاس بھی سیف کی کتاب "فتوح "کے نسخے موجود تھے اور انہوں نے ان سے روایتیں کی ہیں ۔
لیکن جن مصادر میں سیف کی روایتوں پر اعتنا نہیں کیا گیا ہے اور ان سے مطلب نقل نہیں کیا گیا ہے ، ان میں اس کی یہ داستانیں ،دلاوریاں اور جعلی سورما وغیرہ دکھائی نہیں دیتے ۔ ان میں سیرت پر لکھی گئی کتابوں کے علاوہ بلا ذری کی تالیفات میں سیف کی داستانیں ،اس کے خلق کئے گئے پہلوان اور وقائع دکھائی نہیں دیتے ، بلکہ ان میںاس کی تحریف شدہ ، روایتیں ، وقائع اور تاریخی رودادیں دوسری صورت میں درج ہوئی ہیں ، جو سیف کی روایتوں کے بالکل مختلف ہیں۔
طبری نے بھی تاریخی واقعات نقل کرنے میں صرف سیف کی روایتوں پر اکتفا نہیں کیا ہے بلکہ اس نے دوسرے منابع سے ایسی روایتیں، بھی نقل کی ہیں جو سیف کی روایتوں سے تناقض اور اختلاف رکھتی ہیں ۔
٢۔سیف نے اپنی روایتوں میں جن مآخذ کا سہارا لیا ہے ، وہ بذات خود اس کی روایتوں کے جعلی ہونے کی دلیل ہے ، کیونکہ جناب عسکری نے سیف کے راویوں کے بارے میں بحث و تحقیق کرکے یہ ثابت کیا ہے کہ ان میں سے اکثر کا نام علم رجال کی کتابوں میں موجود نہیں ہے، یہی امران کے یقین کا سبب بنا ہے کہ اس قسم کے راوی سیف کے خیالات کی مخلوق ہیں اور حقیقت میں وجود نہیں رکھتے ہیں۔
٣۔ سیف کی اکثر جنگیں اور فتوحات ، تو ہمات اور خلاف معمول روداد وںپر مشتمل ہیں۔ جیسے بعض جنگوں میں حیوانوں کا خاندان تمیم کے بعض سپہ سالاروں کے ساتھ فصیح عربی میں گفتگو کرنا ! واضح ہے کہ اس قسم کے مطالب علم ومنطق کی کسوٹی پر نہیں اترتے ، خواہ انہیں سیف نے کہا ہو یا کسی اور نے١
ہم دیکھتے ہیں کہ سیف تعجب انگریز مطالب کو پیش کرتا ہے اور انہیں بڑی مہارت کے ساتھ آپس میں جوڑ تا ہے اور خلاف توقع نتیجہ حاصل کرتا ہے ۔ مثلاً ایک مضبو ط اور مستحکم قلعہ جو مسلسل دو سال تک
مسلمانوں کے کئی حملے اس کو فتح کرنے میں ناکام ہوئے تھے ، کسی فوجی حکمت عملی کے ذریعہ تسخیر کئے بغیر سیف نے دکھایا ہے کہ وہ قلعہ ایک دم اور مختصر وقت میں مسلمانوں کے ہاتھوں ایسے تسخیر ہوا کہ تمام لوگ ،حتی مسلمان سپاہی بھی حیرت اور تعجب میں پڑ گئے۔
یا یہ کہ سیف کہتا ہے ، ایک فوج میدان کا رزار کے فاتحوں کے مقابلے میں آخری لمحہ تک پائداری اور استقامت سے لڑی ۔ اپنے دشمن کے حملوں کو شجاعت کے ساتھ پسپا کیا ۔ اپنے مورچوں کا
..............
١۔انبیائے کرام کے معجزات اس سے مستثنی ہیں۔
پوری طاقت کے ساتھ دفاع کیا۔ اور ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹے، لیکن ، اچانک اسلام کے سپاہیوں کے ایک فوری حملے کے مقابلہ میں تاب نہ لاکر اپنی پائداری کو ہاتھ سے کھو بیٹھتی ہے اور اس کا شیرازہ بکھر جاتاہے !!
سیف کے نقطہ نظر کے مطابق جنگوں اور فتوحات میں مسلمانوں نے جو اکثر کامیابیاں حاصل کی ہیں وہ اسی قسم کے اتفاقات اور معجزات کی مرہوں منت ہیں ، جو جنگ کے دوران یا اس سے قبل واقع ہوئے تھے !
حوادث اور وقائع کے بارے میں اس قسم کے بیانات تاریخ لکھنے والوں کے لئے سیف کے جھوٹ اور جعلی روایتوں سے پردہ اٹھاتے ہیں اور ہر قسم کے تعصب سے بالا تر علم ومنطق کے ذریعہ سیف کو اپنیسرزنش کا نشانہ بناتے ہیں ۔
یہاں پر استاد عسکری کے لئے یہ امر ممکن بن جاتا ہے وہ زیر بحث موضوع کے بارے میں منابع و مصادر میں ضروری جانچ پڑتال اور تلاش و کوششوں کے بعد اس خطرناک تاریخ نویس پر آخری اور کاری ضرب لگائیں اور پوری مہارت اور حکمت عملی کے ساتھحیرت انگزیزطور سے سیف کی جعلی روایتوں کو دوسرے منابع سے جدا کر کے اسلامی تاریخ کے منابع کو اس دروغ گو سے آزاد کرانے میں کامیا ب ہو جائیں ۔
یہاںپر ممکن ہے کوئی یہ سوال کرے کہ، یہ کیسے ممکن ہو سکا ہے کہ سیف کے یہ کارنامے گزشتہ مورخین کے لئے پوشیدہ رہے ہوں ؟
ہم اس کے جواب میں کہتے ہیں کہ: ایسا نہیں تھا کہ اس کام کے بارے میں گزشتہ مؤرخین بے خبر ہوں !خود طبری نے، جس نے دوسرے تاریخ نویسوں کی نسبت سیف کی کتاب پر زیادہ اعتماد کیاہے ،پوری طرح اس کی روایتوں ،جیسے " واقدی یا اپنے اسناد کے ذریعہ سیف کی روایتوں کی تردید کی ہے ۔ دوسرے مؤرخین اور سیرت لکھنے والوں نے بھی سیف کی کسی روایت کو نقل نہیں کیا ہے ، جیسے :
بلاذری ،جو اسلامی فتوحات کے بارے میں مطلق طور پر سب سے بڑا مؤرخ سمجھا جاتا ہے اور اسی طرح یعقوبی، مسعودی اور دیگر لوگوں نے بھی سیف کی روایتوں کو کہیں سے بھی نقل کر کے اپنی کتابوں میں درج نہیں کیا ہے ۔
راوی شناس اور علم درایت کے ماہر بھی سیف کی ان کارستانیوں سے بے خبر نہیں رہے ہیں ۔ ان میں سے بعض نے واضح طور سے اس پر حملے کر کے اسے جھوٹ بولنے اور احادیث گڑھنے کا ملزم ٹھہرایا ہے۔
لیکن ان لوگوں کے لئے بھی اس حد تک تاریخی اہمیت اور احترام کے ، مالک ہونے کے باوجود اس کام کو اس طرح انجام تک پہنچانا ممکن نہیں تھا ، جس طرح جناب عسکری نے اسے انجام تک پہنچایا ہے ۔
مقالہ کے آخر میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ مؤلف محترم نے اصطلاح " افسانہ " (اسطورہ)کو پوری کتاب میں کافی جگہوں پر استعمال کیا ہے اور سیف کی بے بنیاد روایتوں کے لئے اس اصطلاح کا استعمال کیا ہے جبکہ میری نظر میں اس قسم کے مطلب کے لئے ایسی اصطلاح کا استعمال کرنے میں خاص توجہ اور کافی دقت کی ضرورت ہے ۔ کیونکہ" افسانہ "ایسالفظ ہے جو آج کی دنیا کی علمی بحثوںمیں گزشتہ زمانے کی بڑی جنگوں کے بارے میں استعمال ہوتا ہے ، کیوں کہ ان جنگوں کے واقع ہونے اوران کی سنسنی خیز رودادوں میں پریوں اور خدائوں کا براہ راست دخل ہوتا تھا ، جیسے بابلیوں اور یونا نیوں کے افسانے ، جنھیں انگریزی میں" متھ" ١کہاجاتا ہے ۔
ایک دوسری اصطلاح بھی انگیریزی میں "لبجنڈ " ٢ نام کی موجود ہے جو غیر عادی اور نا قابل یقین رودادوں کے لئے مخصوص ہے ۔ البتہ ایسی داستانوں میں پریوں اور خداوئں کی مداخلت کی بات
نہیں ہے ۔ اس قسم کی داستانوں کے نمونے " قدیسیں " اور اولیا ء وغیرہکی معجزاتی داستانوں میں پائے جاتے ہیں ، اور عرب محققین ابھی تک اس اصطلاح کے نعم البدل کے بارے میں کسی نتیجہ تک نہیں پہنچے ہیں۔ لیکن میں ترجیح دیتا ہوں کہ اس سلسلہ میں بجائے افسانہ "خرافہ"کی اصطلاح سے استفادہ کیا جائے تاکہ ان دو لفظوں کے اصلی معنیٰ ،جیسے کہ انگریز زبان میں اس کے لئے مشخص ہوئے ہیں محفوظ رہیں ۔
جب ہم سیف بن عمر کی تخلیقوں کو دیکھتے ہیں تو پاتیہیں کہ ان میں بڑی داستانوں اور خداوئں اور پریوں کی جنگوں کا رنگ و روپ نہیں پایا جاتا ہے،بلکہ یہ داستانیں بھاری اور آرام صورت میں ایک منظم تاریخی راستہ پر آگے بڈھتی نظر آتی ہیں اور اس لحاظ سے اس کی کتاب "فتوح" اسلوب اور روش کے مطابق تاریخ کی دوسری کتابوں سے مختلف نہیں ہے۔ اس لئے یہ صحیح نہیں ہے کہ اس کی روایتوں کو "افسانہ "کہا جائے کیونکہ جو حوادث اور بے شمار غیر معمولی واقعات سیف کی روایتوں میں ذکر ہوئے ہیں وہ ''افسانہ'' اور متھ خرافہ"یا انگریزی میں "لجنڈ(Legend) "کے مفہوم سے نزدیک تر ہے۔
..............
١۔Myth
٢۔Legend
دوسری جانب سیف کی تمام روایات اور اخبار ، معجزات اور غیر عادی کارناموں پر مشمل نہیں ہیں ، بلکہ اس کے دوسرے جھوٹ بھی ایسی چیزوں پر مشتمل نہیں ہیں ۔
قدیم زمانے کے لوگوں نے بھی جھوٹی خبر کے لئے متعدد نام رکھے ہیں یہ نام کثرت استعمال کی وجہ سے اصطلاح کی صورت اختیار کر گئے ہیں ، جیسے : موضوع ومنحول یعنی ''جعلی اور بے بنیاد ''۔ لیکن میں اپنے آپ میں یہ صلاحیت محسوس نہیں کرتا کہ یہاں پر کسی خاص لفظ کو اس کی جگہ پر تجویز کروں البتہ اس مختصر فرصت میں جو کہہ سکتا ہوں وہ یہ ہے کہ جہاں تک ممکن ہوسکے ایسے مباحث میںاصطلاحات استعمال کر نے میں کافی دقت اور احتیاط سے کام لینا چاہئے۔ استاد محترم و ارجمندجناب سید مرتضیٰ عسکری ، خاص اور مناسب الفاظ کو اپنے علمی مباحث میں استعمال کرنے کے سلسلے میں دوسروں سے دانا اور آگاہ تر ہیں ۔
..............
نوٹ : اس مقالہ کے بعض مطالب کے سلسلے میں مؤلف کا جواب اور نقطۂ نظر اسی کتاب کے آخر میں ملا حظ فرمائیں۔
|