ایک سو پچاس جعلی اصحاب(جلدسوم)
 

بتیسواں جعلی صحابی عکاشہ بن ثور الغوثی

عکاشہ ، یمن میں ایک کارگزار کی حیثیت سے :
طبری ، مدعی پیغمبری '' اسود '' کی داستان اور ١١ھ کے واقعات کے ضمن میں سیف بن عمرسے نقل کرکے لکھتا ہے :
١٠ ھ میں جب رسول خدا ۖ نے فریضہ حج ( وہی حجة الوداع' انجام دیا ، تو آنحضرتۖ کے گماشتہ ''باذام '' نے یمن میںوفات پائی ۔ رسول خدا ۖنے اس کی مموریت کے علاقہ کو حسبِ ذیل چند اصحاب میں تقسیم فرمایا:
اس کے بعد طبری، پیغمبر خدا ۖ کے یمن کیلئے مموریت پر بھیجے گئے اشخاص میں طاہر ابو ہالہ جسے سیف نے حضرت خدیجہ کا بیٹا اور رسول اللہ کاپروردہ بتایا ہے کا نام لے کر کہتا ہے:
اور زیاد بن لبید بیاضی کوحضرموت پر اور عکاشہ بن ثور بن اصغرغوثی کو سکاسک و سکون اور بنی معاویہ بن کندہ پر ممور فرمایا.... ( تا آخر)
طبری نے ، اس روایت کے بعد ایک دوسری روایت میں لکھا ہے :
رسول خداۖ ، مناسک حج انجام دینے کے بعد مدینہ لوٹے اور یمن کی حکومت کو چند سر کردہ اصحاب کے درمیان تقسیم فرمایا اور ان میں سے ہر ایک کی مموریت کے حدود کو معین فرمایا۔
(یہاں تک کہ لکھتا ہے :)
عک اور اشعریین پر طاہر ابو ہالہ کو معین فرمایا اور حضرموت کے اطراف جیسے ، سکاسک و سکون پر عکاشہ بن ثور کو ممور فرمایا اور بنی معاویہ بن کندہ پر عبد اللہ ١ یا مہاجر کونامزد فرمایا۔ لیکن مہاجر بیمار ہوگیا اور مموریت کی جگہ پر نہ جا سکا مگر، صحت یاب ہونے اور رسول ۖ خدا کی رحلت کے بعد ابوبکر نے اسے مموریت پر بھیجا۔ عکاشہ ٢ اور دیگر لوگ اپنی مموریت کی طرف روانہ ہوئے۔
حضرموت پر زیا بن لبید کو ممور فرمایا گیا اور وہ مہاجر کی عدم موجودگی میں اس کی مسئولیت کو بھی نبھاتا رہا۔
یہ لوگ پیغمبر خداۖ کی رحلت تک یمن اور حضرموت میں آنحضرتۖ کے گماشتے اور کارگزار تھے۔ طبری نے ایک اور روایت میں عبید بن صخر۔ سیف کے افسانہ کے مطابق جو خود بھی یمن میں رسول
١۔ یہاں پر عبد اللہ سے سیف کی مراد عبد اللہ بن ثور ہے جو اس کا اپنا خلق کردہ ہے ، تعجب کی بات ہے کہ سیف اپنے جھوٹ کو پیش کرنے میں اس طرح احتیاط و تقدس کا اظہار کرتے ہوئے کہتا ہے: مجھے نہیں معلوم یہ عبد اللہ تھا یا مہاجر !! تا کہ اس کا جھوٹ حق کی جگہ لے لے اور دلوں کو آرام ملے۔
٢۔اصل میں '' محصن '' لکھا گیا ہے جو غلط ہے ، کیونکہ عکاشہ بن محصن مدینہ میں تھا اور اس نے خالد کی فوج میں ہر اول دستے کے طور پر طلیحہ سے جنگ میں شرکت کی ہے اور اس کے ہاتھوں قتل ہوا ہے اس مطلب کو سیف اور دوسروں نے ذکر کیا ہے لیکن جو کچھ یمن میں رسول اللہ ۖ کے گماشتوں اور کارگزاروں کے بارے اور حضرموت میں ارتداد کی جنگوں کے بارے میں سیف کی روایتوں میں آیا ہے وہ '' عکاشہ بن ثور'' سے مربوط ہے۔
خدا ۖ کا کارگزارتھا۔ سے نقل کرکے لکھا ہے :
جب ہم اس علاقہ ۔۔ مموریت کی جگہ۔۔ کو شائستہ طریقے پر چلا رہے تھے ، ہمیں پیغمبری کا دعویٰ کرنے والے اسود کا ایک خط ملا، اس میں لکھا تھا۔
اے لوگو! جو ناخواستہ ہم پر مسلط ہوئے ہو ! اورہماری ملکیت میں داخل ہوئے ہو جو کچھ ہماری سرزمین سے لوٹ چکے ہو' اسے ایک جگہ ہمارے لئے جمع کردو، ہم تمہاری نسبت اس پر تصرف کرنے کے زیادہ سزاوار ہیں... ( یہاں تک لج کہتا ہے:)
ہمیں خبر ملی کہ اسود نے صنعا پر قبضہ کیاکر لیا ہے اور پیغمبرۖ کے تمام کارگزار وہاں سے بھاگ گئے ہیں اور باقی امراء اور حاکم طاہر ابو ہالہ کے ہاں جا کر پناہ لے چکے ہیں ۔
طبری حضرموت کے باشندوں کے مرتد ہونے کے بارے میں ١١ ھ کے حوادث کے ضمن میں لکھتا ہے :
پیغمبر خدا ۖ کی رحلت کے وقت حضرموت اور دیگر شہروں میں آنحضرتۖ کے گماشتے اور کارگزار حسبِ ذیل تھے:
زیاد بن لبید بیاضی، حضرموت پر ، عکاشہ بن ثور سکاسک و سکون پر اور مہاجر کندہ پر ، مہاجر اسی طرح مدینہ میں رہا اور جائے مموریت پر نہ گیا یہاں تک کہ رسول خدا ۖ نے رحلت فرمائی۔ اس کے بعد ابو بکر نے اسے باغیوں سے نمٹنے کیلئے یمن بھیجا اور حکم دیا کہ بغاوت کو کچلنے کے بعد اپنی مموریت کی جگہ پر جائے۔
اس روایت کو نقل کرنے کے بعد طبری ایک دوسری روایت میں لکھتا ہے:
رسول خدا ۖ نے مہاجربن ابی امیہ کو کندہ کیلئے ممور فرمایا لیکن مہاجر بیمار ہو گیا اور مموریت کی جگہ پر نہ جا سکا ، لہذا آنحضرتۖ نے زیاد کے نام ایک خط لکھا تا کہ مہاجر کے فرائض نبھائے ۔
مہاجر کے صحت یاب ہونے کے بعد ، ابو بکر نے اس کی مموریت کی تائید کی اور حکم دیا کہ پہلے نجران کے باغیوں سے نپٹنے کیلئے یمن کے دور دراز علاقوں تک جائے ۔ یہی وجہ تھی کہ زیاد بن ولید اور عکاشہ نے کندہ کی لڑائی میں مہاجر کے آنے تک تاخیر کی۔

تینتیسواں جعلی صحابی عبد اللہ بن ثور الغوثی

عبد اﷲ ثور ، ابوبکر کا کارگزار
طبری نے سیف بن عمر سے نقل کرکے طاہر ابو ہالہ کی داستان میں لکھا ہے :
اس سے پہلے ابو بکر نے '' عبد اللہ بن ثور بن اصغر '' کو فرمان جاری کیا تھا کہ اعراب اور تہامہ کے لوگوں میں سے جوبھی چاہے اس کی فوج میں شامل ہوسکتا ہے ، اور عبداﷲ کو تاکید کی تھی کہ ابو بکر کے حکم کے پہنچنے تک وہیں پر رکا رہے .. ..
سیف کہتا ہے:
جب مہاجر ابو بکر سے رخصت لے کر مموریت پر روانہ ہوا تو عبدا للہ ثور تمام سپاہیوں سمیت اس سے ملحق ہوا .. ( اس کے بعد کہتا ہے :)
مہاجر نجران سے '' لحجیہ'' کی طرف روانہ ہوا ۔ وہاں پر اسود کے بھاگے مرتد سپاہیوں نے اس سے پناہ کی درخواست کی ۔ لیکن مہاجر نے ان کی یہ درخواست منظور نہیں کی ۔
طبری اس مطلب کے ضمن میں لکھتا ہے :
مہاجر کے سوار فوجیوں کی کمانڈ عبدا ﷲ بن ثور غوثی کے ہاتھ میں تھی اخابث کے راستہ پر عبدا للہ کی ان فراریوں سے مڈ بھیڑ ہوئی ۔ اس نے ان سب کا قتل عام کیا ۔
طبری نے ان تمام روایتوں کو صراحت کے ساتھ سیف بن عمر سے نقل کیا ہے اس کے بعد طبری صدقات کے امور میں ابو بکر کے کارگزاروں کے بارے میں وضاحت کرتے ہوئے لکھتا ہے :
کہتے ہیں .. اس کے علاوہ عبد اللہ بن ثور نے ۔۔۔ قبیلۂ غوث کے افراد میں سے ایک شخص ۔۔ کو علاقہ '' جرش'' پر مامور کیا۔
طبری نے اس حدیث کی سند کا ذکر نہیں کیا ہے لیکن ابن حجر عبد اﷲ کے حالات کی تشریح میں صراحت سے کہتا ہے کہ یہ حدیث سیف بن عمر سے نقل ہوئی ہے۔
عکاشہ اور عبد اللہ کی داستان کے مآخذ کی تحقیق
ہم نے جو روایتیں سیف سے نقل کیں ہیں ، ان میں درج ذیل جعلی راویوں کے نام دکھائی دیتے ہیں :
١۔ سہل بن یوسف، چار روایتوں میں ۔
٢۔ یوسف بن سہل ، دو روایتوں میں ۔
٣۔ اور درج ذیل سیف کے جعلی راوی میں سے ہر ایک نے ایک روایت نقل کی ہے :
٣۔ عبید بن صخر
٤۔ مستنیر بن یزید
٥۔ عرو ہ بن غزیہ

سیف کی روایتوں کا موازنہ
مذکورہ روایت ، داستانِ اخابث ( ناپاک ) اور داستان عبید بن صخر میں طاہر ابو ہالہ کی روایت کی متمم ہے اور ہم نے ان دو صحابیوں کی بحث کے دوران ثابت کیا ہے کہ خود یہ اور ان کی داستانیں جعلی اور سیف بن عمر تمیمی کے خیالات کی تخلیق ہیں اور حقیقت میں ان کا کوئی وجود نہیں ہے۔
ان میں سے بعض روایات پیغمبری کے مدعی ، اسود عنسی کی داستان سے مربوط ہیں ' ہم نے کتاب '' عبد اللہ بن سبا '' کی دوسری جلد میں اس پر مفصل روشنی ڈالی ہے اور وہاں پر ہم نے بتایا ہے کہ سیف نے کس طرح حقائق کو بدل کر رکھدیا ہے اور کن چیزوں میں تحریف اور تبدیلی کی ہے ۔ یہاں پر اس کی تکرار کی مجال اور گنجائش نہیں ہے ۔
ہاں ، رسول خدا ۖ اور ابو بکر کی طرف سے ان کی نمائندگی اور کارندوں کی حیثیت سے مموریت کے بارے میں سیف کی روایت کو ہم نے تحقیق کے دوران خلیفہ بن خیاط اور ذہبی جیسے دانشوروں کے ہاں نہیں پایا اور نہ ہی رسول خدا ۖ اور ابو بکر کے کارگزاروں کے حالات کی تشریح لکھنے والوں کے ہاں ۔ یہ دو جعلی اصحاب کہیں دکھائی دیئے۔

روایت کا نتیجہ
سیف نے عکاشہ بن ثور غوثی اور اس کے بھائی عبد اللہ بن ثور غوثی کی روایت اپنی کتاب ''فتوح '' میں درج کرکے طبری جیسے دانشور کو ١٠ ۔ ١٢ ھ کے حوادث کے ضمن میں ان ہی مطالب کو نقل کرکے اپنی کتاب میں درج کرنے پر مجبور کیا ہے۔
ابن اثیر ، ابن کثیر ، ابن خلدون اور میر خواند نے بھی ان ہی مطالب کو طبری سے نقل کرکے اپنی تاریخوں میں درج کیا ہے ۔
ابن عبد البر نے سیف کی تحریر پر اعتماد کرکے حسبِ ذیل مطالب کو اپنی کتاب '' استیعاب'' میں نقل کیا ہے :
عکاشہ بن ثور بن اصغر قرشی ، رسول خدا ۖ کی طرف سے سکاسک ، سکون او ر بنی معاویۂ کندہ پر بعنوان گماشتہ اور کارندہ ممور تھا ۔ ان مطالب کو سیف نے اپنی کتاب میں درج کیا ہے ، اور میں ۔۔ ابن عبد البر ۔۔ اس کے بارے میںاتنا ہی جانتا ہوں ۔
ابن اثیر نے ابن عبد البر کی کتاب '' استیعاب '' سے عین عبارت کو نقل کیا ہے اور ذہبی نے انہی مطالب کو خلاصہ کے طور پر اپنی کتاب '' تجرید '' میں نقل کیا ہے۔
ابن حجر نے اپنی کتاب '' اصابہ '' میں یوں لکھا ہے :
عکاشہ بن ثور بن اصغر کا نام سیف نے داستان ارتداد کی ابتدا ء میں سہل بن یوسف سے اس نے اپنے باپ سے اس نے عبدی بن صخر بن لوذان سے نقل کرکے لکھا ہے کہ وہ سکاسک و سکون پر پیغمبر خدا ۖ کا گماشتہ اور کارندہ تھا ۔ ابو عمر ۔۔ ابن عبد البر ۔۔نے ان مطالب کو نقل کیا ہے۔
اس طرح ان دانشوروں نے سیف کی روایت پر اعتماد کرکے عکاشہ کے حالات سند کے ذکر کے ساتھ اپنی کتابوں میں پیغمبر خدا ۖ کے اصحاب کے حالات کی فہرست میں درج کیا کئے ہیں۔
روایات سیف پر اس اعتماد کی بنا پر ، اس کے خیالی بھائی کے حالات کو بھی دیگر اصحاب پیغمبرۖ کی فہرست میں قرار دیا گیا ہے ۔ توجہ فرمائیے کہ ابن حجر اس سلسلے میں کہتا ہے :
عبدا ﷲ بن ثور ، قبیلۂ بنی غوث کا ایک فرد ہے۔ اس کا نام سیف نے اپنی کتاب ''فتوح '' میں چندجگہوں پر ذکر کیا ہے ۔ وہ ارتداد کی جنگوں میں سپاہ اسلام کا ایک سپہ سالار تھا ۔ رسول خدا ۖ کی رحلت کے بعد ابو بکر نے اس کے حق میں ایک فرمان جاری کیا کہ اعراب اور تہامہ کے باشندے اس کی اطاعت کریں اور اسی ۔۔ عبد اللہ ۔۔ کے پرچم تلے جمع ہوجائیں ۔ اور عبد اللہ وہیں پر رکا رہے جب تک اس کیلئے حکم نہ پہنچے ۔ سیف نے یہ بھی روایت کی ہے کہ وہ مہاجر بن ابی امیہ کے ہمراہ '' جرش '' کی گورنری کا عہدہ سنبھالنے کیلئے وہاں گیا اور وہاں سے صوب کی طرف کوچ کیا۔ اور ہم نے ۔۔ ابن حجر ۔۔ چند بار کہا ہے کہ ان دنوں رسم یہ تھی علاقائی حکومت یا فوجی کمانڈ کیلئے صرف رسول خدا ۖ کے صحابی کو ہی منصوب کرتے تھے (ز)
ابن حجر نے جو تشریح عبد اﷲ کے بارے میں لکھی ہے اس میں یہ مطالب ظاہر ہوتے ہیں :
١۔ سیف نے اپنی کتاب '' فتوح'' میں چند جگہوں پر عبد اللہ ابن ثور کا نام ذکر کیا ہے ۔
٢۔ عبد اللہ ارتداد کی جنگوں میں سپہ سالار تھا۔
٣۔ ابو بکر نے اس کیلئے فرمان جاری کیا ہے کہ اعراب اور تہامہ میں اس کے حامی اس کے گرد جمع ہوکر حکم پہچنے تک منتظر رہیں ۔
٤۔ عبد اللہ جب '' جرش'' کے گورنر کے طور پر منصوب ہوا تو وہ مہاجر کے ہمراہ روانہ ہوا تھا۔
تمام مطالب کو طبری نے سیف کی سند کے ذکر کے ساتھ اپنی تاریخ میں درج کیا ہے ۔
صرف عبداللہ کی گورنری' جس کی سند طبری نے ذکر نہیں کی ہے ۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ابن حجر نے اس حصہ کی سند بھی سیف کے نام کی صراحت کے ساتھ ذکر کی ہے۔

چونتیسواں جعلی صحابی عبید اللہ بن ثور غوثی
ایسا لگتا ہے کہ ابن حجر جیسا جلیل القدر عالم سیف کی کتاب '' فتوح '' میں عبد اللہ بن ثور کا نام پڑھتے وقت سخت غلطی کا شکا رہوا ہے اور اسے '' عبید اﷲبن ثور '' پڑھا ہے یا یہ کہ اس کے پاس موجود نسخہ میں اس نام میں یہ تبدیلی کتابت کی غلطی کی وجہ سے انجام پائی ہو۔
بہر حال خواہ یہ غلطی کتابت کی ہو یا محترم دانشور نے اسے غلط پڑھا ہو ، اصل میں جو چیز ہے وہ یہ ہے کہ ابن حجر نے عبید اللہ بن ثور کے حالات پر اپنی کتاب '' اصابہ'' میں الگ سے روشنی ڈالی ہے اور لکھا ہے :
عکاشہ کے بھائی ، عبید اللہ بن ثور بن اصغر عرنی کے بارے میں سیف نے کہا ہے کہ رسول خدا ۖ نے عکاشہ کو سکاسک اور سکون کیلئے اپنا گماشتہ مقرر فرمایا اور پیغمبر خدا ۖ کے بعد ابو بکر نے اس کے بھائی عبید اللہ کو یمن کی حکمرانی پر منصوب کیا ۔
ہم نے اس سے پہلے بھی کہا ہے کہ ان دنوں رسم یہ تھیکہ صرف صحابی کو حکومت اور سپہ سالاری پر منصوب کیا جاتا تھا ۔(ز)
ابن حجر کی اس بات '' اس سے پہلے بھی ہم نے کہا ہے کہ اس زمانے میں یہ رسم....'' پر انشاء اللہ ہم اگلی بحثوں میں وضاحت کریں گے ۔
جو کچھ ہم نے یہاں تک کہا وہ ثور کے تین بیٹوں کی داستان تھی جسے ہم نے تاریخ کی عام کتابوں اور رجال اور اصحاب کے حالات پر لکھی گئی کتابوں سے حاصل کیا ہے ۔
لیکن جس چیز کو آپ ذیل میں مشاہدہ کررہے ہیں وہ سیف کے ان تین جعلی اصحاب کے بارے میں انساب کی کتابو ں میں درج ذیل مطالب ہیں :

مذکورہ تین اصحاب کا نسب
تاریخ طبری میں ، سیف کی روایتوں کے مطابق ان تین '' غوثی '' صحابیوں کا شجرۂ نسب درج ہوا ہے ۔ لیکن '' استیعاب '' میں غلطی سے '' قرشی '' ، ' اسد الغابہ'' اور '' تجرید ' میں '' غرثی '' اور ابن حجر کی ''اصابہ '' میں ''' عرنی '' ثبت ہوا ہے ۔
یہ اس حالت میں ہے کہ ہم نے ان نسب شناس علماء کے ہاں '' عکاشہ '' اور '' عبید اللہ '' کا نام نہیں پایا، جنہوں نے بنی غوث بن طے کے بارے میں تفصیلات لکھی ہیں ۔ جیسے ابن حزم نے اپنی کتاب'' جمہرہ '' میں اور ابن درید نے '' اشتقاق '' میں اور اس طرح کی دوسری کتابوں کا بھی ہم نے مطالعہ کیا لیکن ان میں سے کسی ایک میں بھی اس سلسلے میں درج ذیل مطالب کے علاوہ کچھ نہیں پایا:
ابن ماکو لا اپنی کتاب '' اکمال '' میں لفظ ' غوثی'' کے بارے میں لکھتا ہے :
عکاشہ بن ثور بن غوثی کو رسول خدا ۖ نے سکاسک ، سکون اور معاویہ بن کندہ کیلئے ممور فرمایا تھا اور ابو بکر صدیق نے اس کے بھائی عبد اللہ بن ثور اصغر کو یمن کا حاکم منصوب کیا تھا۔
سمعانی نے بھی لفظ '' غوثی'' کے بارے میں اپنی کتاب انساب میں لکھا ہے :
'' غوثی '' در حقیقت غوث کی طرف نسبت ہے ۔ اس قبیلہ کے سرکردہ صحابیوں میں عکاشہ بن ثور بن اصغر غوثی ہے جسے رسول خدا ۖ نے سکاسک ،سکون اور معاویہ بن کندہ کا حاکم مقرر فرمایا تھا۔
ابن اثیر نے سمعانی سے نقل کرکے اس کی عبارت کو من عن اپنی کتاب '' لباب الانساب ''۔۔ جو سمعانی کی کتاب '' انساب '' کا خلاصہ ہے ۔۔ میں ثبت کیا ہے اور اس میں کسی اور چیز کا اضافہ نہیں کیا ہے۔
ا بن حجر بھی اپنی دوسری کتاب '' تحر یر المشتبہ '' میں لکھتا ہے :
عکاشہ بن ثور غوثی اصحاب میں سے تھا
فیروزآبادی نے اپنی کتاب '' قاموس '' میں لفظ '' عکش '' میں یوں لکھا ہے:
عکاشہ الغوثی ، ابن ثور اور ابن محصن تینوں اصحاب رسول خدا ۖ تھے ۔
زبیدی بھی اپنی کتاب شرح '' تاج العروس '' میں لکھتا ہے :
جیسا کہ کہا گیا ہے عکاشہ بن ثوربن اصغر غوثی ، سکاسک میں رسول خدا ۖ کا گماشتہ اور کارگزار تھا۔
مختلف عرب قبائل کے نسب شناس علماء میں سے کسی ایک نے اب تک کسی کو غوثی کے طور پر متعارف نہیں کیا ہے ۔ کیونکہ بنی غث کے سرکردہ افراد بنی غث بن طی '' طائی'' کے نام سے مشہور ہیں نہ غوثی ۔ جیسے حاتم طائی اور اس کا بیٹا عدی طائی ۔ اسی لئے سمعانی لکھتا ہے ١
..............
١۔عکاشہ بن ثور ، سمعانی کے زمانے میں '' غوثی'' کے نام سے مشہور تھا کیونکہ اس سے پہلے عکاشہ کا نام اسی انتساب سے سیف کی کتاب '' فتوح'' میں آیا ہے اور سیف کی کتاب '' فتوح '' کے بعد رجال و اصحاب کی تشریح میں لکھی گئی کتابوں اور تاریخ کی کتابوں میں ، جنہوں نے اس کے حالات سیف سے نقل کئے ہیں ، غوثی کا نام آیا ہے ، جیسا کہ '' تاریخ طبری '' ، ابن عبد البر کی '' استیعاب '' اور ابن ماکولا کی ''اکمال' ' میں درج ہوا ہے ۔
'' غوثی '' عکاشہ اس انتساب سے مشہور ہے ۔
ابن اثیر کو اس مطلب کے علاوہ کوئی اور چیز نہیں ملی اس لئے اسی کو خلاصہ کے طور پر اپنی کتاب '' لباب '' میں لکھا ہے ۔
''جو کچھ ذہبی کی '' تحریر المشتبہ '' میں آیا ہے حسب ذیل ہے :
' ' الغوثی ۔ ابو الھیثم ، احمد بن محمد بن غوث ، حافظ ابو نعیم کا مرشد اور استاد تھا''
اور معلوم ہے کہ یہ غوث انساب عرب میں سے ہمارا مورد بحث نسب نہیں ہے۔

خلاصہ :
سیف نے عکاشہ بن ثور بن اصغر غوثی کو بنی غوث سے خلق کیا ہے اور لفظ '' غوثی'' سے '' قرشی'' ، '' غرثی'' ، '' عرنی '' لکھا گیا ہے اور تاریخ طبری کے بعض نسخوں میں ' بنی غوث ' تغیر کرکے '' بنی یغوث'' درج ہوا ہے ۔
سیف ، عکاشہ کے بارے میں کہتا ہے کہ رسول خدا ۖ نے ١٠ ھ حجة الوداع سے واپسی پر اسے سکاسک اور سکون کی مموریت عطا فرمائی تھی اور ابوبکر کی خلافت تک عکاشہ وہیں پر تھا۔
سیف نے عکاشہ کیلئے ایک بھائی خلق کرکے اس کا نام عبدا للہ بن ثور رکھا ہے ۔ اور کہا ہے کہ ارتداد کی جنگوں میں ابو بکر نے اس کے نام ایک فرمان جاری کیا کہ افراد کو اپنی مدد کیلئے آمادہ کرکے حکم کا انتظار کرے۔
جب مہاجربن ابی امیہ ، مرتدوں سے لڑنے کیلئے روانہ ہوتا ہے ، تو اسود کے قتل ہونے کے بعد عبدا للہ ، مہاجر کی فوج کے سواروں کا کمانڈر مقرر ہوتا ہے اور اسود کے تتر بتر ہوئے مرتد فراری فوجیوں سے اس کی مڈ بھیڑ ہوتی ہے ، اس جنگ میں وہ ان سب کا قتل عام کر تا ہے اس کے بعد ابو بکر ایک فرمان کے ذریعہ '' جرش'' کا حاکم مقر ہوتا ہے ۔
ابن حجر اس عبدا للہ کے نام کے بارے میں غلط فہمی کا شکار ہوتا ہے اور اپنی کتاب میں دو شرحیں لکھتا ہے ، ایک اسی عبدا للہ کیلئے اور دوسری '' عبید اللہ '' کے نام سے۔
سیف نے ان تین یا دو بھائیوں کو سبائی یمانیوں سے خلق کیا ہے تا کہ دوسرے درجے کا رول یعنی قبیلہ مضر کے سرداروں کی اطاعت اور فرمانبرداری انھیں سونپے ۔
توجہ فرمائیے!
یہ عبد اللہ بن ثور ہے جو قریش کے ایک معروف شخص '' مہاجربن ابی امیہ'' کے پیچھے پڑتا ہے، اسی طرح اس کا بھائی عکاشہ بھی ، پروردۂ رسول خدا ۖ اور خاندان تمیم کے ایک نامور شخص یعنی طاہر ابو ہالہ ، کے ہاں پناہ لیتا ہے۔
سیف ، مضر کے سرداروں اور شجاعوں کیلئے حامی اور طرفدار خلق کرنے پر مجبور ہوتا ہے ۔ لیکن اس کیلئے ہرگز یہ چیز اہمیت نہیں رکھتی کہ یہ لوگ رسول خدا ۖ کی مصاحبت کی سعادت حاصل کرکے آنحضرت ۖ کے گماشتے اور کارندے کے طور پر آپ ۖ کی طرف سے ممور ہوں یا نہ! بلکہ سیف کی نظر میں سرفرازی اور افتخار اس میں ہے کہ ان کے ہاتھوں دنیا کو تباہ و برباد کرکے زندگیوں کا خاتمہ اور بستیوں کو آگ لگوادے اور ان سب گستاخیوں کے بعد اپنے آتشین قصیدوں میں فخر و مباہات کے نغمے گائے اور دنیا کو جوش و خروش سے بھر دے تا کہ اس طرح اس کے خلق کئے ہوئے یہ مجد و افتخارات تاریخ میں ثبت ہوجائیں اور رہتی دنیا تک باقی رہیں۔
سیف کی کوشش یہ ہے کہ خاندان مضر کیلئے بیہودہ اور بے بنیاد معجزے اور کرامتیں خلق کرے تا کہ مناقب لکھنے والے قصہ گو و جد میں آئیں اور اسلام کے دشمن مسلمانوں کا مذاق اڑائیں۔
سیف بن عمر نے جو ذمہ داری عبید بن صخر بن لوذان قحطانی یمانی عکاشہ بن ثور یمانی پر ڈالی ہے یہی چیزیں تھیں۔ سیف نے ان کیلئے قبیلہ مضر کے سرداروں کی اطاعت اور خدمت گزاری معین کرکے مذکورہ قبیلہ کیلئے بہادریاں اور کرامتیں خلق کی ہیں۔
اصحابِ پیغمبر ۖ کے حالات لکھنے والے علماء نے عکاشہ ، عبدا للہ اور عبید اللہ کا نام سیف کی روایتوں سے لیا ہے اور ان کے نسب اور داستانین بھی اس کی روایتوں سے نقل کرکے اپنی کتابوں میں درج کی ہیں۔
انہی روایتوں سے استناد کرکے ابن حجر نے عبد اللہ اور عبید اللہ کے صحابی ہونے اور رسول خدا ۖ کے ساتھ ان کی مصاحبت پر استدلال کرتے ہوئے لکھا ہے :
ہم نے بارہا کہا ہے کہ اس زمانے میں رسم یہ تھی کہ صحابی کے علاوہ کسی اور کو حاکم و سپہ سالار معین نہیں کیا جاتا تھا۔
وہ سیف کی روایتوں سے اس مطلب کو بھی حاصل کرکے لکھتا ہے :
ابو بکر نے ان دونوں کو مرتدوں جنگ میں سپہ سالاری کا عہدہ سونپا اور '' جرش'' کی حکومت اسے دی۔
اس طرح یہ روایات سیف کے ذریعہ اسلامی مصادر میں داخل ہوئی ہیں۔

فرزندان ثور کے افسانہ کے راوی
سیف اپنے جعل کئے ہوئے ثور کے بیٹوں کے افسانوں کو مندرجہ ذیل اپنے ہی جعلی راویوں کی زبانی نقل کیا ہے۔
١۔ سہل بن یوسف نے
٢۔ یوسف بن سہل سے ، اس نے
٣۔ عبید بن صخر سے
٤۔ مستنیر بن یزید
٥۔ عروة بن غزیہ

ان افسانوں کی اشاعت کرنے والے ذرائع
١۔ طبری نے اپنی تاریخ کبیر میں ، اور درج ذیل علماء نے اس سے نقل کیا ہے
٢۔ ابن اثیر نے اپنی تاریخ میں ۔
٣۔ ابن کثیر نے اپنی تاریخ میں
٤۔ ابن خلدون نے اپنی تاریخ میں
٥۔ میر خواند نے اپنی کتاب '' روضة الصفا '' میں
٦۔ سمعانی نے '' انساب'' میں ۔
٧۔ ابن اثیر نے سمعانی سے نقل کرکے ''لباب'' میں
٨۔ ابن عبد البر نے '' استیعاب '' میں ۔
٩۔ ابن اثیر نے ا'' اسد الغابہ '' میں استیعاب سے نقل کرکے ۔
١٠۔ ذہبی نے '' تجرید'' میں ، '' اسد الغابہ '' سے نقل کرکے۔
١١۔ ابن حجر نے سیف کی '' فتوح'' سے اور '' استیعاب '' سے نقل کرے '' اصابہ '' میں ۔ لیکن '' تصبیر '' میں سند کا ذکر نہیں کیا ہے ۔
١٢۔ ابن ماکولا نے سیف سے نقل کرکے '' اکمال'' میں ۔
١٣۔ ١٤۔ اور ان سے فیروز آبادی اور زبیدی نے بالترتیب ' ' قاموس '' اور اس کی شرح '' تاج العروس'' میں نقل کیا ہے ۔ اس کے علاوہ میر خواند نے کتاب '' روضة الصفا '' طبع ، تہران ، خیام (٢ ٦٠) میں۔

مصادر و مآخذ
عکاشہ کے حالات اور اس کی حدیث
١۔ '' تاریخ طبری '' ( ١ ١٨٥٢ ، ١٨٥٣، ١٨٥٤، اور ٢٠٠)
٢۔ '' تاریخ ابن اثیر'' ( ٢ ٢٥٥)
٣۔ تاریخ ابن کثیر ( ٦ ٣٠٧)
٤۔ '' ابن خلدون'' ( ٢ ٢٦٣، ٢٧٥۔ ٢٧٧)
٥۔ '' استیعاب '' ابن عبد البر ( ٢ ٥٠٩) نمبر : ٢١٥٠ طبع حیدر آباد
٦۔ '' اسد الغابہ '' ابن اثیر (٤ ٢)
٧۔ '' تجرید ذہبی'' ( ١ ٣١٨)
٨۔ '' انساب سمعانی '' لفظ '' غوثی '' ( ٤١٣)
٩۔ '' اکمال '' ( ص٩٦)

عبد اللہ بن ثور کے حالات :
١۔ '' تاریخ طبری'' ( ١ ١٩٩٧، ١٩٩٨، ٢١٣٦)
٢۔ '' اصابہ'' ابن حجر ( ٢ ٢٧٧) نمبر :٦٥٩٧

چھوٹا خط رسول خدا ۖ کے گماشتوں اورگورنروں کے نام:
١۔ خلیفہ بن خیاط ( ١ ٦٣)
٢۔ '' تاریخ اسلام '' ذہبی ( ٢ ٢)
٣۔ لفظ '' غوثی'' '' تحریر المشتبہ '' ذہبی ( ١ ٤٨٩)
٤۔ '' تبصیر المشتبہ '' ابن حجر ( ٣ ١٠٣٤)