بیالیسواں اور تینتالیسواں جعلی صحابی
عوف ورکانی اور عویف زرقانی
سیف کی ایک مخلوق تین روپوں میں
طبری نے اپنی تاریخ میں سیف سے نقل کرکے رسول خدا ۖ کے ایلچیوں کے بارے میں یوں لکھا ہے :
...اور رسول خدا ۖ نے '' ضرار بن ازور اسدی'' کو اپنے ایلچی کے طور پر قبیلۂ بنی صیدا کے '' عوف زرقانی'' اور ... اور قضاعی دئلی کے پاس بھیجا۔
عوف کا نسب
سیف بن عمر نے اپنے صحابی عوف کو بنی صیداء سے جعلی کیا ہے جس قبیلہ کے سردار کا نام ''عمرو بن قعین بن حرث بن ثعلبہ بن دودان بن خزیمہ '' ہے ۔ پیغمبری کا دعویٰ کرنے والا طلیحہ بھی اسدی ہے جو بنی صیدا کا ایک قبیلہ ہے۔
عوف ورکانی کی داستان
ابن حجر کی '' اصابہ'' میں دو صحابیوں کے حالات کی تشریح یکے بعد دیگر آئی ہے ۔ ان میں سے ایک نمبر ٦١٠٨ کے تحت یوں درج ہے:
عوف ورکانی رسول خدا ۖ کے کارندوں میں سے تھا۔ آنحضرت ۖ نے ضرار بن ازور کو اپنے ایلچی کے طور پر اس کے پاس بھیجا اور اسے مرتدوں کے ساتھ نبرد آزما ہونے کا حکم دیا ہے ۔
اس کی داستان کو سیف بن عمر نے ذکر کیا ہے ہم نے اس کے مآخذ کا صلصل کی داستان کے ضمن میں اشارہ کیا ہے ۔
عویف ورقانی
اس کے بعد ابن حجر نمبر ٦١١٣ کے تحت عویف ورقانی کے حالات اس طرح لکھتا ہے:
سیف ارتدار کی خبروں میں اس کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتا ہے:کہ جب پیغمبر اسلامۖ کو پیغمبری کے مدعی طلیحہ کی بغاوت اور قیام کی خبر ملی تو آنحضرتۖ نے عویف ورقانی کو اس سے جنگ کرنے اور اس سے دفاع کرنے پر مامور فرمایا۔
عوف ورقانی
ذہبی نے اپنی کتاب '' تجرید '' میں عوف ورقانی نامی ایک صحابی کے بارے میں یوں لکھا ہے :
جب پیغمبری کے مدعی طلیحہ کا مسئلہ زور پکڑنے لگا تو رسول خدا ۖ نے '' عوف ورقانی '' کی قیادت میں ایک فوج کو اس مسئلہ کو ختم کرنے کیلئے روانہ فرمایا۔
ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ مکتب خلفاء کے پیرو جن علماء نے تین افراد کے حالات لکھے ہیں ، وہ سب کے سب سیف کی ایک روایت پر مبنی ہیں ، اس طرح کہ '' عوف '' کا نام بعض نسخوں میں '' عویف '' لکھا گیا ہے اور اس کی شہرت '' زرقانی '' سے ''ورقانی '' اور پھر '' ورکانی '' لکھی گئی ہے ۔ اس طرح سیف کا خلق کردہ ایک صحابی رسول خدا ۖ کے تین صحابیوں کے روپ میں مجسم ہوا ہے۔
جی ہاں ، یہ سب سیف کی روایتوں کے وجود کی برکت کا نتیجہ ہیں جو مکتب خلفا کے علماء کے قلموں کے ذریعہ کر ان کی کتابوں میں درج ہوئے ہیں!!
قضاعی بن عمرو سے متعلق ایک داستان
تاریخ طبری میں ذکر ہوئی سیف کی روایت میں آیا ہے کہ قضاعی بن عمرو کا تعارف دئلی کے طور پر کیا گیا ہے اور یہ شہرت '' دئلی'' عرب کے مختلف قبیلوں سے تعلق رکھتی ہے اور ہمیں یہ معلوم نہ ہوسکا کہ اس '' دئلی'' سے سیف کا مقصود کون سا عرب قبیلہ ہے ۔
ابن حجر کی '' اصابہ'' میں ' ' قضاعی بن عمرو'' کا نام یوں آیا ہے:
رسول خدا ۖ نے حجة الوداع سے واپسی پر '' سنان بن ابی سنان '' اور ''قضاعی بن عمرو'' کو قبیلہ بنی اسد کی طرف مموریت پر بھیجا۔
قضائی کی مموریت کی جگہ کے بارے میں '' تاریخ طبری'' اور ابن حجر کی ''اصابہ '' میں یوں آیا ہے:
قضائی بن عمرو ، بنی حرث میں رسول خدا ۖ کا کارندہ تھا۔
ایسا لگتا ہے کہ بنی حرث سے سیف کا مقصود دو دان بن اسد کا پوتا بنی حارث ہے ۔
تاریخ طبری میں سیف بن عمر سے منقول ہے کہ :
رسول خدا ۖ کی زندگی میں طلیحہ مرتد ہوا اور اس نے پیغمبری کا دعویٰ کیا ۔ رسول خدا ۖ نے ضرار بن ازور کو ایلچی کے طور پر '' سنان بن ابی سنان '' اور '' قضاعی بن عمرو'' ۔۔ جو بنی اسد میں آنحضرت ۖ کے گماشتے تھے ۔۔ کے پاس بھیجا اور انھیں طلیحہ سے جنگ کرنے کا حکم دیا ... یہاں تک کہ لکھتا ہے :
ضرار ، قضاعی ، سنان اور آنحضرتۖ کے بنی اسد میں دیگر کا رندے جن میں سے ہر ایک کسی نہ کسی مسئولیت کا عہدہ دار تھا ، سب کے سب طلیحہ کے ڈر سے بھاگ کر مدینہ ابو بکر کے پاس پہنچ گئے اور روداد ابو بکر سے بیان کی ان کے دیگر حامی اور دوست وا حباب بھی طلیحہ سے ڈر کر مختلف اطراف میں بھاگ گئے۔
طبری نے اپنی کتاب میں دوسری جگہ پر سیف سے نقل کرکے ١٦ ھ میں جلولا کی جنگ کی روداد کے ضمن میں لکھا ہے :
اور سعد بن ابی وقاص نے جنگی غنائم کے پانچویں حصہ کو قضاعی کے ہاتھ مدینہ میں خلیفۂ عمر کے پاس بھیجدیا۔
سیف کی روایتوں میں قضاعی بن عمرو کی داستان یہی تھی کہ جسے ہم نے بیان کیا ۔
افسانۂ قضاعی کے مآخذ اور راویوں کی پڑتال
سیف نے قضاعی کی داستان میں درج ذیل نام بعنوان راوی بیان کئے ہیں:
١۔ سعید بن عبید۔
٢۔ حریث بن معلی۔
٣۔ حبیب بن ربیعۂ اسدی۔
٤۔ عمارة بن فلان اسدی۔
٥۔ اور چند دوسرے مجہول الہویہ راوی کہ سب سیف کی خیالی تخلیق ہیں اور ان کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔
جی ہاں علماء نے اس اعتماد کے پیش نظر جو وہ سیف کی روایتوں پر رکھتے تھے، قضاعی بن عمرو کو صحابی کو رسول خدا ۖ صحابیسمجھا اور اس کے حالات پر روشنی ڈالی ہے ۔
ابن اثیر نے اپنی کتاب '' اسد الغابہ '' میں یوں لکھا ہے :
قضاعی بن عمر : سیف بن عمر نے نقل کیا ہے کہ وہ خاندان بنی اسد میں رسول خدا ۖ کے کارندوں میںسے تھا ۔ابن دباغ نے اس کا نام لیا ہے اور اس کے عبد البر کی کتاب ''استیعاب '' میں موجود ہونے کا تصور کیا ہے، اورخدا بہتر جانتا ہے ( ابن اثیر کی بات کا خاتمہ)
بہر حال ہم نے اس قضاعی کے نام کو جعلیصحابیوں کی فہرست سے حذف کر دیا ہے ، کیونکہ ابن سعد نے اپنی کتاب '' طبقات'' میں اس کے ہم نام کا ذکر کرکے اس کے نسب کو ' بنی عذر ہ '' بتایا ہے۔ ابن سعد نے اس کے بارے میںاپنی بات کا آغاز یوں کیا ہے
... الحدیث
لیکن مذکورہ حدیث ذکر نہیں کی ہے اور نہ اس کا کوئی مآخذ بیان کیا ہے ۔
چوالیسواں جعلی صحابی
قحیف بن سلیک ہالکی
قحیف ، طلیحہ سے جنگ میں
گزشتہ داستانوں کے ضمن میں ابن حجر نے اپنی کتاب '' اصابہ '' میں یوں لکھا ہے :
قحیف بن سلیک ہالکی ، بنی اسد کے ایک قبیلہ '' بنی ہالک '' ''ہ'' کے ساتھ بنی اسد کے خاندان سے ہے ۔
قحیف نے رسول خدا ۖ کے زمانہ میں اسلام قبول کیا ہے ۔ اس کے بعد اس نے ضرار بن ازور ، قضاعی بن عمرو اور سنان بن ابی سنان کے ہمراہ طلیحہ اسدی سے جنگ میں شرکت کی ہے اور پیکار کے دوران اس نے طلیحہ پر ایک مہلک اور کاری ضرب لگائی جس کے نتیجہ میں وہ زمین پر ڈھیر ہوکر بیہوش ہوگیا اسی اثناء میں طلیحہ کے حامی آ پہنچے اورقحیف کو موت کے گھاٹ اتاردیا۔
کچھ دیر کے بعد طلیحہ ہوش میں آگیا اور اپنا معالجہ کیا ، صحت یاب ہونے کے بعد یہ افواہ پھیلادی کہ اس پر کوئی اسلحہ اثر نہیں کرسکتا۔ اس طرح اس نے لوگوں کو تعجب میں ڈالدیا ۔
ابن حجر اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے لکھتا ہے :
البتہ ان مطالب کو سیف بن عمر نے قحیف بن سلیک کے بارے میں اپنی کتاب ''فتوح '' میں بدر بن حرث' اس نے عثمان بن قطبہ سے اور اس نے بنی اسد کے ذریعہ نقل کیا ہے ان کا باپ بھی ان میں سے تھا !!(ز)
اس داستان کے راویوں کے بارے میں ایک بحث
سیف نے روایت کے راوی کے طور پر '' بدر بن حارث '' کا تعارف کرایا ہے ۔ بدر کے باپ حارث کا نام غلط ہے ، اور صحیح '' بدر بن خلیل'' ہے جو سیف کے جعلی روایوں میں سے ایک تھا ، سیف نے اپنے اکثر افسانے اور جھوٹ اسی سے نقل کئے ہیں ۔
اور اگر غلطی سرزد نہ ہوئی ہو اور وہی '' بدر بن حارث '' ہو تو اس نام کو سیف کے دوسرے جعلی راویوں کی فہرست میں قرار دینا چاہئے۔
قحیف کی داستان کی تحقیق
سیف بن عمر کے زمانہ میں یمن میں قحیف نامی ایک نامور شاعر تھا ، ابن اثیر نے اپنی تاریخ کی کتاب '' کامل '' میں ١٢٤ ھ کے حوادث کے ضمن میں اس کا نام لیا ہے ۔ ہمیں یہ معلوم نہ ہوسکا کہ کیا سیف نے اپنے جعلی قحیف کو شاعر قحیف کا ہم نام خلق کیا ہے ، یعنی وہی کام کیا ہے جو اس نے ''خزیمہ بن ثابت '' سماک بن خرشہ اور جریر بن عبد اللہ کے بارے میں انجام دیا ہے یایوں ہی اچانک یہ نام اس کے ذہن میں آیا اور اس نے اپنے خلق کردہ صحابی کا نام یہی رکھا ہے اور اسی پر افسانہ گڑھ لیا ہے ۔
موضوع جو بھی ہو کوئی فرق نہیں ، ہم نے خاص طور سے اس موضوع کے بارے میں اس لئے اشارہ کیا ہے کہ ایسا نہ ہو کہ کوئی ابن اثیر کی تاریخ کی طرف رجوع کرکے یہ خیال کرے کہ سیف جعل کردہ شخصحقیقت میں تاریخ میں موجود ہے ۔
لیکن سیف نے ضرار بن ازور کو رسول خدا ۖ کی طرف سے ایلچی کے طور پر عوف ورکانی اور قضاعی بن عمرو کے پاس بھیجنے کا جوذکر کیا ہے اور ان دونوں نمائندوں کو آنحضرت ۖنے اسود کے ساتھ جنگ کرنے کی مموریت دی کہ اسے قتل کر ڈالیں ،یہ سب کا سب جعل اور جھوٹ ہے اور ہم نے اس سلسلے میں اپنی کتاب '' عبد اللہ بن سبا '' کی دوسری جلد میں مکمل تفصیل لکھی ہے ۔
مصادر و مآخذ
قضاعی بن عمرو کی داستان :
١۔ تاریخ طبری ( ١ ١٧٩٨ ، (١٧٩٩، ١٨٩٣ اور ٢٤٦٥)
٢۔ ابن اثیر کی '' اسد الغابہ '' ( ٤ ٢٠٥)
٣۔ ابن حجر کی '' اصابہ'' ( ٣ ٢٢٧)
٤۔ ابن سعد کی ''طبقات'' (١ ٢٣٢)
قضاعی بن عامر کی داستان
١۔ ابن اثیر کی '' اسد الغابہ '' (٤ ٢٠٥)
٢۔ ابن حجر کی '' اصابہ '' (٣ ٢٧٧) نمبر : ٧١١٧
قحیف بن سلیک کی داستان
١۔ ابن حجر کی اصابہ ( ٣ ٢٥٦ )نمبر : ٧٢٨١
ہالک بن عمرو کا نسب
١۔ اللباب (٣ ٢٨٣)
٢۔ ابن حزم کی جمہرہ ( ص١٩٠ ۔ ١٩٢)
شاعر قحیف کی داستان
١۔ ابن اثیر کی '' تاریخ کامل'' طبع دار صادء (٥ ٣٠٠)
|