پانچواں حصہ
رسول خدا ۖ کے ایلچی
r٣٥۔ وبرة بن یحنس،خزاعی۔
r٣٦۔ اقرع بن عبد اللہ ، حمیری
r٣٧۔ جریر بن عبد اللہ حمیری
r٣٨۔صلصل بن شرحبیل
r٣٩۔ عمرو بن محجوب عامری
r٤٠۔ عمر وبن خفاجی ، عامری
r٤١۔ عمرو بن خفاجی عامری
r٤٢۔ عوف ورکانی۔
r٤٣۔ عویف زرقانی
r٤٤۔ قحیف بن سلیک ھالکی
r٤٥۔ عمرو بن حکم قضاعی
r٤٦۔ امرؤ القیس ( بنی عبد اللہ سے )
رسول خدا ۖ کے ایلچی اور گورنر
طبری نے سیف سے نقل کرکے لکھا ہے کہ پہلا شخص جس نے طلیحة بن خویلد کی بغاوت کی خبر رسول خدا ۖ کو پہنچائی، وہ بنی مالک میں آنحضرت ۖ کا گماشتہ اور کارندہ'' سنان بن ابی سنان'' تھا۔
وہ ایک دوسری روایت میں لکھتا ہے :
رسول خدا ۖ نے اس خبر کے سننے کے بعد ، اپنی طرف سے ایک ایلچی کو یمن میں مقیم چند سرکردہ ایرانیوں کے پاس بھیجا اور انھیں لکھا کہ طلیحہ کا مقابلہ کرنے کے لئے اٹھیں اور تمیم و بنی قیس کے لوگوں پر مشتمل ایک فوج کو منظم کرکے ان کی حوصلہ افزائی کریں تا کہ وہ طلیحہ سے جنگ کرنے کیلئے اٹھیں انہوں نے اس حکم کی اطاعت کی اور اس طرح مرتدوں کیلئے ہر طرف سے راستہ بند کیا گیا۔
پیغمبری کا مدعی، '' اسود'' پیغمبر خدا ۖ کی حیات میں ہی مارا گیا اور طلیحہ و مسیلمہ بھی پیغمبر خدا ۖ کے ایلچیوں کے محاصرہ میں پھنس گئے ۔
بیماری کی وجہ سے پیغمبر اسلامۖ کو جو درد و تکلیف ہورہی تھی، وہ بھی آپ کیلئے فرمان الٰہی کی اطاعت اور دین کی حمایت کرنے میں رکاوٹ نہ بنی اور آنحضرت نے اسی حالت میں مندرجہ ذیل افراد کو پیغام رسانی کا فریضہ انجام دینے کیلئے اپنے ایلچیوں کے طور پر روانہ فرمایا:
١۔ وبرة بن یحنس کو '' فیروز ، جشیش دیلمی اور دازویہ استخری '' کے پاس بھیجا۔
٢۔ جریر بن عبد اللہ کو ایلچی کے طور پر '' ذی الکلاع اور ذی ظلیم '' کے ہاں روانہ فرمایا۔
٣۔ اقرع بن عبد اللہ حمیری نے آنحضرت ۖ کا پیغام '' ذی رود '' اور '' ذی مران '' کو پہنچایا۔
٤۔ فرات بن حیان عجلی کو ایلچی کے طور پر '' ثمامۂ آثال '' بھیجا۔
٥۔ زیاد بن خنظلہ تمیمی عمری کو '' قیس بن عاصم'' اور '' زبر قان بن بدر '' سے ملاقات کرنے کی مموریت عطا فرمائی۔
٦۔ صلصل بن شرجیل کو سبرة بن عنبری ، وکیع دارمی، عمرو بن محجوب عامری عمرو بن محجوب عامری اور بنی عمرو کے عمرو بن خفاجی کے پاس بھیجا۔
٧۔ ضرار بن ازور اسدی کو بنی صیدا کے عوف زرقانی ، سنان اسدی غنمی اور قضاعی دئلی کے ہاں جانے پرممورکیا۔
٨۔نعیم بن مسعود اشجعی کو ذی اللحیہ اور ابنمسیمصہجبیری سے ملاقات کرنے کی ذمہ داری سونپی۔
ابن حجر کی اصابہ میں '' صفوان بن صفوان '' کے حالات کی تشریح کے ضمن میں سیف کی روایت یوں ذکر ہوئی ہے:
صلصل بن شرحبیل کو ۔۔ رسول خدا ۖ نے ۔۔ اپنے ایلچی کے طور پر اسے صفوان بن صفوان تمیمی اور وکیع بن عدس دارمی وغیرہ کے پاس بھیجا اور انھیں مرتدوں سے جنگ کرنے کی دعوت اور ترغیب دی۔
تاریخی حقائق پر ایک نظر
تاریخ نویسوں نے رسول خدا ۖ کے ان تمام ایلچیوں اور پیغام رسانوں کا نام درج کیا ہے جنھیں آنحضرت ۖ نے مختلف بادشاہوں ، قبیلہ کے سرداروں اور دیگر لوگوں کے پاس بھیجا تھا۔لیکن ان کے ہاں کسی صورت میں مذکورہ افراد کا نام اور ان کے پیغام رسانی کے موضوع کا ذکر نہیں ہوا ہے۔
'' ابن خیاط'' نے اپنی تاریخ میں ، پیغمبر خدا ۖ کے ایلچیوں کے بارے میں بحث کے دوران لکھا ہے :
١۔ عثمان بن عفان کو حدیبیہ کے سال
مکہ کے باشندوں کے پاس۔
٢۔ عمرو بن امیہ صمری کو ایک تحفہ کے ساتھ
مکہ ، ابو سفیان بن حرب کے پاس۔
٣۔ عروة بن مسعود ثقفی کو
طائف ، اپنے خاندان کے پاس۔
٤۔ جریر بن عبد اللہ کو
یمن ، ذی کلاع اور ذی رعین کے پاس۔
٥۔ وبر بن یحنس کو
یمن میں ایرانی سرداروں کے پاس۔
٦۔ خبیب بن زید بن عاصم ۔۔ کو مسیلمہ کذاب کے پاس جو مسیلمہ کے ہاتھوں قتل ہوا ۔۔
٧۔ سلیط بن سلیط کو
یمامہ کے باشندوں کے پاس۔
٨۔ عبد اللہ بن خدافہ سہمی کو
بادشاہ ایران کسریٰ کے پاس۔
٩۔ دحیة بن خلیفہ کلبی کو
قیصر ، روم کے بادشاہ کے پاس۔
١٠۔ شجاع بن ابی وہب اسدی کو،
حارث بن ابی شمّر غسانی یا جبلة بن ایہم کے پاس
١١۔ حاطب بن ابی بلتعہ کو
مقوقس ، اسکندریہ کے حکمران کے پاس
١٢۔ عمروبن امیہ ضمری کو
نجاشی حبشہ کے پاس۔
اس طرح خلیفہ بن خیاط ، رسول خدا ۖکے ان ایلچیوں اور پیغام رسانوں کا نام اپنی کتاب میں لیتا ہے جنہیں رسول خدا ۖ نے مختلف علاقوں اور شخصیتوں کے پاس بھیجا ہے ۔ لیکن ان میں سیف کے خلق کردہ ایلچیوں کا کہیں نام و نشان نہیں ملتا۔
سیف کی حدیث میں رسول خدا ۖ کے آٹھ ایلچیوں کے نام لئے گئے ہیں جنہوں نے مختلف بیس شخصیتوں سے ملاقات کی ہے ۔ ان پیغام رسانوں اور پیغام حاصل کرنے والوں کے مجموعہ میں سیف کے دس جعلی صحابی بھی نظر آتے ہیں جن کے بارے میں ہم الگ الگ بحث کریں گے۔
پینتیسواں جعلی صحابی
وبرة بن یحنس
سیف کی روایتوں کے مطابق تاریخ طبری میں آیا ہے کہ وہ پیغمبر خدا ۖ کے آٹھ ایلچیوں میں سے ایک ہے ۔ آنحضرتۖ نے اپنی حیات کے آخری ایام میں بیماری کے دوران ١١ ھ میں یمن میں مقیم ایرانی سرداروں سے ملاقات کرنے کیلئے اسے ممور کیاہے۔
وبرہ ان سرداروں کیلئے آنحضرت ۖ کا ایک خط ساتھ لے گیا ، جس میں پیغمبر خدا ۖ نے انھیں امر فرمایا تھا کہ '' اسود'' کے خلاف جنگ کرکے اسے قتل کر ڈالیں اور تاکید فرمائی تھی کہ اسود کو قتل کیا جائے ، چاہے مکر و فریب اور جنگ وخونریزی کے ذریعہ ہی سہی۔
وبرہ ، یمن میں '' دا زویۂ فارسی '' کے پاس پہنچتا ہے ، سر انجام '' فیروز'' اور ''جشیش دیلمان'' کی ساتھ ایک نشست تشکیل دیتے ہیں اور '' قیس بن عبد یغوث '' ۔۔ جوبقول سیف اسود کی سپاہ کا سپہ سالار اعظم تھا۔۔ سے سازش کرکے '' اسود '' کو قتل کرنے میں اس کی موافقت حاصل کرتے ہیں۔
یہ لوگ رات کے اندھیرے میں '' اسود'' کے گھر میں جمع ہوکر اسے قتل کر ڈالتے ہیں ۔ طلوع فجر ہوتے ہی ''جشیش'' یا '' وبرہ '' نماز کیلئے اذان دیتا ہے اور '' وبرة '' کی امامت میں فجر کی نماز پڑھی جاتی ہے۔
اپنی مموریت کو انجام دینے کے بعد ''وبرہ'' ابو بکر کے پاس مدینہ پلٹتا ہے۔
کتاب '' استیعاب '' اور '' اصابہ'' میں یہ داستان سیف سے نقل ہوئی ہے اور اس نے ضحاک بن یربوع سے اس نے ماہان سے اور اس نے ابن عباس سے روایت کی ہے۔
مذکورہ دو کتابوں میں '' وبرة بن یحنس'' کے بارے میں طبری سے نقل کرکے سیف کی روایتیں اس مختصر سند اور اس تفاوت کے ساتھ درج ہوئی ہیں کہ تاریخ طبری میں '' وبرہ'' '' ازدی '' ہے جبکہ مذکورہ دو کتابوں میں '' خزاعی '' ذکر ہوا ہے۔
سیف کی احادیث میں وبرہ کی داستان یہی تھی جو اوپر ذکر ہوئی ۔ ہاں جو پیغمبر خدا ۖ کا حقیقی صحابی تھا ، اس کا نام '' وبر بن یحنس کلبی '' تھا ، اس کے بارے میں یوں بیان ہوا ہے :
رسول خدا ۖ نے ١٠ ھ میں '' وبر '' کو مموریت دے کر ایرانی سرداروں کے پاس یمن بھیجا۔ '' وبر '' وہاں پر '' نعمان بن بزرج'' سے ملا اور کچھ لوگوں نے اس کے ہاتھوں پر اسلام قبول کیا۔ ''نعمان بن بزرج'' نے '' وبر '' سے روایت کی ہے: کہ
رسول خدا ۖ نے اسے وبر سے فرمایا تھا کہ صنعا میں داخل ہونے کے بعد '' ضبیل '' کے اطراف صنعا میں واقع پہاڑ میں واقع مسجد میں نماز پڑھنا۔
نقل کیا گیا ہے کہ اس کا بیٹا '' عطاء '' پہلا شخص تھا جس نے یمن میں قرآن مجید کو اکٹھا کرنے کا کام شروع کیاتھا۔
ابن حجر نے اپنی کتاب ''' اصابہ '' میں '' وبر بن یحنس'' کی زندگی کے حالات نمبر ٩١٠٥ کے تحت اور سیف کی تخلیق '' وبرة بن یحنس '' کے حالات بھی نمبر ١٩٠٩ کے تحت درج کئے ہیں۔
یہاں پر ابن اثیر غلط فہمی کا شکار ہوا ہے ۔ اس نے اس خیال سے کہ یہ دونوں ایک ہی شخص ہیہیں، دو خبروں کو یکجااپنی کتاب '' اسد الغابہ '' میں لکھا ہے :
''وبر'' اور کہا گیا ہے '' وبرة بن یحنس'' خزاعی ، آنحضرت ۖ کے حضور آپ کی فرمائشات سن رہا تھا ۔ نعمان بن بزرج نے اس سے روایت کی ہے کہ رسول خدا ۖ نے اس سے فرمایا ہے : جب ''ضبیل'' کے اطراف میں واقع صنعاء کی مسجد میں پہنچنا تو وہاں پر نماز پڑھنا۔
ان مطالب کو تین مصادر نے ذکر کیا ہے ۔ ابو عمر کہتا ہے کہ یہ وہ شخص ہے جسے رسول خدا ۖ نے ''داذویہ '' ، فیروز دیلمی'' اور '' جشیش دیلمی '' کے پاس اپنے ایلچی کے طور پر بھیجا تھا تا کہ پیغمبری کے مدعی ''اسود عنسی'' کو قتل کر ڈالیں ( ابن اثیر کی بات کا خاتمہ )
ابن اثیر نے غلطی کی ہے کیونکہ نعمان نے مسجد صنعاء میں جس شخص کے نماز پڑھنے کے بارے میں روایت کی ہے وہ '' کلبی ''ہے۔
اور جسے سیف نے خلق کرکے پیغمبر ۖ کے ایلچی کے طور پر اسود کو قتل کرنے کیلئے یمن بھیجا ہے وہ ''خزاعی'' یا '' ازدی'' ہے۔
بعید نہیں کہ ابن اثیر کی غلط فہمی کا سرچشمہ یہ ہو کہ اس نے سیف کی اس حدیث کو ابن عبد البر کی کتا ب استیعاب سے مختصر علامت '' ب'' سے نقل کیا ہے لیکن '' وبر کلبی '' کی داستان کو ابن مندہ کی کتاب '' اسماء الصحابہ '' سے مختصر علامت '' د'' سے اور ابو نعیم کی کتاب '' معرفة الصحابہ ' سے مختصر علامت ''ع'' سے نقل کیا ہو۔
اسی لئیابن اثیر نے دو داستانوں کو آپس میں ملا کر اسے ایک شخص کے بارے میں درج کیا ہے۔
اس افسانہ میں سیف کے مآخذکی تحقیق
'' وبرة بن یحنس'' کی داستان کے بارے میں سیف کے راوی اور مآخذ جو تاریخ طبری میں درج ہوئے ہیں حسب ذیل ہیں :
١۔ مستنیز بن یزید نے عروة بن غزیہ دثینی سے ۔ یعنی سیف کے ایک جعلی کردہ راوی نے سیف ہی کی تخلیق دوسرے راوی سے روایت کی ہے ، ہم نے اس مطلب کی وضاحت کتاب '' عبدا للہ بن سبا'' کی دوسری جلد میں کی ہے ۔
٢۔ سہل ، سیف کا ایک اور راوی ہے کہ جس کا تعارف انصار میں سے یوسف سلمی کے بیٹے کے طور پر کیا گیا ہے ۔ ہم نے اپنی کتاب '' رواةمختلقون '' میں اس کے حالات پر روشنی ڈالی ہے ۔
ابن عبد البر کی کتاب '' استیعاب '' اور ابن حجر کی کتاب '' اصابہ '' میں '' وبرہ'' کے بارے میں سیف کی روایت کی سند حسب ذیل ہے ۔
'' ضحاک بن یرع''کہ ہم نے اسی کتاب میں ابو بصیرہ کے حالات کی تشریح میں کہا ہے کہ ہمیں شک ہے کہ وہ بھی سیف کا جعل کردہ اور اس کا خیالی راوی ہے۔
داستان کی حقیقت
سیف کے علاوہ دیگر روایتوں میں آیا ہے کہ رسول خدا ۖ نے '' قیس بن ھبیرہ'' کو '' اسود'' کے ساتھ جنگ کرنے کی مموریت عطافرمائی اور حکم دیا کہ یمن میں مقیم ایرانیوں سے رابطہ قائم کرکے اس کام میں ان سے مدد حاصل کرے ۔
قیس پیغمبر خدا ۖ کے حکم کو نافذ کرنے کیلئے راہی صنعاء ہوا اور وہاں پر اپنے آپ کو اسود کا حامی اور مرید جتلایا ۔ نتیجہ کے طور پر اسود اس کے صنعاء میں داخل ہونے میں رکاوٹ نہیں بنا اس طرح وہ قبائل مذحج ، ہمدان اور دیگر قبائل کی ایک جماعت لے کر صنعاء میں داخل ہوا۔
قیس نے صنعا میں داخل ہونے کے بعد مخفیانہ طور پر فیروزنامی ایرانی سردار سے رابطہ قائم کیا ، جس نے پہلے ہی اسلام قبول کیا تھا۔ اس کے بعد اس کے ہمرا ہ'' داذویہ '' سے ملاقات کی اور اس کی تبلیغ کی وجہ سے سر انجام دازویہ نے بھی اسلام قبول کیا ۔ اس کے بعد داذویہ نے اپنے مبلغین کو ایرانیوں کے درمیان یمن بھیجا اور انھیں اسلام کی دعوت دی، انہوں نے بھی اسلام قبول کیا اور اسود کو قتل کرنے میں ان کی مدد کی۔
کچھ مدت کے بعد قیس اور اس کی دو ایرانی بااثر شخصیتوں نے اسود کی بیوی کو اپنے پروگرام سے آگاہ کیا اور اس سلسلے میں اسکی موافقت حاصل کی تا کہ اسود کا کام تمام کرسکیں۔
اس پروگرام کے تحت ایک دن وہ لوگ پو پھٹتے ہی نگہبانوں سے بچ کر اچانک اسود کے گھر میں داخل ہوئے اور اس پر حملہ کیا، فیروز نے اسے موت کے گھاٹ اتار دیا ، قیس نے اس کے سرکو تن سے جدا کرکے شہر کے دروازہ پر لٹکا دیا اور نماز کیلئے اذان دی اور اذاں کے آخر میں بلند آواز میں کہا کہ '' اسود جھوٹا اور خدا کا دشمن ہے '' ۔
اس طرح صنعاء کے باشندے اسود کے قتل کئے جانے کی خبر سے آگاہ ہوئے ۔
داستان کی حقیقت اور افسانہ کا موازنہ
سیف کی روایت میں آیا ہے کہ پیغمبر خدا ۖ نے اپنی طرف سے چند ایلچیوں کو یمن میں مقیم ایرانی سرداروں اور بزرگوں اور اسی طرح اسود کی فوج کے سپہ سالار '' قیس بن عبد یغوث'' کے پاس روانہ کیا، اور حکم دیا کہ یہ لوگ اسود کو قتل کرکے اس کا خاتمہ کردیں۔
یہ لوگ پیغمبر خدا ۖ کا حکم بجالاتے ہیں ۔ اسود کو قتل کرنے کے بعد '' جشیش'' یا '' وبرہ'' اذان دیتا ہے اور '' وبرہ'' کی امامت میں نماز جماعت پڑھی جاتی ہے ۔
جبکہ سیف کے علاوہ دیگر روایتوں میں آیا ہے کہ رسول خدا ۖ نے '' قیس بن ھبیرہ'' کو '' اسود '' کو قتل کرنے کی مموریت عطا فرمائی ہے اور اس نے یمن میں مقیم ایرانی سرداروں کی مدد سے '' اسود '' کو قتل کیا ہے ۔ قیس نے '' اسود'' کے سر کو شہر کے دروازے پر لٹکانے کے بعد خود نما زکیلئے اذان دی ہے۔
جیسا کہ معلوم ہے سیف نے حقائق کو بدل کر داستان کے مرکزی کردار یعنی قیس کے باپ کا نام '' ھبیرہ'' سے تغیر دیکر ''عبد یغوث '' بتایا ہے ۔
اسی طرح اپنے جعلی صحابی کو '' وبر بن یحنس کلبی'' کا ہم نام یعنی '' وبرة بن یحنس'' ازدی خلق کیا ہے اور سیف کا یہ کام نیا نہیں ہے کیونکہ وہ حقیقی صحابیوں کے ہم نام صحابی جعل کرنے میں ید طولیٰ رکھتا ہے جس طرح اس نے اپنے خزیمہ کو '' خزیمة بن ثابت انصاری ذی شہادتین '' کے ہم نام اور اپنے ' سماک بن خُرشۂ انصاری کو '' سماک بن خُرشۂ انصاری '' معروف بہ ابی دجانہ کا ہم نام خلق کیا ہے ۔
افسانۂ وبرہ کے مآخذ
سیف نے '' وبرہ '' کے افسانہ کے راویوں کا حسبِ ذیل صورت میں نام لیا ہے :
١۔ مستنیر بن یزید نے
٢۔ عروة بن غزیہ سے ۔ یہ دونوں سیف کے خلق کردہ ہیں اور حقیقت میں وجود نہیں رکھتے ۔
٣۔ ' ' ضحاک بن یربوع'' ہم نے کہا کہ اس کے بارے میں ہم مشکوک ہیں کہ اسے سیف نے جعل کیا ہے یا نہیں ۔
'' وبرہ '' کے افسانہ کو نقل کرنے والے علما:
١۔ طبری نے اپنی تاریخ میں ۔ بلا واسطہ سیف سے نقل کرکے ۔
٢۔ ابن اثیر نے اپنی تاریخ میں ، طبری سے نقل کرکے۔
٣۔ ابن عبد البر نے '' استیعاب '' میں سیف سے بلاواسطہ نقل کرکے ۔
٤۔ ابن حجر نے '' اصابہ'' میں براہ راست سیف سے نقل کرکے ۔
مصادر و مآخذ
رسول خدا ۖ کے ایلچیوں کی روایت
١۔ '' تاریخ طبری'' ( ١٧٩٩١١)
٢۔ '' اصابہ'' ( ٢ ١٨٢) صفوان کے حالات کے ضمن میں ۔
٣۔ '' تاریخ ابن خیاط'' ( ١۔ ٦٢ ۔٦٣) رسول خدا ۖ کے ایلچیوں کے نام میںنئی سطر سے ''وبرة بن یحنس'' کے بارے میں سیف کی روایات:
١۔'' تاریخ طبری'' ( ١٧٩٨١، ١٨٥٦، ١٨٥٧، ١٨٦٢، ١٨٦٤ ، ١٨٦٧، اور ١٩٨٤ )
٢۔'' استیعاب ''طبع حیدر آبار دکن ( ٢ ٦٠٦)
٣۔ '' اصابہ '' ( ٣ ٥٩٤)
'' وبر بن یحنس '' کلبی کی داستان :
١۔ '' تاریخ طبری '' (١ ١٧٦٣)
٢۔ '' اصابہ '' ابن حجر ( ٣ ٥٩٣)
٣۔ '' اسد الغابہ '' ابن اثیر ( ٥ ٨٣)
اسود عنسی کی داستان
١۔ '' فتوح البلدان '' بلاذری ( ١ ١٢٥۔ ١٢٦)
٢۔ '' عبدا للہ بن سبا'' دوسری جلد۔
|