ایک سو پچاس جعلی اصحاب(جلدسوم)
 

اکتیسواں جعلی صحابی صخر بن لوذان انصاری
یہاں تک جو کچھ ہم نے بیان کیا وہ سیف بن عمر کے صرف ایک جعلی اور خیالی صحابی عبید بن صخر کے بارے میں اس کے جھوٹ پر مبنی روایتیں تھیں۔ لیکن بعض علماء اس سلسلے میں غلط فہمی کا شکار ہوئے ہیں اور اسی سیف کے ایک جعلی صحابی کو دو شخص تصور کر بیٹھے ہیں اور ہر ایک کے حالات پر الگ الگ تشریحیں لکھی ہیں ، ملاحظہ فرمائیے:
ابو القاسم ، عبد الرحمان بن محمد بن اسحاق بن مندہ ( وفات ٤٧٠ ھ) ١ اپنی کتاب '' التاریخ المستخرج من کتب الناس فی الحدیث''کے باب ''صاد'' میں یوں لکھتا ہے :
صخر بن لوذان ، حجاز کا رہنے والا اور عبید کا باپ ہے ۔ رسول خدا ۖ نے اسے عمار کے ہمراہ مموریت پربھیجا ہے ۔ درج ذیل حدیث اس کے بیٹے عبید نے اس سے روایت کی ہے:
تعاھدو الناس بالتذکرة و الموعظة
اس کے بعد باب '' عین'' میں لکھتا ہے:
عبید بن صخر بن لوذان حجاز کا باشندہ ہے اور یوسف بن سہل انصاری نے اس سے حدیث قرآن اور
..............
١۔ جیسا کہ کتاب ا'' العبر'' (٣ ٢٧٤) میں آیا ہے کہ ابو القاسم در اصل اصفہانی تھا ، وہ حافظِ حدیث اور بہت سی کتابوں کا مصنف تھا ، اس کے بہت سے مرید تھے اہل سنت ، مکتف خلفاء کی پیروی کرنے میں سخت متعصب انسان تھا اور خدا کے لئے جسم کا قائل تھا ، ابو القاسم نے ٨٩ سال زندگی کی ہے)
کتاب کی روایت کی ہے ۔
اس طرح ابن مندہ کا پوتا ابو القاسم غلط فہمی کا شکار ہوا ہے اور سیف کے ایک جعلی صحابی کو دو شخص سمجھ کر اس کی ایک من گڑھت حدیث کو دو حدیث تصور کیا ہے اور انہیں اپنی کتاب میں درج کیا ہے !
یہ اس حالت میں ہے کہ سیف کا جعلی صحابی وہی عبید بن صخر لوذان ہے جس کے لئے سیف نے حدیث گڑھی ہے جو ابن اثیر کی '' اسد الغابہ'' اور ابن حجر کی '' اصابہ'' میں درج ہوئی ہے ، حسبِ ذیل ہے:
سیف بن عمر نے سہل بن یوسف بن سہل سے اس نے اپنے باپ سے اور اس نے عبید بن صخر بن لوذان سے روایت کی ہے کہ رسول خدا ۖ نے اپنے گماشتوں اور کارندوں کو یمن میں متعین کرکے فرمایا :
تعاھدوا القرآن بالمذاکرة و اتبعوا الموعظة
لیکن اس جعلی حدیث کا متن ابن مندہ کی کتاب '' اسماء الصحابہ '' میں تحریف ہو کر یوں ذکر ہوا ہے:
تعاھدوا الناس بالمذاکرة و اتبعوا الموعظة
اور یہی امر ابو القاسم کے غلط فہمی سے دوچار ہونے کا سبب بنا ہے اوروہ اس ایک حدیث کو دو تصور کر بیٹھا ہے ان میں سے ایک '' تعاھدوا الناس بالمذاکرہ'' کو اس کے خیال میں عبید نے اپنے باپ صخر سے نقل کیا ہے اور دوسری '' تعاھدوا القرآن بالمذاکرہ...'' جسے اس کے زعم میں یوسف بن سہل نے عبید سے قرآن و کتاب کے بارے میں نقل کیا ہے۔
یہاں پر ہم تقریباً یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ ان دو دانشوروں کے سیف کی ایک خیالی حدیث کو دو جاننے کا سبب یہی تھا ۔ لیکن ہم یہ سمجھنے سے قا صر ہیں کہ کس طرح عبید کے باپ ، صخر کے بارے میں غلطی فہمی کا شکار ہو اہے اور تصور کیا ہے کہ سیف نے اس سے اس کے بیٹے عبید کے ذریعہ یہ حدیث روایت کی ہے ؟ جبکہ ہم نے گزشتہ تمام مصادر میں کہیں ایسی چیز نہیں دیکھی ۔
ہم یہ بھی کہہ دیں کہ یہدانشور اسی سلسلہ میں چند دیگر غلط فہمیوں کا بھی شکار ہوا ہے جیسے لکھتا ہے : رسول خدا ۖ نے صخر کو عمار کے ہمراہ یمن بھیجا ، جبکہ اس قسم کا کوئی مطلب سیف کی احادیث میں نہیں آیا ہے۔
بہر حال سیف کی حدیث کو غلط پڑھنا اس امر کا سبب بنا ہے کہ سیف کے جعلی اصحاب کی فہرست میں '' صخر بن لوذان'' نامی ایک اور صحابی کا اضافہ ہوجائے اور اس کے جعلی صحابیوں کی تعداد بڑھ جائے۔

سیف کی احادیث کا نتیجہ
١۔ انصار میں سے دو صحابیوں کی تخلیق جن کے حالات کی تشریح اصحاب پیغمبر ۖ سے مربوط کتابوں میں آئی ہے ۔ ان میں سے ایک کو پیغمبر خدا ۖ کے گماشتہ اور کارندہ بننے کی سعادت بھی حاصل ہوئی
٢۔ آداب و احکام کے سلسلے میں رسول خدا ۖ کی ایک حدیث۔
٣۔ ارتداد کی جنگوں کے بارے میں ایک خبر۔
یہ سب چیزیںاس سیف کی احادیث کے وجود کی برکت سے حاصل ہوئی ہیں جو وہ زندیقی ہونے کا ملزم بھی ہے۔
٤۔ حجاز کے باشندوں میں سے رسول خدا ۖ کیلئے چند راویوں کی تخلیق ، جن کے حالات پر علم رجال کی کتابوں میں روشنی ڈالی گئی ہے۔

سیف نے کن سے روایت کی؟
گزشتہ روایات کو سیف نے چند خیالی راویوں سے نقل کیا ہے۔
١۔ سہل بن یوسف بن سہل سلمی اور ایسا ظاہر کیا ہے کہ اس سہل نے اپنے باپ یوسف سے روایت کی ہے۔
٢۔ یوسف بن سہل سلمی' کہ اس یوسف نے خود داستان کے کردار عبید سے روایت کی ہے۔
٣۔ عبید بن صخر بن لوذان سلمی' کہ یہ تینوں راوی سیف کے خیالات کی تخلیق ہیں۔

اس جھوٹ کو پھیلانے کے منابع:
ہم نے اس بحث کے دوران عبید کی روایت کو سیف سے نقل کرنے و الے آٹھ منابع کا ذکر کیا ہے ۔ باقی مصادر حسبِ ذیل ہیں:
٩۔ ابن سکن ( وفات ٣٥٣ ھ) ابن حجر کی روایت کے مطابق اس نے اپنی کتاب '' حروف الصحابہ'' میں ذکر کیا ہے ۔
١٠۔ ابن اثیر (وفات ٦٣٠ ھ ) نے '' اسد الغابہ '' میں۔
١١۔ ذہبی ( وفات ٧٤٨ھ) نے اپنی ان کتابوں میں :
الف) '' تجرید اسماء الصحابہ''
ب) '' سیر اعلام النبلائ''
١٢۔ ابن حجر ( وفات ٨٥٢ھ) نے '' اصابہ '' میں ۔

مصادر و مآخذ
عبید بن صخر کے حالات
١۔ ابن عبد البر کی استیعاب ( ٢ ٤٠٨)
٢۔ ابن اثیر کی '' اسد الغابہ'' (٣ ٣٥١)
٣۔ ذہبی کی '' تجرید '' ( ١ ١٨٥٢)
٤۔ تاریخ طبری '' ( ١ ١٨٥٢)
٥۔ ابن قانع کی '' معجم الصحابہ'' اس کا قلمی نسخہ کتاب خانہ حضرت امیر المؤمنین نجف اشرف میں موجود ہے ۔ ورقۂ ١٠٧ ب
٦۔ ابن مندہ کی '' تاریخ مستخرج '' ( ص ١٥٢)
٧۔ ''نسب الصحابہ من الانصار'' از ابن قدامہ (١٨٢ اور ٣٥٠)

بنی سلمہ کا نسب
١۔ ابن حزم کی'' جمہرة انساب'' ( ٣٥٨۔ ٣٦١)
٢۔ '' اللباب '' لفظ '' سلمی'' ( ١ ٥٥٤)

قبیلۂ اوس میں بنی لوذان کا نسب
١۔ ابن حزم کی '' جمہرہ'' صفحات ( ٣٣٢ ، ٣٣٧، ٧٤٠) اور( ٣٥٣، ٣٦٢، ٣٦٣، ٣٥٦)
اسود عنسی کی داستان اور عبید بن صخر کی بات
١۔ '' تاریخ طبری'' ( ١ ١٨٥٣، و ١٨٦٨)
٢۔ ابن مندہ کی '' اسماء الصحابہ'' عبید کے حالات کے ضمن میں ۔
اس کا قلمی نسخہ کتاب خانہ '' عارف افندی ' مدینۂ منورہ میں موجود ہے۔

معاذ بن جبل کے حالات
١۔ بغوی کی ''معجم الصحابہ'' ( ٢١ ١٠٦ ) اس کتاب کا ایک نسخہ کتاب خانۂ آیت اللہ مرعشی نجفی ، قم میں موجود ہے۔
٢۔ ابن حجر کی '' اصابہ'' ( ٣ ٤٠٦)
٣۔ ذہبی کی '' سیر اعلام النبلائ'' ( ١ ٣١٨ ۔ ٣٢٥)

صخر بن لوذان کے حالات :
١۔ تاریخ المستخرج '' تالیف ابو القاسم عبد الرحمان بن اسحاق بن مندہ، ورقہ ١٤٠۔