اڑتیسواں جعلی صحابی
صلصل بن شرحبیل
صلصل ، ایک گمنام سفیر :
سیف کی اس روایت میں جس میں رسول خدا ۖ کے سفیروں کے نام آئے ہیں ، صلصل کے بارے میں یوں ذکر ہوا ہے :
صلصل بن شرحبیل کو '' سبرۂ عنبری ، وکیع دارمی ، عمرو بن محجوب عامری ، اوربنی عمرو کے عمروبن الخفاجی '' کے پاس اپنی طرف سے سفیر بنا کر بھیجا ۔ ابن حجر نے ''صفوان بن صفوان اسید '' کے حالات کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے :
اسی طرح سیف نے ارتداد کی جنگوں کے ضمن میں ابن عباس سے نقل کرکے ذکر کیا ہے کہ رسول خدا ۖ نے صلصل بن شرحبیل کو اپنے ایلچی کے طور پر صفوان بن صفوان تمیمی ، وکیع بن عدس دارمی اور دیگر لوگوں کے پاس بھیجا تا کہ وہ انہیںمرتدوں سے جنگ کرنے کی ترغیب دے ۔
ہم نے سیف کی ان دو روایتوں کے علاوہ ۔۔ جوخود اس صحابی کے نام کو خلق کرنے والا ہے ۔۔ صلصل کا نام کہیں اور نہیں پایا۔
کتاب ' استیعاب '' کے مصنف ابو عمر ، ابن عبد البر نے صلصل کے حالات کی تشریح میں لکھاہے:
صلصل بن شرحبیل : میں نہیں جانتا کہ کس خاندان سے ہے۔ وہ رسول خدا ۖ کے صحابیوں میں سے تھا ، لیکن مجھے اس کی کسی روایت کا سراغ نہ ملا ۔ اس کی خبر پیغمبر ۖ کی طرف سے چند ایلچیوں کو روانہ کرنے کے ضمن میں آئی ہے کہ آنحضرت ۖ نے اسے اپنے سفیر کے طور پر '' صفوان بن صفوان ١ ، سبرہ عنبری ، وکیع دارمی ، عمرو بن محجوب عامری اور بنی عامر کے عمرو بن الخفاجی '' کے پاس بھیجا تھا ، وہ رسول خدا ۖ کا ایک سفیر تھا ۔
ابن اثیر نے ، ابن عبد البر کی عین عبارت کو اپنی کتاب '' اسد الغابہ '' میں اور ذہبی نے '' تجرید '' میں صلصل بن شرحبیل کے حالات کی تشریح میں نقل کیا ہے اور ابن حجر نے اسے خلاصہ کرکے اپنی کتاب '' اصابہ '' میں درج کرکے یوں لکھا ہے :
اس کا ۔۔ صلصل بن شرحبیل۔۔ نام صفوان بن صفوان کے حالات کی تشریح میں گزرا ، ابو عمر ۔۔ استیعاب کامصنف ۔۔ کہتا ہے کہ میں اس کے خاندان کو نہیں جانتا اور مجھے اس کی روایت کا کوئی سراغ نہیں ملا ہے ۔( ابن حجر کی بات کا خاتمہ)
ان نامور علماء نے ، سیف کے خلق کردہ صلصل بن شرحبیل کے حالات کے بارے میں سیف کی روایت سے اسی پر اکتفاء کیا ہے ۔ چونکہ سیف نے بھی اس کے علاوہ کچھ نہیں لکھاہے لہذا وہ بھی نہ اس کے نسب کے بارے میں اور نہ ہی اس کی روایتوں کے بارے میں اطلاع رکھتے ہیں۔
..............
١۔ صفوان کے باپ کا نام ابن عبدالبر کی کتاب '' استیعاب '' میں '' امیہ '' آیا ہے جو غلط ہے ۔ کیونکہ صفوان بن امیہ اسلام لانے کے بعد مکہ سے باہر نہیں نکلا ہے ۔ اس خبر کا مآخذ بھی سیف کی روایت ہے جس میں '' صفوان بن صفوان '' بتایا گیا ہے ۔
انتالیسواں جعلی صحابی
عمرو بن محجوب عامری
جعلی روایتوں کا ایک سلسلہ
مکتبِ خلفاء کے پیرو علماء نے سیف کی مذکورہ دو روایتوں پر مکمل اعتماد کرکے سیف کی ایک اور مخلوق '' عمرو بن محجوب عامری '' کو ایک مسلم حقیقت کے عنوان سے رسول خدا ۖ کے واقعی صحابی کے طور پر درج کیا ہے ۔
یہ بھی قابل ذکر ہے کہ سیف نے اپنے خلق کردہ صحابی کیلئے جو نسب گڑھا ہے وہ عامری ہے ۔ اور یہ '' عامر '' کی طرف نسبت ہے جو قبائل '' ُمعد اور قحطانی '' کے خاندانوں سے متعلق ہے ۔
لیکن ہمیں یہ معلوم نہ ہوسکا کہ سیف نے اس صحابی کو ان قبیلوں میں سے کس قبیلہ سے خلق کیا ہے ۔
عمرو بن محجوب کی داستان :
ہم نے دیکھا کہ طبری نے رسول خداۖ کے سفیروں کے ضمن میں سیف سے روایت کرکے صلصل کا نام لیا ہے اور اس کی ممور یتوں کے بارے میں یوں بیان کیا ہے کہ وہ پیغمبرا خدا ۖ کی طرف سے ممور تھا کہ '' بنی عامر عمرو بن محجوب اور عمرو بن خفاجی '' سے ملاقات کرے۔
ابن حجر نے '' اصابہ '' میں اس عمرو بن محجوب کے حالات کی تشریح میں لکھا ہے :
عمروبن محجوب عامری وہ صحابی ہے جسے ابن فتحون نے دریافت کیا ہے اور سیف بن عمر نے اپنی کتاب '' فتوح '' میں ابن عباس سے دو سند کے ساتھ روایت کی ہے کہ عمروبن محجوب رسول خدا ۖ کے گماشتوں اور کارندوں میں سے تھا ، اور زیاد بن حنظلہ کے ذریعہ اسے فرمان دیا گیا ہے کہ پوری طاقت کے ساتھ مرتدوں سے جنگ کرنے کیلئے اٹھ کھڑا ہو ۔ ہم نے اس عمرو کا نام '' صفوان بن صفوان '' کے حالات پر روشنی ڈالنے کے ضمن میں ہے ۔( ابن حجر کی بات کا خاتمہ)
اس لحاظ سے عمرو بن محجوب کا نام سیف کی ایک روایت کے مطابق تاریخ طبری میں اور دو روایتوں کے مطابق سیف کی کتاب فتوح میں آیا ہے ،اور ابن حجر نے ان کو خلاصہ کے طور پر اپنی کتاب ''اصابہ '' میں نقل کیا ہے ۔
چوتھی روایت وہاں ہے جہاں ابن حجر نے صفوان کے حالات کی تشریح میں اس کا نام لیا ہے کہ ہم نے اسے صلصل بن شرحبیل کے حالات کی تشریح میں نقل کیا ہے ۔
یہ امر قابل توجہ و دقت ہے کہ ان روایتوں میں سے ہر ایک دوسری پر ناظر اور اس کی مؤید شمار ہوتی ہے ۔ مثال کے طور پر یہ عمرو بن محجوب عامری پیغمبر خدا ۖ کے ان گماشتوں اور کارندوں میں سے ہے کہ جس کی مموریت کے دوران اسے دو خط ملے ہیں ایک صلصل کے ذریعہ اور دوسرا زیاد بن حنظلہ رسول خداۖ کے صحابی کے ذریعہ ، ان دو خطوط میں آنحضرت ۖ نے اسے شرک و ارتداد کے خلاف ثابت قدم رہنے کاحکم دیا ہے ۔
انہی روایتوں پر ، ابن فتحون اور ابن حجر جیسے علماء نے پوراا عتماد کر کے پہلے (ابن فتحون) ابن فتحون نے سیف کے اس جعلی صحابی کے حالات '' استیعاب ''کے حاشیہ میں درج کئے اور دوسرے (ابن حجر) نے اپنی معتبر کتاب اصابہ میں اس کیلئے مخصوص جگہ وقف کی ہے ...
چالیسواں جعلی صحابی
عمرو بن خفاجی عامری
مسیلمہ سے جنگ کی مموریت
مکتبِ خلفاء کے پیرو علماء نے سیف کی انہی گزشتہ روایتوں پر اعتماد کرکے ، عمرو بن خفاجی عامری کو پیغمبر خدا ۖ کے اصحاب میں شمار کیا ہے اور اس کے حالات پر روشنی ڈالی ہے ۔
ابن حجر نے اپنی کتاب میں پیغمبر خدا ۖ کے صحابیوں کے پہلے گروہ کے لئے ایک فصل مخصوص کی ہے اور اس فصل میں نمبر : ٥٨٢٧ حرف '' ع'' کے تحت لکھا ہے :
عمرو بن خفاجی عامری ، اس کا نام صلصل بن شرحبیل کے حالات میں آیا ہے ۔ '' رشاطی'' ١نے لکھا ہے کہ وہ ۔۔ عمرو بن خفاجی ۔۔ پیغمبر خداۖ کی مصاحبت سے شرف یاب ہوا ہے اور آنحضرتۖ کے اصحاب میں شمار ہوتا ہے۔
رسول خدا ۖ نے ایک خط کے ذریعہ اسے اور عمرو بن محجوب کو حکم دیا کہ وہ مرتدوں سے جنگ کرنے کیلئے آمادہ ہوجائیں ۔ انہی مطالب کو طبری نے بھی نقل کیا ہے ۔
..............
١۔ رشاطی ، ابو محمد عبدا للہ بن علی بن عبد اللہ بن خلف لخمی اندلسی ایک عالم ، محدث، فقیہ ،مؤرخ ، نسب شناس ، ادیب اور لغت شناس تھا، رشاطی ماہ جمادی الاول یا جمادی الثانی سال(٤٦٦ ھ ۔ ١٠٧٤ء )میں ''ادریولہ '' مرسیہ میں پیدا ہوا ۔ اور جمادی الاول یا جمادی الثانی سال ٥٤٢ ھ = ١١٤٧ئ) میں رومیوں کے حملے میں اپنے وطن میں ہی قتل ہوا ۔ اس کی تصنیفات میں '' اقتباس الانوار و التماس الازہار'' یہ کتاب انساب صحابہ اور روات اخبار کے بارے میں ہے اور دوسری کتاب '' المؤتلف '' قابل ذکر ہیں ، معلوم کہ ان دو کتابوں میں سے کس میں اس نے '' عمرو'' کے حالات لکھے ہیں !!۔
سیف بن عمر نے روایت کی ہے کہ جو صحابی مرتدوں سے جنگ کرنے کے بارے میں پیغمبر خدا ۖ کا خط عمروبن خفاجی کے نام لایا تھا۔ وہ زیاد بن حنظلہ تھا (ز)
ہم جانتے ہیں کہ ابن حجر کے حرف (ز) لکھنے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اس صحابی کے حالات دوسروں کے مقابلہ میں اس نے دریافت کئے ہیں۔
اکتالیسواں جعلی صحابی
عمرو بن خفاجی عامری
ابن حجر کی غلط فہمی سے وجود میں آیا ہوا صحابی
ابن حجر نے اپنی کتاب '' اصابہ '' کے تیسرے حصہ کو ان اصحاب سے مخصوص رکھا ہے جو پیغمبر خدا ۖ کے زمانے میں زندہ تھے لیکن آنحضرت ۖ کی مصاحبت اور دیدار سے شرفیاب نہیں ہوئے تھے وہ حرف '' ع'' کے تحت لکھتا ہے :
عمرو بن خفاجی عامری : سیف بن عمر نے لکھا ہے کہ رسول خدا ۖ نے اسے ۔۔ عمرو بن خفاجی ۔۔ اور عمرو بن محجوب عامری کو پیغام بھیجا اور انھیں ممور فرمایا وہ کہ مسیلمۂ کذاب سے جنگ کرنے کیلئے آمادہ ہوجائیں ۔ طبری نے اپنی تاریخ میں اس کا ذکر کیا ہے اور ابن فتحون نے اس کے نام کو دوسرے مصادر سے دریافت کیا ہے (ز)۔
اس طرح ابن حجر جیسے مشہور علامّہ نے بھی غلط فہمی کا شکار ہوکر '' عمرو بن خفاجی '' کے حالات اپنی کتاب میں دو جگہوں پر لکھے ہیں۔
جبکہ خودسیف جو اس شخص کا افسانہ گڑھنے کرنے والا ہے ، نے اسے صرف ایک شخص جعل کیا ہے۔
یہ بھی قابل ذکر ہے کہ تاریخ طبری میں عمرو بن خفاجی کا نسب '' بنی عمرو '' لکھا گیا ہے ۔ جبکہ ابن عبد البر کی کتاب '' استیعاب '' میں صلصل کے حالات کی تشریح میںیہ نسب (بنی عامر ) ذکر ہوا ہے ۔
اس داستان کا خلاصہ اور نتیجہ
سیف بن عمر نے اپنے ایک ہی مقصد کو اپنی دو بناوٹی روایتوں میں بیان کیا ہے نتیجہ یہ ہے کہ رسول خدا ۖ نے صلصل نام کے ایک شخص کو قاصد و ایلچی کے طور پر اپنے گماشتوں اور کارندوں کے پاس بھیجا اور اسے علاقہ کے مرتدوں سے جنگ کرنے کی ترغیب دی ہے ۔ سیف کی اسی ایک جھوٹی داستان کے نتیجہ میں علماء نے اس کے افسانوی صحابیوں کو پیغمبر خدا ۖ کے حقیقی اصحاب کی فہرست میں شمار کیا ہے اور درج ذیل جعلی اصحاب کی زندگی کے حالات لکھے ہیں:
١۔ صلصل بن شرحبیل
٢۔ عمروبن محجوب عامری
٣۔ عمروبن خفاجی عامری
٤۔ عمرو بن خفاجی عامری
صفوان بن صفوان
ہمیں اس صفوان بن صفوان کے سیف کے جعلی صحابی ہونے پر شک ہے ، اگر ایسے شخص کو سیف نے خلق بھی نہ کیا ہوپھر بھی اس کا صحابی ہونا سیف بن عمر کے خلق کرنے سے کچھ کم نہیں ہے ۔
جو کچھ بیان ہوا اس کے علاوہ سیف نے اپنی جعلی روایتوں میںپیغمبر خدا ۖ کے زمانہ میں ہی مسلمانوں کے اسلام سے منہ موڑنے کی بات کی ہے ۔ اس نے ان جھوٹے اور بے بنیاد مطالب کو آپس میں جوڑ کر اسلام کے دشمنوں کے ہاتھ میں بہانہ فراہم کیاہے کہ وہ یہ دعویٰ کریں کہ اسلام نے دلوں میں جگہ نہیں پائی تھی اور اس زمانے کے قبائل کے لوگوں کے وجود کی گہرائیوں میں اسلام نے اثر نہیںڈالا تھا ، اسی لئے پیغمبر خدا ۖ کے زمانے میں ہی اسلام کے مقابلے میں آکر تلوار کھینچیلی ہے!
پھر یہی سیف کی روایتیں اور جھوٹ کے پلندے اور ارتداد کی جنگوں کی منظر کشی ، قارئین کے ذہن کو یہ قبول کرنے پر مجبور کرتی ہے کہ اسلام نے ایک بار پھر ابو بکر کی خلافت کے زمانے میں تلوار کی نوک پر اور بے رحمانہ قتل عام کے نتیجہ میں استحکام حاصل کیا ہے ۔ ہم نے اس موضوع پر اپنی کتاب '' عبد اللہ ابن سبا ''میں مفصل بحث و تحقیق کی ہے ۔
سر انجام ہم دیکھتے ہیں کہ اسلام اور پیغمبر اسلام ۖ سے متعلق انہی جھوٹ اور افسانوں کو مکتب خلفاء کے پیرؤ علماء نے حسبذیل معتبر مآخذ میں درج کیا ہے :
١۔ امام المؤرخین ابن جریر طبری نے اپنی تاریخ میں ۔
٢۔ ابو عمر ، ابن عبد البر نے '' استیعاب '' میں
٣۔ ابن اثیر نے اپنی تاریخ میں
٤۔ ابن فتحون نے ، استیعاب کے ذیل میں ۔
٥۔ ابن اثیر نے اسد الغابہ میں ۔
٦۔ رشاطی نے '' انساب الصحابہ'' میں ۔
٧۔ ذہبی نے ''تجرید'' میں ۔
٨۔ ابن حجر نے '' الاصابہ'' میں۔
مصادر و مآخذ
صلصل کے حالات :
١۔ '' استیعاب '' طبع حیدر آباد دکن ( ١ ٣٢٥) نمبر : ١٤١٨
٢۔ '' اسد الغابہ '' ابن اثیر ( ٣ ٢٩)
٣۔ ذہبی کی '' تجرید' '(١ ٢٨٢)
٤۔ ابن حجر کی '' اصابہ'' (٢ ١٨٧) نمبر : ٤٠٩٩
٥۔ تاریخ طبری (١ ١٧٩٨) ١١ھ کے حوادث کے ضمن میں ۔
صفوان بن صفوان کے حالات
١۔ ابن حجرکی '' اصابہ ''(٢ ١٨٣) نمبر : ٤٠٧٦
عمر و بن محجوب عامری کے حالات
١۔ابن حجر کی اصابہ (١٥٣) نمبر ١٩٥٦
٢۔ تاریخ طبری (١ ١٧٩٨)
عمرو بن خفاجی عامری کے حالات
١۔ ابن حجر کی '' اصابہ'' (٢ ٥٢٨) نمبر : ٥٨٢٧
عمرو بن خفاجی عامری کے حالات
١۔ ابن حجر کی '' اصابہ'' (٣ ١١٤) نمبر: ٦٤٨٤
|