ایک سو پچاس جعلی اصحاب(جلدسوم)
 

باونواں جعلی صحابی اسعد بن یربوع انصاری خزرجی
ابن عبد البر نے کتاب '' استیعاب '' میں اس صحابی کی تشریح شرح حال لکھتے ہوئے مآخذ کا ذکر کئے بغیر لکھا ہے :
وہ یمامہ کی جنگ میں قتل ہوا ہے ۔
ابن اثیر نے ابن عبدالبر کی روایت کو نقل کرنے کے بعد اپنی کتاب '' اسد الغابہ '' میں رمز (ب) کا اضافہ کرکے لکھا ہے :
البتہ یہ ابن عبد البر کا کہنا ہے ۔ اس نے بھی '' اسید بن یربوع ساعدی ''نام کے صحابی کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ یمامہ کی جنگ میں مارا گیا ہے ۔ یہ دو آدمی یا ایک دوسرے کے بھائی ہیں یا یہ کہ ان دو ناموں میں سے ایک دوسرے کی تصحیف ہے ۔ کیونکہ سیف بن عمر نے اسی صحابی کو اپنی کتاب فتوح میں '' اسعد '' کے عنوان سے پہنچوایا ہے ٢٩١۔
اور خدا بہتر جانتاہے ( ابن اثیر کی بات کا خاتمہ )
اس سے پہلے ہم نے کہا ہے کہ حرف ''ب'' ابن عبد البر کی کتاب '' استیعاب '' کی مختصر علامت ہے جسے ابن اثیر اور دیگر علماء نے اپنے درمیان رمز کے طور پر قرار دیا ہے ۔
ذہبی نے بھی اپنی کتاب '' تجرید'' میں لکھا ہے کہ '' اسعد بن یربوع '' اسید '' نام کے ایک مجہول شخص کا بھائی ہے جو یمامہ کی جنگ میں قتل ہوا ہے ۔
ابن حجر '' استیعاب '' کے مطالب نقل کرکے لکھتا ہے ۔
سیف نے کتاب ' ' فتوح '' میں اس کا نام لیا ہے اور ابو عمر، ابن عبد البر نے بھی روایت کو سیف سے نقل کیا ہے۔
کتاب '' نسب الصحابة '' کے مصنف نے بھی لکھا ہے کہ ' اسعد بن یربوع '' یمامہ کی جنگ میں مارا گیا ہے ۔
کتاب '' درّ السحابہ'' میں بھی آیا ہے کہ '' اسعد بن یربوع '' یمامہ کی جنگ میں قتل ہونے والوں میں سے تھا ۔
خلاصہ یہ کہ علماء میں سے چھ افراد نے اس صحابی کے حالات پر روشنی ڈالی ہے ان میں سے چار اشخاص نے کسی قسم کے مآخذ کا ذکر نہیں کیا ہے ، جو حسب ذیل ہیں :
١۔ '' ابن عبدالبر ''
٢۔ ذہبی
٣۔ کتاب ''نسب الصحابہ ''کے مصنف اور
٤۔ کتاب ''دار السحابہ ''کے مصنف
ذہبی نے بھی تاکید کی ہے کہ '' اسید '' مجہو ل شخص ہے ۔
دو افراد نے صرف سیف کا نام لیا ہے اور اسے اپنے مطالب کے مآخذ کے طور پر پہنچوایا ہے ۔ جو یہ دوافراد ہیں : '' ابن حجر '' اور '' ابن اثیر ''
ہم نے حدیث اور تاریخ کی کتابوں میں ، '' اسعد '' یا '' اسید بن یربوع ساعدی '' نامی انصاری صحابی کے بارے میں جستجو اور تلاش کی لیکن مذکوہ منابع میں سے کسی ایک میں ان کا سراغ نہ ملا اس لئے اسے سیف کی مخلوق میں شمار کیا ہے ۔
جیساکہ ہم نے پہلے کہا ہے کہ صرف دو دانشوروں نے اپنی روایت کے مآخذ کے طور پر سیف کا تعارف کرایا ہے اور دوسرے راویوں کا نام نہیں لیا ہے تا کہ ان کے بارے میں ہم بحث و تحقیق کرتے ۔

اسعد کے افسانہ کے نتائج
١۔ ایک انصاری ساعدی قحطانی صحابی کو خلق کرنا اور اسے یمامہ کی جنگ میں قتل ہوتے دکھانا۔
٢۔ میدان کارزار میں یمانی مقتولین کی تعداد بڑھا چڑھا کر پیش کرناتا کہ یہ دکھائے کہ وہ لیاقت اور تجربہ سے عار ی تھے اور اس طرح ان کی تذلیل کی جائے ۔ کیونکہ سیف کے نقطہ نظر کے مطابق لیاقت ، افتخار ، شجاعت اور بہادری کے مالک صرف مضری عدنانی ، خاص کر تمیم بنی سے اسیدہے جو خود سیف بن عمر کے قبیلہ سے ہے ۔

مصادر و مآخذ
اسعد بن یربوع کے بارے میں درج ذیل منابع کی طرف رجوع کیا جاسکتا ہے ؛
١۔ ابن عبد البر کی '' استیعاب '' ( ١ ٤١) نمبر: ٧١
٢۔ ابن اثیر کی '' اسد الغابہ ' '( ١ ٧٣)
٣۔ ذہبی کی '' تجرید '' ( ١ ١٥) نمبر : ١١٢
٤۔ ابن حجر کی '' اصابہ '' ( ١ ٥١) نمبر؛ ١١٦
٥۔ '' نسب الصحابہ من الانصار '' ص ١٠٧
٦۔ در السحابہ فی بیان وفیات الصحابہ
کتاب '' در السحابہ '' کے مصنف ابو العباس رضی الدین ، حسن بن محمد بن حسن صنعانی ( ٥٥٥۔ ٦٥٠ھ ) ہیں ، اس کتاب کا قلمی نسخہ مدینہ منورہ میں شیخ الاسلام لائبریری میں ہے او رمؤلف نے وہیں پر اس سے استفادہ کیا ہے ۔

ترپنواں جعلی صحابی مالک کی بیٹی سلمی

سلمی اور حوب کے کتے
ابن حجر اپنی کتاب '' اصابہ'' میں مالک کی بیٹی سلمی کا تعارف یوں کرتا ہے :
مالک بن حذیفہ بن بدر فزارّیہ کی بیٹی سلمی معروف بہ '' ام قرفۂ صغریٰ'' عیینہ بن حصن '' کی چچیری بہن ہے ۔ اسے مقام اور اثر و رسوخ کی وجہ سے اس کی ماں ، '' ام قرفۂ کبریٰ'' سے تشبیہ دیتے تھے۔
'' زید بن حارثہ '' نے ایک لشکر کشی کے دوران '' ام قرفہ ، کو قتل کر کے اور بنی فزارہ کے کچھ لوگوں کو قیدی بنا لیاتھا ، ان قیدیوں میں ' ام قرفہ '' کی بیٹی سلمی بھی موجود تھی جو مدینہ میں ام المؤمنین عائشہ کی خدمت میں پہنچی اور انہوں نے اسے آزاد کر دیا۔
ایک دن سلمیٰ عائشہ کی خدمت میں تھی اتنے میں رسول خدا ۖ دروازے سے داخل ہوئے اور ان سے مخاطب ہوکر فرمایا:
تم میں سے ایک حوب کے کتوں کو بھونکنے پر مجبور کرے گی۔
کہتے ہیں '' ام قرفہ ''کے گھر کی دیوار پر پچاس ایسی تلواریں لٹکائی گئی تھیںیہ جو پچاس ایسے شمشیر باز مردوں سے مربوط تھیں جو اس خاتون کے محرم تھے نہیں معلوم یہاں پر یہی ' ' ام قرفۂ '' ہے یا'' ام قرفۂ کبری '' (ز) ( ابن حجر کی بات کا خاتمہ )
ابن حجر کا یہ بیان خبر کے لحاظ سے دو حصوں پر مشتمل ہے ایک حصہ میں سلمی کا نسب ہے اور دوسرا حصہ درج ذیل خبروں پر مشتمل ہے ۔
١۔ زید بن حارثہ کی لشکر کشی سے مربوط ہے کہ اس نے '' ام قرفہ '' کی سرکوبی کیلئے ماہ رمضان ٦ھ میں شہر مدینہ سے سات میل کی دوری پر ' 'وادی القریٰ'' کے علاقے پر فوج کشی کی تھی ۔
٢۔ حوب کے کتوں کی داستان

ام قرفہ کی داستان کے چند حقائق
ابن سعد نے اس لشکر کشی کے بارے میں اپنی کتاب '' طبقات'' میں یوں لکھا ہے :
زید بن حارثہ اصحاب رسول خدا ۖ کی طرف سے کچھ اجناس لے کر تجارت کی غرض سے مدینہ سے شام کی طرف روانہ ہوا ' ' وادی القریٰ'' کے نزدیک قبیلہ '' بنی بدر '' سے تعلق رکھنے والے فزارہ کے ایک گروہ سے اس کی مڈ بھیڑ ہوئی انہوں نے جب ان کے ساتھ اس قدر مال و منال دیکھا تو زید پر حملہ کرکے تمام مال و منال لوٹ لے گئے ۔
کچھ مدت کے بعد جب زید کے زخم اچھے ہوئے تو وہ مدینہ واپس لوٹ کر رسول خدا ۖ کی خدمت میں حاضر ہو اور تمام ماجرا رسول خدا ۖ کی خدمت میں بیان کیا ۔ رسول خدا ۖ نے اسے مجاہدوں کے گروہ کی سرکردگی میں ان کی سرکوبی کیلئے ممور فرمایا۔
زید نے قبیلہ فزارہ کے کنٹرول والے علاقے میں پیش قدمی میں انتہائی احتیاط سے کام لیادن کو مخفی ہوجاتے تھے ااور رات کو پیش قدمی کرتے تھے اس دوران ''' بنو بدر'' کے بعض افراد زید اور اس کی لشکر کی کاروائی سے آگاہ ہوکر '' فزارہ '' کے لوگوں کو اس خبر سے آگاہ کرتے ہیں کہ زید کی سرکردگی میں اسلامی فوج ان کی سرکوبی کیلئے آرہی ہے ۔ ابھی فزارہ کے لوگ پوری طرح مطلع نہیں ہوئے تھے کہ ایک روز صبح سویرے زید اور اس کی فوج نے تکبیر کہتے ہوئے اچانک ان پر حملہ کر دیا ۔ پوری بستی کو محاصرہ میں لے کر ان کے بھاگنے کی کوئی گنجائش باقی نہ رکھی۔
فزارہ کے باشندوں نے مجبور ہوکر ہتھیار ڈالدئے، لہذا زید نے ان سب کو قیدی بنا لیا ان قیدیوںمیں ربعہ بن بدر کی بیٹی '' ام قرفہ فاطمہ '' اور اس کی بیٹی '' جاریہ بنت مالک بن حذیفہ بن بدر '' بھی تھی۔
'' جاریہ '' کو '' سلمة بن اکوع '' نے لے کر رسول خدا ۖ کی خدمت میں پیش کیا ۔ آنحضرتۖ نے بھی اسے '' حزن ابن ابی وہب '' کو بخش دیا ۔
ابن سعد اس داستان کے آخر لکھتا ہے کہ زید اور اس کے ساتھیوں نے '' ام قرفہ '' اور فزارہ کے چھ مردوں کو قتل کر ڈالا ۔
یعقوبی نے بھی '' ام قرفہ '' کی داستان کو یوں نقل کیاہے :
'' امر قرفہ نے اپنے محارم میں سے چالیس جنگجو اور شمشیر باز مردوں کو حکم دیا کہ رسول خدا ۖ سے لڑنے کیلئے مدینہ پر حملہ کریں ۔
پیغمبر خدا ۖ اس موضوع سے مطلع ہوئے اور زید بن حارثہ کو چند سواروں کے ہمراہ ان کے حملہ کو روکنے کیلئے بھیجا ۔ دونوں گروہ '' وادی القریٰ''میں ایک دوسرے روبرو ہوئے اور جنگ چھڑگئی۔
لیکن زید کے ساتھ مقابلہ کی تاب نہ لاسکے اور پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوگئے ۔ زید زخمی حالت میں اپنے آپ کو مشکل سے میدان کا رزار سے باہر لاسکا ۔ اس حالت میں اس نے قسم کھائی کہ اس وقت تک نہ نہائے گا اور نہ بدن پر تیل کی مالش کرے گا جب تک کہ ان سے اپنا اور اپنے ساتھیوں کا انتقام نہ لے لے !
زید نے اس قسم کو پورا کرنے کیلئے آنحضرت ۖ سے دوبارہ جنگ کی اجازت طلب کی ، پیغمبر خدا ۖ نے بھی اسے فزارہ سے جنگ کرنے کیلئے دوبارہ ممور فرمایا اور ایک گروہ کی سرپرستی اور کمانڈ اسے سونپی .... (گزشتہ داستان کے آخر تک ١ )
ابن ہشام ، یعقوبی ، طبری اور مقریزی نے لکھا ہے کہ اسی جنگ میں '' سلمة بن عمر واکوع'' نے قرفہ کی بیٹی '' سلمیٰ'' کو قیدی بناکر رسول خدا ۖ کی خدمت میں پیش کیا اور آنحضرت ۖنے بھی اسے اپنے ماموں '' حزن بن ابی وہب '' کو بخش دیا اور اس سے عبد الرحمان بن حزن پیدا ہوا ۔ پہلی خبر کی حقیقت یہی تھی جو ہم نے نقل کی ۔
١۔ محمد بن حبیب کتا ب '' محبّر'' کے ص ٤٩٠ میں لکھتا ہے ' 'ام قرفہ '' نے اپنے شوہر '' ابن حذیفہ '' سے تیرہ بیٹوں کو جنم دیا ہے جو شمشیر باز ، بلند ہمت اور بلند مقام والے تھے '' ام قرفہ '' بھی ایک بلند ہمت اور بانفوذ خاتون تھی ۔ وہ لوگوں کو رسول خدا ۖ کے خلاف اکساتی تھی اور آنحضرت ۖ سے دشمنی رکھتی تھی کہتے ہیں ایک دن غطفان کے لوگوں میں اختلاف پیدا ہوا '' ام قرفہ '' نے اپنا دوپٹہ ان کے پاس بھیجدیا انہوں نے اسے نیزے پر بلند کیا ۔نتیجہ میں ان کے درمیان صلح و آشتی برقرار ہوگئی ۔

'' ام قرفہ '' کا افسانہ اور حوب کے کتوں کی داستان
لیکن مذکورہ دوسری خبر کا سرچشمہ صرف سیف کے افکار اور ذہنی خیالات ہیں اس کے سوا کچھ نہیں ہے ، ملاحظہ فرمائیے :
طبری ١١ھ کے حوادث کے ضمن میں قبائل '' ہوازن '' ، '' سلیم '' اور '' عامر'' کے ارتداد کے بارے میں سیف بن عمر سے نقل کرکے اپنی تاریخ میں لکھتا ہے :
''بزاخہ '' کی جنگ سے فرار کرنے والے قبیلۂ '' غطفان '' کے لوگ جو پیغمبری کے مدعی '' طلیحہ'' کی حمایت میں لڑرہے تھے ، شکست کھاکر عقب نشینی کرنے کے بعد ''ظفر '' نامی ایک جگہ پر جمع ہوگئے ۔ یہ وہ علاقہ تھا جہاں '' مالک بن حذیفہ بن بدر فزاریہ ''' کی بیٹی '' ام زمل سلمیٰ '' کا کافی اثرو رسوخ تھا ۔ وہ شوکت ، وجلال اور کلام کے نفوذ میںا پنی ماں '' ام قرفہ '' کی ہم پلہ تھی ۔
'' ام زمل'' نے مذکورہ فراریوں کی ملامت کی اور مسلمانوں کے ساتھ جنگ سے فرار کرنے پر ان کی سخت سرزنش کی ۔ اس کے بعد ان کی ہمت افزائی کرکے پھر سے مسلمانوں کے ساتھ لڑنے کی ترغیب دینے لگی ۔ خود ان کے بیچ میں جاکر ان کے ساتھ بیٹھ کر انھیں خالد کے ساتھ لڑنے کیلئے آمادہ کرتی تھی یہاں تک کہ قبائل '' غطفان '' ، ''ہوازن '' ، ' ' سلیم '' ، ''اسد'' اور '' طی ''' کے بہت سے لوگ اس کے گرد جمع ہوگئے ۔
ام زمل ، سلمی اس منظم گروہ کی مدد سے فزارہ کی گزشتہ شکست ، اس کی ماں کے قتل ہونے اور اپنی اسارت کی تلافی کیلئے خالد سے جنگ پر آمادہ ہوئی ۔
سلمی کا یہ تیز اقدام اس لئے تھا کہ برسوں پہلے ، اس کی ماں '' ام قرفہ'' کے قتل ہونے کے بعد وہ خود اسلام کے سپاہیوں کے ہاتھوں قیدی بن کر عائشہ کے گھر میں پہنچ گئی تھی ۔لیکن عائشہ کی طرف سے ام زمل کو آزاد کئے جانے کے با وجود وہ عائشہ کے گھر میں زندگی کرتی تھی ۔کچھ مدت کے بعد وہ اپنے وطن واپس چلی گئی اور اپنے رشتہ داروں سے جاملی ۔
ایک دن جب ام زمل عائشہ کے گھر میں تھی ، رسول خدا ۖ گھر میں تشریف لائے جب ان دونوں کو دیکھا تو فرمایا:
تم میں سے ایک پر حوب کے کتے حملہ کرکے بھونکیں گے !
اور یہ ام زمل کہ اس کے اسلام سے منہ موڑنے اور مرتد ہونے کے بعد رسول خدا ۖ کی پیشین گوئی صحیح ثابت ہوئی ! کیونکہ جب ام زمل نے مخالفت پرچم بلند کیا اور فراری فوجیوں کو جمع کرنے کیلئے '' ظفر وحوب '' سے گزری تو حوب کے کتوں نے اس پر حملہ کیا اور بھونکنے لگے !!
بہر حال اس فزاری عورت کے تند اقداما ت اور لشکر کشی کی خبر جب خالدبن ولید کو پہنچی تو وہ فوراً اس کی طرف روانہ ہوا اور دونوں فوجوں کے درمیان گھمسان کی جنگ چھڑگئی ۔ ام زمل نے اپنی ماں کے اونٹ پر سوار ہوکر جنگ کی کمانڈ خود سنبھالی اور بالکل ماں کی طرح اسی قدرت اور طاقت کے ساتھ حکم دیتی رہی اور لوگوں کو استقامت اور ڈت کے مقابلہ کرنے کی ' ' ترغیب '' اور ہمت افزائی کرتی رہی۔
خالد نے جب یہ حالت دیکھی تو اعلان کیاکہ جو بھی اس عورت کے اونٹ کو موت کے گھاٹ اتار ے گا اسے ایک سو اونٹ انعام کے طور پر ملیں گے !!! خالد کے سپاہیوں نے ام زمل کے اونٹ کا محاصرہ کیا اس کے سو سپاہیوں کو قتل کرکے اونٹ کو پے کہا اور بعد ام زمل کو موت کے گھاٹ اتاردیا ۔
اس جنگ میں قبائل '' خاسی ، وہاربہ اور غنم '' کے خاندان نابود ہوگئے اور قبیلہ کاہل کو ناقابل جبران نقصان پہنچا آخر میں خالد بن ولید نے اس فتحیابی کی نوید مدینہ منورہ میں خلیفہ کی خدمت میں پہنچادی ۔

افسانۂ ام زمل کے مآخذکی پڑتال
سیف نے مالک حذیفہ کی بیٹی ام زمل سلمی کے افسانہ کو '' سہل '' کی زبانی جسے وہ سہل بن یوسف بن سہل کہتا ہے بیان کیا ہے اس سے پہلے ہم نے اس کو سیف کے جعل کردہ راویوں کے طورپر پہچنوایا ہے خاص کر اسی فصل میں '' ٥١ویں جعلی صحابی '' کے عنواں کے تحت اس سلسلے میں تفصیل سے بحث کی ہے ۔

ام زمل کے افسانہ کی اشاعت کرنے والے علما
جن علماء نے '' ام زمل '' کے افسانے کو سیف سے نقل کرکے اپنی کتابوں میں درج کیا ہے وہ حسب ذیل ہیں :
١۔ ''طبری'' نے براہ راست سیف سے نقل کرکے اس کے مآخذ بھی ذکر کئے ہیں ۔
٢۔ ''حموی '' نے اپنی کتاب '' معجم البلدان '' میں دو جگہ اس پر روشنی ڈالی ہے ۔ اس ترتیب سے کہ ایک جگہ لفظ '' حوب '' کے سلسلے میں حسب ذیل عبارت لکھی ہے :
سیف بن عمر نے اپنی کتاب '' فتوح '' میں لکھا ہے کہ جنگ بزاخہ سے فرار کرنے والے ... (داستان کے آخری تک )
اور دوسری جگہ لفظ '' ظفر'' کی تشریح میں یوں لکھتا ہے :
''ظفر'' بصرہ و مدینہ کے درمیان ، '' حوب'' کے نزدیک ایک جگہ ہے وہاں پر بزاخہ کے فراری جمع ہوئے تھے۔
پھر بات کو جاری رکھتے ہوئے لکھتا ہے :
لیکن ، '' نصر '' نے لکھا ہے کہ ''ظفر'' مدینہ و شام کے درمیان '' شمیط'' کے کنا رے پر واقع ہے اور یہ جگہ فزارہ کی زمینوں میں شمار ہوتی ہے یہ وہی جگہ ہے جہاں پر '' ربیعہ بن بدر کی بیٹی ، '' ام قرفہ فاطمہ ، لوگوں کو پیغمبر خد اۖ کے خلاف اکساتی تھی اور انھیں آنحضرت ۖ سے جنگ کرنے کی ترغیب دیتی تھی اور وہ وہیں پر قتل ہوئی ہے ۔
ام قرفہ کے بارہ بیٹے تھے جوجنگجو اور دلاور تھے اور بزاخہ کی جنگ میں رسول خدا ۖ کی دشمنی میں کافی سرگرم رہے ہیں ۔
خالد نے '' قرفہ '' اور طلیحہ کے فراری حامی جو مسلمانوں سے لڑنے کیلئے اس کے گرد جمع ہوئے تھے کو سخت شکست دی ۔ ام قرفہ کو قتل کرکے اس کے سر کو تن سے جد اکرکے خلیفہ ابو بکر کے پاس مدینہ بھیجدیا ۔ اور ابو بکر نے بھی حکم دیا کہ اس کے سر کو شہر کے دروازے پر لٹکادیا جائے ۔ کہتے ہیں اس کا سر اسلام میں پہلا سر تھا جسے لٹکایا گیا ہے ١ (حموی کی بات کا خاتمہ )
''حموی کے بیان کے مطابق '' ''نصر'' نے سیف کی دو خبروں کو آپس میں ملادیا ہے : پہلی خبر ام قرفہ کی سرکوبی کیلئے زید بن حارثہ کی لشکر کشی ہے ، سیرت لکھنے والوں نے یک زبان ہوکر کہا ہے کہ وہ لوگوں کو پیغمبر خدا ۖ کے خلاف اکساتی تھی ان میں سے بعض نے کہا ہے کہ زید نے اسے قتل کرنے کے بعد اس کا سر مدینہ بھیجا ہے ۔
دوسری خبر کو سیف نے اس کی بیٹی '' ام زمل سلمی '' کے بارے میں جعل کیا ہے اور اس کا نام '' ام قرفہ صغری '' رکھا ہے اور کہا ہے کہ اس نے بزاخہ کی جنگ میں طلیحہ کے حامی فراری سپاہیوں کو اپنے گرد جمع کیااور انھیں خالد بن ولید کے خلاف جنگ کرنے کی ترغیب دی اور سر انجام خالد کے ہاتھوں ماری گئی ۔
'' نصر '' نے ان دونوں خبروں کو '' خبر ام قرفہ ''' کے عنوان سے آپس میں مخلوط کر دیا ہے اور اس کے بعد ایک تیسری خبر بنائی ہے اور اس کے تحت ' ظفر '' کے موضوع کی تشریح کی ہے جو در اصل سیف کی تخلیق ہے ۔
شاید '' نصر '' نے ان دو خبروں کو ا سلئے آپس میں ملایا ہے کہ سیف نے اپنی خیالی مخلوق پر سلمی کا
..............
١۔ محمد بن حبیب نے کتاب '' محبر'' میں ابن کلبی اور طبری سے بقول اسحاق لکھا ہے کہ رسول خدا ۖ قریش سے فرماتے تھے کہ اگر ام قرفہ قتل ہوجائے تو کیا ایمان لاؤ گے ؟ اور وہ جواب میں وہی بات کہتے تھے جو وہ ناممکن کام کے بارے میں کہتے تھے ،یعنی ، مگر یہ ممکن ہے ؟ برسوں گزرنے کے بعد اور زید بن حارثہ کے ہاتھوں ام فرقہ کے قتل ہونے کے بعد آنحضرت ۖ نے حکم دیا کہ اس کا سر مدینہ کی گلیوں میں پھیرایا جائے تا کہ لوگ اپنی آنکھوں سے یہ واقعہ دیکھ کر آنحضرت ۖ کی صحیح پیشین گوئی پر ایمان لائیں ۔
نام جوڑ کر اس کا '' ام قرفہ صغری'' نام رکھا ہے ۔ لیکن نصر اس مسئلہ سے غافل تھا کہ زید بن حارثہ کے ہاتھوں قتل کی جانے والی ' ام قرفہ '' اور سیف بن عمر کی مخلوق ' ام قرفہ '' کے درمیان زمین و آسمان کا فرق
ہے اس کے باوجود نصر نے ان دونوں کو ایک ہی جان کر ایک ساتھ ذکر کیا ہے ۔
'' ظفر''' کا محل وقوع بھی نصر اور حموی کو مکمل طور پر معلوم نہ ہوسکا ہے کیونکہ ایک کہتا ہے کہ ''ظفر''' شام کی راہ پر واقع ہے اور دوسر مدعی ہے کہ بصرہ کے راستہ پر واقع ہے بالکل دو مخالف جہتوں میں ، ایک شمال کی طرف اور دوسرا جنوب کی طرف۔
اسی طرح حموی اور نصر نے اپنی خبر کا مآخذ مشخص نہیں کیا ہے صرف حموی نے '' حوب '' کے سلسلے میں تشریح کرتے وقت اپنی روایت کے آغاز میں سیف بن عمر کا ذکر کیا ہے ۔
٣۔ ابن حجر نے سیف کی روایت پر اعتماد کرتے ہوئے اپنی کتاب '' اصابہ '' میں سلمی کے حالات کی تشریح کیلئے خصوصی جگہ معین کرکے '' زنان رسول خداۖ '' کے عنوان سے اس پر بھی روشنی ڈالی ہے لیکن روایت کے مآخذ کا ذکر نہیں کیا ہے اور اس کے بارے میںصرف اتنا کہا ہے کہ :
سلمی ، عیینہ بن حصن بن حذیفہ کی چچیری بہن تھی ۔
ابن حجر کے اس تعارف کا سرچشمہ یہ ہے کہ سیف نے اپنی مخلوق سلمی کو عیینہ کے چچا مالک بن حذیفہ کی بیٹی کی حیثیت سے خلق کیا ہے ۔
٤۔ ابن اثیر نے ام زمل کی روایت کو طبری سے نقل کرکے اپنی تاریخ میں درج کیا ہے ۔
٥۔ ابن کثیر نے بھی روایت کو براہ راست طبری سے نقل کرکے اپنی کتاب میں درج کیاہے
٦۔ ابن خلدون نے بھی طبری کی روایت نقل کرے '' ام زمل'' کی داستان کو اپنی کتاب میں درج کیاہے ۔
٧۔ میر خواند نے بھی سلمی کی داستاں کو طبری سے لیا ہے ۔
٨۔ حمیری نے بھی لفظ '' ظفر ''میں حموی کی '' معجم البلدان ' سے نقل کرکے ام زمل کی داستاں کو خلاصہ کے طور پر اپنی کتاب میں درج کیا ہے ۔

حدیث و داستان حوب کی حدیث اور داستان کے چند حقائق
سیف نے مالک کی بیتی '' ام زمل سلمیٰ '' معروف بہ '' ام قرفہ صغری'' کی روایت اس لئے گڑ ہے کہ رسول خدا ۖ کی اس حدیث میں تحریف کرے جو آنحضرت نے حوب کے علاقہ کے کتوں کے ام المؤمنین عائشہ کے اونٹ پر بھونکنے کے بارے میں فرمائی ہے سیف نے اس طرح تاریخی حقائق اور اس خاتون کے زمانہ میں اسلامی سرداروں اور شخصیتوںکی روش پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی ہے۔
ہم یہاں پر حقائق کو واضح اور وشن کرنے کیلئے حوب کے کتوں کے بھونکنے کی روایت کو اسی طرح بیان کرتے ہیں جیسا کہ واقعہ پیش آیا ہے اور سیرت اور تاریخ کی کتابوں میں درج ہوا ہے ۔ توجہ فرمائیے :
ایک دن رسول خدا ۖ کی تمام بیویاں آپ ۖ کی خدمت میں حاضر تھیں آنحضرت ۖ نے ان سے مخاطب ہوکر فرمایا:
تم میںسے کون ہے جو پر پشم اونٹ پر سوار ہوگی اور حوب کے کتے اس پر بھوکیں گے، اسکی راہ میں بہت سے انسان دائیں بائیں خاک و خون میں لت پت ہوجائیں گے اس کے اس دلخواہ حادثہ کے رونماہونے کے بعد اس قتل گاہ سے خود زندہ بچ نکلے گی ؟
عائشہ ہنس پڑیں ، رسول خداۖ نے ان سے مخاطب ہوکرفرمایا:
اے حمیرا ہوشیار رہنا کہیں وہ عورت تم نہ ہو ! اس کے بعد رسول خدا ۖ نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے فرمایا:
تم علی سے جنگ کروگی جب کہ تم ہی پرظالم ہوگی ۔
سیرت اور تاریخ لکھنے والوں نے اس کے بعد لکھا ہے :
جب عائشہ بصرہ کی طرف جاتے ہوئے حوب کے پانی کے نزدیک پہنچی تو اس علاقہ کے کتوں نے اس پر چھلانگ لگاتے ہوئے بھونکنا شروع کیا ۔ عائشہ نے پوچھا :
یہ کونسا پانی ہے ؟ جواب دیا گیا :
حوب ، عائشہ حوب کا نام سن کر مضطرب ہوگئیں اور آیۂ کریمہ استرجاع پڑھنے لگی (انا ﷲ و انا الیہ راجعون ) گویا برسوں گزرنے کے بعد رسول خدا ۖ کی فرمائشات انھیں یاد آگئیں ، اور فوراً کہہ دیا میں وہی عورت ہوں !!
اس لئے واپس لوٹنے کا ارادہ کیا۔ یہ خبر زبیر تک پہنچی تو وہ فوراً عائشہ کے پاس پہنچا اور اعلان بلند آواز سے کہا:
اٹھئے ! چلئے ! اپنے آپ کو لو بچالیجئے ! خداکی قسم علی بن ابیطالب آپ کے نزدیک پہنچ رہے ہیں ... اس کے بعد زبیر کے کہنے پر قافلہ نے کوچ کیا اور فوراً اس جگہ سے دورہوگئے ۔

ام قرفہ کے بیٹوں کے بارے میں ایک تحقیق
مندرجہ ذیل علماء میں سے ہر ایک نے ام قرفہ کے بیٹوں کی تعداد اور ا ن کی خصوصیات کے بارے میں کچھ مطالب لکھے ہیں ملاحظ ہوں:
١۔ ''ابن کلبی ''نے اپنی کتاب '' جمہرہ '' میں اس کے خلاصہ کے صفحہ ١٢٤ پر ۔
٢۔ ''ابن حبیب ''نے کتاب'' المحبر'' کے صفحہ ٤٦١پر۔
٣۔ ''ابن حزم ''نے کتاب ''جمہرہ '' کے صفحہ ٢٥٧ پر ۔
مذکورۂ تمام علماء نے ام قرفہ کے بیٹوں کے نام ذکر کئے ہیں اور تاکید کی ہے کہ ان کا باپ '' مالک بن حذیفہ '' تھا ۔
اسی طرح ان علماء اور دیگر مصنفوں نے کہا ہے کہ ام قرفہ کی صرف ایک بیٹی تھی اور وہ بیٹی بھی اسیر ہوئی اور سر انجام رسول خدا ۖ کی خدمت میں پہنچی تو آنحضرتۖ نے اسے اپنے ماموں '' حزن بن وہب '' کو بخش دیا اور عبدا لرحمان بن حزن اسی سے پیدا ہوا ہے ۔
'' ام زمل سلمی '' کا کسی بھی معتبر مآخذ و مصادر میں نام و نشان نہیں ملتا صرف دوسری صدی ہجری کے افسانہ ساز سیف بن عمر تمیمی کے ہاں اس کا سراغ ملتاہے ۔

افسانہ ٔ ام زمل کا نتیجہ
سیف اکیلا شخص ہے جس نے '' ام زمل '' کا نام لیا ہے ، اس کو اور اس کی داستان کو خلق کیاہے ، اسے ام المؤمنین عائشہ کی ملکیت قرار دیا ہے اور اس کے بعد اسی مہربان خاتون کے ذریعہ اسے آزاد کرایا ہے ۔
ام زمل ، ام قرفہ کے اونٹ ، میدان کارزار میں ام زمل کا اس اونٹ پر سوار ہوکر خالد کے ساتھ جنگ میں مرتدوں کی کمانڈ سنبھالنے اور ، حوب کے کتوں کا اس پر بھونکنے کا افسانہ گھڑ کر سیف نے یہ کوشش کی ہے کہ ام المؤمنین عائشہ کے بارے میں رسول خدا ۖ کے معجزہ وپیشین گوئی ، حوب کے کتوں کے عائشہ پر بھونکنے اور جمل کی جنگ میں معروف اونٹ پر سوار ہوکر سپاہ کی کمانڈ سنبھالنے جیسے واقعات کو تحت الشعاع قرار دیکر حقائق کو من پسند طریقے سے تحریف کرے مگر خوش قسمتی سے وہ اس میں کامیاب نہیں ہوا ہے ۔
سیف نے قبائل ''ہوزان ، سلیم ،طی ، عامر '' اور دیگر قبیلوں کے ارتداد کے موضوع کو ان سے نسبت دی ہے اور جھوٹ بولا ہے کہ بزاخہ کی جنگ کے فراری '' ظفر '' نامی جگہ پر جس کا حقیقت میں کوئی وجود نہیں ہے ام زمل کے گرد جمع ہوئے اور خالد بن ولید سے جنگ کی ہے اور ان میں سے سو آدمی '' ام زمل '' کے اونٹ کے ارد گرد قتل ہوئے ہیں ۔
سیف نے ایک ایسی جنگ میں جو کبھی واقع نہیں ہوئی ہے ، ناجائز اور جھوٹے اخبار کو اسلام کے سپاہیوں سے نسبت دی ہے کہ جس فرضی جنگ میں قتل عام کے نتیجہ میں قبائل '' خاسی '' ، '' ہاربہ '' اور '' غنم '' نابود ہوکر رہ گئے اور قبیلہ ٔ '' کاہل '' کو ناقبل تلافی نقصان اٹھانا پڑا ۔ اس طرح سیف نے دشمنان اسلام کیلئے صدیوں تک کے لئے اسلام و مسلمانوں کے خلاف تبلیغاتی اسناد و دستاویز فراہم کئے ہیں تا کہ وہ ان سے استتاد کر کے یہ استناد سے دعویٰ کریں کہ اس دین نے جزیرہ نمائے عرب کے لوگوں کے دلوں میں کوئی اثر پیدا نہیں کیا تھا جھی پیغمبر ۖ کی رحلت کے بعد ان میں سے اکثر نے اس دین سے منہ موڑ لیا ، جس کے نتیجہ میں اس پیغمبر ۖ کے جانشین ایک بار پھر تلوار کی ضرب اور بے رحمانہ قتل و غارت سے مرتدوں کو دوبارہ اسلام کی طرف لے آتے ہیں اور اس دین کو خوف و دہشت پھیلا کر پھرسے مستحکم و پائیدار کرتے ہیں اور اس سے دشمنان اسلام یہ نتیجہ حاصل کرتے ہیں کہ اسلام تلوار کی ضرب اور خون کی ہولی کھیل کر استوار ہوا ہے نہ کہ کسی اور چیز سے ۔ ہم نے اس موضوع پر اپنی کتاب '' عبد اللہ بن سبا'' کی دوسری جلد میں مفصل روشنی ڈالی ہے ۔
یہ مطلب بھی قابل ذکر ہے کہ ہمیں جاننا چاہئے کہ سیف کے زندیقی ہونے کے علاو ہ جس کا علماء نے اسے ملزم ٹھہرایا ہے کونسی چیز محرک ہوسکتی ہے کہ وہ اس قسم کی تحریف اور افسانہ سازی کرے جس کے نتیجہ میں اسلام کے عقائد اور تاریخ میں شک و شبہہ ایجاد کرکے ہمارے مصادر و مآخذ کو بے اعتبار کرکے رکھدے ؟

مصادر و مآخذ
مالک کی بیٹی ام زمل سلمی کے حالات
١۔ ابن حجر کی '' اصابہ '' ( ٤ ٣٢٥) نمبر : ٥٦٧

ام قرفہ سے جنگ کرنے کیلئے زید بن حارثہ کی لشکر کشی :
١۔ ابن سعد کی '' طبقات'' ( ١ ٢ ٦٥)
٢۔ تاریخ یعقوبی ( ٢ ٧١)
٣۔ سیرۂ ابن ہشام ( ٤ ٢٩٠)
٤۔ تاریخ طبری ٠ ١ ١٥٥٧)
٥۔ مقریزی کی '' امتاع الاسماع'' ( ص ٢٦٩۔ ٢٧٠)

سیف کی ام زمل کا افسانہ
١۔ تاریخ طبری ( ١ ١٩٠١ ۔ ١٩٠٢
٢۔حموی کی '' معجم البلدان '' لفظ ''حوب ''،'' ظفر ''
٣۔ تاریخ کامل ابن اثیر ( ٢ ٢٦٦)
٤۔ تاریخ ابن کثیر ( ٦ ٩٣١
٥۔ تاریخ ابن خلدون ( ٢ ٢٨٣)
٦۔ میر خواندکی '' روضة الصفا '' ( ٢ ٦٠٧)

داستان حوب کی حقیقت
١۔ تاریخ طبری ( ٥ ١٧٨)
٢۔ عبد اللہ بن سبا ( ١ ١٠٠ ۔ ١٠٣)