ایک سو پچاس جعلی اصحاب(جلدسوم)
 

ساتواں حصہ گروہ انصار میں سے چند اصحاب
rابوبصیرہ
rحاجب بن زید
rسہل بن مالک
rاسعد بن یربوع
rام زمل ، سلمی بنت حذیفہ
انچاسواں جعلی صحابی ابو بصیرۂانصاری
ابن عبد البر اپنی کتاب '' استیعاب '' میں ابو بصیرہ کے تعارف میں لکھتا ہے :
سیف بن عمر نے جنگِ یمامہ مسیلمہ کذاب سے جنگ میں شرکت کرنیو الے انصار کے ایک گروہ کے نام کے ضمن میں ابو بصیرہ کا نام لیا ہے اور کہا ہے خدا سے رحمت نازل کرے اس کے علاوہ اس کے بارے میں ایک داستان بھی نقل کی ہے ۔
دوسرے علماء جیسے ، ابن اثیر نے کتاب اسد الغابہ میں ، ابن حجر نے '' اصابہ'' میں اور ذہبی نے کتاب '' تجرید'' میں ابو بصیرہ کے بارے میں ابن عبد البر کی عین عبارت '' استیعاب '' سے نقل کی ہے اور اس میں کس قسم کا اضافہ نہیں کیاہے ۔
مقدسی نے بھی ابو بصیرہ کے حالات کی تشریح میں صرف یہ کہنے پر اکتفا کی ہے کہ سیف نے اس کا نام یمامہ کی جنگ میں شرکت کرنے والوں میں ذکر کیا ہے ۔
'' ابن ماکولا نے بھی ابو بصیرہ کے حالات کی تشریح میں لکھا ہے کہ سیف بن عمر کہتا ہے کہ اس نے بنی حنیفہ کی جنگ ( وہی جنگ یمامہ ) میں شرکت کی ہے ۔
لیکن جس خبر کی طرف ابن عبد البر نے اشارہ کیا تھا ۔ امام المؤرخین طبری نے اپنی تاریخ میں سیف بن عمر سے اس نے'' ضحاک بن یربوع '' سے اور اس نے اپنے باپ سے نقل کیا ہے جس کا خلاصہ ہم پیش کرتے ہیں :
سر انجام مسیلمہ کے حامی مقابلہ کی تاب نہ لاکر اسلام کے سپاہیوں کے ہاتھوں شکست کھائی۔ اور مسیلمہ مارا گیا اور اس کے حامی تتر بتر ہوگئے اس طرح ان کے بلوہ اور فتنہ کا خاتمہ ہوا۔
ان میں بنی عامر سے ایک شخص موجود تھا ، جسے '' اغلب '' کہتے تھے ١ '' اغلب '' وقت کا غنڈہ ترین شخص شمار کیا جاتا تھا ۔ ہٹا کٹا دکھائی دیتا تھا۔
جب مسیلمہ کی فوج تہس نہس ہوگئی اور اس کے حامی بھاگ کھڑے ہوئے تو، '' اغلب'' جان بچانے کے مارے اپنے آپ کو مردہ جیسا بناکر لاشوں میں گرادیا ۔ اس فتح کے بعد مسلمان دشمن کی لاشوں کا مشاہدہ کر رہے تھے ، اسی اثناء ان کی نظر ایک موٹے انسان اور غنڈہ '' اغلب '' پر پڑی ۔ لوگوں نے ابو بصیرہ سے مُخاطب ہوکر کہا :
تم مدعی ہو کہ تمہاری تلوار بہت تیز ہے اگر واقعاً ایسا ہے تو یہ '' اغلب '' کا مردہ جو زمین پر پڑا ہے،اس کی گردن کاٹ کر دکھاؤ!
ابو بصیر نے تلوار میان سے کھینچ لی اور آگے بڑھا تا کہ اپنے بازؤں کی قدرت اور تلوار کی
١۔سیف نے اس '' اغلب '' کو قبیلہ ٔ بکر بن وائل کے بنی عامر بن حنیفہ سے خلق کیا ہے اور اس کے بارے میں دکھایا گیا اس کا تعصب واضح ہے ، کتاب '' قبائل العرب ' ' کی طرف رجوع کیا جائے ۔
تیزی کا مظاہرہ کرے جب '' اغلب '' نے موت کے سائے اپنے سر پر منڈلاتے دیکھے تو اچانک اٹھ کر ابو بصیر پر جھپٹ پڑا اس کے بعد جان چھڑا کر تیزی سے بھاگ نکلا۔
ابو بصیرہ جو ایک لمحہ کیئے چونک گیا تھا ، اغلب کے پیچھے دوڑتے غیر ارادی طور پر فریاد بلند کررہا تھا: '' میں ابو بصیرہ انصاری ہوں '' لیکن اغلب جو کافی آگے بڑھ چکا تھا ، ابو بصیرہ کے جواب میں چیختے ہوئے بولا : اپنے کافر بھائی کے دوڑنے کو کیسا پایا ؟ اور اسی حالت میں نظروں سے اوجھل ہوگیا ۔

افسانۂ ابو بصیرہ کے مآخذ
سیف بن عمر نے اس افسانہ کے راوی کے طور پر '' ضحاک بن یربوع '' کو اپنے باپ سے نقل کرتے ہوئے پیش کیا ہے ۔
طبری نے سیف کے ذریعہ اسی ضحاک سے چار روایتیں اور ابن حجر نے '' اقرع '' کے حالات کی تشریح میں سیف سے نقل کرکے اس سے صرف ایک روایت نقل کی ہے ۔
ہم نے اس ضحاک کا کسی اسلامی ماخذ یا مصدر میںکوئی نام و نشان نہیں دیکھا صرف '' میزان الاعتدال '' اور '' لسان المیزان '' میں ضحاک کے حالات کی تشریح میں لکھا گیا ہے : کہ '' اس کی حدیث صحیح نہیں ہے ''۔ ازدی کی بات سے ایسا لگتا ہے کہ وہ اس بات سے غافل تھا کہ ان تمام فتنوں کا سرچشمہ سیف بن عمر ہے جس نے اس قسم کی جھوٹی روایت کو بیچارہ '' ضحاک'' کی زبان پر جاری کیا ہے ورنہ '' ضحاک بن یربوع''' نام کے کسی شخص کے بالفرض وجود کی صورت میں بھی وہ قصوروار نہیں ہے۔
چونکہ ہمیں معتبر منابع میں '' ضحاک '' نام کے کسی راوی کا نام نہیں ملا، اسلئے ہم اسے راویوں کی فہرست سے حذف کرتے ہوئے سیف کا خلق کردہ صحابی جانتے ہیں ۔

افسانۂ ابو بصیرہ کا نتیجہ
١۔ انصار میں سے ایک صحابی کی تخلیق جس نے یمامہ کی جنگ میں شرکت کی ہے ۔
٢۔ یمانی قحطانیوں کی رسوائی ، سیف ان کو اتنا بے لیاقت دکھاتا ہے کہ ایک عدنانی شخص جس نے ڈر کے مارے اپنے آپ کو مردہ جیسا بنا دیا تھا اور ان کے چنگل میں ہونے کے باوجود ، ان کی بے لیاقتی کی وجہ سے بھاگنے میں کامیاب ہوتا ہے ۔
٣۔ ابو بصیرہ قحطانی کی ناتوانی دکھلانا جو مکررکہہ رہا تھا ، '' میں ابو بصیرہ انصاری ہوں '' اور وہ عدنانی جواب دیتا تھا '' اپنے کافر بھائی کے دوڑنے کو کیسا پارہے ہو؟!!
٤۔ ضحاک بن یربوع اور یربوع جیسے راوی خلق کرنا۔

مصادر و مآخذ
ابو بصیرہ کے حالات
١۔ ابن عبد البر کی '' استیعاب '' (٢ ٦٣٠) نمبر : ٥٠
٢۔ ابن اثیر کی '' اسد الغابہ'' (٥ ١٥٠)
٣۔ ذہبی کی '' تجرید' '( ٢ ١٦٣)
٤۔ ابن حجر کی '' اصابہ'' ( ٤ ٢٢) نمبر : ١٤٣
٥۔ تاریخ طبری (١ ١٩٥٠)
٦۔ مقدسی کی کتاب '' استبصار'' ( ص ٣٣٨)
٧۔ ابن ماکولا کی کتاب '' اکمال '' ( ١ ٣٢٨)

ضحاک بن یربوع کے حالات
١۔ میزان الاعتدال ( ٢ ٣٢٧)
٢۔ ابن حجر کی '' لسان المیزان '' (٣ ٢٠١)

مراجع :
١۔ رضا کحالہ کی قبائل العرب ( ٢ ٧٠٦)