قرآن مجید میں تحریف کی ایک ناکام کوشش
جو کچھ ہم نے یہاں تک بیان کیا وہ قرآن مجید کی شان میں خدا کا کلام تھا جو دقیق علمی بحث و تمحیص کے ذریعہ مذکورہ تمام مطلب کی تائید و تصدیق کرتا ہے ، اس کے تکرار کی گنجائش نہیں ہے ١
لیکن حیرت کی بات ہے کہ بعض روایات اس کے بر خلاف کہتی ہیں ذیل میں ان کے چند نمونے پیش کئے جاتے ہیں :
١۔ بخاری اور مسلم کی '' صحیح'' ، ابو داؤدکی ترمذی اور ابن ماجہ کی '' سنن'' اور مالک کی '' مؤطائ'' میں یہ روایت نقل ہوئی ہے جسے ہم ذیل میں '' صحیح بخاری'' سے بعینہ نقل کرتے ہیں:
خلیفہ دوم عمر بن خطاب سے روایت ہے :کہ
خدائے تعالیٰ نے محمد ۖ کو مبعوث فرمایا اور قرآن کو آپ ۖ پر نازل فرمایا۔ جس کی آیات میں آیۂ '' رجم'' بھی موجود تھی کہ ہم نے اس آیت کو پڑھا اور سمجھا و درک کیا ہے۔ رسول خدا ۖ اور آپ ۖ کے بعد ہم نے اسی آیت سے استدلال کرکے ''رجم'' یعنی '' سنگسار'' انجام دیا ہے ۔ اب مجھے اس بارے میں ڈر ہے کہ زمانہ گزرنے پر کوئی یہ کہے کہ : خد کی قسم میں نے آیۂ '' رجم'' کو کتابِ خدا میں نہیں دیکھا ہے ! اور لوگ اس واجب الٰہی کو ترک کرکے گمراہ ہوجائیں جبکہ قرآن مجید کی رو سے زنائے محصنہ میں رجم کی سزا واجب ہے .. ٢
..............
١۔ مقدمۂ تفسیر الاء الرحمن اور مقدمۂ تفسیر البیان''۔
٢۔ عن الخلیفة عمر بن الخطاب قال : اِنَّ اللہ بعث محمداً ( ص) و اَنزل علیہ الکتاب فکان مما انزل اﷲ آیة الرجم فقرناھا و وعینا ھا ، و رجم رسول اﷲ ( ص) و رجمنا بعدہ فاخشیٰ ن طال بالناس زمان ان یقول قائل : و اﷲ ما نجد آیة الرجم فی کتاب اﷲ فیضلوا بترک فریضة انزلھا اﷲ و الرجم فی کتاب اﷲ حق علی من زنی اذا حصن...
اس روایت کے آخر میں عمر کی خیالی آیۂ '' رجم'' کے سلسلے میں ابن ماجہ نے اس طرح لکھا ہے: ہم آیۂ رجم کو یوں پڑھتے تھے۔
الشیخ و الشیخة اذا زنیا فارجموھما البتة
جب ایک مرد اور عورت زنا کے مرتکب ہوجائیں تو انہیں سنگسار کرو۔
یہی مطلب مالک کی ''موطا'' میں یوں آیا ہے: ہم اس آیت کو اس طرح پڑھتے تھے:
الشیخُ وَ الشیخَةُ فَارْجِمُو ھُمَا اَلْبَتّة ١
پھر اسی حدیث میں '' صحیح'' بخاری اور '' مسند '' احمد میں خلیفہ دوم سے منقول ہے کہ : ہم اس آیت کو کتاب خدا میں پڑھتے تھے:
الَّا تَرْغَبُوا عَنْ آبَائِکُمْ فَاِنَّہ کفر بِکُمْ اَنْ تَرْغَبُوا عَنْ آبَائِکُمْ
اپنے باپ سے منہ نہ موڑنا اگر ایسا کرو گے تو کفر کے مرتکب ہوگے۔
٢۔ مسلم کی'' صحیح''، ابو داؤد ، نسائی اور دارمی کی '' سنن'' اور مالک کی ''موطا'' میں ام المؤمنین عائشہ سے ایک روایت نقل کی گئی ہے ' ہم یہاں پر '' صحیح مسلم'' میں نقل ہوئی اس حدیث کی عین عبارت نقل کرتے ہیں:
ام المؤمنین عائشہ سے منقول ہے کہ:
قرآن میں نازل ہونے والی آیتوں کے ضمن میں '' با علم دس مرتبہ دودھ پلانے کی آیت ' بھی
..............
١۔ ابی بن کعب سے نقل کرکے تقریباً اسی مضمون کی حدیث '' مسند '' احمد ( ٥ ١٣٢) اور زید بن ثابت انصاری سے '' مسند'' احمد ( ٥ ١٨٣) میں آئی ہے۔
نازل ہوئی تھی اور پیغمبر خدا ۖ کے زمانے میں اس آیت کو قرآن مجید میں پڑھا جاتا تھا ۔
'' سنن'' ابی ماجہ میں حدیث عائشہ یوں نقل ہوئی ہے:
عائشہ نے کہا کہ آیۂ '' رجم '' اور '' بالغون کو دس مرتبہ دودھ پلانے '' کی آیت __ محرم بنانے کیلئے __ کاغذ کے ایک ٹکڑے پر لکھی ہوئی تھی اور میں نے اسے اپنے سونے کے تخت کے نیچے چھپا رکھا تھا ۔ جب رسول خدا ۖ نے رحلت فرمائی ، ہم آپ ۖ کی تجہیز و تکفین میں لگ گئے اور دیگر امور سے غفلت کی ، ایک مرغی کمرے میں داخل ہوئی اور اس کاغذ کو کھا گئی !! ١
٣۔ '' صحیح'' مسلم میں آیا ہے کہ ابو موسیٰ اشعری نے بصرہ کے قاریوں کیلئے جن کی تعداد تین سو تھی ایک پیغام بھیجا کہ ہم قرآن مجید میں ایک سورہ پڑھتے تھے جسے بلندی اور پائیداری کے لحاظ سے سورۂ برائت کے شبیہ جانتے تھے اور میں نے اسے فراموش کر دیا۔ اس میں سے صرف یہ حصہ یاد ہے کہ ارشاد ہوتاہے :
اگر فرزند آدم کے پاس دو بیابانوں کے برابر مال و دولت ہوجائے تو وہ تیسرے بیاباںکی بھی آرزو کرے گا ۔ فرزند آدم کا پیٹ مٹی کے علاوہ کسی اور چیز سے نہیں بھر سکتا ٢
ابو موسی اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہتا ہے :
١۔ نزلت آیة الرجم و رضاعة الکبیر عشراًلقد کان فی صحیفة تحت سریری ، فلما مات رسول اﷲ تشاغلنا بموتہ فدخل داجن فاکلھا !!
٢۔لو کان لابن آدم وادیان من مالِ لا بتغیٰ وادیا ثالثا و لا یملاء جو ف ابن ادٔم الا التراب !
قرآن مجید میں ایک ایسا سورہ بھی تھا جو تسبیحات کی شبیہ تھا میں نے اسے بھی فراموش کر ڈالا۔ صرف اس کا یہ حصہ یاد ہے کہ ارشاد ہوتا ہے:
اے ایمان لانے والو ! تم جس چیز کو انجام نہیں دیتے اسے زبان پر کیوں لاتے ہو؟ تاکہ تمہاری گردن پر گواہی لکھ جائے اور قیامت کے دن تم سے پوچھ تاچھ کی جائے ؟!
ایسی بناوٹی اور جھوٹی احادیث ١ اگر کسی مطلب پر دلالت کر سکتی ہیں تو وہ مطلب یہ ہوگا کہ حدیث نبوی کے مطابق اس امت میں بھی ایسے افراد ہیں جو گزشتہ امتوں کے مانند آسمانی کتاب میںتحریف کرنے پر اتر آئیں گے ۔ اس سلسلے میں آنحضرتۖ فرماتے ہیں :
تم لوگ اپنے اسلاف کی روش پر تیر کے پروں اور جوتوں کے جوڑے کے مانند چلو گے۔ اس حد تک کہ اگر وہ کسی چھپکلی کے بِل میں گھس گئے ہوں گے تو تم لوگ بھی اس میں گھس جاؤ گے۔
لیکن قرآن مجید میں تحریف کے بارے میں ان خود غرضوں کی تمام کوششیں ناکامی اور رسوائی سے دوچار ہوئیں ۔ جیساکہ خداوند فرماتا ہے :'' قرآن کے قریب ، سامنے یا پیچھے کی طرف سے باطل آبھی نہیں سکتا ہے '' اور خدائے تعالیٰ اپنی کتاب کو ایسے بیہودہ مطالب کی آلودگیوں سے بچالے گا جن سے عربوں کا ذوق سلیم بھی نفرت کا اظہار کرتاہے ۔ جیسا کہ خدائے تعالیٰ فرماتا ہے : '' ہم
..............
١۔ معتبر اور گراںقدر کتابوں کے ایک حصہ میں ان ہی روایات کا وجود ہمیں اپنے معین کردہ ارادہ میں مصمم تر کرتا ہے کہ حقائق تک پہچنے اور بیہودہ مطالب اور جھوٹ کو محکم و متین مضامین سے جدا کرنے کیلئے اپنی بحث و تحقیق کو جاری رکھیں۔)
نے ہی اس قرآن کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں ''۔
ارادۂ الٰہی کے تحت ، قرآن مجید لاکھوں مسلمانوں کے ذریعہ دست بدست پھرانے اور عصر رسالتمآب ۖ سے آج تک نسل بہ نسل منتقل ہونے کے باوجود ہر قسم کی تحریف اور آلودگیوں سے پاک اور محفوظ رہ کر اسی حالت میں موجود ہے جس حالت میں رسول خدا ۖ نے اسے تبلیغ فرمایا تھا اور انشاء اللہ اسی صورت میں آئندہ بھی محفوظ رہے گا۔
اسلامی مصادر کی تحقیق ضروری ہے :
اس کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ اس قسم کے بیہودہ اور توہمات پر مشتمل مطالب اگر چہ قرآن مجید میں نفوذ نہیں کرسکے ہیں لیکن بہر صورت روایات و احادیث اور گراں قدر کتابوں میں سرایت کرچکے ہیں جنہوں نے ذہنوں کو مشغول کر رکھا ہے۔
اگر چہ قرآن مجید تحریف سے محفوظ رہا ہے لیکن سنّت کسی صورت میں تحریف اور دخل و تصرف سے محفوظ نہیں رہی ہے ۔ اس سلسلے میں دشمنان اسلام ، من جملہ یہود، نصاریٰ ، زندیقی اور دیگر منافقین' اسلام کالبادہ اوڑھ کے مسلمانوں کے اندرگھس کر مختلف صورتوں میں اور وسیع پیمانے پر رسول ۖ خدا کی احادیث، آپ ۖ کی سیرت ، اصحاب کی سیرت ، تاریخ اسلام ، احادیث اور تفسیر قرآن میں ہر قسم کی تحریف اور دخل و تصرف کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں !! یہاں تک کہ شاید ہمیں گزشتہ امتوں میںکوئی ایسی امت نہیں مل سکے گی جس نے اپنے پیغمبر کیلئے ایک سو پچاس اصحاب جعل کئے ہوں اور انھیں حقیقی و مسلم صحابیوں کے عنوان سے اپنے ہم عقیدوںکے سامنے پیش کیا ہو ! جس چیز کو اس کتاب میں مد نظر رکھا گیا ہے ، وہ یہ ہے کہ اسلامی مصادر کی حتی الامکان تحقیق و جستجو کرکے پیغمبر اسلامۖ کیلئے جعل کئے گئے اس قسم کے اصحاب کو پہچنوایا جائے ۔ انشاء اللہ اس کا م کو انجام دیا جائے گا۔
لیکن مسلمانوں کی بڑی اکثریت یہ اعتقاد رکھتی ہے کہ جو کچھ انھیں اپنے اسلاف سے ملا ہے وہ سب کا سب صحیح ہے اور اسے ہر قسم کی آلودگی اور دخل و تصرف سے پاک و منزہ جانتے ہیں ۔ چنانچہ بحث و تحقیق کے ضمن میں اگرتاریخ طبری میں کسی صحابی کی خبر یا سیرۂ ابن ہشام میں پیغمبر اسلام ۖ سے مربوط کسی خبر یا آنحضرت ۖ سے مربوط کسی بھی حدیث کو اپنی مورد اعتما د و احترام کتابوں میں یا اس قسم کے دوسرے مصادر میں پاتے ہیں تو چوں و چرا کے بغیر اطمینان کامل کے ساتھ اس مطلب کو آنکھیں بند کر کے قبول کرلیتے ہیں ۔ اور اس کے صحیح یا غلط ہونے کے بارے میں بحث و تحقیق کرنے کی ہر گز اپنے آپ کو تکلیف نہیں دیتے ۔ بلکہ اس کے برعکس ان کے علماء اور دانشور بھی ، مذکورہ مصادر کے مؤلفین نے جو کچھ اپنے فہم ، ذوق اور سلیقہ کے مطابق لکھا ہے ، اسے آنکھیں بند کرکے قبول کرتے ہیں۔
ہم کتاب '' عبد اللہ بن سبا'' کے مختلف حصوں کی تحقیق و جستجو کے دوران پیروان مکتبِ خلفاء کے مطمئن ترین منبع یعنی '' تاریخ طبری'' میں چند بڑی تحریفات سے دوچار ہوئے جو اصحاب سے مخصوص ہیں ۔ یہ تحریفات ، تاریخی حقائق کو الٹ پلٹ کردینے کا سبب بنی ہیں اور انھیں اپنے اصلی راستے سے منحرف کرکے رکھدیا ہے ۔
اگر ایک محقق، انکے نزدیک سیرت میں مطمئن ترین کتاب '' سیرہ ابن ہشام '' یا انکی انتہائی مورد اعتماد حدیث کی کسی بھی کتاب کی تحقیق کرے تو ا ن میںحیرت انگیز حد تک جھوٹ اور تحریف کا سامنا کرے گا۔
گزشتہ بحث کے پیش نظرہم اس قسم کی سیرت ، حدیث و تاریخ کی کتابوں کے بارے میں درج ذیل تین راہوں میں سے کسی ایک کو انتخاب کرنے پر ناگزیر ہیں :
١۔ صرف قرآن مجید پر اکتفا کریں اور اپنے اسلام کو اسی میں تلاش کریں لیکن جیسا کہ ہم نے پہلے بیان کیا ہے کہ اس قسم کے اقدام کا نتیجہ ترکِ اسلام ہے جو قرآن کو ترک کرنے کے برابر ہے۔
٢۔ انہیں کتابوں کو ، کہ جن پر اکثر مسلمانوں کو اطمینان ہے اور ان میں درج مطالب کے صحیح ہونے پر ایمان رکھتے ہیں 'تسلیم کرلیں اور جو کچھ ان میں درج ہے اسے بلا چوں و چرا قبول کرلیں اور کسی بحث و تحقیقکے بغیر ان کی روایتوں کے مضامین ، راویوں کے سلسلہ ، ان کا تاریخ و سیرت کی دوسری کتابوں میں موجود مطالب سے موازنہ وغیرہ سے چشم پوشی کرکے سب کچھ قبول کرلیں۔
ہماری اس بحث و تحقیق کے پیش نظر نتیجہ یہ نکلے گا کہ ہم صحیح کے بجائے تحریف اور حق کے بجائے باطل کو قبول کر لیں اور اس طرح وہی پہلا نتیجہ حاصل ہوگا۔
٣۔ یہ کہ حدیث ، سیرت اور تاریخ کی تمام کتابوں کا مطالعہ کرکے ان پر بحث ، تحقیق، تنقید اور جانچ پڑتال کرکے ان سند ، متن اور مضمون کے لحاظ سے موازنہ کریں اور علمی بنیادوں پر حاصل شدہ تحقیق کے نتیجہ کو قبول کریں۔
قرآن مجید کے علاوہ تمام اسلامی مصادر کے بارے میں ہم مجبور ہیں کہ مذکورہ تین راہوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کریں ۔ لیکن ہم نے دیکھا کہ پہلے دو راستے اسلام اور قرآن سے منہہ موڑنے کے مترادف ہیں ، پس جب صحیح اسلام اور اس کے سچے قوانین کی پیروی کے خواہاں ہیں تو ہم ناگزیر ہیں کہ اسی تیسرے طریقے یعنی بحث و تحقیق اور تنقید جو صحیح اور علمی ہے اس کا انتخاب کرنے کو ہی قبول کریں۔
اس انتخاب میں ضروری ہے کہ اصحاب کی سیرت پر بحث و تحقیق کو دوسرے امور پر مقدم قرار دیں ،ہم نے بھی اسی بحث کو دوسری بحثوںپر مقدم قرار دیا ہے ۔
کیونکہ صحابہ ہمارے اور حدیث کے درمیان رابطے کی کڑی ہیں ۔ ہم نے اس سلسلے میں دیکھا کہ سیرت سے مربوط بعض روایات بعض ایسے اصحاب سے روایت کی گئی ہیں کہ خدائے تعالیٰ نے ابھی انھیں پیدا ہی نہیں کیا ہے !
اس طرح ہمیں چاہئے کہ اس بحث و تحقیق میں تنقید، تحقیق اور چانچ پڑتال کرتے وقت انتہائی اہم کتابوں کو اہم پر اہم کو غیر اہم کتابوں پر مقدم قرار دیں ۔ یا سادہ الفاظ میں امکان کی حد تک اپنی بحث و تحقیق میں انتہائی مشہور کتابوں کو دوسرے درجہ کی مشہور کتابوں اور دوسرے درجے کی کتابوں کو غیر مشہور کتابوں پر مقدم قراردیں ۔
اب میں نے انتہائی انکساری کے ساتھ فیصلہ کیا ہے کہ اس بحث و تحقیق کے سلسلہ کو اسی پروگرام کے تحت جاری رکھوں اور اگر خدائے تعالیٰ نے اس پروگرام میں میری مدد فرمائی تو اس کا شکر گزار رہوں کا ورنہ اسلام کے علماء اور محققین کی ذمہ داری ہے کہ پیغمبر خدا ۖ کی سنت کو آلودگیوں اور تحریفات سے پاک کرنے کیلئے قدم اٹھائیں۔
خلاصہ
چونکہ تمام اسلام قرآن و سنت میں ہے ، لہذ اصحیح اسلام کو درک کرنے کیلئے ضروری ہے کہ ان دونوں کی طرف رجوع کیا جائے کوئی شخص قرآن کو سنت سے جدا نہیں کرتا مگر وہ شخص کہ جو اپنی خواہش و مرضی کے مطابق عمل کرنا چاہتا ہے اور قرآن مجید کی اپنی نفسانی خواہشات کے مطابق تویل و تفسیر کرنا چاہتا ہے۔ خدائے تعالی اور پیغمبر خدا ۖنے حکم دیا ہے کہ قرآن و سنت کی طرف ایک ساتھ رجوع کیا جائے۔ لیکن جب ہم اسلام کو حاصل کرنے کیلئے سنّت کی طرف رجوع کرتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ یہ سنت مختلف صورتوں میں تحریف کا شکار ہوئی ہے ۔ اس تحریف اور دخل و تصرف میں امت اسلامیہ مو بمو گزشتہ امتوں کے نقش قدم پر چلی ہے۔
خدائے تعالی نے گزشتہ امتوں کی تحریف کے بارے میں اور پیغمبر خدا ۖ نے اس امت کے گزشتہ امتوں کے تمام امور میںپیروی کرنے کی خبر دی ہے ۔یہی امر دسیوں ہزار بناوٹی اور تحریف شدہ روایتوں، سیرت ، تاریخ اسلام ، عقائد اسلامی ، تفسیر قرآن میں اور ایسے ہی دوسرے امور میں شامل ہوکر صحیح اسلام کے نظروں سے اوجھل ہوجانے اور حقیقت تک رسائی کے بہت مشکل ہوجانے کا سبب بنا ہے ۔ اس کے علاوہ یہی تحریفات اور دخل و تصرف مسلمانوں کی یکجہتی ، اتحاد و اتفاق کو پارہ پارہ کرکے انھیں مختلف ٹولیوں اور گروہوں میں تقسیم کرنے کا سبب بنے ہیں۔
اس لحاظ سے اگر ہم صحیح اسلام کو سمجھنا چاہیں تو ہمیں اس قسم کی بحث و تحقیق کی سخت ضرورت ہے اور اس ضرورت کا اسلام کے احکام پر عمل کرتے وقت شدت سے احساس کرتے ہیں ۔
اس کے علاوہ اگر مسلمانوں کے امور اور ان کا اتحاد ہمارے پیش نظر ہے تو ہم اس قسم کی بحث و تحقیق کے سخت محتاج ہوں گے، کیونکہ آج کل مسلمانوںکے درمیان اختلاف و افتراق کا سرچشمہ اسلام کے تمام امور میں ہزاروں کی تعداد میں ضد و نقیض احادیث کے وجود کے علاوہ کچھ نہیں ہے ۔ اسی طرح اس قسم کی تحقیقات و بحث و مباحثہ کے بغیر پیغمبر اسلام ۖ کے لائے ہوئے اصلیاسلام کو سمجھنا' اس کے احکام پر عمل کرنا اور مسلمانوں کا اتحاد و اتفاقبھی ممکن نہیں ہے۔
لہذا گزشتہ بحث کے تناظر میں لازم بن جاتا ہے کہ ہم اس بحث و تحقیق کے کام کو جاری رکھیں تا کہ صحیح کو غلط سے جدا کرکے پہچان سکیں ، اس مشکل ، سنجیدہ اور زبردست کام کیلئے دانشوروں کی ایک جماعت کو قدم اٹھانا چاہئے ۔ پھر یہ امت اسلامیہ کا فرض بنتا ہے کہ ان کی بحث و تحقیق کے نتیجہ پر راضی ہو کر اسے خد اکی راہ میں اور اس کی خوشنودی کیلئے قبول کریں۔
لیکن یہ کہنا کہ '' چپ رہو'' __اس خدا کی قسم جس نے زمین و آسمان کو خلق کیا ہے اور پیغمبرۖ کو حق پر مبعوث فرمایا ہے __ علم و دانش کے خلاف ناپاک ترین جملہ ہے اور دین کیلئے سب سے بڑا نقصان ہے ۔ یہ بات جس کے منہ سے بھی نکلے شیطان کا کلام اور اس کا وسوسہ ہے ۔ میں اس قسم کے بیہودہ گو افراد کے بارے میں اس کے سوا کچھ نہیں کہہ سکتا :
(رَبّ اَھْدِ قَوْمِی اِنَّھُمْ لَا یَعلَمُونَ)
وہ جو چاہیں کہیں ، لیکن میںخدا کو شاہد و گواہ قرار دیکر کہتا ہوں کہ میں نے صرف اسلام اور اس کی پہچان کیلئے ان مباحث و تحقیقات کے سلسلہ کی اشاعت کا قدم اٹھایا ہے اور خاص کر رسول خدا ۖ کے ان اصحاب کو پہچنوانے کیلئے جنھیں آپ ۖ کی مصاحبت اور ادراک کا شرف حاصلہوا ہے اور انہی حقیقی اصحاب کو جعلی اصحاب سے جدا کرنے کیلئے میں نے '' ١٥٠ جعلی اصحاب'' نامی اپنی کتاب شائع کی ہے۔
اب ہم کتاب کے اس حصہ میں سیف کے پچیس دیگر جعلی '' اصحاب ، حدیث کے راوی، جنگی سپہ سالار،شعراء ، اور رجز خوانوں '' کے بارے میں بحث و تحقیق شروع کرتے ہیں اور خدائے تعالیٰ سے اس کام میں کامیابی کی دعا کرتے ہیں۔
پہلے حصہ کے
مصادر و مآخذ
حسان بن ثابت انصاری کی حدیث :
١۔ کتاب '' سنن'' دارمی ( ١٤٥١) باب '' السنة قاضیہ علی کتاب اﷲ'' کا مقدمہ۔
مقدام کی حدیث :
١۔ '' سنن'' ابو داؤد ( ٢ ٢٥٥)
٢۔ '' سنن'' ترمذی باب '' ما نھی عنہ ان یقال عند حدیث النبی '' (١٣٢١٠)
٣۔ '' سنن'' ابن ماجہ باب '' تعظیم حدیث رسول اﷲ'' (٦١)
٤۔ '' سنن'' دارمی ، باب '' السنة قاضیہ علی کتاب اﷲ'' کا مقدمہ (٤٠١)
٥۔ '' مسند'' احمد بن حنبل ( ٤ ١٣٠۔١٣١و ١٣٢)
عبید اللہ بن ابی رافع کی حدیث :
١۔ '' سنن'' ابو داؤد ، کتاب '' السنة '' ، '' لزوم السنة'' ( ٢ ٢٥٦)
٢۔ '' سنن'' ترمذی ( ١٣٣١٠)
٣۔ '' سنن'' ابن ماجہ ( ٦١)
٤۔ ''مسند'' احمد بن حنبل ( ٨٦)
عرباض بن ساریہ کی حدیث :
١۔ '' سنن'' ابو داؤد ( ٦٤٢) باب '' تعشیر اھل الذمہ'' کتاب '' خراج '' سے ۔
ابو ہریرہ کی حدیث :
١۔ ''مسند'' احمد بن حنبل ۔ ( ٢ ٣٦٧)
اس امت کے اپنے اسلاف کی تقلید کرنے کا موضوع
حضرت امام صادق کی اپنے جد بزگورار سے حدیث :
١۔ '' اکمال الدین '' شیخ صدوق ، ص ٥٧٦' طبع حیدری تہران ١٣٩٠ ھ
٢۔ '' بحار الانوار 'مجلسی ، شیخ صدوق سے نقل کرکے ، طبع کمپانی (٢٨)
٣۔ '' مجمع البیان '' مرحوم طبرسی ، ' جلاء الاذہان '' گازر ، تفسیر آیۂ شریفہ :
(لَتَرْکَبُنَّ طَبْقاً عَنْ طَبْقٍ)
شافعیوں کے پیشوا اما م شافعی کی حدیث:
١۔'' فتح الباری '' ابن حجر ( ٦٤١٧)
ابو سعید خدری کی حدیث :
١۔ ''مسند'' طیالسی ، حدیث نمبر ٢١٧٨۔
٢۔ '' مسند '' احمد ، ( ٩٤٣) و ٨٤٣)
٣۔ '' صحیح مسلم '' نووی کی شرح ،کتاب العلم ( ١٦ ٢١٩)
٤۔ '' صحیح '' بخاری، کتاب '' الانبیاء '' باب '' ما ذکر عن بنی اسرائیل '' (٢ ١٧١)
اس کے علاوہ کتاب بخاری ، شرح فتح الباری '' کتاب الاعتصام بالکتاب و السنة ' پیغمبرۖ خدا کی فرمائش :
لتتبعن سنن من کان قبلکم .. '' (١٧ ٦٣ ۔ ٦٤)
٥۔ کنز ل العمال '' ( ١٢٣١١)
حدیث ابو ہریرہ :
١۔ '' فتح الباری '' در شرح صحیح بخاری ( ٦٣١٧)
٢۔ '' سنن '' ابن ماجہ ، حدیث نمبر : ٣٩٩٤۔
٣۔ '' مسند '' احمد بن حنبل (٢ ٣٢٧ ، ٣٦٧، ٤٥٠، ٥١١، ٥٢٧)
٤۔ کنز العمال (١١ ١٢٣)
ابو واقد لیثی کی حدیث:
١۔'' سنن'' ترمذی ( ٩ ٢٧ ۔٢٨)
٢۔ '' مسند '' طیالسی ، حدیث نمبر ١٣٤٦۔
٣۔ '' مسند '' احمد ( ٥ ٢١٨)
٤۔ '' کنز ل العمال '' ( ١٢٣١١) باب ( الاقوال من کتاب الفتن)
عبدا للہ بن عمرو کی حدیث :
١۔ '' سنن'' ترمذی ( ١٠ ١٠٩) ابواب الایمان۔
٢۔ '' در المنثور '' سیوطی ( ٤ ٦٢) تفسیر آیۂ ' ' وَلَا تَکُونوا کَالَّذِین تَفَرَّقُوا '' آل عمران مستدرک حاکم کے مطابق ۔
ابن عباس کی حدیث :
١۔ '' مجمع الزوائد'' ( ٧ ٢٦١) بزاز اور حاکم سے روایت کی ہے۔
٢۔ '' کنزل العمال '' ( ١١ ١٢٣) مستدرک حاکم سے نقل کیا ہے۔
سہل بن سعد کی حدیث :
١۔ '' مسند'' احمد بن حنبل ( ٥ ٢٤٠)
٢۔ '' مجمع الزوائد'' (٧ ٢٦١) طبرانی سے نقل کرکے۔
عبد اللہ مسعود کی حدیث :
١۔ '' مجمع الزوائد'' ( ٢٦١٧) طبرانی سے نقل کرکے۔
مستورد کی حدیث :
١۔ '' مجمع الزوائد'' ( ٧ ٢٦١)
٢۔ کنز ل العمال ( ١١ ١٢٣) طبرانی کی '' اوسط '' سے نقل کرکے ۔
شداد بن اوس کی حدیث:
١۔ '' مسند '' احمد ( ٤ ١٢٥)
٢۔ '' مجمع الزوائد '' ( ٧ ٢٦١)
٣۔ قاموس الکتاب المقدس '' تالیف: مسٹر ماکس ، امریکی ، طبع امریکی مطبع، بیروت١٩٢٨ ئ
٤۔ '' توریت'' ، طبع ، امریکی مطبع، بیروت ، ١٩٠٧ ء
آیۂ رجم کے بارے میں عمر کی روایت :
١۔ '' صحیح '' بخاری ( ٤ ١٢٠) کتاب حدود۔
٢۔ '' صحیح'' مسلم ( ٥ ١١٦)
٣۔ '' سنن '' ابی داؤد ( ٢ ٢٢٩) باب رجم ، کتاب حدود۔
٤۔ '' صحیح '' ترمذی ( ٢٠٤٦)باب '' ما جاء فی تحقیق الرجم '' کتاب حدود
٥۔'' سنن '' ابن ماجہ ، باب رجم ، کتاب حدود، نمبر: ٢٥٥٣
٦۔ '' سنن'' دارمی( ٢ ١٧٩) باب حد زنائے محصنہ ، کتاب حدود۔
٧۔ ''موطاء مالک'' ( ٣ ٤٢) کتاب حدود۔
٨۔ '' مسند'' احمد ( ١ ٤٠) : ٢٧٦،نمبر ( ١ ٤٧) ٣٣١ ، نمبر : (٥٥١)٣٩١' نمبر
بناوٹی آیت لا تَرغبُو عَنْ آبَائِکُمْ کی روایت:
١۔ '' مسند'' احمد ( ١ ٤٧) نمبر: ٣٣١
٢۔ ''مسند '' احمد (٥٥١) نمبر ٣٩١
'' دس مرتبہ دودھ پلانے '' کے بارے میں عائشہ کی روایت :
١۔'' صحیح'' مسلم (٤ ١٦٧) باب '' التحریم بخمس رضعات '' کتاب رضاع
٢۔ '' سنن'' ابی داؤد ١ ٢٧٩ ) باب '' ھل یحرم ما دون خمس رضعات؟'' کتاب نکاح
٣۔ '' سنن '' نسائی ( ٢ ٨٢) باب '' القدر الذی یحرم من الرضاعة '' کتاب نکاح سے ۔
٤۔ سنن ابن ماجہ ( ١ ٦٢٦ ) باب '' رضاع الکبیر '' کتاب نکاح ، نمبر ١٩٤٤۔
٥۔ سنن دارمی ( ١ ١٥٧) باب '' کم رضعة ترحم '' کتاب نکاح
٦۔ '' موطأ '' مالک ( ٢ ١١٨) باب '' جامع ما جاء فی الرضاعة '' کتاب نکاح
دو خیالی سورتوں کے بارے میں ابو موسیٰ کی روایت
١۔'' صحیح '' مسلم ( ٣ ١٠٠) باب '' لو ان لابن آدم .. '' کتاب زکات۔
٣۔ '' حلیہ'' ابو نعیم ، '' ابو موسی'' کے حالات کی تشریح میں ۔
|