ایک سو پچاس جعلی اصحاب(جلدسوم)
 

آسمانی کتابوں میں گزشتہ امتوں کی تحریفیں :
گزشتہ بحث میں ہمیں معلوم ہوا کہ گذشتہ امتوں میں واقع ہونے والی تحریفوں کے بارے میں خدائے تعالیٰ نے خبر دیدی ہے اور پیغمبر خدا ۖ نے بھی خبر دی ہے کہ یہ امت گزشتہ امتوں کی تمام روشوں پر موبمو عمل کرکے ان کی پیروی کرے گی۔
اب اگرہم اس امت میں واقع ہوئی تحریفات کا گزشتہ امتوں میں واقع ہوئی تحریفات سے موازنہ کریں تو معلوم ہوگا کہ گزشتہ امتوں نے ان تحریفات کو آسمانی کتابوں میں انجام دیا ہے اور خدائے تعالیٰ نے ان کے اس عمل کو یوں یاد فرمایا ہے:
(قُل مَنْ اَنْزَلَ الْکِتَابَ الَّذِی جَائَ بِہِ مُوسیٰ نُوراً وَ ھُدیً لِلنَّاسِ تَجْعَلُونَہُ قَراطِیسَ تُبْدُونَھَا وَ تُخْفُونَ کَثیراً ) ١
ان سے پوچھئے کہ جو کتاب موسٰی لے کر آئے تھے وہ نور اور لوگوں کیلئے ہدایت تھی اسے تم لوگ کچھ ظاہر کرکے اور اکثر چھپا کر ایک کتاب قرار دے رہے ہو ، بتاؤ اسے کس نے نازل کیا ہے
یا فرمایا ہے:
وَ اِنَّ مِنْھُمْ لَفَرِیقاً یَلُونَ اَلْسِنَتَھُمْ بِالکِتَابِ لِتَحْسَبُوہُ مِنَ الْکِتَابِ وَ مَا ھُوَ مِنَ الْکِتَابِ وَ یَقُولُونَ ھُوَ مِنْ عِنْدِ اﷲِ وَ مَا ھُوَ مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ وَ
..............
١۔انعام ٩١
یُقُولُون عَلَی اﷲِ الکَذِبَ وَ ھُمْ یَعْلَمُونَ ا
انہیں یہودیوں میں سے بعض وہ ہیں جو کتاب پڑھنے میں زبان کو توڑ موڑ دیتے ہیں تا کہ تم لوگ اس تحریف کو بھی اصل کتاب سمجھنے لگو ،حالانکہ وہ اصل کتاب نہیں ہے اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ سب اللہ کی طرف سے ہے حالانکہ اللہ کی طرف سے ہر گز نہیں ہے یہ خدا کے خلاف جھوٹ بولتے ہیں حالانکہ سب جانتے ہیں۔
یا یوں فرماتا ہے :
(فَوَیل لِلَّذِینَ یَکْتُبُونَ الْکِتَابَ بِاَیْدِیْھِمْ ثُمَّ یَقُولُونَ ھٰذا مِنْ عِنْدِ اللہِ لِیَشْتَرُوا بِہِ ثَمَناً قَلِیلاً فَوَیل لَھمُ مِمَّاکَتَبَتْ اَیْدیْھِمْ وَ وَیْل لَھُم مِمَّا یَکْسِبُونَ ) ٢
واے ہو ان لوگوں پر جو اپنے ہاتھ سے کتاب لکھ کر یہ کہتے ہیں کہ یہ خدا کی طرف سے ہے تا کہ اسے تھوڑے دام میں بیچ لیں ان کیلئے اس تحریر پر بھی عذاب ہے اور اس کی کمائی پر بھی ۔
ہم خدا ئے تعالیٰ کی آیات کے مصداق کو ان کی موجودہ رائج کتابوں میں واضح اور روشن طور پر دیکھتے ہیں ، جیسا کہ تورات کے تکوینی سفر کے تیسرے باب میں آدم کی تخلیق کے بارے میں یوں پڑھتے ہیں۔
خدائے تعالیٰ نے آدم سے جھوٹ بولتے ہوئے کہا: خیر و شر کی معرفت والے درخت
..............
١۔آل عمران ٧٨
٢۔بقرہ ٧٩
سے کچھ نہ کھانا ، اگر کسی دن اس سے کھایا تو مرجاؤ گے ، سانپ، جو خشکی کے حیوانوں میں مکار ترین حیوان ہے ، نے ''حوا '' سے کہا: اگر آپ لوگ اس درخت سے کھائیں گے تو مرے گیں نہیں ، بلکہ خدا جانتا ہے جس دن اس سے کھائیں گے آپ کی آنکھیں کھل جائیں گی اور خداکے مانند خیر و شر سے واقف ہو جائیں گے ۔ آدم اور حوا نے اس درخت سے کھایا ' آنکھیں کھل گئیں تو انہوں نے اپنے آپ کو برہنہ پایا اور خدا کی آواز اس وقت سنی جب نسیم صبح کے وقت بہشت میں رہا تھا لہذا انہوں نے اپنے آپ کو اس سے چھپا یا ۔ خدائے تعالیٰ نے بلند آواز میں آدم سے مخاطب ہوکر فرمایا: تم کہاںہو؟ آدم نے کہا : تیری آواز کو میں نے بہشت میں سنا لیکن چونکہ میں عریاں تھا ، ڈر گیا ، اس لئے خود کو چھپا لیا ۔ خدا نے کہا : کس نے تمہیں اس امر سے آگاہ کیا کہ تم برہنہ ہو؟ کیا تم نے اس درخت سے کھایا جسے میں نے منع کیا تھا ؟! آدم نے اپنی داستان خدا کوسنائی، تو خدا نے کہا اب جبکہ آدم بھی ہماری طرح خیر و شر سے آگاہ ہو گئے ہیں لہذا بعید نہیں کہ اپنے ہاتھ کو بڑھا کر درختِ حیات سے بھی کھالیں اور ہمیشہ کیلئے زندہ رہیں۔ لہذا انسان کو نکال باہر کیا اوربہشت کے مشرقی حصہ میں کروبیوں کو بسایا.. اور درخت حیات کی نگہبانی کے لئے ایک چمکتی ہوئی تیز دھار تلوار معین فرمائی!!
توریت نے بہشت میں آدم کی داستان کو اس طرح بیان کیا ہے جبکہ قرآن مجید فرماتا ہے کہ یہ شیطان تھا جس نے ان دونوں کو اس ممنوعہ درخت سے کھانے پر اکسایا ۔ قرآن مجید کا بیان یوں ہے۔
(وَ قَاسَمَھُمَا اِنِّی لَکُمَا لَمِنَ النَّاصِحِینَ فَدَلِّا ھُمَا بِغُرُورٍ فَلَمَّا ذَاقَا الشَّجََرَةَ بَدَتْ لَھُمَا سَوَآتُھُما وَ طَفِقَا یَخْصِفَانِ عَلَیھِمَا مِنْ وَرَقِ الجَنَّةِ وَ نَادَاھُمَا رَ بُّھُمَا اَلَمْ اَنْھَکُمَا عَنْ تِلْکُمَا الشَّجَرَةِ وَ اَقُلْ لَکُمَا اِنَّ الشَّیْطَانَ لَکُمَا عَدُوّ مُبِین) (اعراف ٢١' ٢٢)
اور (شیطان نے) دونوں سے قسم کھائی کہ میں تمہیں نصیحت کرنے والوں میں سے ہوں ، پھر انھیں دھوکہ کے ذریعہ درخت کی طرف جھکا دیا اور جیسے ہی ان دونوں نے چکھا ، شرم گاہیں کھل گئیں اور انہوں نے درختوں کے پتے جوڑ کر شرم گاہوں کو چھپانا شروع کردیا تو ان کے رب نے آواز دی کہ کیا ہم نے تم دونوں کو اس درخت سے منع نہیں کیا تھا اور کیا میں نے تمہیں نہیں بتایا تھا کہ شیطان تمہارا کھلا ہوا دشمن ہے؟
ہم نے توریت میں ذکر ہوئی آدم کی داستان کا قرآن مجید میں ذکر ہوئی اسی داستان سے موازنہ کیا اور دیکھا کہ توریت میں کس طرح حقیقت تحریف ہوکر خرافات میں تبدیل ہوئی ہے ۔
توریت کا مطالعہ جاری رکھتے ہوئے ہم اس کے سفرِ تکوینی کے انیسویں باب میں مشاہدہ کرتے ہیں کہ لوط بنی کی بیٹیاں رات میں اپنے باپ کو مست کرکے ان کے ساتھ ہمبستری کرتی ہیں اور حاملہ ہوتی ہیں ۔ اس داستان کو توریت میں یوں پڑھتے ہیں :لوط کی بیٹیاں اپنے باپ سے حاملہ ہوگئیں ان کی بڑی بیٹی نے ایک بیٹے کو جنم دیا جس کا نام '' مو آب'' رکھا کہ جس سے قبیلۂ ماآبی کی نسل چلی ہے' چھوٹی بیٹی نے بھی ایک بیٹے کوجنم دیا جس کا نام '' بنی عمی'' رکھا جس سے بنی عمون کی نسل آج تک باقی ہے!!
جب ہم اس مطالعہ کے دوران اس کے تکوینی سفر کے تینتیسویں باب پر پہنچتے ہیں تو پڑھتے ہیں یعقوب پیغمبر ابتدائے شب سے صبح تک ایک قوی پہلوان سے کشتی لڑتے رہے سر انجام ان کا حریف انہیں اسرائیل کا لقب دیتا ہے یہ داستان توریت میں یوں آئی ہے:
یعقوب کا حریف جب دیکھتا ہے کہ وہ یعقوب کو مغلوب نہیں کرسکتا تو یعقوب کی ران پر ہاتھ مار کر زور سے دباتا ہے اور کہتا ہے : مجھے چھوڑدو ، پوپھٹنے کو ہے؟! یعقوب جواب میں کہتے ہیں :
جب تک مجھے مبارکباد نہ دو گے تمہیں نہیں چھوڑوں گا وہ پوچھتا ہے : تمہارانام کیا ہے؟ وہ جواب دیتے ہیں : یعقوب
حریف کہتا ہے:
آج کے بعد تمہارا نام یعقوب نہیں بلکہ اسرائیل ہے کیونکہ تم نے خدا اور انسان سے جنگ کی ہے اور انھیں مغلوب کیا ہے۔
یعقوب نے اس جگہ کا نام '' فینیسیئل'' رکھا اور کہتے تھے: میں نے یہاں خدا کو آمنے سامنے دیکھا ہے اور میری روح نے نجات پائی ہے!
ہم توریت کا مطالعہ جاری رکھتے ہوئے اس کے سفر خروج کے بتیسویں باب میں یوں پڑھتے ہیں :
جب قوم نے دیکھا کہ موسیٰ نے اس پہاڑ سے نیچے اترنے میں تخیر کی تو ہارون کے ہاں جمع ہوئے اور ان سے کہاکہ اٹھو اور ہمارے لئے ایک ایسا خدا بناؤ جو ہمارے سامنے راہ چلے ۔ کیونکہ وہ موسیٰ ، جو ہمیں سرزمین مصر سے باہر لائے نہیںمعلوم ان پر کیا گزری ہے ۔ ہارون نے ان سے کہا: سونے کے گوشوارے جو تمہاری عورتوں ، بیٹوں او ر بیٹیوں کے کانوں میں ہیں ، انہیں نکال کر میرے پاس لاؤ۔ لہذا امت کار ہرفرد کانوں سے گوشوارے اتار کر ہارون کے پاس لے آیا ۔ ہارون نے ان گوشواروں سے لے کر ایک گوسالہ کا مجسمہ بنادیا۔ اس کے بعد لوگوں نے کہا: اے بنی اسرائیل یہ تمہارے خدا ہیں جنہوں نے تمہیں سرزمین مصر سے باہرنکالا۔ ہارون نے جب یہ دیکھا تو ان کے سامنے ایک ذبح خانہ تعمیر کیا اور بلند آواز میں کہا : کل خدا کی عید ہے ۔
لیکن قرآن مجید گوسالہ بنانے' قوم کو گمراہ کرنے کی نسبت سامری کی طرف دے کر کہتا ہے کہ ہارون نے انھیں ایسے کام کے انجام دینے سے منع کیا تھا لیکن انہوں نے ان کی بات نہ مانی ۔ اس سلسلے میں ہم کلام اللہ میں یوں پڑھتے ہیں :
(فَکَذٰلِکَ اَلْقَی السَّامِرِیُّ فَاَخْرَجَ لَھُمْ عِجلاً جَسَداً لَہُ خُوَار فَقَالُوا ھٰذَا اِلٰھُکُمْ وَ اِلٰہُ مُوسٰی ... وَلَقَدْ قَالَ لَھُمْ ھَارُونُ مِنْ قَبْلُ یَا قَوْمِ اِنَّمَا فُتِنْتُمْ بِہِ وَ اِنَّ رَ بَّکُمْ الرَّحْمٰنُ فَاتَّبِعُونِی وَ اَطِیعُوا اَمْرِیْ قَالُوا لَنْ نَبْرَحَ عَلَیہِ عَاکِفِینَ حَتّٰی یَرْجِعَ اِلَیْنَا مُوسیٰ ) ١
پھر سامری نے ان کیلئے ایک گائے کے بچے کا مجسمہ بنایا جس میں آواز بھی تھی تو لوگوں نے کہا : یہی تمہارا اور موسیٰ کا خدا ہے ....
ہارون نے توان لوگوں سے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ اے قوم اس کے ذریعہ تمہارا امتحان لیا گیا
ہے اور بیشک تمہارا رب رحمان ہی ہے لہذ امیرا اتباع اور میرے امرکی اطاعت کرو ۔ ان لوگوں نے کہا کہ ہم اس کے گرد جمع رہیں گے یہاں تک کہ موسیٰ ہمارے درمیان واپس آجائیں۔

..............
١۔ طہ ٨٧ ۔٩١
توریت میں تحریف کے چند ثبوت:
گزشتہ مطالب میں ہم نے توریت میں دو قسم کی تحریفوں کے نمونے بیان کئے ۔ ایک میں خدائے تعالیٰ سے ایک ایسی چیز کی نسبت دی گئی ہے جس سے وہ منزّہ و پاک ہے ۔ اور دوسری تحریف میں خدا کے پیغمبروں ایسی نسبتیں دی گئی ہیں جن سے وہ منزہ و پاک ہیں ۔
توریت اور انجیل میں تحریف کے سلسلے میں بہت زیادہ شواہد و ثبوت موجود ہیں ارباب نظر و تحقیق نے انہیں جمع کرکے ان پر بحث ، تحقیق اور تنقید کی ہے۔ من جملہ محترم دانشور حجة الاسلام بلاغی ہیں جنہوں نے اپنی بحث و تحقیق کے نتیجہ کو اپنی دو کتابوں '' الرحلة المدرسیة'' اور ''الھدیٰ الی دین المصطفی'' میں منعکس کیا ہے۔
انہوں نے اور دیگر محققین نے توریت و انجیل میں تحریف کے موارد کو اپنی دقیق، مفصل اور تاریخی تحقیق اور جانچ پڑتال کے ذریعہ ثابت کیا ہے ۔ امریکہ کے ڈاکٹر '' ہانس'' نے اپنی کتاب مقدس کی قاموس میں لفظ '' انجیل ' میں ان کی طرف اشارہ کیا ہے اور اس سلسلے میں قابل اعتراض موارد کو برطرف کرنے کی کوشش کی ہے لیکن اس میں کامیاب نہیں ہوئے۔
اس بحث کے خاتمہ پر ہم ذیل میں سفر تثنیہ کے تینتیسویں باب کے تحریف کے تین نمونے پیش کرتے ہیں :
١۔ ذیل میں دیا گیا نمونہ اس نسخہ کی تصویر ہے جسے '' جناب پادری رابنسن'' نے عبرانی زبان سے فارسی میں ترجمہ کیا ہے اور یہ نسخہ لندن کے رچرڈ واٹسن پریس میں ١٨٣٩ ء میں چھپ چکا ہے ۔
٢۔ذیل میں اسی باب کی ایک اور تصویر ہے جو ١٨٣١ ء میں لندن کے رچررڈ واٹسن پریس میں مشرقی روم کے یہودیوں کی عبادت گاہوں کیلئے ١٦٧١ ء میں طبع شدہ ایک نسخہ سے نقل کرکے اس کی اشاعت کی گئی ہے:
٣۔ ذیل میں اسی باب کے ایک اور نسخہ کی تصویر ہے جو ١٩٠٧ ء میں بیروت کے ایک امریکی پریس میں طبع ہواہے : ١
اب ہم دیکھیں گے کہ اس کتاب توریت کے صرف اس ایک باب میں تین بار چھپائی کے دوران کیا چیزیں تحریف ہوئی ہیں۔
اس باب کے نمبر ١ سے ٤ تک یہ بیان کیا گیا ہے کہ حضرت موسی علیہ السلام نے اپنی وفات سے پہلے تین جگہوں کا نام لیا ہے کہ جہاں خدائے تعالیٰ نے اپنا امر ظاہر کرکے اپنی شریعت نازل کی ہے ۔ یہ تیں جگہیں حسب ذیل ہیں:
..............
١۔ توریت کے اس باب کے تیسرے حصہ میں پیغمبر اسلامۖ کے اصحاب کی بات کی گئی ہے ، بعید نہیں کہ یہ مطلب اس آیۂ شریفہ کا مصداق ہوں :( مُحَمَّد رَسُولُ اﷲِ وَ الَّذِینَ مَعَہُ اَشِدَّائُ عَلَی الْکُفَارِ رُحَمَائُ بَیْنَھُم تَرَاھُمْ رُکَّعاً سُجَّداً یَبْتَغُونَ فَضلاً مِنَ اﷲِ وَ رِضْوَاناً سِیمَاھُمْ فِی وُجُوھِھِمْ مِنْ اَثِرِ السُّجُودِ ذٰلِکَ مَثَلُھُمْ فِی التَّورَاتِ ) ( فتح ٢٩)
محمد اﷲ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کفار کیلئے سخت ترین اور آپس میں انتہائی رحم دل ہیں ۔ تم انھیں دیکھو گے کہ بارہ گاہ احدیت میں سر خم کے ہوئے سجدہ ریز ہیں اور اپنے پروردگار سے فضل و کرم اور اس کی خوشنودی کے طلب گار ہیں ۔ کثرت سجدہ کی بناء پر ان کے چہروں پر سجدے کے نشانات پائے جاتے ہیں یہی ان کی مثال توریت میں ہے ۔
١۔ سیناء : یہ وہ جگہ ہے جہاں پر خدائے تعالیٰ نے حضرت موسیٰ پر توریت کی شریعت نازل فرمائی جسے چوتھے حصے میں اچھی طرح بیان کیا ہے اور تاکید فرمائی ہے وہ شریعت یعقوب کی میراث ہے جو بنی اسرائیل کے نام سے معروف ہیں ۔ اس لحاظ سے یہ شریعت قوم بنی اسرائیل سے مخصوص ہے۔
٢۔ سعیر یا ساعیر : لفظ '' سعیر'' کے بارے میں کتاب قاموس مقدس میں اور لفظ ''ساعیر'' کے بارے میں حموی کے معجم البلدان میں کی گئی تشریح کے پیش نظر یہ ان سرزمینون کا نام ہے جس کے پہاڑوں کے بیچ میں '' قدس'' واقع ہے۔
اس توصیف کے پیش نظر یہ وہی جگہ ہے جہاں '' حضرت عیسی بن مریم '' پر انجیل کی شریعت نازل ہوئی ہے اور حضرت موسیٰ کے بیانات میں اس کی کوئی وضاحت نہیں کی گئی ہے۔
٣۔ کوہ فاران : جیسا کہ توریت کے سفر تکوینی کے اکیسویں باب میں آیا ہے کہ فاران ایک ایسی جگہ کا نام ہے جہاں حضرت ابراہیم نے اپنی بیوی سارہ کی خواہش پر اپنی دوسری بیوی ہاجر اور اکلوتے بیٹے اسماعیل کو چھوڑا تھا۔ اس موضوع کی نمبر ٢١ میں یوں وضاحت ہوئی ہے:
اسماعیل نے صحرائے '' فاران'' میں رہائش اختیار کی اور ان کی ماں نے ان کیلئے سرزمین مصر سے ایک شریک حیات کا انتخاب کیا۔
تمام مورخین اس بات پر متفق ہیں کہ جناب اسماعیل اپنی ماں کے ساتھ مرتے دم تک وہیں رہے اور وہیں دفن ہوئے آپ کی قبر حجر اسماعیل کے نام سے معروف ہے۔
اس لحاظ سے کوہ فاران مکہ کے پہاڑوں میں سے ایک پہاڑ ہونا چائیے ۔ جیسا کہ یاقوت حموی نے اپنی کتاب '' معجم البلدان '' میں ، ابن منظور نے ''لسان العرب '' میں ، فیروز آبادی نے '' قاموس'' میں اور زبیدی نے '' تاج العروس'' میں لفظ '' فاران '' میں اس کی وضاحت کی ہے ۔
کوہ فاران پر نازل ہونے والے قوانین و شریعت کی تشریح اور اس جگہ پر حکم خدا کے ظہور کی کیفیت کے بارے میں ''پادری رابنسن ''کے ترجمہ کے نمبر ١ میںیوں بیان ہواہے ۔
... اور کوہ فاران سے نور افشاں ہوا اور دس ہزار مقربین کے ساتھ وارد ہوا، اس کے دائیں ہاتھ سے ایک آتشین شریعت ان لوگوں کے لئے پہنچی، بلکہ وہ تمام قبیلوں سے محبت کرتا تھا' تمام مقدسات تمہارے اختیار میں ہیں ، مقربان بھی تمہاری خدمت میں ہوں گے ، تمہارے حکم کی تعمیل کریں گے ۔
یہی مطلب روم میں چھپے ہوئے نسخہ میں اس طرح ہے: ...فاران کی پہاڑی سے ہزاروں پاکیزہ لوگوں کے ساتھ ظاہر ہوا' اپنے دائیں ہاتھ میں شریعت لئے ہوئے تمام قوموں سے محبت کرتا ہے اور بھی پاکیزہ لوگ اس کے اختیار میں ہیں جو بھی اس سے نزدیک ہوتے ہیں اس کے حکم کو قبول کرتے ہیں۔
کوہِ فاران سے ظہور ، مکہ میں موجود کوہِ فاران کے غار حرا میں خاتم الانبیاء ۖ پر نزولِ قرآن مجید پر دلالت کرتا ہے اور یہی پیغمبرۖ ہیں جو دس ہزار افراد لے کر مکہ -- سرزمین فاران-- میں داخل ہوتے ہیں اور اسے فتح کرتے ہیں۔ یہ وہی ہیں جو پرچمِ شریعت یا ایک آتشین سنت --جہاد و پیکار کی شریعت-- کے حامل ہیں ۔ اور بالآخر یہ وہی پیغمبرۖ ہیں جو قبائل اور لوگوں کو دوست رکھنے و الے ہیں ، قرآن مجید اس سلسلے میں فرماتا ہے :
(وَ مَا اَرْسَلْنَا کَ اِلَّا رَحْمَةً لِلْعَالَمِینَ ) ١
اور ہم نے آپ کو عالمین کیلئے صرف رحمت بنا کر بھیجا ہے۔
یا یوں فرماتا ہے :
( وَ مَا اَرْسَلْنَاکَ الَّا کَافَةً لِلنَّاسِ بَشِیراً و َ نَذِیراً )٢
اور اے پیغمبر ! ہم نے آپ کو تمام لوگوں کیلئے صرف بشیر و نذیر بنا کر بھیجا ہے۔
یہ اشراق اور ظہور صرف حضرت خاتم الانبیاء ۖ پر دلالت کرتا ہے اور پیغمبر اسلام ۖ کے علاوہ کسی اور پیغمبرۖ پر صدق نہیں آتا ہے ۔ کیونکہ:
موسیٰ صرف اپنے بھائی ہارون اور عیسیٰ چند حواریوں کے ہمراہ تشریف لائے تھے۔ اس لئے یہ جملہ '' اور دس ہزار مقربان کے ساتھ واردہوا'' ان میں سے کسی ایک پر صدق نہیں کرتا ہے۔
اسی طرح یہ جملہ : '' اور دائیں ہاتھ سے انہیں آتشین شریعت پہنچی '' ہر گز حضرت عیسیٰ پر صادق نہیں آتاہے۔
اسی طرح یہ جملہ کہ '' قبائل اور لوگوں کو دوست رکھنے والے تھے '' حضرت موسیٰ کیلئے مناسب نہیں لگتا کیونکہ ان کی شریعت قوم بنی اسرائیل کیلئے مخصوص تھی ۔
لہذا ان ہی اسباب کی بناء پر تورات کے مختلف نسخے تحریف کی زد میں آگئے ہیں ۔ ہم نے
..............
١۔انبیاء ١٠٧
٢۔سبا ٢٨
درج ذیل خاکہ میں تحریف کے ہر ایک مورد کو الگ الگ دکھایا ہے ١

طبع
پہلا جملہ
دوسرا جملہ
تیسرا جملہ

رابینسن
اور دس ہزار مقربان کے ہمراہ تشریف لائے۔
اور اس کے دائیں ہاتھ پر اسے آتشین شریعت پہنچی۔
بلکہ قبائل کو دوست رکھتا تھا۔

رومی
او ر ان کے ساتھ ہزاروں پاک لوگ ہیں۔
اور اس کے د ائیں ہاتھ پر آگ کی شریعت
لوگوں کو دوست رکھنے وال

امریکی
قدس کی بلندی سے آئے۔
اور دائیں ہاتھ سے ان کیلئے ایک شریعت کی آگ
لہذا لوگوں کو دوست رکھتاہے۔
..............
١۔قابل توجہ بات ہے کہ پہلا جملہ '' اور دس ہزار مقربان کے ہمراہ تشریف لائے '' دوسرے جملہ '' اور ان کے ساتھ ہزاروں پاک لوگ ہیں '' میں تحریف ہوئی ہے ۔ آخر میں یہ جملہ حذف ہو کر اس جملہ میں تحریف ہوا ہے کہ '' قدس کی بلندی سے آئے '' تا کہ حضرت عیسیٰ بن مریم کے ظہور پر دلالت کرے!!
دوسرے جملہ ''آتشین شریعت''' میں تحریف کرکے '' آگ کی شریعت'' اور پھر اسے '' شریعت کی آگ'' میں تحریف کیا گیا ہے تا کہ اسلام کے جہاد و پیکار والی شریعت پر دلالت نہ کرے اور اس طرح حضرت خاتم الانبیاء ۖ کی شریعت کا مصداق نہ بن جائے۔
تیسرے جملہ میں '' بلکہ قبائل کو دوست رکھتا ہے '' بصورت جمع ہے اسے جملۂ '' لوگوں میں '' اور پھر '' لوگوں کو دوست رکھتا ہے '' میں تحریف کی گئی ہے تا کہ پیغمبر اسلام پر دلالت نہ کرے بلکہ دوسروں پر صادق آئے۔

قرآن مجید ایک لافانی معجزہ :
ہم نے توریت کے ایک حصہ میں ١٨٣١ ء میں واقع ہوئی تحریف کے طرز و طریقہ کو نمونہ کے طور پر بیان کیا۔
لیکن قرآن مجید کے بارے میں خدائے تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ وہ ہر قسم کے دخل و تصرف اور تحریف سے خدا کی پناہ میںہوگا ۔ اس سلسلے میں فرماتا ہے:
(وَ اِنَّہ لَکِتَاب عَزِیز لَا یَاتِیہِ البَاطِلُ مِنْ بَیْنِ یَدَیہِ وَلَا مِنْ خَلْفِہِ تَنْزِیل مِنْ حَکِیمٍ حَمِیدٍ )١
اور یہ ایک عالی مرتبہ کتاب ہے ، جس کے قریب ، سامنے یا پیچھے کسی طرف سے باطل آبھی نہیں سکتا ہے کہ یہ خدائے حکیم و حمید کی نازل کی ہوئی کتا ب ہے ۔
اور خدائے تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ وہ خود اس کا محافظ اور بچانے والا ہوگا ، جیسے کہ فرماتا ہے :
(اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَ اِنَّا لَہُ لَحَافِظُونَ)٢
ہم نے ہی اس قرآن کونازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔
حتی رسول خدا ۖ بھی اپنی بات کو خدا کے کلام کے برابر قرار نہیں دے سکتے ، جیسا کہ خدائے تعالیٰ فرماتا ہے:
..............
١۔ فصلت ٤١ ۔ ٤٢۔
٢۔حجر ٩۔
( تَنْزِیل مِنْ ربِّ العَالَمِینَ وَ لَوْ تَقَوَّلَ عَلَیْنَا بَعْضَ الْاَقَاوِیلِ لَاَخَذْنَا مِنْہُ بِالْیَمِینِ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْہُ الوَتِینَ فَمَا مِنْکُمْ مِنْ اَحَدٍ عَنْہُ حَاجِزِینَ ) ١
یہ ( قرآن ) رب العالمین کا نازل کردہ ہے' اگر یہ پیغمبر ہماری طرف سے کوئی بات گڑھ لیتا تو ہم اس کے ہاتھ کو پکڑلیتے اور پھر اس کی گردن اڑا دیتے پھر تم میں سے کوئی مجھے روکنے والا نہ ہوتا ۔
یا یہ کہ اگر خدائے تعالیٰ قرآن مجید کو اپنے پیغمبرۖ سے چھین لیتا ، تو رسولِ خدا ۖ کچھ نہیں کرسکتے :
(وَلَئِنْ شِئْنَا لَنَذْھَبَنَّ بِالَّذِی اَوَْحَیْنَا اِلَیکَ ثُمَّ لَا تَجِدُ لک بِہِ عَلَیْنَا وَکِیلاً ) ٢
اور اگر ہم چاہیں تو جو کچھ آپ کو وحی کے ذر یعہ دیا گیا ہے اسے اٹھالیں اور اس کے بعد ہمارے مقابلہ میں کوئی سازگار اور ذمہ دار نہ ملے۔
اس کے علاوہ خدائے تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ اگر جن و انسان باہم متفق ہو کر قرآن کے مانند کسی کتاب کو فراہم کرنے کی کوشش کریں گے تو بھی وہہر گز اس میں کامیاب نہیںہوں گے :
(قُلْ لَئِنْ اجْتَمَعَتِ الاِنْسُ وَ الْجِنُّ عَلٰی اَنْ یَْتُوا بِمِثْلِ ھٰذَا القُرآنِ لَا یَْتُونَ بِمِثْلِہ وَ لَو کانَ بَعْضُھُم لِبَعْضِ ظَھِیراً )
آپ کہہ دیجئے کہ اگر انسان اورجنّات سب اس بات پر متفق ہوجائیں کہ اس قرآن کا مثل لے آئیں تو بھی نہیں لاسکتے ، چاہے سب ایک دوسرے کے مددگار اور پشت پناہ ہی کیوں نہ ہوجائیں۔
..............
١۔ الحاقہ ٤٣ ۔ ٤٧
٢۔ اسراء ٨٦
٣۔ الاسراء ٨٨
قرآن مجید کے مثل کسی کتاب کو لانے کے بارے میں انسان و جنات کی مجموعی قدرت اور توانائی سے نفی کرتے ہوئے فرماتا ہے:
(وَ اِنْ کُنْتُمْ فِی رَیْبٍ مِمَّا نَزَّلْنَا عَلٰی عَبْدِنَا فَْتُوا بِسُورَةٍ مِنْ مِثلِہِ وَ ادْعُوْا شُھَدائَکُمْ مِنْ دُونِ اﷲِ اِنْ کُنْتُم صَادِقِینَ فَاِنْ لَمْ تَفْعَلُوا وَ لَنْ تَفْعَلُوا فَاتَّقُو النَّارَ الَّتِی وَ قُودُھَا النَّاسُ وَ الحِجَارَةُ اُعِدَّت لِلْکَافِرِینَ )١
اگر تمہیں اس میں کوئی شک ہے، جسے ہم نے اپنے بندے پر نازل کیا ہے تو اس کے جیسا ایک ہی سورہ لے آؤ اور اﷲ کے علاوہ جتنے تمہارے مددگار ہیں سب کو بلا لو۔ اگر تم اپنے دعوے اور خیال میں سچے ہو۔ اور اگر تم ایسا نہ کرسکے اور یقینا نہ کر سکو گے تو اس آگ سے ڈرو، جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں اور جسے کافروں کیلئے مہیا کیا گیا ہے۔
اور دوسرے مقام پر فرماتا ہے
(اَمْ یَقُولُون افْتَرَاہُ قُلْ فَْتُوا بِعَشْرِ سُورٍ مِثْلِہ مُفتَرَیَاتٍ وَ ادْعُوا مَنِ اسْتَطَعْتُمْ مِنْ دُونِ اﷲِ اِنْ کنتُمْ صَادِقِینَ فَاِلَّمْ یَسْتَجِیبُوا لَکُمْ فَاعْلَمُوا اَنَّمَا اُنْزِلَ بِعِلْمِ اﷲ ...)٢
..............
١۔بقرہ ٢٣۔ ٢٤
٢۔ہود ١٣۔١٤
کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ قرآن بندے نے گڑھ لیا ہے تو کہہ دیجئے کہ اس کے جیسے دس سورے گڑھ کر تم بھی لے آؤ اور اﷲ کے علاوہ جس کو چاہو اپنی مدد کیلئے بلا لو اگر تم لوگ اپنی بات میں سچے ہو۔ پھر اگر یہ آپ کی بات قبول نہ کریں توسمجھ لو کہ جو کچھ نازل کیا گیا ہے سب خدا کے علم سے ہے...
اور مزید فرماتا ہے:
(وَمَا کَانَ ھٰذَا الْقُرآنْ اَنْ یُفْتَریٰ مِنْ دُوْنِِ اﷲِ وَ لٰکِنْ تَصْدِیقَ الَّذِی بَیْنَ یَدَیْہِ وَ تَفصِیلَ الْکِتَابِ لاَ رَیْبَ فِیہِ مِنْ رَبِّ الْعَالَمِینَ ، اَمْ یَقُولُونَ افْتَرَاہُ قُلْ فَْتُوا بِسُورَةٍ مِثْلِہِ وَادْعُو مَنِ اسْتَطَعْتُمْ مِنْ دُونِ اﷲِ اِنْ کُنْتُمْ صَادِقِینَ )
اور یہ قرآن کسی غیر خدا کی طرف سے افتراء نہیں بے بلکہ اپنے ما سبق کی کتابوں کی تصدیق اور تفصیل ہے جس میں کسی شک کی گنجائش نہیں ہے یہ رب العالمین کا نازل کردہ ہے۔
کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ اسے پیغمبرۖ نے گڑھ لیا ہے تو کہہ دیجئے کہ تم اس کے جیسا ایک ہی سورہ لے آؤ اور خدا کے علاوہ جسے چاہو اپنی مدد کیلئے بلا لو، اگر تم لوگ سچے ہو۔
..............
١۔یونس ٣٧- ٣٨