ایک سو پچاس جعلی اصحاب(جلدسوم)
 

پچیسواں جعلی صحابی عبد اللہ بن حکیم ضبی
ابن اثیر نے اپنی کتاب '' اسد الغابہ'' میں اس صحابی کا یوں تعارف کرایا ہے :
سیف بن عمر نے صعب بن عطیہ بن بلال بن ہلال سے ، اس نے اپنے باپ سے اس نے '' عبد الحارث بن حکیم '' سے روایت کی ہے کہ وہ ۔۔ عبد الحارث بن حکیم ۔۔ جب رسول خدا ۖ کی خدمت میں پہنچا تو آنحضرت ۖ نے اس سے پوچھا :
تمہارا نام کیا ہے ؟
اس نے جواب دیا: عبدا لحارث بن حکیم
آنحضرت ۖ نے فرمایا: آج کے بعد تمہارا نام عبد اللہ ہوگا۔
اس کے بعد رسول خدا ۖ نے اسے اپنے قبیلہ '' بنی ضبہ''کے صدقات جمع کرنے کے لئے ممور فرمایا:
ابو موسیٰ نے اس صحابی کو ابن مندہ سمجھ لیا ہے ....
ابن حجر نے بھی اپنی کتاب '' الاصابة'' میں یوں بیان کیا ہے :
دار قطنی نے سیف کی کتاب '' فتوح '' سے نقل کرکے صعب ابن عطیہ سے روایت کی ہے ...اور اسی مذکورہ داستان کونقل کیا ہے
اس صحابی کی زندگی کے حالات کی تشریح کرتے ہوئے کتاب '' التجرید'' میں اس طرح درج کئے گئے ہیں :
سیف بن عمر کے ذریعہ نقل ہوا ہے کہ وہ ۔۔ عبد الحارث بن حکیم ۔۔ نمائندہ کی حیثیت سے رسول اللہ ۖ کی خدمت میں پہنچا ہے۔

چھبیسواں جعلی صحابی حارث بن حکیم ضبی
ابن اثیر نے کتاب '' اسد الغابہ '' میں اس صحابی کا تعارف یوں کرایا ہے :
ابو موسیٰ کی کتاب میں آیا ہے .... ( اس کے بعد عبد الحارث کی وہی داستان اور رسول خدا ۖ کی خدمت میں نمائندہ کے طور پر پہنچنے کا موضوع بیان کیا ہے !)
کتاب ' ' الاصابة'' میں یوں آیا ہے :
ابن شاہین اور ابو موسیٰ دونوں نے سیف سے نقل کیا ہے .... ( یہاں پر عبدا لحارث کی وہی مذکورہ داستان بیان ہوئی ہے )
ذہبی بھی اپنی '' التجرید'' میں لکھتا ہے :
ناقابل اطمینان طریقے سے روایت کی گئی ہے کہ اس کا نام عبد الحارث تھا اور پیغمبر خدا ۖ نے اس کا نام بدل کر عبد اللہ رکھا ۔
ہم نے سیف کی گزشتہ روایت میں دیکھا کہ اس نے ایک نمائندہ کے رسول خدا ۖ کی خدمت میں پہنچنے کی خبر دی ہے اور پیغمبر خدا ۖ نے اس کا نام عبد الحارث بن حکیم سے بدل کر '' عبداللہ بن حکیم '' رکھا ہے۔
لیکن دانشوروں نے سیف کے تخلیق کردہ اسی ایک آدمی کو دو آدمیوں میں تبدیل کرکے صحابی رسول اللہ ۖ کے عنوان سے زندگی کے حالات پر الگ الگ روشنی ڈالی ہے۔
لیکن '' اسد الغابہ '' کے مطابق سیف نے دوسری روایت میں ان کی اس داستان کو '' عبدا للہ بن زید بن صفوان '' سے ٍمنسوب کیا ہے ۔ ابن اثیر لکھتا ہے :
دارقطنی نے سیف بن عمر سے اس نے صعب بن عطیہ سے ، اس نے بلال بن ابی بلال ضبی سے اس نے اپنے باپ سے روایت کی ہے کہ عبد الحارث بن زید ضبی نمائندہ کی حیثیت سے پیغمبر خدا ۖ کی خدمت میں اس نے اپنا تعارف کرایا، اور پیغمبر خدا ۖ نے اس کے حق میں دعا کی ۔
یہ صحابی نے رسول خدا ۖ کی خدمت میں پہنچے کے بعد اسلام لایا اور رسول خدا ۖ نے اس سے فرمایا:کہ
اس کے بعد تمہارا نام '' عبدا للہ '' ہوگا نہ عبد الحارث۔ اس نے جواب میں کہا :
آپ ۖ حق پر ہیں اور آپ ۖ نے کیا اچھا فرمایا ہے ۔ کیونکہ کسی بھی قسم کی پرہیز گاری اور تقویٰ تائید الٰہی کے بغیر میسر نہیں ہوتی اور کوئی بھی کام توفیق الٰہی کے بغیر ممکن نہیں ہے ، شائستہ ترین کام وہ ہے جس کی انجام دہی میں ثواب ہو اور جس چیز سے دوری اختیار کرنا چاہئے وہ ایسا کام ہے جس کے پیچھے عذاب الٰہی ہوتا ہے۔
اللہ جیسے خدا کو رکھتے ہوئے ہم خوش ہیں ، ہم اس کے حکم کی اطاعت کرتے ہیں تاکہ اس کے اچھے اور خیر خواہانہ وعدوں سے استفادہ کرسکیں اور اس کے غضب اور عذاب سے امان میں رہیں !
عبد الحارث جو '' عبدا للہ '' بن چکا تھا اپنے قبیلے کی طرف لوٹا اور اس نے ہجرت نہیں کی۔
اس مطلب کو ابو موسیٰ نے بھی ذکر کیا ہے ...
ابن حجر کی '' الاصابة'' میں بھی آیا ہے :
دار قطنی نے سیف بن عمر سے اس نے بلال بن ابی بلال سے اس نے اپنے باپ سے روایت کی ہے کہ ... ( یہاں پر مذکورہ داستان کو نقل کرتا ہے )
مذکورہ روایت ابن کلبی کی '' جمہرہ '' میں یوں آئی ہے :
عبد الحارث بن زید... ( اس کا نسب بیان کرنے کے بعد لکھتا ہے :)
وہ نمائندہ کی حیثیت سے پیغمبر خدا ۖ کی خدمت میں پہنچا اور آنحضرت ۖ نے اس کے نام کو بدل کر '' عبداللہ '' رکھا۔
ابن حزم نے بھی اپنی کتاب '' جمہرہ''' میں ان ہی مطالب کو بیان کیا ہے ۔
مذکورہ داستان کو ابن عبدا لبر نے '' استیعاب '' میں ، ابن اثیر نے '' اسدا لغابہ'' میں اور ابن حجر نے ''الاصابہ'' میں ابن کلبی ، محمد بن حبیب اور ابن ماکولا جیسے دانشوروں سے نقل کیا ہے۔
اس بناء پر اس روایت کی سند ابن کلبی پر ختم ہوتی ہے ۔ کیونکہ ابن حبیب ابن حزم اور ابن ماکولا سب کے سب ابن کلبی سے روایت کرنے والے تھے۔ اور چونکہ اس دانشور نے ٢٠٤ ھ میں وفات پائی ہے اور سیف کی کتاب '' فتوح'' بھی اس تاریخ سے آدھی صدی سے زیادہ پہلے لکھی جا چکی ہے ۔ لہذا یہ اطلاعات ہمیں یہ حق دیتے ہیں کہ ہم یہ کہیں کہ : ابن کلبی نے مذکورہ خبر کو سیف سے نقل کرکے اسے خلاصہ کیا ہے ۔
بہر حال ہم زید بن صفوان کو سیف کی تخلیق شمار نہیںکرتے ہیں ، کیونکہ ہمیں ابن کلبی کی کتاب '' جمہرہ'' نہیں ملی جس کے ذریعہ ہم اس کی خبر کی یقینی طور پر تائید کرتے۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ یہی ایک شخص ۔۔۔ زید بن صفوان ۔۔ رجال کی تشریح میں لکھی گئی کتابوں میں حسب ذیل تین روپوں میں درج ہوا ہے :
١۔ عبدا للہ بن حارث بن زید بن صفوان '' جو '' اسد الغابہ'' ، '' تجرید'' ، '' الاصابہ'' اور ابو موسی کے ذیل میں اسی نام سے آیا ہے۔
٢۔ '' عبد اللہ بن حارث بن زید بن صفوان '' جو '' استیعاب '' ، '' اسد الغابہ'' ، '' تجرید'' اور ابو موسیٰ ذیل میں اسی نام سے ذکر ہوا ہے۔
٣۔ ابن حجر کی '' الاصابہ'' میں عبدا للہ بن حارث کا دو شخصیتوں کے عنوان سے دوجگہ پر تعارف کیا گیا ہے ۔
رسول خداۖ کی خدمت میں پہنچے ہوئے نمائندہ '' عبدا للہ بن حارث'' کے نام میں تعدّد کا سر چشمہ شاید پہلی بار '' استیعاب '' میں واقع ہونے والی تحریف جس کے نتیجہ میں ابو موسیٰ ہے نے بھی غلطی کی ہے اور اپنی کتاب ذیل میں ایک بار '' عبد اللہ بن حارث بن زید '' دوسری بار '' عبد اللہ بن زید '' کی زندگی کے حالات لکھے ہیں اور اس کے بعد دانشوروں نے اس کی پیروی کی ہے۔
ابن حجر اس غلطی کے علاوہ ایک دوسری غلطی کا بھی مرتکب ہوا ہے اور '' عبد اللہ بن حارث بن زید''کی زندگی کے حالات پر دوبار' دو جگہوں پر اپنی کتاب میں روشنی ڈالی ہے۔ اس طرح ایک جعلی شخص تین روپوں میں نمودار ہوا ہے۔

ستائیسواں جعلی صحابی حلیس بن زید بن صفوان
اس صحابی کا ' ' اسد الغابہ '' میں یوں تعارف کیا گیا ہے :
ابو موسیٰ نے ابن شاہین سے نقل کرکے ذکر کیا ہے کہ سیف بن عمر نے روایت کی ہے کہ وہ حلیس بن زید بن صفوان اپنے بھائی ' ' حارث'' کی وفات کے بعد نمائندہ کی حیثیت سے پیغمبر خدا ۖ کی خدمت میں پہنچا اور آنحضرت ۖ نے اس کے سر پر دست شفقت پھیرنے کے بعدا س کے حق میںد عا فرمائی ہے ۔
حلیس نے اس ملاقات میں رسول خدا ۖ سے کہا :
اگر مجھ پر کسی قسم کا ظلم ہوتو اس کی تلافی کیلئے اٹھتا ہوں تا کہ اپنا حق حاصل کرسکوں۔
پیغمبر خدا ۖ نے جواب میں فرمایا:
شائستہ ترین کا م جسے انجام دیا جا سکتا ہے ، عفو و بخشش ہے ۔
حلیس نے کہا:
اگر کوئی حسد کرے گا تو اس سے زبردست مقابلہ کرکے تلافی کروں گا۔
پیغمبرۖنے فرمایا:
کون ہے جو کرم کرنے والوں کے لطف و کرم کا برا جواب دے ؟! جو بھی لوگوں سے حسدکرتا ہے اس کا غصہ ٹھنڈا نہیں ہوتا اور اس کا دل آرام نہیں پاتا۔یہ مطالب ابو موسی نے بیان کئے ہیں ( ابن اثیر کی بات کا خاتمہ )
کتاب '' اصابہ'' میںہم یوں پڑھتے ہیں :
ابن شاہین نے اس کا نام لیا ہے اور سیف بن عمر سے نقل کرکے روایت کی ہے کہ ... ( یہاں پر مندرجہ بالا داستان نقل کی گئی ہے )
لیکن کتاب '' تجرید'' میں اس صحابی '' حلیس بن زید '' ۔۔ کے تعارف اور زندگی کے حالات کے بارے میں حسب ذیل مطالب پر اکتفا کی گئی ہے :
غیر مطمئن طریقہ سے روایت ہوئی ہے کہ وہ ۔۔ حلیس ۔۔ نمائندہ کی حیثیت سے پیغمبر خدا ۖ کی خدمت میںپہنچا ہے۔

اٹھائیسواں جعلی صحابی حر، یا حارث بن خضرامہ ، ضبی
'' اسدا لغابہ'' میں یوں ذکر ہوا ہے:
حارث بن خصرامہ ضبی ہلالی کے بارے میں '' حارث بن حکیم '' کے سلسلے میں بیان کئے گئے مآخذ کے مطابق آیا ہے کہ سیف بن عمر نے صعب بن ہلال ضبی اور اس نے اپنے باپ سے روایت کی ہے کہ اس نے کہا:
حر، پیغمبر خدا کی خدمت میں پہنچا ... ( تا آخر )

حر بن خضرامہ ضبی یا ہلالی :
ابن حجر کی کتاب '' اصابہ'' میں حر کی داستان یوں درج ہوئی ہے :
ابن شاہین نے سیف سے نقل کرکے صعب بن ہلال ضبی سے اور اس نے اپنے باپ سے یوں روات کی ہے :
حر بن خضرامہ بنی عباس کا ہم پیمان تھا ۔ گوسفندوں کے ایک ریوڈ اور چند غلاموں کے ہمراہ مدینہ میں رسول خدا ۖ کی خدمت میں پہنچا۔ رسول خدا ۖ نے اسے ایک کفن اور قدرے حنوط عنایت فرمایا ! اس کے بعد زیادہ وقت نہ گزرا کہ حر مدینہ میں فوت ہوگیا ۔ اس کے پسماندگان مدینہ آگئے ۔ رسول خدا ۖ نے گوسفندوں کو انھیں لوٹا دیا اور حکم دیا کہ غلاموں کو مدینہ میں بیچ کر انکی قیمت انہیں دی جائے۔ابو موسی مدائنی نے دار قطنی سے ابن شاہین کے راوی سے روایت کی ہے کہ اس نے اس صحابی کے بارے میں کہا ہے : حارث بن خضرامہ ، ! اور خدا زیادہ جاننے والا ہے !

ضبّہ کا شجرۂ نسب
ضبی ، یہ ایک نسبتی لفظ ہے اور یہ نسبت تمیم کے چچا ''صنبتہ بن ادبن طابختہ بن الیاس بن مضر '' تک پہنچتیہے ۔

داستان کے مآخذ کی تحقیق:
علماء نے سیف کے اسنادحلیس کی داستان میں ذکر نہیں کئے ہیں ۔ لیکن باقی حدیث کو سیف کے ذریعہ ، صعب سے، بلال بن ابی بلال اور اس کے باپ سے نقل کیا ہے۔
یعنی حقیقت میں ایک بناوٹی راوی نے دوسرے جعلی اور خیالی راوی سے اور اس نے بھی ایک جعلی شخص سے نقلِ قول اور روایت کی ہے۔
ساتھ ہی سیف نے اپنے افسانوں میں سے ایک افسانہ کو اسی ماخذ کے ذریعہ اپنے جعلی صحابی تک ربط دیکر نقل کیا ہے ۔ ہم نے اس موضوع کے بارے میںا پنی کتاب '' رواة مخلتقون'' میں اشارہ کیا ہے ۔

سیف کی روایت کا دوسروں سے موازنہ
سیف تنہا شخص ہے جس نے مذکورہ داستانوں کی روایت کی ہے ۔ جبکہ جن افراد نے انتہائی دقت اور احتیاط کے ساتھ رسول ۖ خدا کی خدمت میں پہنچے وفود اورنمائندوں کے بارے میں تفصیلات لکھے ہیں ،ان میں سیف کے مذکورہ مطالب کا ذکر نہیں کیا ہے۔ ابن سعد جیسے عالم نے اپنی کتاب ''طبقات'' میں سیف کی روایتوں پر کوئی توجہ نہیں کی ہے اور ان پر اعتماد بھی نہیں کیا ہے۔
بلاذری نے بھی ۔۔ اپنی کتاب ' ' انساب '' کے پہلے حصہ میں ، جو پیغمبر خدا ۖ کی سیرت سے مخصوص ہے ۔۔ سیف کی روایتوں پر کوئی اعتماد نہیں کیا ہے اور اسی طرح یعقوبی نے بھی اپنی تاریخ میں سیف کی روایتوں پر بھروسہ نہیں کیا ہے۔
جیسا کہ ہم نے کہا کہ '' عبدا للہ بن زید صفوان '' کے بارے میں نمائندگی کی روایت کو ہم نے ابن کلبی کے ہاں پایا ۔ مگر خود ابن کلبی نے اس روایت کو کہاں سے حاصل کیا ہے ، ہمیں اب تک اس کے مآخذ کا پتہ نہ مل سکا۔

خلاصہ :
سیف نے قبیلہ بنی ضبّہ کے چند افراد کے نمائندہ کے طور پر پیغمبر خدا ۖ کی خدمت میں پہنچنے کی داستان کو چار روایتوں میں بیان کیا ہے ۔علماء نے بھی دیگر صحابیوں کے ضمن میں ان کی زندگی کے حالات پر حسب ذیل روشنی ڈالی ہے :
١۔ سیف کی روایت کے پیش نظر '' عبد الحارث بن حکیم ضبی'' کی نمایندگی ، رسول اللہ ۖ کا اس کا نام بدل کر '' عبدا للہ '' رکھنے اور اسے اپنے قبیلہ کے صدقات جمع کرنے کی ماموریت دینے کے مسئلہ کو علماء نے دو صحابیوں کے حق میں الگ الگ بیان کیا ہے :
الف : حارث بن حکیم ضبی
ب: عبد اللہ بن حکیم ضبی
اور اسی ترتیب سے مذکورہ دو صحابی پیغمبر خدا ۖ کے اصحاب کی فہرست میں ثبت ہوئے ہیں۔
٢۔ سیف' عبد الحارث بن زید بن صفوان کے پیغمبر خدا ۖ کی خدمت میں بعنوان نمایندہ پہنچنے کی روایت نقل کرکے مدعی ہوا ہے کہ آنحضرتۖ نے اس کا نام بدل کر '' عبد اللہ بن زید '' رکھا ہے ، اور نام بدلنے کے بعد یہ نیا عبد اللہ رسول خدا ۖ کو تعلیم و نصیحت کرنے پر اتر کر آپ ۖ سے کہتا ہے:
کوئی پرہیز گاری و تقویٰ خدا کی توفیق حفاظت کے بغیر ممکن نہیں ہے اور کوئی بھی کام توفیق الٰہی کے بغیر انجام نہیں پاسکتا ۔ بہترین اور شائشتہ ترین کام جسے انجام دیا جاسکتا ہے وہ ہے جس میں ثواب ہو اور جس کام سے پرہیز کرنا چاہئے وہ ایسا کام ہے جس پر پروردگار غصہ اور غضب کرے ...
اس طرح یہ عبدا للہ بن زید صفوان ہے جو خود رسول خدا ۖ کو تعلیم اور درس دیتا ہیچہ جائے کہ پیغمبر خدا ۖاسے درس دیں !!!
اس کے علاوہ اس صحابی کی نمائندگی کی خبر ' اس کی رسول خدا ۖ کو نصیحت اور تعلیم کے ذکر کے بغیر ہمیںابن کلبی اور اس کی حدیث کے راویوں کے ہاں ملی ہے۔ چونکہ سیف زمانہ ابن کلبی سے پہلے ہے لہذا ہمیں یہ کہنے کا حق ہے کہ ابن کلبی نے بھی اس خبر کو سیف سے نقل کیا ہوگا!
ہم نے مشاہدہ کیا کہ یہی ایک شخص، اصحابِ رسول خدا ۖ کے حالات لکھنے والوں کے ہاں تین روپوں میں ظاہر ہوا ہے !!!
٣۔ سیف بن عمر نے حلیس بن زید کی نمائندگی کا ذکر اس کے بھائی '' حارث بن زید '' کی وفات کے بعد کیا ہے اور اس امر کی تاکید کی ہے کہ پیغمبر خدا ۖنے اس کے سر پر دستِ شفقت پھیر کہ اس کیلئے دعا کی پھر نصیحت کی ہے۔
علماء نے اسی روایت کے پیش نظر اور اسی پر اعتماد کرکے حلیس کی زندگی کے حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے اسے رسول خدا ۖ کے دوسرے اور حقیقی صحابیوں کی فہرست میں قرار دیا ہے ۔
٤۔ سیف نے حر یا حارث بن خضرامہ کی گوسفندوں کے ریوڑ اور چند غلاموں کے ہمراہ پیغمبر خدا کی خدمت میں نمائندگی کو بیان کیا ہے لیکن اتنی طاقت نہیں رکھتا تھا کہ اپنے اس نئے خلق کئے ہوئے صحابی کو صحیح و سالم اپنے وطن اور اہل و عیال کے پاس لوٹا دے ، بلکہ اس کے بر عکس رسول خدا ۖ سے اس کیلئے کفن اور قدرے حنوط لے لیتا ہے اور اس مفلس کو وہیں پر مسافرت میں مار ڈالتا ہے اور وہیں پر اسے دفن کرتا ہے ! پیغمبر خداۖ بھی ایسی شخصیت کے مرنے کے بعد حکم دیتے ہیںکہ اس کے غلاموں کے بیچنے کے بعد ان کی قیمت اور گوسفندوں کے ریوڑ کو مرحوم کے پسماندگان کے حوالے کردیں۔ اس طرح اسے اصحاب کی فہرست میں قرار دیکر اس کی زندگی کے حالات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔

سیف کی داستان کے نتائج
١۔ ایسے چار اصحاب کی تخلیق کرنا جو نمائندہ ہونے کا افتخار بھی رکھتے تھے!!
٢۔ پیغمبر خدا ۖ کیلئے ایک ایسا صحابی خلق کرنا جوآپ ۖ کا گماشتہ اور کارندہ بھی ہے!
٣۔ رسول خداۖ کی احادیث کے چار راوی خلق کرنا۔
٤۔ رسول خدا ۖ کے لئے تین روایتیں جعل کرنا۔
مختصر یہ کہ یہ سب سیف جھوٹ کے پوٹ ہیں جس پر زندیقی ہونے کا بھی الزام تھا!!

احادیث سیف کے مآخذ
عطیہ بن بلال نے اپنے باپ ( بلال بن ہلال) سے اس نے اپنے باپ (ہلال) سے کہ جنہیں سیف نے خلق کیا ہے۔اور ایک روایت کو اس کے جعل کئے گئے ایک صحابی سے نقل کیا ہے!!

سیف کی روایت کے راوی :
١۔ دار قطنی ( وفات ٣٨٥ھ ) نے ''مؤتلف '' میں '' اسد الغابہ '' اور '' اصابہ'' کے مؤلفین کے کہنے کے مطابق ، انہوں نے '' عبد اللہ بن زید، و عبدا للہ بن حکیم و حارث بن خضرامہ '' کے حالات کو اس سے نقل کیا ہے۔
٢۔ ابن شاہین ( وفات ٣٨٥ھ ) ابن اثیر او ر ابن حجر نے '' حلیس بن زید ، عبد اللہ بن حکیم ، حارث بن حکیم اور حر بن خضرامہ '' کی زندگی کے حالات کے بارے اس سے نقل کیا ہے۔
٤۔ ابن اثیر ( وفات ٦٣٠ھ) نے '' حارث بن حکیم ، حلیس بن زید اور حارث بن خضرامہ'' کے حالات کو اپنی کتاب '' اسد الغابہ'' میں درج کیا ہے۔
٥۔ ذہبی ( وفات ٧٤٨ ھ) نے اپنی کتاب '' تجرید'' میں '' حارث بن حکیم اور حلیس'' کے حالات کو درج کیا ہے۔
٦۔ ابن حجر ( وفات ٨٥٢ ھ ) نے '' اصابہ '' میں '' حارث بن حکیم ، حلیس بن زید اور حر بن خضرامہ '' کی زندگی کے حالات درج کئے ہیں۔

مصادر و مآخذ
عبد اللہ حکیم ضبّی کے حالات
١۔ ابن اثیر کی '' اسد الغابہ '' ( ٣ ١٤٥)
٢۔ ابن حجر کی '' اصابہ '' ( ٢ ٢٩٠) نمبر ٦٣٣ کے زیل میں' ق/١
٣۔ ذہبی کی '' تجرید'' ( ١ ٣٢٨) نمبر: ٣١٤٦

حارث بن حکیم ضبیّ کے حالات :
١۔ ابن اثیر کی '' اسد الغابہ'' (١ ٣٢٥)
٢۔ ابن حجر کی '' اصابہ'' (٣٨٥١) نمبر : ٢٠٣٤ ق٤
٣۔ ذہبی کی '' تجرید'' ( ١ ١٠٥) نمبر ٩٢٥

عبد الحارث بن زید کے حالات اور رسول خدا ۖ کے ساتھ اس کی گفتگو:
١۔ ابن اثیر کی '' اسد الغابہ'' ( ٣ ١٦٧)
٢۔ ابن حجر کی '' اصابہ'' ( ٢ ٣٠٤) نمبر : ٤٦٨٧ ق ١
٣۔ ابن کلبی کی '' تلخیص جمہرہ '' ( ص ٨١) قلمی نسخہ، جو قم میں آیت اللہ مرعشی نجفی کی لائبرئری میں موجود ہے۔
٤۔ ابن حزم کی ''جمہرۂ انساب '' ( ص ٢٠٦)

عبد اللہ بن حارث کے حالات
١۔ ابن عبد البر کی '' استیعاب '' ( ١ ٣٤٤) نمبر: ١٤٧٩
٢۔ ابن اثیر کی '' اسد الغابہ'' ( ٣ ١٣٨)
٣۔ ابن حجر کی '' اصابہ'' (٣ ١٣٠) نمبر : ٦٥٨٨

عبد اللہ بن زید بن صفوان کے حالات :
١۔ ابن اثیر کی '' اسد الغابہ'' ( ٣ ١٦٧)
٢۔ ابن حجر کی '' اصابہ'' ( ٢ ٣٠٤) نمبر: ٤٦٨٧۔

عبدا للہ بن حرث کے حالات:
١۔ ابن حجر کی '' اصابہ'' (٣ ١٣٠) نمبر: ٦٥٨٨و ٦٥٨٩

حلیس بن زید کے حالات:
١۔ ابن اثیر کی '' اسد الغابہ'' (٢ ٤٤)
٢۔ ابن حجر کی '' اصابہ'' (١ ٣٥٠) نمبر: ١٨١٠
٣۔ ذہبی کی '' تجرید'' ( ١ ١٤٧) نمبر: ١٣٢١

حارث بن خضرامہ کے حالات :
١۔ ابن اثیر کی '' اسد الغابہ'' (١ ٣٢٧)

حربن خضرامہ کے حالات اور رسول خدا ۖ کے ساتھ اس کی داستان
١۔ ابن حجر کی '' اصابہ'' (٣٢٢١) نمبر: ١٦٩١