پچاسواں جعلی صحابی
حاجب بن زید یا یزید انصاری اشہلی
ابن عبد البر کی کتاب '' استیعاب '' میں حاجب کا یوں تعارف کیا گیا ہے :
حاجب '' بنی عبد الاشہل '' میں سے تھا ۔ اس کے علاوہ کہا گیا ہے کہ وہ '' بنی زعواراء بن جشم '' کی نسل سے عبدا لاشہل جشم کا بھائی اور '' اوسی'' تھا جو یمامہ کی جنگ میں قتل ہوا ہے ۔
حاجب قبیلۂ '' اَزْد'' کے ''شَنَوْئَ'' کا ہم پیمان تھا ۔ '' خدا اس سے راضی ہو '' ( عبد البر کی بات کا خاتمہ)
بالکل انہی باتوں کو ابن اثیر جیسے عالم نے کتاب '' اسد الغابہ '' میں اور ذہبی نے ''تجرید '' میں کسی کمی و بیشی کے بغیر درج کیا ہے ۔
ابن حجر نے بھی ایسا ہی ظاہر کیا ہے ، لیکن آخر میںحسب ذیل اضافہ کیا ہے:
سیف نے طائفہ '' بنی الاشہل '' کے جنگ یمامہ میں قتل ہوئے افراد کی فہرست میں ''حاجب '' کا نام بھی لیا ہے ۔ یہ افراد ہیں ... اور حاجب بن زید ۔ اس کے علاوہ اس میں کسی اور چیز کا اضافہ نہیں کیا ہے ۔
ہم نے اس نام کو تلاش کرنے کیلئے موجود تمام تاریخ اور انساب کے معتبر مصادر میں زبردست جستجو و تلاش کی . لیکن تاریخ طبری کے علاوہ کہیں اور اس کا سراغ نہ مل سکا۔
لیکن طبری قادسیہ کی جنگ کے اخبار کے ضمن میں سیف سے نقل کرکے لکھتا ہے : قادسیہ کی جنگ میں قتل ہونے والوں میں سے ایک اور شخص حاجب بن زید تھا ...
ہم یہ نہیں سمجھ سکے کہ قادسیہ کی جنگ میں خاک و خون میں غلطاں ہونے والے اس حاجب بن زید سے سیف کی مراد وہی حاجب ہے جو یمامہ کی جنگ میں مارا گیا ہے ، یا یہ کہ اسے دوشخص شمار کیا ہے۔
دوسرے الفاظ میں ، وہ بھول گیا ہے کہ اس حاجب کو اس نے دس سال پہلے یمامہ کی جنگ میں موت کے گھاٹ اتاردیا ہے ، یا یہ کہ اس نے دو اشخاص کو ہم نام خلق کیا ہے ان میں سے ایک ''حاجب بن زید '' ہے جسے یمامہ کی جنگ میں مروا دیا ہے اور دوسرا ''حاجب بن زید '' وہ ہے سجے قادسیہ کی جنگ میں قتل کروایاہے ؟!!
بہر حال خواہ سیف نے فراموش کیا ہو یا نہ کیا ہو، ہمارے لئے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ ہم نے اس حاجب بن زید کو سیف بن عمر اور اس کی روایات کی اشاعت کرنے والے علماء کے علاوہ تاریخ ، ادب ، انساب اور حدیث کے کسی منبع اور مصدر میں نہیں پایا ۔ اس لحاظ سے اس کو سیف کے خیالات کی مخلوق سمجھتے ہیں ۔
ضمناً سیف نے جو داستان اس حاجب کے لئے گڑھی ہے اس میں اس کا وہی مقصد ہے یمانی قحطانی ان چیزوں سے موصوف ہوں ، کیونکہ سیف کے نقطہ نظر میں جنگی کمالات' کامیابیاں ، میدان کارزار سے صحیح و سالم نکلنا اور دیگر افتخارات غرض جو بھی برتری و سربلندی کا باعث ہو وہ تمیم ،مضر اور قبیلۂ عدنان کے افراد سے مخصوص ہے کسی دوسرے کو اس کا کوئی حق نہیں ہے۔ کسی یمانی قحطانی کوکوئی حق نہیں پہنچتا ہے کہ اس قسم کے افتخارات اور کامیابیوں کے مالک ہوں ، مگر یہ کہ خاندان مضر کے سرداروں کے زیر فرمان خاک و خون میں غلطان ہوں اور یہ لیاقت پائیں کہ ان کے رکاب میں شہید ہونے والے شمار ہوجائیں !!!
لیکن،سیف نے اس حاجب کیلئے جو نسب گڑھا ہے وہ ''بنی اشہل'' ہے اور'' بنی اشہل '' و '' جشم'' اوس سے حارث بن خزرج کے بیٹے ہیں ، اور '' ازدشنوئ'' یعنی قبائل ''ازد'' کے وہ افراد جو ''شنوئ'' میں ساکن تھے۔ یہ ازد میں سے ایک قبیلہ ہے سکونت کے لحاظ سے وہ ''شنوء '' کے باشندے تھے (جو یمن کے اطراف میں واقع ہے ۔) یہ لوگ اس جگہ سے منسوب ہوئے ہیں اور تینوں قبیلے یمانی قحطانی ہیں ۔
مصادر و مآخذ
حاجب بن زید کے بارے میں درج ذیل مصادر و مآخذ کی طرف رجوع کیا جائے :
١۔ ابن عبد البر کی '' استیعاب '' ( ١ ١٣٨) نمبر : ٥٧٣
٢۔ ابن اثیر کی '' اسد الغابہ '' ( ١ ٣١٥)
٣۔ ذہبی کی '' تجرید '' ( ١ ١٠١)
٤۔ ابن حجر کی '' اصابہ '' ( ١ ٢٧٢) نمبر :١٣٦٠
٥۔ تاریخ طبری ( ١ ٢٣١٧ ) اور ( ١ ٢٣١٩)
٦۔ تاریخ ابن اثیر ( ٢ ٣٧٠)
٧۔ ابن حزم کی ''جمہرہ انساب العرب '' ( ٣١٩ ۔ ٣٢٠)
٨۔ قبائل العرب ( ١ ١٥٥) اور ٢ ٣٧٤ ) اور (٢ ٧٢٢)
اکاونواں جعلی صحابی
سہل بن مالک انصاری
سہل ، کعب بن مالک کا ایک بھائی
اس جعلی صحابی کے حالات کی تشریح میں ابن حجر کی کتاب '' اصابہ'' میں یوں آیا ہے :
'' سہل بن مالک بن ابی کعب ١ بن قین '' انصاری رسول خدا ۖ کے معروف شاعر '' کعب بن مالک ' کا بھائی ہے ۔
ابن حبان نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ سہل کو رسول خدا ۖ کی مصاحبت کا شرف حاصل ہوا ہے اور آنحضرتۖ کے اصحاب میں شمار ہوتا ہے ۔
سیف بن عمر نے ابو ہمام' سہل بن یوسف بن سہل ٢ بن مالک سے نقل کیا ہے اور اس نے اپنے باپ سے اور اپنے جد سے روایت کی ہے:
رسول خدا ۖ نے حجة الوداع سے مدینہ واپس آنے کے بعد منبر پر تشریف لے جا کر فرمایا:
اے لوگو! ابو بکر نے کبھی بھی میرا دل نہیں دکھایا ہے اور ....
..............
١۔ ابو کعب کا نام عمرو تھا ۔
٢۔سہل بن مالک کا نام ہمارے پاس موجود اصابہ کے نسخہ میں نہیں آیا ہے لیکن ابن حجر کی '' لسان المیزان '' میں درج کی گئی روایت کی سند میں ذکر ہوا ہے ۔
ابن حجر نے علمِ رجال میں لکھی گئی اپنی کتاب ' ' لسان المیزان '' میں لکھا ہے کعب بن مالک کے بھائی ، سہل بن یوسف بن سہل بن مالک نے اپنے باپ سے اااس نے اپنے جد سے یوں روایت کی ہے۔
جب رسول خدا ۖ حجة الوداع سے واپس مدینہ لوٹے تو منبر پر تشریف لے جا کر بارگاہ الٰہی میں حمد و ثناء فرمایا:
اے لوگو! میں ابو بکر عمر اور عثمان سے راضی ہوں ... اے لوگو ! اپنی زبانیں مسلمان کو برا بھلا کہنے سے روک لو ، جب ان میں سے کوئی اس دنیا سے چلا جائے تو اس کے بارے میں خوبی کے سوا کچھ نہ کہنا ! ابن حجر نے مذکورہ بالا مطالب بیان کرنے کے بعد لکھا ہے :
سیف بن عمر نے اس حدیث کو اسی صورت میں سہل بن یوسف سے نقل کرکے اپنی کتاب '' فتوح'' میں لکھا ہے ۔
سہل اور اس کے نسب پر ایک بحث
سیف نے اس روایت کو ایک ایسے راوی کی زبانی نقل کیا ہے جس کا نام اس نے '' ابوہمام سہل'' رکھا ہے اس نے اپنے باپ یوسف سے اور اس نے اپنے جد سہل بن مالک سے روایت کی ہے اور سہل کا تعارف رسول خدا ۖ کے شاعر کعب بن مالک کے بھائی کے عنوان سے کہا ہے ۔ یعنی سیف نے کعب بن مالک انصاری کے نام پر ایک معروف صحابی اور حقیقت میں وجود رکھنے والے پیغمبر خدا ۖ کے شاعر کیلئے ایک بھائی خلق کیا ہے اور اس نام '' سہل بن مالک '' رکھا ہے اس طرح اس نے بالکل وہی کام انجام دیا ہے جو اس سے پہلے '' طاہر ، حارث اور زبیر '' ابو ہالہ ١ کو خلق کرنے میں انجام دیا تھا اور تینوں کو ابو ہالہ اور ام المؤمنین خدیجہ کے بیٹے ، رسول خدا ۖ کے منہ بولے بیٹے اور پروردہ کی حیثیت سے خلق کیا تھا یا مشہور ایرانی سردار ہرمزان کیلئے '' قماذبان '' ٢ نام کا ایک بیٹا خلق کیا تھا' وغیرہ وغیرہ
لیکن بات یہ ہے کہ '' کعب بن مالک '' کا حقیقت میں سہل بن مالک انصاری نام کا نہ کوئی بھائی تھا ، نہ '' یوسف'' نام کا اس کا کوئی بھتیجا تھا اور نہ اس کے بھائی کا سہل نام کا کوئی پوتا تھا !
سہل بن یوسف ، سیف کا ایک راوی
جو کچھ ہم نے بیان کیا ، اس کے علاوہ طبری نے سیف سے نقل کرکے سہل بن یوسف کی انتالیس یا چالیس روایتیں اپنی تاریخ کبیر میں درج کی ہیں جن میں سے چار روایتیں سہل کے باپ یعنی '' یوسف '' سے نقل ہوئی ہیں کہ ان میں سے ایک میں سہل کا نسب یوں ذکر ہوا ہے : '' سہل بن یوسف سلمی'' ۔
دوسرے مصنفین اور علماء جنہوں نے اصحاب کے حالات پر روشنی ڈالی ہے ، ''عبید بن صخر ، اور معاذ بن جبل '' کیلئے لکھے گئے حالات کی تشریح میں سیف بن عمر سے نقل کرکے سہل بن یوسف بن سہل کی چھ روایتیں عبید بن صخر سے اپنی کتابوں میں نقل کی ہیں ۔
..............
١۔ اسی کتاب کی دوسری جلد ملاحظہ ہو۔
٢۔ کتاب عبدا للہ بن سبا جلد ١ ملاحظہ ہو۔
آخر کی روایتوں میں سے ایک روایت میں سہل بن یوسف کا تعارف یوں کیا گیا ہے : '' سہل بن یوسف بن سہل انصاری''
اس تحقیق کا نتیجہ
مجموعی طور پر جو کچھ گزرا اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ سیف نے سہل کے خاندان کو اپنے خیال میں یوں خلق کیا ہے : '' ابوہمام ، سہل بن یوسف بن سہل بن مالک انصاری سلمی '' اور '' دادا '' سہل کو رسول خدا ۖ کے شاعر صحابی کعب بن مالک انصاری کے بھائی کی حیثیت سے خلق کیا ہے یہی سبب بناہے کہ کتاب '' اصابہ '' کے مصنف ابن حجر نے سہل کو خاندان کعب کے نسب سے منسلک کرکے لکھا ہے : '' سہل بن مالک بن ابی کعب بن قین '' ، ابن حجر نے اس نسبت کو اپنی کتاب میں درج کیا ہے جب کہ سہل کے خالق سیف بن عمر نے ایسا دعویٰ نہیں کیا اور اپنی مخلوق کو '' قین '' سے منسلک نہیں کیا ہے!! ١
قلمی سرقت
سیف نے مذکورہ روایت کو اپنی کتاب '' فتوح '' جو دوسری صدی کی پہلی چوتھائی میں تالیف ہوئی ہے میں بڑی آب و تاب کے ساتھ درج کیا ہے اور اپنے خاندانی تعصب و قبیلہ ٔ مضر خاص طور سے وقت کے حکام و دلتمندوں کے بارے میں منقبت و مداحی کی ایسی روایت درج کرکے ثابت کیا ہے ۔
١۔ جہاں تک سیف کی رواتیوں سے استفادہ ہوتا ہے ۔
زیادہ وقت نہ گزرا تھا کہ تیسری صدی ھجری کا '' خالد بن عمرو اموی کوفی ''آپہنچا اور ایک ادبی اور قلمی چوری کا مرتکب ہوتا ہے وہ سیف کی عین روایت کو اس کی کتاب سے نقل کرکے اپنی کتاب میں درج کرتا ہے اور اس میں سیف اور اس کی کتاب کا کہیں نام نہیں لیتا گویا اس نے کسی واسطہ کے بغیرخود اس روایت کو سنا ہے ۔
خالد کا یہ کام اس بات کا سبب بناکہ اس کے بعد آنے والے علماء نے اسی روایت کو خالد کی کتاب سے لے کرکے گمان کیاہے کہ خالد تنہا شخص ہے جس نے ایسی روایت اپنی کتاب میں نقل کی ہے اس مطلب کی طرف توجہ نہیں کی ہے کہ خالد سے تقریباً ایک صدی پہلے یہی روایت سیف بن عمر نام کے شخص کے ذہن میں پیدا ہوچکی ہے اور اس نے اسے اپنی کتاب فتوح میں درج کیا ہے ١
سہل کے افسانہ کی اشاعت کرنے والے علما
خالد کا یہ کام اس امر کا سبب بنا کہ مندرجہ ذیل علماء نے یہ گمان کیاہے کہ خالد بن عمرو اس روایت کو نقل کرنے والا وہ تنہا شخص ہے :
١۔ دار قطنی ( وفات ٣٨٥ھ) جو یقین کے ساتھ کہتا ہے کہ اس روایت کو نقل کرنے میں خالد اکیلا ہے ۔
٢۔ ابن مندہ ( وفات ٣٩٩ھ ) نے کتاب '' اسماء الصحابہ '' میں لکھا ہے کہ :
یہ ایک تعجب خیز روایت ہے جسے میں نے اس راوی کے علاوہ کہیں نہیں پایا ہے ۔
..............
١۔ کتاب '' روات مختلقون '' سلسلۂ روات کی بحث میں '' سہل بن یوسف بن سہل'' کے نام میں ملاحظہ ہو۔
یعنی خالد بن عمرو کے علاوہ کسی دوسرے نے یہ روایت بیان نہیں کی ہے
٣۔ ابن عبدا لبر ( وفات ٤٦٣ھ) نے اپنی کتاب '' استیعاب '' میں لکھا ہے :
اس سہل بن مالک کی روایت کو صرف خالد بن عمرو نے نقل کیا ہے ١
بعضعلماء نے بھی مذکورہ روایت کو خالد کی کتاب سے نقل کیا ہے لیکن یہ نہیں کہا ہے کہ خالد اس روایت کو نقل کرنے والا تنہا شخص ہے ، جیسے :
١۔ ابنوسی '' ( وفات ٥٠٥ھ ) نے اپنی کتاب فوائد میں ٢
ان میں سے بعض کی کتابوں میں کچھ راویوں کے نام لکھنے سے رہ گئے ہیں ، جیسے :
١۔ طبرانی ( وفات ٣٦٠ھ) نے کتاب '' المعجم الکبیر عن الصحابہ الکرام '' میں ۔
بعض نے مذکورہ روایت کو ارسال مرسل کی صورت میں یعنی راویوں اور واسطوں کا نام ذکر کئے بغیر درج کیا ہے ، جیسے:
..............
١۔ '' ابن شاہین '' ( وفات ٣٨٥ھ )
٢۔ ابو نعیم '' ( وفات ٤٣٠ ھ ) کتاب '' معرفة الصحابہ '' میں ۔
بعض نے اپنے سے پہلے علماء جن کا ذکر اوپر آیا سے نقل کیا ہے ۔ جیسے:
١۔ ضیاء مقدسی ( وفات ٦٤٣ ھ ) نے کتاب المختارہ میں طبرانی کی بات کوقبول کیا ہے اور اس سے متاثر ہوا ہے۔
..............
١۔سہل بن مالک کے حالات کی تشریح کتاب '' اصابہ'' اور '' کنز العمال '' باب سوم ، کتاب فضائل فصل دوم کے آخر میں( ١٢ ١٥٥) اور تیسری فصل سوم کے آخر میں ( ١٢ ٢٣٩ ) ملاحظہ ہو۔
٢۔سہل بن مالک ( دادا ) کے حالات کی تشریح میں کتاب '' استیعاب ''ملاحظہ ہو ۔
٢۔ ابن اثیر ( وفات ٦٣٠ ھ ) نے '' ابن مندہ '' ''ابو نعیم '' اور '' ابن عبد البر '' کے مطالب کو خلاصہ کے طور پر اپنی کتاب '' اسد الغابہ '' میں بیان کیا۔
٣۔ ذہبی ( وفات ٧٤٨ ھ ) نے اسد الغابہ سے نقل کرکے اس کا خلاصہ اپنی کتاب '' تجرید''میں درج کیا ہے ۔
٤۔ ابن کثیر ( وفات ٧٧٤ھ) نے اس مطلب کو معجم طبرانی سے نقل کیا ہے لیکن بعض علماء نے اس روایت کے صحیح ہونے میں اور اس کے مآخذ پر شک کیا ہے ، جیسے :
١۔ عقیلی ( وفات ٣٢٢ ھ) نے کتاب '' الضعفاء '' میں ۔
٢۔ ابن عبد البر ( وفات ٤٦٣ھ ) نے اپنی کتاب '' استیعاب '' میں اس روایت کے جھوٹ ہونے اس کے راوی سہل بن یوسف بن سہل بن مالک کے صحیح نہ ہونے اور ایسے راویوں کے موجود نہ ہونے کی تاکید کی ہے ۔
لیکن اس نے گمان کیاہے کہ یہ سب آفتیں '' خالد بن عمرو '' کی وجہ سے واقع ہوئی ہیں اور مکتب خلفاء کے علماء کے اندر خالد کی شہرت کو دلیل کے طورپر پیش کرتے کرتے نتیجہ نکالا ہے کہ یہ روایت جھوٹی اور جعلی ہے ۔
برسوں گزرنے کے بعد نویں صدی ہجری میں ''ابن حجر '' (وفات ٨٥٢ھ) آتا ہے اور سہل بن مالک ( جد ) کے حالات کی تشریح کتاب '' اصابہ '' میں رسول خدا ۖ کے صحابی کی حیثیت سے اورسہل بن یوسف ( پوتا ) کے بارے میں اپنی دوسری کتاب '' لسان المیزان '' میںیوں لکھتا ہے :
اس روایت کی صرف خالد بن عمرو نے روایت نہیں کی ہے بلکہ خالد سے برسوں پہلے ، اسی متن و سند کے ساتھ سیف بن عمر تمیمی نے اپنی کتاب فتوح میں درج کیا ہے ١
لیکن ابن حجر نے اس مطلب کی طرف توجہ نہیں کی ہے کہ درست اور صحیح نہیں جو خالد ایک صدی سیف کے بعد آیاہے اس نے بلاواسطہ کسی سے روایت نقل کی اس سے سیف نے ایک صدی پہلے روایت نقل کی ہے بلکہ ا سے کہناچاہئے تھا کہ: اس مطلب کو متخر شخص نے متقدم سے لیا ہے ۔مگر خالد جو کہ متأخر ہے اس نے متقدم کا نہ نام لیا اور نہ ہی منبع بیان کیا ہے۔
یہ مسئلہ اور اس جیسے سیکڑوں مسائل کے علاوہ سیف کے تعجب خیز تخلیقات آج تک علماء کی نظروں سے اوجھل رہی ہیں اور تاریخ اسلام کے سلسلے میں سیف کی اس قدر جنایتوں سے پردہ نہیں اٹھایا گیا تا کہ ابن حجر کو معلوم ہوجاتا کہ اس روایت اور ایسی سیکڑوں روایتوں اور راویوں کو گڑھنے اور خلق کرنے والا اصلی مجرم سیف بن عمر تمیمی ہے نہ کہ اور کوئی۔
اسی طرح تقریباً یقین کی حد تک کہا جاسکتا ہے کہ ابن حجر ان دو راویوں ( بیٹا اور جد ) '' سہل بن یوسف '' اور ''یوسف بن سہل '' کے دوسری روایتوں میں داخل ہونے کے سلسلے میںمتوجہ نہیں ہوا ہے تا کہ کتاب '' اصابہ '' میں سہل بن مالک ( جد ) اور کتاب '' لسان المیزان '' میں '' سہل بن یوسف'' ( پوتہ ) کے حالات پر روشنی ڈالتے وقت ان کے راویوں کے سلسلہ کے بارے میں سنجیدہ
..............
١۔ اس کے برسوں گزرنے کے بعد '' سیوطی '' مذکورہ روایت کو اپنی کتاب جمع الجوامع میں سیف کی فتوح ، ابن مندہ ، طبرانی ، ابو نعیم ، خطیب بغدادی اور ابن عساکر سے نقل کرتا ہے متقی ہندی نے بھی انہیں مطالب کو سیوطی سے نقل کرکے اپنی کتاب '' کنزل العمال '' میں ثبت کیا ہے ( کنز العمال ١٢/١٠٠ ، اور ج١٢ ٢٣٩)
طور پر بحث و تحقیق کرتا ! یعنی وہ کام انجام دیتا جو ہم نے جعلی راویوں کے سلسلہ میں انجام دیا ہے ۔
مآخذ کی تحقیق
سیف کے جعلی صحابی '' سہل بن مالک انصاری'' کا نام ایک ایسی روایت میں آیا ہے جسے سیف کے جعلی ( بیٹے ) '' سہل بن یوسف '' نے اپنے جعلی اور جھوٹے باپ '' یوسف بن سہل '' سے نقل کیاہے ۔ یعنی خیالی پوتے نے جعلی باپ سے اور اس نے اپنے افسانوی جد سے روایت کی ہے !!
بہر صورت ' ' سہل بن مالک انصاری '' کا نام اس کے خیالی بیٹے اور پوتے کے علاوہ کسی اور ذریعہ سے ذکر نہیں ہوا ہے اس حدیث ساز خاندان کا نام ان معتبر منابع اور مصادر میں نہیں ملتا جنہوں نے سیف سے روایت نقل نہیں کی ہے۔
ہم نے ان راویوں پر مشتمل خاندان اور ان کی روایتوں کے بارے میں اپنی کتاب '' روات مختلقون '' (جعلی راوی) میں مفصل بحث کی ہے ۔ یہاں پر تکرار کی گنجائش نہیں ہے ۔
خلاصہ
سیف بن عمر نے اپنے جعلی صحابی '' سہل بن مالک '' ، رسول خدا ۖ کے مشہور شاعر کعب بن مالک انصاری کے بھائی کو بنی سلمہ خزرجی سے خلق کیا ہے اور اس کا نام ایک حدیث کے ذریعہ '' سہل بن یوسف '' نامی اس کے پوتے کی زبان پر جاری کیا ہے ۔ جیسا کہ ہم نے کہا ہے کہ اس قسم کے اشخاص کا نام دوسرے ایسے مصادر میں کہیں نہیں پایا جاتا جنہوں نے سیف بن عمر سے روایت نقل نہیں کی ہے ۔
مکتبِ خلفاء کے پیرو علماء نے اس '' سہل بن مالک '' کو جعلی پوتے کی حدیث پر اعتماد کرکے اصحابِ رسول خدا ۖ میں سے شمار کیا ہے اور سیف سے نقل کرکے لکھا ہے کہ اس نے مہاجرین کے سرداروں کے فضائل خود رسول خدا ۖ سے سنے ہیں ، جبکہ آنحضرت ۖ نے یمانی انصار کا ذکر تک نہیں فرمایا ہے !
ہم خود جانتے ہیں کہ یہ روش اور طریقہ سیف کا ہے جو ایک حدیث جعل کرتا ہے اور ایک افسانہ گڑھ کر اپنے ضمیر کی ندا کا مثبت جواب دیتا ہے اور اپنے خاندان مضر کی طرفداری میں انکی تعریف و تمجید میں داد سخن دیتا ہے اور یمانی انصار کے بارے میں طعنہ زنی اور دشنام سے کام لیتا ہے اور ان پر کیچڑ اچھالتا ہے خواہ وہ صحابی ہوں یا تابعی!!
مزید ہم نے کہا ہے کہ چونکہ سیف نے حدیث کے مآخذ میں '' سہل بن مالک'' کو کعب بن مالک کے بھائی کے طور پر پیش کیا ہے اس لئے علماء نے بھی اسی سے استناد کرکے سہل بن مالک کے نسب کو کعب بن مالک کے نسب سے جوڑ دیا ہے جبکہ خود اس کے خالق سیف نے اس قسم کا کوئی دعویٰ نہیں کیا ہے !
سیف نے سہل بن مالک سے مربوط روایت کو دوسری صدی کے آغاز میں اپنی کتاب فتوح میں لکھا ہے اس کے ایک سو سال گزرنے کے بعد خالد بن عمرو اموی ( وفات تیسری صدی ہجری) آتا ہے اور سیف کے مطالب کو اسی سہل کے بارے میں نقل کرتا ہے ۔
خالد بن عمرو اس قلمی سرقت میں سیف اور اس کی کتاب کا نام لئے بغیر روایت کو براہ راست سہل بن یوسف سے نقل کرتا ہے یہی امر سبب بنا کہ بعض علماء نے تصور کیا ہے کہ خالد بن عمرو نے شخصاً اس حدیث کے راوی سہل بن یوسف کو دیکھا ہے اور مذکورہ روایت کو براہ راست اس سے سنا ہے ۔ا سی بناء پر کہا جاتا ہے کہ خالد بن عمرو اس حدیث کا تنہا راوی ہے ۔
اس طرح بعض علماء نے اس حدیث کے صحیح ہونے اور اس نسب کے راویوں ( سہل بن یوسف بن سہل بن مالک) کے وجود پر شک کیا ہے ، کیونکہ قبیلۂ خزرج سے بنی سلمہ اور انصار سے غیر بنی سلمہ حتی غیر انصار میں ان ناموں کا سراغ نہیں ملتا ہے ۔ ٧٨٣
سر انجام ابن حجر آتا ہے اور اس روایت کے ، خالد سے برسوں پہلے ، سیف کی کتاب میں موجود ہونے کا انکشاف کرتا ہے اور اعلان کرتا ہے کہ ابن ''حبان'' نے بھی اس مطلب کو سیف سے نقل کیا ہے لیکن خود ابن حجر نے اس بات کی طرف توجہ نہیں کی کہ اس روایت کو گڑھنے والا۔ '' سہل بن مالک '' اور اس کے راویوں کو جعل کرنے والا خود سیف بن عمر ہے ، جس نے سیکڑوں اصحاب اور تابعین کو خلق کیا ہے ، قصے اور افسانے گڑھ کر ان سے نسبت دی ہے ان کی زبان سے روایتیں اور احادیث جاری کی ہیں اور ان سب چیزوں کو بڑی مہارت کے ساتھ اسلام کی تاریخ میں داخل کیا ہے اور اس طرح علماء محققین کیلئے حقیقت تک پہچنے میں مشکل کرکے انھیں پریشان کررکھا ہے ۔
اسی طرح ابن حجر نے اس موضوع پر بھی غور نہیں کیا ہے کہ راویوں کے اس سلسلہ کے نام سیف کی دوسری روایتوں میں بھی ذکر ہوئے ہیں جن میںسے بعض کو طبری نے اپنی تاریخ میں اور بعض کو دوسرے علماء نے اصحاب کی زندگی پر روشنی ڈالتے وقت ذکر کیا ہے ان میں ''عبیدبن صخر '' کے حالات پر روشنی ڈالنے والے مصنفوں کا نام لیا جا سکتا ہے ۔ اگر ابن حجر ان راویوں کے سیف کی دوسری روایتوں میں خودارادی کے طور پر وجود سے آگاہ ہوجاتا تو ''سہل بن مالک'' کتاب ''اصابہ'' میں سہل بن مالک (جو)کے حالات پر نیز لسان المیزان میں سہل بن یوسف کی زندگی پر روشنی ڈالتے وقت ان کی طرف اشارہ ضرور کرتا ۔
اس افسانہ کا نتیجہ
سیف نے '' سہل بن مالک انصاری '' جیسے صحابی اور اس کے خاندان کو خلق کرکے درج ذیل مقاصد حاصل کئے ہیں:
١۔ گروہ مہاجرین میں خاندان مضر کے سرداروں کیلئے ایک افتخار کسب کیا ہے اور رسول خدا ۖ سے ان کی تعریف و تمجید کرائی ہے ۔
٢۔ حدیث و اخبار کے تین راویوں کو خلق کرکے انھیں دوسرے حقیقی راویوں کی فہرست میں قرار دیا ہے ۔
٣۔ پیغمبر خدا ۖ کے شاعر کعب بن مالک انصاری کیلئے ایک بھائی خلق کر کے اس کانام ''سہل بن مالک ''رکھا ہے اور اس کا رسول خدا ۖکے صحابی کے طور پر تعارف کرایا ہے ۔
٤۔ مہاجر اصحاب کی منقبت میں ایک تعجب خیز روایت جعل کی ہے تا کہ حدیث حسبِ ذیل کتابوں میں منعکس ہوجائے اور مآخذ کے طور پر سالہا سال ان سے استفادہ کیا جا تار ہے :
١۔ '' ابن حبان '' ( وفات ٣٥٤ھ ) نے اپنی کتاب '' الصحابہ '' میں سیف کی کتابِ '' فتوح '' سے نقل کرکے ۔
٢۔ طبرانی ( وفات ٣٦٠ھ) نے اپنی کتاب '' المعجم الکبیر ، عن الصحابة الکرام '' میں ۔
٣۔ ''دار قطنی ''( وفات ٣٨٥ھ) نے کتاب ''' الافراد ' میں یہ تصور کیا ہے کہ خالد اس روایت کو نقل کرنے والا تنہا شخص ہے ۔
٤۔ ''ابن شاہین''(وفات ٣٨٥ھ) نے مذکورہ حدیث کو بصورت مرسل نقل کیا ہے ۔
٥۔ ''ابن مندہ ''( وفات ٣٩٩ھ) اس بھی گمان کیاہے کہ خالد تنہا شخص ہے جس نے اس روایت کو نقل کیا ہے ۔
٦۔ ''ابو نعیم ''( وفات ٤٣٠ھ) نے کتاب '' معرفة الصحابہ '' میں ۔
٧۔ ''ابن عبد البر ''( وفات ٤٦٣ھ) نے کتاب '' استیعاب '' میں اس نے بھی تصور کیا ہے کہ خالد اس حدیث کا تنہا راوی ہے ۔
٨۔ ''ابنوسی ''( وفات٥٠٥ھ) نے کتاب '' فوائد'' میں ۔ اس نے اسے خالد سے نقل کیا ہے۔
٩۔ ابن اثیر ( وفات ٦٣٠ ھ) نے کتاب '' اسد الغابہ '' میں ۔ ابن مندہ ، ابو نعیم اور ابن عبد البر سے نقل کیاہے ۔
١٠۔ ''ذہبی ''( وفات ٧٤٨ھ ) نے کتاب '' التجرید'' میں جو اسد الغابہ کا خلاصہ ہے ۔
١١١۔ ''مقدسی'' ( وفات ٦٤٣ھ نے '' کتاب المختارہ '' میں ۔ اس نے طبرانی پیروی کی ہے ۔
١٢۔ ''ابن حجر ''( وفات ٨٥٢ھ کتاب '' اصابہ '' میں حدیث کے متن سے پہلے اس کے بارے میں بحث کی ہے ۔
١٣۔ سیوطی ( وفات ٩١١ھ) نے کتاب ''جمع الجوامع'' میں ۔
١٤۔ متقی ( وفات ٩٧٥ھ) نے کتاب '' کنز ل العمال '' اور منتخب کنز العمال میںکتاب '''جمع الجوامع '' سے استفادہ کیا ہے ۔
مصادر و مآخذ
سہل بن مالک کے حالات
١۔ ابن عبد البر کی '' استیعاب ''
٢۔ ذہبی کی ''تجرید''
٣۔ ابن اثیر کی اسد الغابہ
٤۔ ابن حجمہ کی '' اصابہ''
سہل بن یوسف کے حالات
١۔ ابن حجر کی لسان المیزان
خالد بن عمرو کے حالات
١۔ '' رواة مختلقون '' اسی کتاب کے مؤلف کی تالیف
٢۔ ابن عساکر کی معجم الشیوخ
سہل بن مالک کے حالات پر تشریح کے ضمن میں حدیث پر ایک بحث
١۔ ابن حجر کی اصابہ
٢۔ متقی کی ' ' کنزل العمال'' باب سوم ، کتاب فضائل ، فصل دوم کے آخر میں (١٢ ١٥٥) ، اور فصل سوم کے آخر میں ( ١٢ ٢٣٩)
٣۔ متقی کی ''کنز ل العمال'' میں سیوطی سے نقل کرکے مذکورہ دونوں باب میں درج کیا ہے ۔
سیف بن عمر نے اپنی کتاب فتوح میں ، اس کے علاوہ ابن قانع، ابن شاہین ، ابن مندہ ، ابو نعیم ، ابن النجار اور ابن عساکر نے ذکر کیا ہے (گزشتہ حدیث کے آخرتک )
|