چوتھا حصہ
رسول خداۖ اور ابو بکر کے گماشتے اور کارگزار
r٣٠۔ عبید بن صخر بن لوذان انصاری ، سلمی
r٣١۔ صخر بن لوذان
r٣٢۔ عکاشہ بن ثور
r٣٣۔ عبد اللہ بن ثور
r٣٤۔ عبید اللہ بن ثور
تیسواں جعلی صحابی
عبید بن صخر
اس صحابی کے تعارف کے سلسلہ میں ہم کتاب '' استیعاب''میں یوں پڑھتے ہیں:
عبید بن صخر بن لوذان انصاری ان افراد میں سے ہے جسے پیغمبرخداۖ نے اپنے گماشتے اور گارگزار کی حیثیت سے یمن میں ممور فرمایا تھا۔
کتاب '' اسد الغابہ'' اور '' تجرید'' میں آیا ہے:
عبید ان افراد میں سے ہے جسے رسول خدا ۖ نے معاذ بن جبل ١کے ہمراہ یمن بھیجا ہے وہ ....
کتاب '' اصابہ'' میں بھی یوں لکھا ہے:
بغوی اور دوسروں نے اس ۔۔ عبید بن صخر ۔۔ کو رسول خدا ۖ کے اصحاب میں شمار کیا ہے۔ ابن سکن کہتا ہے : کہا گیا ہے کہ اس نے پیغمبر خدا ۖ کی مصاحبت کا شرف حاصل کیا ہے۔ لیکن اس حدیث کے اسناد صحیح اور قابل اعتبار نہیں ہیں۔
..............
١۔ معاذ بن جبل انصاری ٢١ سالہ تھے جب انہوں نے جنگِ بدر میں شرکت کی تھی ۔ عمر ، دوسرے خلیفہ نے معاذ کی تعریف میں کہا ہے : '' عورتیں معاذ جیسے مرد کو جنم دینے میں بے بس ہیں'' معاذ نے ١٧ یا ١٨ ھ میں طاعون میں مبتلا ہونے کی وجہ سے وفات پائی ۔ '' اسد الغابہ (٣ ٤٠٦)
اس صحابی کا نسب
طبری نے اپنی تاریخ میں سیف کی روایت سے استناد کرکے عبید کے نسب کو یوں بیان کیا ہے:
'' عبید بن صخر بن لوذان سلمی''
البتہ اس شجرۂ نسب کو سیف نے گھڑ لیا ہے اور طبری نے اسے اپنی کتاب میں درج کیا ہے۔جبکہ نہ مادۂ '' سلمی'' میں انصار کے زمرہ میں عبید بن صخر کا کہیں نام آیا ہے اور نہ بنی لوذان۔ یہ بات بھی کہہ دیں: جیسا کہ انساب کی کتابوں میں آیا ہے کہ '' لوذان'' اور '' سلمی'' ایک قبیلہ میں قابل جمع نہیں ہیں، کیونکہ سلمی بنی تزید بن جشم بن خزرج کے سلسلۂ سلمة بن سعد'' کی طرف نسبت ہے ١
اب اگر لوذان '' اوسی'' ہو تو اس قبیلہ سے ہوگا : '' لوذان بن عمرو بن عوف ابن مالک بن اوس'' اس صورت میں واضح ہے کہ یہ قبیلہ سلمی خزرجی کے نسب سے وابستہنہیں ہوسکتا ہے۔
لیکن اگر ''لوذان ''خزرجی ہو تو درج ذیل تین قبیلوں میں سے ایک میں قرار پائے گا:
١۔ لوذان بن سالم ، بنی عوف بن خزرج سے۔
٢۔ لوذان بن عامر ، بنی حارث بن خزرج سے ۔
..............
١۔ کتاب لباب الانساب میں یہ نسب اس طرح آیا ہے ، ضمناً نحویوں نے '' سلمی '' کے ''لام'' کو مفتوح (زَبَر) اور محدثین نے مکسور ( زیر) پڑھا ہے۔
٣۔ لوذان بن حارثہ ، بنی مالک بن زید مناة سے ، غضب بن جشم بن خزرج کے پوتوں میں سے۔
یہ سب ۔۔ لوذان١۔۔ عوف بن خزرج ، حارث بن خزرج اور غضب بن خزرج کے بیٹے ہیں جبکہ سلمیٰ کی اولاد بنی تزید بن جشم بن خزرج کے فرزند ہیں۔
عبید بن صخر کی داستان
عبید کی یمن میں ماموریت : عبید کی داستان درج ذیل سات روایتوں کے ذریعہ معتبر مصادر میں ثبت ہوئی ہے:
١۔ '' تاریخ طبری'' میں سیف بن عمر سے روایت ہوئی ہے کہ اس نے کہا:
سہل بن یوسف نے اپنے باپ سے اس نے عبید بن صخر لوذان انصاری سلمی سے حکایت کی ہے کہ رسول خدا ۖ نے ١٠ ھ میں حجة الوداع کے مناسک انجام دینے کے بعد اپنے چند دیگر گماشتوں اور کارندوں کے ہمراہ عبید کو مموریت دی ... (یہاں تک کہ کہتا ہے) :
معاذ بن جبل کو بھی احکام اور قوانین اسلام کے معلم کے عنوان سے علاقہ حضرموت کی طرف روانہ فرمایا ۔
ابن حجر نے بھی اپنی کتاب '' اصابہ'' میں عبید کے حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے اسی روایت کی طرف اشارہ کیا ہے۔
١۔'' لوذان'' کے بارے میں ابن حزم کی کتاب ''جمہرہ'' کی طرف رجوع فرمائیں۔
٢۔ طبری پھر اسی مذکورہ سند سے استناد کرکے لکھتا ہے : عبید بن صخر سے روایت ہوئی ہے کہ اس نے کہا:
جب ہم '' جَنَد'' ١ میں تھے اور وہاں کے باشندوں پر شائستہ صورت میں حکومت کرتے تھے ۔ ہمارے درمیان خطوط اور قراردادوں کا تبادلہ ہوتا تھا، اسی اثناء میں اسود کی طرف سے مندرجہ ذیل مضمون کا ایک خط ہمارے پاس آیا:
ہمارے اورپر مسلط ہوئے تم لوگوں کو میں خبردار کرتا ہوں کہ جو کچھ ہماری سرزمنیوں سے لے چکے ہو ، انہیں ہمارے لئے ایک جگہ جمع کردو کہ ہم ان چیزوں پر تم سے تصرف کا تم سے زیادہ حق رکھتے ہیں ....( یہاں تک کہ عبید کہتا ہے ) ہمیں اطلاع ملی ہے کہ ۔۔۔ اسود ۔۔ نے '' باذام'' ٢ کو قتل کرکے ایرانیوں کو وہاں سے بھگا دیا ہے اور صنعا پر قبضہ کرلیا ہے ۔ معاذ بن جبل نے بھی فرار کرکے ابو موسیٰ اشعری ٣ کے ہمراہ حضرموت میں پناہ لے لی ہے ۔ دوسرے گورنر اور علاقہ کے
..............
١۔حموی کی '' معجم البلدان'' میں لفظ ''جَنَد'' کے بارے میںیوں آیا ہے : اسلام کے دور میں حکومتی لحاظ سے یمن تین علاقوں میں تقسیم ہوتا تھا۔ ان میں سے سب سے بڑا '' جَنَد'' نام کا علاقہ تھا ۔ یہ صنعا سے ٥٨ فرسخ کی دوری پر واقع ہے ....
٢۔ باذام یا باذان ایک ایران ی تھا جو جو گزشتہ زمانے میں ایران کے بادشاہ کی طرف سے یمن پر حکومت کرتا تھا ۔ ایران کے بادشاہ کے مرنے کے بعد باذام اسلام لایا اور مرتے دم تک یا مدعی پیغمبری '' اسود'' کے ہاتھوں قتل ہونے تک اسی حالت میں یمن میں زندگی بسر کرتا رہا '' اصابہ'' ابن حجر ( ١ ١٧١) '' فتح البلدان'' بلاذری ( ١٢٦)
٣۔ ابو موسیٰ اشعری ، اس کا نام عبد اللہ بن قیس ہے جو قبائل قحطان کے بنی اشعر سے ہے ابو موسیٰ مکہ آیا اور سعید بن عاص اموی سے عہد و پیمان کر کے پھر اسلام لایا۔ عمر نے اپنی خلافت کے زمانے میں اسے بصرہ کا گورنر منصوب کیا ۔ لیکن عثمان کے خلافت پر بیٹھنے کے بعد اسے معزول کیا گیا اور ایک بار پھر لوگوں کے مطالبے پر اسے کوفہ کا گورنر مقرر کیا اور امیر المؤمنین کی خلافت تک اسی عہدے پر فائز تھا ۔ امیر المؤمنین نے ابو موسیٰ کو کوفہ کی گورنر سے معزول کیا ۔ جب صفین کی جگں میں مسئلہ حکمیت پیش آیا
تو عراق کے لوگوں نے امیر المؤمنین کی مرضی کے خلاف ابو موسی کو حَکَم کے عنوان سے انتخاب کیا ۔ ابو موسیٰ نے یہاں پر عمرو عاص سے دھوکہ کھایا او شرمندگی کی حالت میں مکہ چلا گیا اور وہیں پر ٤٢ یا ٤٤ یا ٥٢ میں وفات پائی ، '' استیعاب '' ، '' اسد الغابہ '' اور '' اصابہ '' میں اس کے حالات درج ہیں۔
گماشتے طاہر ابو ہالہ کے گرد جمع ہوئے ہیں۔
ابن حجر بھی عبید کے حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے اپنی کتاب '' اصابہ'' میں اس داستان کا آغاز کرتا ہے:
اور سیف نے اپنی کتاب '' فتوح'' میں ذکر کیا ہے ... ( مذکورہ داستان کو نقل کرتا ہے )
٣۔ طبری ایک دوسری جگہ پر اپنی کتاب میں اسی گزشتہ سند کے مطابق لکھتا ہے :
عبید بن صخر سے روایت ہوئی ہے کہ اس نے کہا: اسودعنسی کے کام میں آغاز سے انجام تک تین مہینے لگ گئے۔
طبری کے ہاں عبید کی یہی روایتیں تھی جو ہم نے بیان کیں۔ لیکن دوسروں کے ہاں درجِ ذیل مطالب دیکھنے میں آتے ہیں :
٤۔ ابن مندہ نے اپنی کتاب '' اسماء الصحابہ ''میں اور ابن اثیر نے '' اسد الغابہ'' میں سیف بن عمر سے اس نے سہل بن یوسف بن سہل انصاری سے اس نے اپنے باپ سے اس نے عبید بن صخر بن لوذان انصاری سے نقل کرکے لکھا ہے:
رسول خدا ۖ نے یمن میں موجود اپنے تمام گماشتوں اور کارندوں کو یہ حکم دیا کہ : قرآن زیادہ پڑھیں ، ایک دوسرے کی مسلسل پند و نصیحت کریں ، کیونکہ مموریت کے علاقہ
میں گماشتوں اور کارندوں کیلئے وہ سب سے زیادہ طاقتور پشت پناہ ہے جو خدا کی
مرضی کے مطابق عمل کرے۔دوسروں کی ملامت اور سرزنش سے خوفزدہ نہ ہونا اور جس خدا کی طرف پلٹنا ہے اسے مد نظر رکھنا۔
ابن حجر نے اپنی کتاب ''اصابہ'' میں اسی مطلب کو ابن سکن، بغوی اور طبری سے نقل کرکے درج کیا ہے جبکہ ہم نے تاریخ طبری کے نسخوںمیں اس قسم کی حدیث کو نہیں پایا ۔
٥۔ ابن عبدا لبر '' استیعاب'' میں لکھتا ہے :
سیف نے سہل بن یوسف بن سہل سے اس نے اپنے باپ سے اور اس نے عبید بن صخر لوذان ١ انصاری سے روایت کی ہے کہ اس نے کہا:
رسول خدا ۖ نے حکم دیا تھا کہ آپ ۖ کے گماشتے اور کارندے یمن میں ہر تیس گائے میں سے ایک سالہ گائے کا ایک بچھڑا اور ہر چالیس گائے میں سے ایک گائے کو صدقات کے طور پر وصول کریں اور ان دو حد نصاب کے درمیان ادا کرنے والے پر کوئی اور چیز بعنوان زکات نہیں ہے۔
ابن اثیر اسی حدیث کو '' اسد الغابہ '' میں نقل کرتے ہوئے اضافہ کرتا ہے اس حدیث کو دیگر تین مصادر نے بھی نقل کیا ہے۔
ابن اثیر کی مراد یہ ہے کہ سیف کی اس حدیث کو ابن عبد البر نے'' استیعاب'' میں ابن مندہ نے '' اسماء الصحابہ'' میں اور ابو نعیم نے ''معجم الصحابہ'' میں نقل کیا ہے۔
٦۔ چند دانشوروں جیسے : بغوی نے اپنی کتاب '' معجم الصحابہ '' میں ،معاذبن جبل کے حالات
١۔ لوذان '' ک سلسلے میں ابن حزم کی ''جمہرۂ انساب '' مطالعہ کی جائے۔
میں ابن قانع نے اپنی کتاب''معجم الصحابہ'' میں اور ابن مندہ نے اپنی کتاب '' اسماء الصحابہ'' میں عبید بن صخر کے حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے :
سیف بن عمر نے سہل بن یوسف بن سہل سے ، اس نے اپنے باپ سے اس نے عبید بن صخر بن لوذان سے ۔۔ جو خود ان افراد میں سے تھا جسے رسول خدا ۖ نے اپنے دیگر گماشتوں کے ہمراہ مموریت پر یمن بھیجا تھا۔۔۔ روایت کی ہے کہ رسول خدا ۖ نے معاذ بن جبل کو یمن کی طرف بعنوان معلم روانہ کرتے وقت فرمایا :
میں دین میں تمہارے مقام و منزلت اور یہ کہ تم نے کس حدتک دین سے استفادہ کیا ہے ، جانتا ہوں، میں نے '' تحفہ و تحائف '' تم پر حلال کردئے پس اگر تم نے تحفہ کے عنوان سے کوئی چیز دی جائے تو اسے قبول کرنا ! معاذ بن جبل جب یمن سے مدینہ واپس آرہے تھے ، تو تیس جانوروں کو اپنے ہمراہ لے آرہے تھے جو انہیں ہدیہ کے طور پر دئے گئے تھے!!
ابن حجر نے بھی اس حدیث کو عبید کے حالات کی تشریح میں ابن سکن اور طبری سے نقل کر کے اور معاذ کے حالات کی تشریح میں براہ راست سیف کی کتاب '' فتوح '' سے نقل کرکے اپنی کتاب '' اصابہ'' میں درج کیا ہے جب کہ ہم نے مذکورہ حدیث کو تاریخ طبری کے موجودہ نسخوں میں نہیں پایا۔
٧۔ ذہبی اپنی کتاب '' سیر اعلام النبلاء '' میں معاذ بن جبل کے حالات میں لکھتا ہے :
سیف بن عمر نے سہل بن یوسف بن سہل سے اس نے اپنے باپ سے اس نے عبید بن صخر سے روایت کی ہے کہ جب معاذ بن جبل رسول خدا ۖ کی طرف سے مموریت پر صوب کی طرف روانہ ہورہے تھے تو رخصت کے وقت آنحضرت ۖ نے ان سے فرمایا:
خدا تجھے ہر حادثہ کے مقابلے میں محفوظ رکھے اور تجھے جن و انسان کے شر سے بچائے ۔ جب معاذ چلے گئے تو رسول خدا نے ۖ امکی ستائش میں فرمایا : وہ ایسی حالت میں دنیا سے اٹھے گا کہ اس کا مقام علماء و محققین سے بہت بلند ہوگا!!
بغوی نے بھی اس حدیث کو چند الفاظ کے اختلاف کے ساتھ معاذ کی تشریح میں درج کیا ہے۔
جیسا کہ ہم نے دیکھا کہ جن دانشوروں نے عبید بن صخر کے حالات کی تشریح میں اس کو اصحاب کے زمرہ میں شمار کیا ہے انہوں نے سیف کی ان ہی سات احادیث پر اعتماد کیا ہے۔
ابن قدامہ نے بھی سیف کی پانچویں حدیث پر اعتماد کرکے اپنی کتاب '' انصاری اصحاب کا نسب 'میں عبید کے حالات کی تشریح کرتے ہوئے دو جگہوں پر یوں بیان کیا ہے ۔
١۔ کتاب کے آخر میں چند معروف و مشہور اصحاب کا تعارف کراتے ہوئے عبید کے حالات کی تشریح میں لکھتا ہے :
عبید بن صخر بن لوذان انصاری کو رسول خدا ۖ نے اپنے گماشتے کے طور پر مموریت دی ہے ۔ یوسف بن سہل نے اس سے روایت کی ہے کہ اس نے کہا : پیغمبر خدا ۖ نے حکم فرمایا تھا کہ آپ کے گماشتے ہر تیس گائے کے مقابلہ میں ایک سالہ گائے کا ایک پچھڑا اور ہر چالیس گائے کے مقابلے میں ایک گائے کو صدقات کے طور پر وصول کریں اور ان دو حدِ نصاب کے درمیان کسی چیز کا تعین نہیں ہوا ہے۔
٢۔ ''بنو مالک بن زید مناة'' کے باب میں بھی اس کے حالات کی تشریح کی گئی ہے ۔ ابن قدامہ نے عبید کے حالات کی وضاحت معروف و مشہور اصحاب کے باب میں کی ہے ، کیونکہ عبید کی روایت کا ماخذ صرف سیف تھا اور سیف نے بھی عبید ، اس کے باپ اور جد کے نام کے علاوہ کسی اور کا نام نہیں لیا ہے۔چونکہ '' ابن قدامہ '' کو سیف کے اس جعلی صحابی کے شجرۂ نسب کا کوئی پتا نہ ملا لہذا مجبور ہوکر اسے ان صحابیوں کے باب میں قرار دیا ہے جو اپنے نام سے پہچانے گئے ہیں۔
'' ابن قدامہ '' نے عبید کے نام کو دوبارہ ' ' بنو مالک بن زید مناة'' کے باب میں ذکر کیا ہے ، کیونکہ اس نے یہ تصور کیا ہے کہ جس لوذان کو سیف نے عبید کے جد کے طورپر پہچنوایا ہے وہ وہی بنی مالک بن زید مناة کا لوذان بن حارثہ ہے لیکن وہ اس امر سے غافل رہا ہے کہ بنی مالک بن زید مناة ، بنی غضب بن جشم خزرج میں سے ہے اور وہ قبیلہ سلمی کے علاوہ ہیں کہ جس قبیلہ سے سیف نے اپنے عبید کو خلق کیا ہے۔
کیونکہ جیسا کہ بیان کیا گیا کہ انصاریوں کے سلمی بنی سلمہ بن سعد، بنی تزید بن جشم بن خزرج سے ہیں کسی اور قبیلہ سے نہیں۔
ساتویں صدی ہجری کا نامور نسب شناس ابن قدامہ عبید بن صخر اور اس کی داستان کو مندرجہ ذیل مشہور و معروف کتابوں میں دیکھ کر متثر ہوا ہے ِ:
١۔ سیف ابن عمر کی کتاب ' ' فتوح'' ( ١٢٠ ھ تک با حیات تھا)
٢۔۔ امام المؤرخین طبری کی تاریخ ( وفات ٣١٠ ھ
٣۔ بغوی کی '' معجم الصحابہ'' ( وفات ٣١٧ ھ )
٤۔ ابن قانع کی '' معجم الصحابہ'' (وفات ٣٥١ ھ)
٥۔ اسحاق بن مندہ کی '' اسماء الصحابہ'' ( وفات ٣٩٥ھ)
٦۔ ابو نعیم ( وفات ٤٣٠ ھ) کی '' معرفة الصحابہ'' ابن اثیر کی روایت کے مطابق '' اسد الغابہ' ' میں ۔
٧۔ ابن عبدا لبر ( وفات ٤٦٣ ھ کی '' استیعاب'' میں
٨۔ ابن مندہ ( وفات ٤٧٠ ھ) کی '' التاریخ المستخرج من الحدیث''
٩۔آخر میں ابن قدامہ ( وفات ٦٢٠ ھ ) کی '' نسب الصحابہ من الانصار '' ۔ابن قدامہ نے مذکورہ کتابوں کے علاوہ ان جیسی دیگر کتابوں میں عبید کا نام دیکھا ہے اور یہ تصور کیا ہے کہ عبید رسولۖ خدا کا صحابی تھا۔اسی لئے اس کے نام کو اپنی کتاب میں درج کیا ہے۔
لیکن اس نے اور مذکورہ دوسرے دانشوروں نے اس مطلب کی طرف توجہ نہیں کی ہے کہ ان تمام روایتوں کا ماخذ صرف سیف بن عمر ہے جو کہ دروغ سازی اور زندیقی ہونے کا ملزم ٹھہرایا گیا ہے۔
عبید بن صخر کو اصحاب کے حالات پر روشنی ڈالنے والے تمام علماء نے رسول خدا ۖ کے اصحاب کے زمرے میں قرار دیا ہے ۔لیکن ان حجر کے بقول ابن سکن ( وفات ٣٥٣ ھ) کا کہنا ہے: کہ
لوگ کہتے ہیں : وہ ۔۔ عبید۔۔ اصحاب میں سے ہے ۔ لیکن اس کی حدیث کے اسناد صحیح اور قابل اعتماد نہیں ہیں ۔
اس سے پتا چلتا ہے کہ ابن سکن اس صحابی اور اس کی حدیث کے بارے میں مشکوک تھا لیکن اس نے اپنے شک و شبہہ کے سبب کا اظہار نہیں کیا ہے ۔
ایسا لگتا ہے کہ ابن حجر بھی اس صحابی کے بارے میں غلط فہمی کا شکار ہوا ہے شاید اسی لئے اس نے اپنی بات کے اختتام پر اس کے بارے میں '' ز'' کی علامت لگائی ہے ۔ اور ہم جانتے ہیں کہ ابن حجر اس رمز سے اس وقت کام لیتا جب اس صحابی کے بارے میں دوسرے تذکرہ نویسوں جیسے ، ابن اثیر کی '' اسد الغابہ'' میں اور ذہبی کی '' تجرید '' میں لکھے گئے مطالب پر کچھ اضافہ کرتا یا ممکن ہے یہ غلطی عبارت نقل کرنے والے کی ہو۔
خلاصہ
ہم نے عبید بن صخر کو جس طرح اسے سیف نے خلق کیا ہے اس کی مذکورہ سات روایتوں میں پایا اور سیف نے اپنی اس تخلیق کو اس طرح پہنچوایا ہے:
١۔ عبید وہ شخص تھا جسے پیغمبر خدا ۖ نے ١٠ ھ میں حجة الوداع کے بعد اپنے گماشتے کی حیثیت سے یمن بھیجا تھا ۔
٢۔ پیغمبر خدا ۖ نے اس دن اپنے کارندوں اور گماشتوں کو یمن کیلئے ممور فرماتے ہوئے تاکید فرمائی ہے کہ اپنے امور میں زیادہ تر قرآن مجید کی طرف رجوع کریں اور ...
٣۔ تیس گائے کیلئے حد نصاب گائے کے ایک سالہ ایک بچھڑے کو تعیین فرمایا ہے و...
٤۔ اور معاذ بن جبل کو اس کے ہمراہ اہالی یمن اور حضرموت کیلئے معلم معین فرماکر فرمایا: میں نے تحفہ و تحائف تمہارے لئے حلال کردیے ہیں ۔ اور معاذ تیس جانوروں کو لئے مدینہ لوٹا ، جو اسے تحفہ کے طور پر ملے تھے۔
٥۔ یہاں پر پیغمبر ۖ نے معاذ کے حق میں دعا کرتے ہوئے فرمایا: وہ قیامت کے دن اس حالت میں اٹھے گا کہ اس کا مقام تمام علماء اور محققین سے بلند ہوگا۔
٦۔ جھوٹی پیغمبری کا دعویٰ کرنے والے '' اسود'' نے پیغمبر خد اۖ کے گماشتوں کو لکھا کہ ہماری جن سرزمینوں پر قابض ہوئے ہو ، انھیں واپس کردو، اس نے ایرانیوں سے جنگ کرکے انھیں شکست دی اور نتیجہ کے طور پر پیغمبر خدا ۖ کے دو گماشتے اور گورنر معاذ اور ابو موسی جو یمانی قحطانی تھے ، حضرموت بھاگ گئے اور باقی افراد نے یمانی گورنر طاہر ابو ہالہ کے گرد جمع ہوکر وہاں پناہ لی۔
داستان عبید کے ماخذ کی پڑتال
سیف بن عمر نے مذکورہ سات احادیث کو سہل بن یوسف بن سہل سلمی سے اس نے اپنے باپ سے اور اس عبید بن صخر سے کہ سہل ، یوسف اور عبید تینوں سیف کے خیالات کی ہیں ، نقل کرکے بیان کیا ہے ....
اس بحث و تحقیق کا نتیجہ
سیف نے روایت کی ہے کہ عبید بن صخر یمن میں رسول خدا ۖ کا کارندہ و گماشتہ تھا ، لیکن ہم نے اس کا نام رسول خدا ۖ کے گماشتوں اور کارندوں کی فہرست میں سیف کے علاوہ اور وہ بھی افسانۂ طاہر میں ، کہیں اور نہیں دیکھا ۔ سیف نے عبید کی زبانی رسول خدا ۖ سے ایک حدیث نقل کی ہے جو کہ گائے کی زکات کا نصاب مقرر کرنے ، آنحضرت ۖ کے گماشتوں اور کارندوں کی راہنمائی معاذ کیلئے تحفہ لینے کو حلال قرار دینے سے مربوط ہے اس کے علاوہ اس کی زبان سے مدعی پیغمبر '' اسود'' کی بغاوت ، پیغمبر کے گماشتوں اور کارندوں کے ابو ہالہ مضری کے ہاںپناہ لینے اورارتداد کے دیگر واقعات کے بارے میں بھی ایک روایت نقل کی ہے ہمیں اس قسم کے مطالب رجال اور روات کی تشریح سے مربوط کتابوں میں کہیں بھی نہیں ملے۔
جو کچھ ہم نے سیف کے ہاں عبید بن صخر کے بارے پایا یہی تھا جس کا ہم نے ذکر کیا سیف نے ان روایتوں میں عبید کی شجاعتوں اور دلاوریوں کا کوئی ذکر نہیں کیا ہے اور قصیدوں ، رزمی اشعار اور میدان کارزار میں خودستائیو کا کوئی ذکر نہیں کیا ہے ۔ اس کا سبب یہ ہے کہ سیف شجاعتوں' پہلوانیوں ، جنگی کارناموں اور رجزخوانیوں کو پہلے مرحلہ میں صرف خاندان تمیم کیلئے اور دوسرے درجے میں مضر اور ان کے ہم پیمانوں کیلئے خلق کرتا ہے اس کے بعد کے درجے کے کردار ان کے حامیوں اور طرفداروں کیلئے مخصوص کرتا ہے تاکہ وہ سیف کے اصلی سورماؤں کیلئے مداحی اور قصیدہ خوانی کریں ، اور گرفتاری و مشکلات میں ان کے ہاں پناہ لیں اور ان کے سائے میں اطمینان اور آرام کا سانس لیں۔ اور یہ وہی دوسرا کردار ہے جسے سیف نے اس افسانہ میں عیبد بن صخر انصاری سبائی یمانی کیلئے بیان کیا ہے ۔
یہاں پر بیجا نہیں ہوگا اگر ہم یہ کہیں کہ سیف نے رسول خدا ۖ سے نسبت دی گئی جھوٹی حدیث کے مطابق اور اس کے دعوے کے مطابق رسول خدا ۖ معاذ بن جبل سے فرماتے ہیں '' تحفہ و تحائف کو میں نے تم پر حلال کردیا ہے ' ' یہاں تک کہ کہتا ہے : '' معاذ اپنی ماموریت کی جگہ سے تیس حیوانوں کولے کر مدینہ لوٹے ، جو انہیں تحفہ کے طور پر ملے تھے'' یہ سب اسلئے ہے کہ سیف خاندان '' بنی امیہ '' کے حکام کا دفاع کرے اور حکمرانی کے دوران ان کے نامناسب اقدام اور جبری طور پر لوگوں سے مال لینے اور رشوت ستانیوںکی معاذ کے اس افسانہ کے ذریعہ توجیہ کرے
بنی امیہ کے سرداروں کے اجبار، زبردستی اور رشوت ستانی کی توجیہ کرنے کی سیف کی کوشش اس لئے ہے کہ وہ اس خاندان سے تعلق رکھتے ہیں جن کے مقام و منزلت کا تحفظ اور ان کے افتخارات کا دفاع در حقیقت سیف کا اپنا مشن ہے ۔
|