ایک سو پچاس جعلی اصحاب(جلدسوم)
 

پہلا حصہ :
تحریف
rقرآن و سنت ایک دوسرے کے متمم ہیں۔
rگزشہ ادیان میں تحریف کا مسئلہ۔
rسنت میں تحریف کے سلسلہ میں متقدمین کی تقلید۔
rآسمانی کتابوں میں گزشتہ امتون کی تحریفیں۔
rتوریت میں تحریف کے چند ثبوت
rقرآن مجید ایک لافانی معجزہ
rقرآن مجید میں تحریف کرنے کی ایک ناکام کوشش
rاسلامی مصادر کی تحقیق ضروری ہے۔
قرآن و سنت ایک دوسرے کے متمم ہیں
تمام اصول ، عقائد ، احکام اور دوسرے معارف و اسلامی علوم کا سرچشمہ قرآن مجید ہے۔ ان کی تشریح و تفسیر اور ان پر عمل کرنے کا طریقہ پیغمبر اسلام ۖ کی گفتار و رفتار میں مشخص ہوا ہے ، جسے حدیث و سیرتِ رسول ۖ کہا جاتا ہے ۔ اسی لئے خدائے تعالیٰ نے اپنے رسول ۖ کی اطاعت کو اپنی اطاعت کے مانند قرار دیتے ہوئے فرمایا ہے :
( اَ طِیعُو اللہ و َ رَ سُولَہُ ) ١
اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو۔
اور پیغمبر ۖکی نافرمانی کو اپنے احکام کی نافرمانی جانتے ہوئے فرماتا ہے :
( وَ مَنْ یَعْصِ اللہ و َ رَ سُولَہُ فَاِنَّ لَہُ نَارَ جَھَنَّم) ٢
اور جو اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا اس کیلئے جہنم ہے۔
..............
١۔ انفال ١، آل عمران ١٣٢، نساء ٥٩ انفال ٢٠، ٤٦، نور ٥٤م محمد٣٢. مجادلہ ١٣، تغابن ١٢ ، نور ٥٦، آل عمران ٥٠، شعراء ١٠٨، ١١٠، ١٢٦، ١٣١،١٤٤، ١٥٠، ١٦٣، زخرف١٦٣، مریم ٢ ، نساء ٦٤۔
٢۔ جن ٢٢، نساء ٤٢، ہود٥٩،حاقہ ١٠، شعراء ٢١٦، نوح ٢١، نساء ١٤، احزاب ٣٦ مجادلہ ٨و ٩ ۔
خدا اور اس کے پیغمبر ۖ کی طرف سے وضع کئے گئے احکام و فرامین کے مقابلہ میں مؤمنین کے اختیارات کو سلب کرتے ہوئے فرماتا ہے :
(وَ مَا کَانَ لِمُوْمِنٍ وَ لَا مُؤْمِنَةٍ اِذَا قَضَی اﷲُ وَ رَسُولُہُ َمْراً اَنْ یَکُونَ لَھُم الْخَیَرَةُ منْ اَمْرِھِمْ وَ مَنْ یَعْصِ اللہَ وَ رَ سُولَہُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالاً مُبِیناً) ١
اور کسی مؤمن مرد یا عورت کو اختیار نہیں ہے کہ جب خدا و رسول ۖ کسی امر کے بارے میں فیصلہ کردیں تو وہ بھی اپنے امر کے بارے میں صاحب اختیار بن جائے اور جو بھی خدا و رسول ۖ کی نافرمانی کرے گا وہ بڑی کھلی ہوئی گمراہی میں مبتلا ہوگا۔
خدائے تعالی نے پیغمبرۖ کو اس کی گفتار و رفتار میں اپنی حجت قرار دیکر انھیں امت کا پیشوا مقرر فرمایا ہے تاکہ لوگ ان کی پیروی کریں ۔ جیسا کہ فرماتا ہے :
(فَآمِنُوا بِاﷲِ وَ رَسُولِہِ النَّبِیِّ الْاُُمِّیِّ الَّذِی یُوْمِنُ بِاﷲِ وَ کَلِمَاتِہِ وَ تَبِعُوہُ ) ٢
لہذا اللہ اور اس کے پیغمبر پر ایمان لے آؤ جو اﷲ اور اس کے کلمات پر ایمان رکھتا ہے اور اسی کا اتباع کرو...
دوسری جگہ فرماتا ہے:
(ِنْ کُنْتمُ تُحِبُّونَ اﷲَ فَاتَّبِعُونِی )
..............
١۔احزاب ٣٦
٢۔ اعراف ١٥٨ ،اس سلسلہ میں قرآن مجید میں بہت سی آیات موجودہیں۔
کہ اگر تم لوگ اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو۔ ١
اور دوسرے مقام پر فرماتا ہے :
(لَقَد کَانَ لَکُمْ فِی رَ سُلِ اﷲِ اُسْوَة حَسَنَة)
بے شک پیغمبرۖ خدا تم لوگوں کیلئے بہترین نمونۂ عمل ہیں ۔ ٢
یہ اور اس کے علاوہ بھی اس موضوع کے بارے میں خدا کے ارشادات موجود ہیں ۔ پیغمبر اسلام ۖ نے بھی اس سلسلے میں چند فرمائشیں بیان کیہیں ، جن میں سے بعض مکتبِ خلفاء کی حسب ذیل صحیح اور معتبر کتابوں میں درج ہوئی ہیں:
١۔'' سنن'' ترمذی ، ابن ماجہ ، دارمی ، ''مسند'' احمد اور اسی طرح سنن ابو داؤد میں ''کتاب السنة کے ''باب لزوم السنة'' میں یوں آیا ہے:
'' مقدام بن معدی کرب ٣ نے روایت کی ہے کہ رسول خدا ۖنے فرمایا :
'' جان لو کہ مجھ پر قرآن نازل ہوا ہے اور اس کے ہمراہ اس کے ہم پایہ سنت بھی ہوشیا ررہو عنقریب ایک شکم سیر مرد تخت سے ٹیک لگائے ہوئے کہے : صرف قرآن
..............
١۔ آل عمران ٣١
٢۔ احزاب ٢١
٣۔مقدام معدی کرب کندی ، کندہ کے دوسرے نمائندوں کے ہمراہ رسول خدا ۖ کی خدمت میں پہنچا ہے مقدام نے رسول خدا سے ٤٧ احادیث نقل کی ہیں کہ ان سب کو مسلم کے علاوہ تمام صحاح اور سنن میں نقل کیا گیا ہے مقدام نے شام میں ٨٧ ھ میں ٩١ سال کی عمر میں وفات پائی۔''اسد الغابہ ''(٤ ٤١١)، ''جوامع السیرة '' (ص ٢٨٠) ،'' تقریب التہذیب ''(٢ ٢٧٢)
لے لو جو کچھ اس میں حلال پاؤ اسے حلال جانو اور جو کچھ بھی اس میں حرام پاؤ اسے حرام سمجھو''
''سنن'' ،ترمذی میں مذکورہ حدیث میں یوں اضافہ ہوا ہے:
''جبکہ بے شک جس چیز کو رسول ۖخدا نے حرام قرار دیا ہے گویا اسے خدا نے حرام قرار دیا ہے''
'' سنن'' ابن ماجہ میں مذکورہ حدیث کے آخرمیں آیا ہے :
'' خدا کی طرف سے حرام قرار دینے کی طرح ہے''
''مسند'' احمد حنبل میں مقدام معدی کرب سے روایت نقل ہوئی ہے کہ :
رسول خدا ۖ نے خیبر کی جنگ میں بعض چیزوں کو حرام قرار دیتے ہوئے فرمایا: وہ وقت دور نہیں جب تم میں سے ایک شخص میری باتوں کی تردید کرنے پر آتر آئے گا اور جب میری حدیث اسے سنائی جائے گی تو وہ آرام سے تکیہ لگائے ہوئے بیٹھا ہوا کہے گا : ہمارے اور تمہارے درمیان خدا کی کتاب موجود ہے جس چیز کو اس میں حلال پاؤ اسے حلال جانو گے اور جس چیز کو حرام پائیں گے اسے حرام جانو ۔
ہوشیاررہو ! جس چیز کو پیغمبر خدا ۖ نے حرام قرار دیا ے گویا اسے خدا نے حرام قرار دیا ہے ۔
٢۔ '' سنن'' ترمذی ، ابن ماجہ ، مسند احمد حنبل اور '' سنن '' ابو داؤد میں '' عبیدا ﷲ بن ابی رافع '' ٢
١ ۔عبید اللہ ابو رافع ابن ''ابو رافع ''پیغمبر خدا ۖ کا آزا دکیا ہواہے ۔عبیدا للہ کے ذمہ امیر المؤمنین کے دیوان کی کتابت تھی ۔وہ محدثین کے تیسرے طبقہ کے ثقات میں شمار ہوتا ہے اور اس کی حدیثوںکو احادیث کی کتابیں لکھنے والے تمام مؤلفین نے نقل کیاہے '' تقریب التہذیب '' (١ ٥٣٢ ) نمبر ١٤٤١
اپنے باپ سے نقل کرکے کہتا ہے کہ رسول خدا ۖ نے فرمایا:
ہوشیار رہو ! میں تم میں سے اس شخص کو اپنے مسند پر خوشحال تکیہ لگا کر بیٹھا ہوا نہ دیکھوں کہ جس کے سامنے میرا وہ فرمان سنایا جائے کہجس میں میں نے کسی کا م کے انجام دینے یا اسے ترک کرنے کا حکم دیا ہو ، اور وہ جواب میں کہے: نہیں جانتا! میں جو کچھ خدا کی کتا ب میں پاؤں گا اسی پر عمل کروں گا !!
'' مسند '' احمد میں مذکورہ حدیث کا آخری جملہ یوں آیا ہے :
'' میں نے اسے خدا کی کتاب میں نہیں پایا ہے''
٣۔ '' سنن'' ابو داؤد ، کتاب خراج کے باب تعشیر اہل ذمہ '' میں '' عرباض بن ساریہ '' ١ سے نقل ہوا ہے کہ اس نے کہا :
ہم پیغمبر ۖکے ہمراہ خیبر میں پہنچے ، اس وقت میں کہ چند اصحاب رسول خدا ۖ کے ہمراہ تھے ، خیبر کے باشندوں کا رئیس ، جو ایک بد اخلاق شخض تھا ، آگے بڑھا اور گستاخانہ انداز میں رسول خدا ۖ سے کہنے لگا :
اے محمد ! کیایہ صحیح ہے کہ تم ہمارے مویشیوں کو مار ڈالو ، ہمارے میوؤں کو کھاوجاؤ اور ہماری عورتوں کو اذیت پہنچاؤگے ؟!
پیغمبر خدا ۖاس موضوع سے سخت غصہ میں آئے اور '' عبدا لرحمان عوف '' سے مخاطب ہوکر فرمایا:
..............
١۔ ابو نجیح ، عرباض بن ساریۂ سلمی نے رسول خدا ۖ سے ٣١ حدیثیں روایت کی ہیں ااور '' بخاری و مسلم کے علاوہ '' صاحبان صحاح نے ان حدیثوں کو نقل کیا ہے۔ عرباض ٧٥ ھ میں یا ابن زبیر کے فتنہ کے وقت میں اس دنیا سے چل بسا ۔ '' اسد الغابة (٣ ٣٩٩) '' جوامع السیرہ '' ص ٢٨١ اور '' تقریب التہذیب ( ٢ ١٧)
گھوڑے پر سوار ہوکر لوگوں کے درمیاں اعلان کرو کہ '' بہشت مؤمنوں کے علاوہ کسی کا حق نہیں ہے اور کہہ دو کہ لوگ نماز کیلئے جمع ہوجائیں''
عرباض کہتا ہے :
لوگ تمام اطراف سے نماز ادا کرنے اور پیغمبر ۖکے بیانات سننے کیلئے جمع ہوئے اور رسول خدا ۖ کے ساتھ نماز ادا کی ۔ اس کے بعد رسول خدا ۖ کھڑے ہوئے اور فرمایا : کیا تم میں سے بعض لوگ آرام سے بیٹھے ہوئے گمان کررہے ہو ہیں کہ خدائے تعالیٰ نے قرآن مجید میں حرام قرار دی گئی چیزوں کے علاوہ کسی اور چیز کو حرام قرار نہیں دیا ہے؟!
ہوشیار رہو! میں نے تمہیں نصیحت کی ہے اور بعض امور کو انجام دینے اور بعض سے اجتناب کرنے کا حکم دیا ہے یہ سب قرآن مجید کے حکم کے برابر ہیں یا اس سے بھی زیا دہ( یہ حائز اہمیت اور واجب العمل ہیں ) خدائے تعالیٰ نے تمہارے لئے جائز نہیں قرار دیا ہے کہ تم اہل کتاب کے گھروں میں اجازت کے بغیر داخل ہوجاؤ یا ان کی عورتوں کو اذیت پہنچاؤ گے یا ان کے میوے کھا ؤگے جبکہ انہوں نے اپنے ذمہ لیا ہوا کام انجام دیا ہے۔
٤۔ '' مسند ا'' احمد حنبل میں ابو ہریرہ ١ سے نقل کرکے آیا ہے کہ رسول خدا ۖ نے فرمایا :
..............
١۔ ابوہریرہ قحطانی دوسی یہ لقب '' ابو ہریرہ ''(بلی باز ) ا س لئے پڑا تھا کہ اس کے پاس ایک پالتو بلی تھی یا یہ ایک بار رسول ۖ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنی پالتو بلی آستین میں چھپائے ہوئے تھا ، اس لئے آنحضرت نے اسے '' ابو ہریرہ ' ' خطاب فرمایا ۔ ابو ہریرہ خیبر کی جنگ میں رسول خدا ۖ کی خدمت میں حاضر ہوکر اسلام لایا ہے ۔ اس نے رسول خدا ۖ سے ٥٣٧٤ حدیثیںروایت کی ہیں ۔ ان احادیث کو عام اصحاب حدیث نے نقل کیا ہے '' اسد الغابہ '' ( ٣١٥٥ ) ، '' جوامع السیرہ '' ص ٢٧٥ ،'' عبدا للہ بن سبا '' (١٦٠١ طبع آفسٹ ١٣٩٣ ھ )
میں تم میں سے ایک شخص کو نہ دیکھو ںکہ جس کے سامنے بیان کی جائے تو وہ آرام سے اپنی جگہ پر تکیہ لگائے ہوئے کہے : اس سلسلے میں مجھے قرآن مجید سے بتاؤ!!
'' سنن'' دارمی کے مقدمہ میں حسان بن ثابت انصاری ١سے روایت نقل ہوئی ہے کہ اس نے کہا:
جس طرح جبرئیل پیغمبر ۖکیلئے قرآن لے کر نازل ہوئے تھے ، اسی طرح آنحضرت ۖ کیلئے سنت لے کر بھی نازل ہوتے تھے ۔
کَان جِبرئُیل یَنزِلُ عَلٰی رَسُولِ اﷲِ بالسُّنةِ ، کَمٰا یَنْزِلُ عَلَیہِ بِالقُرآن۔
یہ قرآن مجید کی آیات اور احادیث نبوی کے چند نمونے ہیں جن میںامت اسلامیہ کو رسول خدا ۖ اور آپ ۖ کی سنت کی اطاعت کرنے کا حکم ہوا ہے اور ان کی نافرمانی سے منع کیا ہے ۔ جو لوگ صرف قرآن مجید سے تمسک کرکے سنت رسول خدا ۖکو پامال کرتے ہیں اور اس کی اعتنا نہیں کرتے پیغمبر نے ۖان کی سرزنش و ملامت کی ہے۔
اس کے پیش نظر بنیادی طور پر اسلام کو سنت پیغمبر ۖ کی طرف رجوع کئے بغیر صرف قرآن مجید کی آیات سے حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ چند مثالوں سے اس حقیقت کو واضح اور روشن کیا جاسکتا ہے:
..............
١۔ ابو عبدا لرحمان یا ابو الولید ،حسان بن ثابت انصاری خزرجی ، یہ رسولۖ خدا کا شاعر اور مسجد میں آنحضرت ۖکے مناقب پڑھتا تھا۔ رسول خدا ۖ نے اس کے حق میں فرمایا ہے :'' خدائے تعالیٰ حسان کی اس وقت تک روح القدس کے عنوان سے تائید کرے جب تک وہ رسول خدا ۖ کی حمایت کرتا ہے '' حسان اپنے زمانے کا ایک ڈرپوک آدمی تھا اسی لئے اس نے پیغمبر خدا ۖ کے غزوات میں سے کسی ایک میں بھی شرکت نہیں کی ہے ۔ پیغمبر خدا ۖنے ماریہ کی بہن ، شیرین سے اس کا عقد کیا ، اس سے اس کا بیٹا عبدا لرحمان پیدا ہوا ۔ حسان نے رسول خدا ۖ سے صرف ایک حدیث روایت کی ہے کہ '' ترمذی'' کے علاوہ دیگر لوگو ں نے اسے نقل کیا ہے ۔ حسان ٤٠ یا ٥٠ یا ٥٤ ھ کو ١٢٠ سال کی عمر میں وفات پا ئی ، ''اسد الغابہ'' ( ٢۔ ٥۔٧) ، ''جوامع السیرہ ''(ص ٣٠٨) اور ''تقریب التہذیب ''(١ ١٦١)
قرآن مجید میں نماز پڑھنے کی تاکید کی گئی ہے ۔ لیکن سنت پیغمبر ۖ کی طرف رجوع کئے بغیر معلوم نہیں ہوسکتا کہ یہ عبادت کس طرح اور کن شرائط میں انجام دی جاسکتی ہے ۔ ہم احادیث و سیرت پیغمبر ۖ کی طرف رجوع کرکے رکعتوں اور سجدوں کی تعداد ، اذکار ، قوانین اور مبطلات نماز کے احکام سیکھ سکتے ہیں نماز کو ادا کرنے کی کیفیت اور طریقۂ کار معلوم کرسکتے ہیں۔
حج بھی اسی طرح ہے ، ہم سنت پیغمبر کی طرف رجوع کرکے ، احرام باندھنے کی نیت، میقات کی پہچان اور ان کی تشخیص ، طواف کی کیفیت ، مشعر و منیٰ میں توقف و حرکت ، اپنے مخصوص اور محدود زمان و مکان میں رمی جمرات ، قربانی اور حلق و تقصیر کے علاوہ حج کے واجبات ، مستحبات و مکروہات اور محرمات کے بارے میں مسائل و احکام سیکھتے ہیں۔
ان ہی دو مثالوں سے واضح طور سے معلوم ہوجاتا ہے کہ پیغمبر ۖ کی سنت کی طرف رجوع کئے بغیر صرف قرآن مجید کی طرف رجوع کرکے مذکورہ دو فریضہ اور واجب شرعی کو انجام دینا ممکن نہیں ہے جبکہ شرع مقدس اسلام کے تمام احکام کی نوعیت بھی یہی ہے۔
اس لئے ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ اسلام کو حاصل کرنے اور احکام الٰہی کی پیروی کرنے کیلئے قرآن مجید اور رسول خدا ۖ کی سنت کی جانب ایک ساتھ رجوع کریں اور اگر ایک شخص ان دو میں سے صرف ایک کی طرف رجوع کرے اور ان کو ایک دوسرے سے جدا کرے تو بیشک اس نے اپنے آپ کو اسلام کی پابندیوں سے آزاد کرکے اس کے قوانین کی من پسند تفسیر و تعبیر کی ہے کیونکہ کلید فہم و مفسر قرآن یعنی پیغمبر اکرم ۖ کو حذف کرنے سے انسان آزادی کے ساتھ اپنی رای اور سلیقہ سے تعبیر و سکتاہے ۔

گزشتہ ادیان میں تحریف کا مسئلہ
ہمیں معلوم ہوا کہ صحیح اسلام کو معلوم کرنے اور قرآن مجید کے احکام پر عمل کرنے کیلئے پیغمبر خداۖکی سنت کی طرف رجوع کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کیونکہ جب ہم سنت کی جانب رجوع کرتے ہیں تو انتہائی افسوس کے ساتھ مشاہدہ کرتے ہیں کہ تحریفات ، لفظی تغیرات ، معنی میں تاویل کرکے دوسرو ںکی سنتوں کو پیغمبر اسلام ۖ کی سنت میں شامل کرنے ، پیغمبر اسلام ۖ پر تہمتیں لگانے ، حق کو چھپانے ، افتراء باندھنے اور اسی طرح انحرافات اور تحریفات کی دوسری قسموں سے پیغمبر اسلام ۖ کی سنت بھری پڑی ہے پیغمبر اسلام کی سنت میں داخل ہونے والے تحریفات بالکل ویسے ہیں ہے جیسے کہ گزشتہ امتوں میں واقع ہوئی ہے اور خداوند تعالی نے قرآن مجید میں ان کی خبر دے دی ہے اور ہم یہاں پر بعض کی جانب اشارہ کرتے ہیں:
( وَ اِذْاَخَذَاﷲُ مِیثَاقَ الّذِینَ اُوتُوا الْکِتَابَ لَتُبَیِّنُنَہُ لِلنَّاسِ وَ لٰا تَکْتُمُونَہُ فَنَبَذُوہُ وَرٰاء ظُھُورِھِم وَ اْشْتَرَوا بِہِ ثَمَناً قَلِیلاً فَبِئْسَ مَا یَشْتَرُونَ) ١
اس موقع کو یاد کرو جب خدا نے جن کو کتاب دی ان سے عہد لیا کہ اسے لوگوں کیلئے بیان کریں گے اور چھپائیں گے نہیں ۔ لیکن انہوں نے اس عہد کو پس پشت ڈالدیا اور تھوڑی قیمت پر بیچ دیا ا یا تو یہ بہت برا سودا کیا ہے۔
٢۔ (فَبِمَا نَقْضِھِمْ مِیْثَاقَھُمْ لَعَنَّا ھُمْ وَ جَعَلْنَا قُلُوبُھُمْ قَاسِیةً یُحَرِّفُونَ
..............
١۔ آل عمران ١٨٧
الْکَلِمَ عَنْ مَوَاضِعِہِ وَ نَسُوا حَظّاًمِمَّا ذُکِّرُوا بِہِ وَ لَا تَزَالُ تَطَّلِعُ عَلٰی خَائِنَةٍ مِنْھُم ِلَّا قَلِیلاً مِنْھُمْ)١
پھر ان کی عہد شکنی کی بناء پر ہم نے ان پر لعنت کی اور ان کے دلوں کو سخت بنا دیا ۔ وہ ہمارے کلمات کو ان کی جگہ سے ہٹا دیتے ہیں اور انہوں نے ہماری یا ددہانی کا اکثر حصہ فراموش کردیا ہے اور تم ان کی خیانتوں سے ہمیشہ مطلع ہوتے رہو گے علاوہ چندافراد کے۔
٣۔ (یَا اَھْلَ الْکِتَابِ لِمَ تَلْبِسُونَ الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَ تَکْتُمُونَ الحَقَّ وَ اَنْتمُ تَعْلَمُونَ ) ٢
اے اہل کتاب ! کیوں حق کو باطل سے مشتبہ کرتے ہو او رجانتے ہوئے حق کی پردہ پوشی کرتے ہو۔
٤۔( یَا اَھْلَ الْکِتَابِ قَدْجَائَکُمْ رُسُولُنَا یُبَیِّنُ لَکُمْ کَثِیراً مِمَّا کُنْتُم تُخْفُونَ مِنَ الکِتَابِ وَ یَعْفُو عَن کَثِیرٍ) ٣
اے اہل کتاب ! تمہارے پاس ہمارا رسول آچکا ہے جو ان میں سے بہت سی باتوں کی وضاحت کررہا ہے ، جن کو تم کتاب خدا میں سے چھپا رہے تھے اور بہت سی باتوں سے در گزر بھی کرتا ہے ...
..............
١۔ مائدہ ١٣
٢۔آل عمران ٧١
١٣۔مائدہ ١٥
٥۔( وَ لَا تَلْبِسُوا الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَ تَکْتُموا الْحَقَّ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُونَ ) ١
حق کو باطل سے مخلوط نہ کرو اور جان بوجھ کر حق کی پردہ پوشی نہ کرو۔
٦۔( اَلَّذِینَ آَتَیْنَاھُمْ الْکِتَابَ یَعْرِفُونَہُ کَماَ یَعْرِفُونَ اَبْنَائَھُمْ وَ اِنَّ فَرِیقاً مِنْھُمْ لَیَکْتُمُونَ الْحَقّ وَ ھُمْ یَعْلَمُونَ) ٢
جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے وہ رسول کو بھی اپنی اولاد ہی کی طرح پہچانتے ہیں . بس ان کا ایک گروہ ہے جو حق کو دیدہ و دانستہ چھپا رہا ہے۔
٧۔( اَفَتَطْمَعُونَ اَنْ یُوْمِنُوا لَکمُ وَ قَدْ کَانَ فَرِیق مِنْھُمْ یَسْمَعُونَ کَلَامَ اللہِ ثُمَّ یُحَرِفُونہ مِنْ بَعْدِ مَا عَقَلُوہ وَ ھُمْ یَعْلَمُونَ ) ٣
مسلمانو! کیا تمہیں امید ہے کہ یہ یہودی ایمان لائیں گے جبکہ ان کے اسلاف کا ایک گروہ کلام خدا کو سنکرتحریف کریتا تھا حالانکہ وہ سب سمجھتے بھی تھے اور جانتے بھی تھے۔
٨۔ (مِنَ الَّذِینَ ھَادُوا یُحَرِِّفُونَ الْکَلِمَ عَنْ مَوَاضِعِہِ وَ یَقُوْلُونَ سَمِعْنَا و عَصَیْنَا ) ٤
یہودیوں میں وہ لوگ بھی ہیں جو کلمات الہیہ کو ان کی جگہ سے ہٹا دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم نے بات سنی اور نافرمانی کی۔
..............
١۔بقرہ ٤٢
٢۔بقرہ ١٤٦
٣۔ بقرہ ٤٥
٤۔ نساء ٤٦
٩۔( وَ مِنْ الَّذِینَ ھَادُوا سَمَّاعُونَ لِلْکَذِبِ سَمَّاعُونَ لِقَوْمٍ آخَرِینَ لَمْ یَْتُوکَ یُحَرِّفُونَ الْکَلِمَ مِنْ بَعْدِ مَوَاضِعِہ یَقُولُونَ اِنْ اُوْتِیتُم ھٰذَا فَخُذُوہ وَ اِنْ لَمْ تُوْتَوْہُ فَاحذرُوا ) ١
اور یہودیوں میں سے بھی بعض ایسے ہیں جو جھوٹی باتیں سنتے ہیں اور دوسری قوم والے جو آپ کے پاس حاضر نہیں ہوئے انھیں سناتے ہیں ۔ یہ لوگ کلمات کو ان اکی جگہ سے ہٹا دیتے ہیں اور لوگوں سے کہتے ہیں کہ اگر پیغمبر کی طرف سے یہی دیا جائے تو لے لینا اور اگر یہ نہ دیا جائے تو پرہیز کرنا ۔
١٠۔ (اِنَّ الَّذِینَ یَکْتُمُونَ مَا اَنْزَ لَ اﷲُ مِنَ الْکِتَابِ وَ یَشْتَرُونَ بِہِ ثَمَناً قَلِیلاً اُولٰئِکَ مَا یَْ کُلُونَ فِی بُطُونِھِمْ اِلاَّا لنَّارَ وَ لَا یُکَلِّمُھُمُ اﷲُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ وَ لَا یُزَکِّیْھِمْ وَ لَھُمْ عَذَاب اَلِیم )٢
لو لوگ خدا کی نازل کی ہوئی کتاب کے احکام کو چھپاتے ہیں اور اسے تھوڑی قیمت پر بیچ ڈالتے ہیں وہ حقیقت میں اپنے پیٹ میں صرف آگ بھر رہے ہیں اور خدا روز قیامت ان سے بات بھی نہ کرے گا اور نہ ہی انھیں پاکیزہ قرار دے گا اور ان کیلئے درد ناک عذاب ہے۔
١١۔( اِنَّ الَّذِینَ یَکْتُمُونَ مَا َنْزَلْنَا مِنَ البَیِّنَاتِ وَ الْھُدیٰ مِنْ بَعْدِ مَا
..............
١۔ بقرہ ١٧٤
٢۔بقرہ ١٥٩
بَیَّنَّاہُ لِلنَّاسِ فِی الْکِتَابِ اُولٰئِکَ یَلْعَنُھُُمُ اﷲُ و َیلْعَنُھمُ اللاَعِنُونَ )
جو لوگ ہمارے نازل کئے ہوئے واضح بیانات اور ہدایات کو ہمارے بیان کردینے کے بعد بھی چھپاتے ہیں ان پر اللہ بھی لعنت کرتا ہے اور تمام لعنت کرنے والے بھی لعنت کرتے ہیں۔
یہ نمونے کے طور پر چند آیتیں تھیں کہ جن میں خدائے تعالیٰ گزشتہ امتوں کے ذریعہ سے حقائق کی تحریف اور حقیقتوں کے چھپانے کی خبر دیتا ہے۔

سنت میں تحریف کی خبر اور اسلاف کی تقلید
ہم ذیل میں چند ایسی احادیث درج کرتے ہیں ، جن میں پیغمبر اسلام ۖ نے اس بات کی خبر دی ہے کہ کس طرح یہ امت اپنی تمام رفتار و کردار میں گزشتہ امتوں کی تقلید کرے گی اور آنحضرت ۖ واضح فرماتے ہیں کہ امت اسلامیہ گزشتہ امتوں کے کاموں پر قدم بہ قدم عمل کرے گی:
١۔ شیخ صدو ق اعلی اللہ مقامہ نے اپنی کتاب '' اکمال'' میں حضرت امام جعفر صادق اور آپ کے آباو اجداد سے روایت کی ہے کہ رسول خدا ۖ نے فرمایا:
''کل ما کان فی الامم السالفة فانہ یکون فی ھٰذہ الا مة مثلہ ، خذو النعل بالنعل و القذة بالذة''
جو کچھ گزشتہ امتوں میں واقع ہوا ہے اسی کے مانند اس امت میں بھی واقع ہوگا، جوتوں کے جوڑوں اور تیر کے پروں کے مانند۔ ١
..............
١۔ اس حدیث کے اہل بیت میں سے راویوں کا سلسلہ یوں ہے : امام صادق (ت ١٤٨ ھ ) نے اپنے والد گرامی محمد باقر (ت ١١٤ھ) سے، انہوں نے اپنے والد امام زین العابدین ( ت ٩٥ھ ) سے انہوں نے اپنے والد امام حسین شہید ، نواسہ رسول خدا ( ت ٦١ ھ) سے انہوںنے اپنے والد امام علی بن ابیطالت ( ت ٤٠ ھ) سے اور انہوں نے اپنے چچازاد بھائی رسول خدا ۖ ( صلوات اللہ وسلامہ علیہم اجمعین ) سے روایت کی ہے۔
ابن رستہ کتاب '' الاعلاق النفسیہ'' ص ٢٣ پر لکھتے ہیں: کرۂ زمین پر جعفر بن محمد بن علی بن الحسین بن علی بن ابیطالب ( رضہم) کے علاوہ کوئی بھی ایسے پانچ افراد نہیں ملتے جنہوں نے سلسلسہ وار حدیث نقل کی ہو۔
شیخ صدوق نے مزید اپنی کتاب '' اکمال'' میں حضرت امام صادق اور آپ کے آباء و اجداد سے روایت کی ہے کہ رسول خدا ۖ نے فرمایا:
''والذی بعثنی بالحق نبیا و بشیرا لترکبنّ امتی سنن من کا ن قبلھا حذو النعل بالنعل ، حتی لو ان حیة من بنی اسرائیل دخلت فی جحرٍ لدخلت فی ھٰذہ الامة حیّة مثلھا ''
قسم اس ذات کی جس نے مجھے نبی اور بشارت دینے والے کی حیثیت سے بر حق مبعوث فرمایا ہے ، میری امت کسی تفاوت کے بغیر اپنے اسلاف کی راہ کو انتخاب کرے گی ، اس طرح کہ اگر بنی اسرائیل کے زمانے میں ایک سانپ کسی بِل میں داخل ہوا ہوگا تو اس امت میں بھی ایک سانپ اسی بل میں داخل ہوگا ۔
٢۔ابن حجر نے اپنی کتاب '' فتح الباری '' میں پیغمبر خدا ۖ کی فرمائشات کو یوں بیان فرمایا ہے:
شافعی ١ نے اسی صحیح سند کے ساتھ عبد اللہ عمرو ٢سے روایت کی ہے کہ رسول خدا ۖ نے فرمایا:
..............
١۔ابو عبدا للہ ، محمد بن ادریس بن عباس شافعی مطلبّی : ان کی ماں کے ہاشمی ہونے یا نہ ہونے میں اختلاف ہے اس لئے بعض نے ان کے بارے میں کہا ہے: ہم نے ہاشم کی اولاد میں سے ہر گز کسی کو نہیں دیکھا کہ ابوبکر ، و عمر کو علی پرترجیح دی ہو ، جیسا کہ '' طبقات شافعیہ '' میں آیا ہے کہ ان کو اس لئے ہاشم سے نسبت دی گئی ہے کہ وہ ہاشم کے بھائی کی اولاد میں سے تھے ۔ شافعی ٢٠٤ ھ میں ٥٤ سال کی عمر میں مصرمیں فوت ہوا '' تقریب التہذیب'' (٢ ١٤٣)
٢۔ عبد اللہ بن عمرو عاص اپنے باپ سے ١٢ سال چھوٹا تھا ۔ باپ سے پہلے اسلام لایا تھا ۔ اسلاف کی کتابیں پڑھ چکا تھا ۔ اس نے رسول خدا ۖ سے ٧٠٠ احادیث روایت کی ہیں ۔ عبدا للہ نے اپنے باپ کے ہمراہ صفین کی جنگ میں معاویہ کی حمایت میں شرکت کی لیکن بعد میں نادم ہوکر کہتا تھا : کاش اس سے بیس سال پہلے مرچکا ہوتا۔ اس کی موت کے بارے سال اور مکان میں اختلاف ہے ۔ کیا ٦٣ھ یا ٦٥ ھ میں مصر میں یا ٦٧ ھ میں مکہ میںاور یا ٥٥ ھ میں طائف میں یا ٦٨ ھ میں فوت ہوا ہے ۔ عبدا ﷲ کی زندگی کے حالات '' اسد الغابہ'' ٣ ٢٣٣۔ ٢٣٥) اور '' جوامع السیرہ '' ابن حزم ص ٢٨٦ میں ملاحظہ ہو۔
'' لترکبن سنن من کان قبلکم حلوھا و مرّھا''
تم لوگ اپنے اسلاف کی تلخ و شیرین ( بری اور بھلی) روش کو اپناؤ گے ۔
٣۔ احمد بن حنبل نے اپنی کتاب '' ُسند '' میں اور مسلم و بخاری نے اپنی '' صحیح '' میں پیغمبر ۖکے صحابی ابو سعید خدری ١سے روایت کی ہے کہ رسول خدا نے فرمایا:
''لتتبعن سنن من کان قبلکم شِبراً بشبرٍ و ذراعاً ذراعاً حتی لو دخلوا حجر ضبِّ تبعتموھم ''۔ ٢
اپنے اسلاف کی رفتار کو تم لوگ قدم بہ قدم اور موبمو اپناؤ گے ، حتی اگر وہ کسی چھپکلی کے بِل میں بھی گئے ہوگے تو تم لوگ بھی ایسا ہی کرو گے۔
ہم نے سوال کیا : اے رسول خدا ۖ : کیا آپ ۖ کی مراد یہود و نصاریٰ ہیں ؟
آنحضرت ۖ نے جواب دیا : پھر کون ؟!
یہ حدیث ایک اور روایت کے مطابق '' مسند'' احمد میں یوں درج ہوئی ہے :
١۔ ابو سعید ، سعید بن مالک بن سنان انصاری خندق کی جنگ میں تیرہ سالہ تھا ۔ اس کے باپ نے اس کا ہاتھ پکڑ کر پیغمبر خدا ۖ کے حضور لاکر کہا : یہ نوجوان قوی ہیکل ہے ۔ لیکن رسول خدا ۖ نے اسے قبول نہیں کیا اور اجازت نہ دی تا کہ وہ جنگ میں شرکت کرے ۔ ابو سعید خدری نے جنگ بنی المصطلق میں شرکت کی ہے وہ مکثرین حدیث میں شمار ہوتا ہے اس نے تقریباً ١١٧٠ حدیثیں رسول خدا ۖ سے روایت کی ہیں صحاح کے مؤلفین نے اس کی تمام احادیث کو نقل کیا ہے ۔ ابو سعید نے ٧٤ ھ میں وفات پائی ہے۔ '' اسد الغابہ'' و ' جوامع السیرہ'' میں اس کی زندگی کے حالات بیان کئے گئے ہیں۔
ابوسعید خدری کی حدیث میں جسے بخاری نے اس سے ایک اور روایت میں نقل کیا ہے کہ '' لو دخلوا'' کے بجائے'' لو سلکوا جحر ضبِّ لسلکتموہ'' آیا ہے جس کا تقریباً وہی مفہوم ہے۔
٢۔ شِبر =بالشت ، ذراع = کہنی سے درمیانی انگلی کی انتہا تک کا فاصلہ ، باع = دو ہاتھوں کے درمیان کا وہ فاصلہ دونوں ہاتھ اٹھا کر شانوں کے برابر کھینچ لئے جائیں۔
لتتّبعن سنن بنی اسرائیل ، حتی لو دخل رجل من بنی اسرائیل جحر ضبٍّ لتبعتموہ۔
تم لوگ بنی اسرائیل کی روش اپناؤ گے اس طرح کہ اگر بنی ا سرائیل میں کوئی شخص سوسمار کے بل میں داخل ہوا ہوگا تو تم بھی اس کی پیروی میں جاؤ گے۔
٤۔ ابن ماجہ نے اپنی '' سنن'' میں ، احمد نے اپنی '' مسند '' میں ، متقی نے '' کنزل العمال'' میں اور بخاری نے اپنی صحیح میں ابو ہریرہ سے روایت کی ہے کہ رسول خداۖ نے فرمایا:
لا تقوم الساعة حتّٰی تخذ امتی بخذِ القرون قبلھا شبراً بشبرٍ و ذراعاً بذراعٍ۔
تب تک قیامت برپا نہیں ہوگی ، جب تک کہ میری امت گزشتہ امتوں کی روش پر مو بمو پیروی نح کر لے گی ۔ سوال کیا گیا:
اے رسول خدا ۖ ! کیا مجوسیوںاور رومیوں کی طرح؟ فرمایا: ان کے علاوہ ، اور کون لوگ ہیں؟!
اسی مطلب کو '' مسند'' احمد میں یوں بیان کیا گیا ہے :
وَ الّذی نفسی بیدہ لتتبعنَّ سنن الذین من قبلکم شبراً بشبر و ذراعاً بزراعٍ و باعاً فباعاً حتی لو دخلوا جحر ضبّ لدخلتموہ
قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم لوگ اپنے اسلاف کی روش پر مو بمو اور قدم بہ قدم پیروی کرو گے، حتی اگر وہ چھپکلی کے سوراخ میں داخل ہوئے ہوں گے تو تم لوگ بھی اس میں داخل گے۔ پوچھاگیا:
اے رسول خدا ۖ ! کن کے بارے میں ، کیا اہل کتاب کے بارے میں فرما رہے ہیں؟
آنحضرت ۖ نے جواب میں فرمایا:
پھر کون لوگ؟!
٥۔ طیالسی اور احمد نے اپنی '' مسندوں'' میں ، متقی ہندی نے '' کنزل العمال ''' میں اور ترمذی نے اپنی '' صحیح'' میں ابو واقدلیثی ١سے روایت کی ہے کہ رسول خدا ۖ نے فرمایا:
والذی نفسی بیدہ لترکبن سنة من کان قبلکم
قسم اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ تم لوگ اپنے اسلاف کی روش کی پیروی کروگے۔
یہی حدیث '' مسند'' احمد میں یوں آئی ہے۔
لترکبن سنن من کان قبلکم سنّة سنّة
تم لوگ روش روش پر اپنے اسلاف کی تقلید کرو گے۔
٦۔ حاکم نے پر اپنی '' مستدرک بر صحیحین'' میں اور ''مجمع الزوائد'' میں '' بزاز'' سے نقل کرکے ابن عباس سے روایت کی ہے کہ رسول خدا ۖ نے فرمایا:
لترکبن سنن من کان قبلکم شبراً بشبرٍ و زراعاً بزراع و باعاً بباع حتی لو ان احدھم دخل حجر ضبّ لدخلتم۔
تم لوگ موبمو اور قدم بہ قدم اپنی اسلاف کی روش پر چلو گے حتی اگر ان میں سے کوئی
..............
١۔ابو واقد لیثی بنی لیث بن بکر سے ہے ۔ اس کے نام اور اسلام لانے کی تاریخ میں اختلاف ہے کہ کیآیا س نے جنگ بدر میں شرکت کی ہے یا فتح مکہ میں یا ان میں سے کسی ایک میںبھی شرکت نہیں کی ہے اور بعد میں اسلام لایا ہے ابو واقد نے رسول خدا ۖ سے ٢٤ حدیثیں روایت کی ہیں جسے بخاری نے ادب المفرد میں درج کیا ہے۔ ابو واقد نے مکہ میں رہائش اختیار کی اور ٦٨ھ میں ٧٥ یا ٨٥ سال کی عمر میں وہیں پر فوت ہوا اس کی زندگی کے حالات '' اسد الغابہ'' ( ٥ ٣١٩) و '' جوامع السیرہ'' ص ٢٨٢ میں مطالعہ فرمائیں۔
چھپکلی کے بلِ میں گھس گیا ہوگا تو تم لوگ بھی اس میں گھس جاؤ گے۔
٧۔ ترمذی نے اپنی '' صحیح'' میں اور حاکم نے اپنی '' مستدرک '' میں سیوطی کی تفسیر کے پیش نظر بیان کیا ہے کہ عبدا للہ عمرو نے رسول خدا ۖ سے روایت کی ہے کہ آنحضرت ۖ نے فرمایا:
لیاتین علیٰ امتی ما اَتیٰ علیٰ بنی اسرائیل ، حذو النعل بالنعل ، حتی ان کان فی بنی اسرائیل من اتٰی امہ علانیة لکان فی امتی من فعل ذالک
جو کچھ بنی اسرائیل پر گزری ہے بالکل ویسے ہی میری امت پر بھی گزرے گی ، حتی اگر بنی اسرائیل میں کسی نے اپنی ماں سے علانیہ طور پر ہمبستری کی ہوگی تو میری امت میں ایسا شخص پیدا ہوگا جو اس کام کو انجام دے گا!
٨۔ '' مجمع الزوائد'' میں بزاز کی '' مسند'' سے اور متقی نے حاکم کی ''مستدرک '' سے نقل کرکے ابن عباس سے روایت کی ہے کہ رسول خدا ۖنے فرمایا:
لترکبن سنن من کان قبلکم شبراً بشبر و ذراعاً بذراع و باعاً بباعٍ ، حتی لو ان احدھم دخل حجر ضب لدخلتم حتی لو ان احدھم جامع امہ لفعلتم!
تم لوگ موبمو اور قدم بقدم اپنے اسلاف کے نقشِ قدم پر چلو گے حتی اگر ان میں سے کوئی گوہ کے بلِ میں گھس گیا ہو گاتو تم لوگ بھی ویسا ہی کرو گے بلکہ اگر ان میں سے کسی نے اپنی ماں سے مباشرت کی ہوگی تو تم لوگ بھی ایسا ہی کرو گے۔
٩۔ احمد بن حنبل نے اپنی '' مسند'' میں '' مجمع الزوائد'' کے مصنف نے '' سہل بن سعد انصاری'' ١ سے نقل کرکے لکھا ہے کہ رسول خدا ۖ نے فرمایا:
والذی نفسی بیدہ لترکبن سنن من کان قبلکم مثلاً بہ مثل
قسم اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے تم لوگ اپنے اسلاف کے نقش قدم پر موبمو چلو گے!
جیسا کہ '' مجمع الزوائد'' کے مطابق طبرانی نے مذکورہ حدیث کے آخر میں یہ اضافہ کیا ہے کہ رسول خدا ۖ نے اس کے ضمن میں فرمایا:
حتی لو دخلوا جحر ضبٍّ لاتبعتموہ ۔
ہم نے سوال کیا :
اے رسول خدا ! کیا آپ کی مراد یہود و نصاریٰ ہیں ؟
آنحضرت ۖنے جواب دیا:
ان یہود و نصاریٰ کے علاوہ اور کون ہو سکتے ہیں ؟!
..............
١۔سہل بن سعد بن مالک انصاری : پیغمبر خدا ۖ کی رحلت کے دن سہل کی عمر پندرہ سال تھی ۔ سہل نے حجاج بن یوسف کے زمانہ کو بھی درک کیا ہے ، حجاج نے سہل کے عثمان کی مدد کرنے کے جرم میں حکم دیا تھا کہ اس کی گردن پر غلامی کی مہر لگادی جائے۔
سہل نے رسول خدا ۖ سے ١٨٨ حدیثیں روایت کی ہیں کہ اصحاب صحاح نے ان سب کو درج کیا ہے سہل نے ٨٨ ھ یا ٩١ ھ میں وفات پائی ہے ۔ کہتے ہیں کہ وہ رسول خداۖ کا آخری صحابی تھا جس نے وفات پائی۔ '' اسد الغابہ'' ( ٢ ٣٦٦) ، '' جوامع السیر'' ٢٧٧ ، '' تقریب التہذیب '' (١ ٣٣٦)
١٠۔ '' مجمع الزوائد'' میں طبرانی سے نقل کرکے لکھا گیا ہے کہ '' عبداللہ مسعود'' ١ نے کہا کہ رسول خدا ۖ نے فرمایا :
انتم اشبہ الامم بننی اسرائیل ، لترکبن طریقھم حذو القذة با لقذة حتی لا یکون فیھم شیء الا فیکم مثلہ .....
تم بنی اسرائیل سے سب سے زیادہ شباہت رکھنے والی امت ہو ۔ تم لوگ ان کے راستہ پر اس طرح چلو گے جیسے تیر کے پیچھے اس کے پر حتی ان میں کوئی ایسی چیز نہیںپائی جائے گی جو تم لوگوں میں موجود نہ ہو!
١١۔ '' مجمع الزوائد '' میں طبرانی کی '' اوسط '' اور '' کنز ل العمال 'سے نقل کرکے '' مستورد بن شداد '' ١ سے
..............
١۔ابو عبدا لرحمن ، عبدا للہ بن مسعود بن غا فل ہذلی قبیلۂ قریش میں سے ہیں جو پہلے مسلمانوں میں شمار ہوتے ہیں کہا جاتا ہے کہ جن دنوں مکہ میں اظہار اسلام کرنے پر سختیوںوا ذیتوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا ، ابن مسعود پہلے مسلمان تھے جو مکہ میں بلند آواز میں قرآن مجید کی تلاوت کرتے تھے۔ ابن مسعود نے پہلے حبشہ پھر مدینہ ہجرت کی اور پیغمبر خدا ۖ کی تمام جنگوں میں شرکت کی ہے ، ابن مسعود سے ٨٤٨ حدیثیں روایت ہوئی ہیں تمام حدیث لکھنے والوں نے انھیں نقل کیا ہے ، عمر نے ابن مسعود کو کوفہ میں دینی امورکے معلم اور بیت المال میں حکومت کا امین و کلید دار معین کیا تھا ۔ ابن مسعود حکومت عثمان تک اس عہدہ پر برقرار تھے،کوفہ کا گورنر ولید بن عقبہ ، ابن مسعود کے اسلامی احکام کے نفاذ میں دقت خاص کر بیت المال اور حکومتی خزانہ کے امور میں ان کی دقت سے تنگ آچکا تھا .۔ لہذا اس نے خلیفہ عثمان کے پاس ان کی شکایت کی اور عثمان نے بھی اپنے بھانجے کی خواہش کے مطابق ابن مسعود کو مدینہ بلایا اور حکم دیا کہ ان کی پٹائی کی جائے اور سخت پٹائی کی گئی جس کی وجہ سے ان کی پسلیاں ٹوٹ گئیں اس کے بعد حکم دیا کہ ان کی تنخواہ بند کردی جائے ، ابن مسعود اسی جسمانی اذیت کی وجہ سے بیمار ہوئے اور قریب مرگ پہنچے ۔ اس حالت میں عثمان ان کے سراہنے پر آئے اور حکم دیا کہ دو سال کے بعد دوبارہ انہیںتنخواہ دی جائے لیکن ابن مسعود نے قبول نہیں کیا۔ ابن مسعود نے ٣٢ھ میں وفات پا ئی اور انہوں نے وصیت کی تھی کہ عثمان ان کے جنازہ پر حاضر نہ ہوجائے اور اس کی نماز جنازہ نہ پڑھے اور اس کی وصیت کے مطابق عمل کیا گیا۔ '' اسد الغابہ'' ( ٣ ٢٥٦۔ ٢٥٨)، '' جوامع السیرہ'' ص ٢٧٦ '' تقریب التہذیب '' ( ١ ٤٥٠)، تاریخ اسلام میں عائشہ کا کردار ( ١ ١٦٠ ۔١٦٧)
٢۔مستور دبن شداد بن عمرو قرشی فہری : اس کی ماں دعد بنتِ زین بن جابر بن حسل ہے ۔ رسول خدا ۖ کی رحلت کے وقت نوجوان تھا ۔ مستورد نے سات حدیثیں روایت کی ہیں ۔ اس کی تمام احادیث کو حدیث لکھنے والوں نے نقل کیا ہے ، مستورد نے کوفہ اور مصر میں سکونت کی ہے اور ٤٥ ھ میںوفات پائی ہے '' اسد الغابہ'' ( ٤ ٣٥٤) ، '' مجمع الزوائد'' ص ٢٨٧ اور ' ' تقریب التہذیب '' ( ٢ ٢٤٢)
روایت نقل ہوئی ہے کہ رسول خدا نے فرمایا ۔
لا تترک ھٰذہ الامة شیئاً من سنن الاولین حتیٰ تاتیہ
گزشتہ قوموں کی کوئی روش باقی نہیں رہے گی مگر یہ کہ یہ امت اسے انجام دے ۔
١٢۔ احمدبن حنبل نے اپنی '' مسند'' میں اور '' مجمع الزوائد'' نے طبرانی سے نقل کرکے شداد بن اوس ١ سے روایت کی ہے کہ رسول خدا ۖنے فرمایا:
لیحملن شرار ھذہ الامة علی سنن الذین خلوا من قبلھم اھل الکتاب حذو القذة بالقذة ''
اس امت کے بر ے لوگ اپنے سے پہلے اہل کتاب کی روش کی موبمو پیروی کریں گے۔
یہی حدیث شداد بن اوس کے حالات کی تشریح میں ابن اثیر کی کتاب '' اسد الغابہ'' میں '' اپنے سے پہلے '' کی جگہ '' آپ لوگوں سے پہلے'' کی تبدیلی کے ساتھ درج ہوئی ہے۔
..............
١۔ شداد بن اوس ، حسان بن ثابت انصاری خزرجی کا بھتیجا ہے ۔ اس نے رسول خدا ۖ سے ١٥٠ حدیثیں روایت کی ہیں کہ تمام حدیث لکھنے والوں نے انھیں نقل کیا ہے ۔ شدا د نے بیت المقدس میں رہائش اختیار کی اور ٤١ یا ٥٨ یا ٦٤ ھ میں شام میں وفات پائی ۔ '' اسد الغابہ'' ( ٢ ٢٨٧۔ ٢٨٥ ) ، جوامع السیرہ ص ٢٧٩ ، '' تقریب التہذیب '' ( ١ ٣٤٧)