ایک سو پچاس جعلی اصحاب(دوسری جلد)
 

تیئیسواں جعلی صحابی طاہر بن ابی ہالہ تمیمی
طاہر ، گور نر کے عہدے پر
سیف نے خاندان اسید تمیم کے ابو ہالہ کی نسل سے حضرت خدیجہ کے بیٹے کے طور پر پیغمبرخدا ۖایک تیسرے پرورش یافتہ کو خلق کرکے اس کا نام طاہر بن ابی ہالہ رکھا ہے ۔
ابو عمر ابن عبد البر اپنی کتاب استیعاب میں طاہر ابو ہالہ کی تشریح کرتے ہوئے یوں لکھتا ہے :
طاہر بن ابی ہالہ ہند اور ہالہ کا بھائی اور ابو ہالہ تمیمی کا بیٹا ہے ۔ وہ بنی عبد الدار کا ہم پیمان تھا ۔ اس کی والدہ رسول خدا ۖ کی زوجہ حضرت خدیجہ تھیں رسول خدا نے طاہر کو یمن کے بعض علاقوں میں اپنے گماشتہ و کارندہ کے عنوان سے مأمور فرمایا تھا ۔ طاہر کے بارے میں سیف بن عمر لکھتا ہے :
جریر بن یزید جعفی نے ابی بردہ سے اور اس نے ابو موسیٰ سے روایت کی ہے کہ رسول خدا نے ہمیں دیگر چار افراد کے ہمراہ ماموریت پر یمن بھیج دیا ۔یہ چار افراد حسب ذیل تھے : معاذ بن جبل ، خالد بن سعید ، طاہر بن ہالہ اور عکاشتہ بن ثور ۔ آنحضرت ۖ نے حکم دیا کہ ہم ایک دوسرے کا ہاتھ بٹائیں آنحضرت ۖ نے ہمیں سفارش فرمائی کہ کوگوں کے معاملات میں تساہل پسندی اور نرم رویہ سے پیش آئیں ، رحم دل بنیں اور کسی پر سختی نہ کریں ۔ لوگوں کو محبت و نوازش سے اپنی طرف جذب کریں اور غصہ و بد اخلاقی سے ان کو اپنے سے دور نہ کریں ۔ اس کے علاوہ حکم دیا کہ جب معاذ جبل آپ لوگوں کے پاس پہنچے گا تو اس کی اطاعت کرنا اور نافرمانی سے پرہیز کرنا اور ...
ذہبی نے بھی اس روایت کو اپنی کتاب سیر اعلام النبلاء میں بعض دخل و تصرف کے ساتھ معاذ جبل کی وضاحت کرتے ہوئے درج کیا ہے :
ابن اثیر اپنی کتاب اسد الغابہ میں اس سلسلہ میں لکھتا ہے :
طاہر ، ابو ہالہ کا بیٹا اور ہند کا بھائی خاندان اسید تمیم سے تعلق رکھتا ہے ۔ اس کی والدہ خویلد کی بیٹی خدیجہ پیغمبر اسلام ۖ کی زوجہ ہیں ۔
رسول خدا ۖ نے طاہر کو یمن کے اطراف میں اپنے کار ندہ اور گماشتہ کی حیثیت سے ماموریت دی ۔ سیف بن عمر اس سلسلے میں لکھتا ہے ...
ابن اثیر مذکورہ حدیث کے آخر میں اس بات کی تاکید کرتا ہے کہ اس حدیث کو ابو عمر ابن عبد البر نے نقل کیا ہے ۔
ابن حجر نے اپنی کتاب الاصابہ میں یوں بیان کیا ہے :
طاہر بن ابی ہالہ تمیمی اسید ی ہند کا بھائی اور رسول خدا ۖ کا پرورش یافتہ ہے ، سیف نے اپنی کتاب '' ردّہ'' کی جنگ کے آغاز پر ابو موسیٰ سے نقل کرکے ذکر کیا ہے ( حدیث مذکور کے آخر تک )
اس کے بعد ابن حجر اس سلسلہ کو جاری رکھتے ہوئے کھتا ہے :
عبید بن صخر لوذان کے سلسلے میں لکھی گئی تشریح میں بغوی رقمطراز ہے :
جب باذان نے وفات پائی ، رسول خدا ۖ نے اس کی مأموریت کے علاقہ کو حسب ذیل افراد میں تقسیم فرمایا: شہر بن باذام ،عامر بن شہر ،اور طاہر بن ابی ہالہ ...آخرمیں لکھتا ہے کہ :مرز بانی نے ''ردہ ''کی جنگ میں طاہر ابو ہالہ کے بارے میں مندرجہ ذیل اشعار کہے ہیں :
میری آنکھوں نے آج تک ایسا دن کبھی نہیں دیکھا ،جس دن قبیلہ ''اخابث ''کے گروہوں کو اپنی کثافت اور ننگ آور اعمال کی وجہ سے ذلیل و خوار ہونا پڑا ۔
خدا کی قسم !اگر اس خدا کی مدد اور یاری نہ ہوتی جس کے سوا کوئی خدا نہیں تو قبیلہ ''اخابث '' کے گروہ ہرگز اس طرح دربدر اور پراکندہ نہ ہوتے !!
ابن حجران مطالب کے ضمن میں لکھتا ہے :
خاندان ''ازد ''سے جو پہلا قبیلہ مرتد ہوا وہ ''تہامہ عک ''تھا کہ طاہر نے ان پر حملہ کیا ،ان پر غلبہ پاکر شورش وبغاو توں کو سرکوب کرکے علاقہ میں امن وامان برقرار کیا ۔اس لئے اس علاقے کے مرتدوں کا ''اخابث''یعنی ''ناپاک ''نام پڑا ہے ۔

طاہر کی داستان پر بحث و تحقیق
طاہر کے بارے میں لکھا گیا ہے کہ وہ ابو ہالہ کا بیٹا تھا اور اس کی والدہ رسول خدا ۖ کی زوجہ حضرت خدیجہ تھیں ۔علما ء کے نزدیک اس روایت کے مآخذ حسب ذیل ہیں :
سیف کی حدیث کا راوی عبد البر ہے ۔ابن اثیر نے بھی ''طاہر ابوہالہ ''کا ذکر کرتے وقت سیف کی حدیث پر عبد البر کے ذریعہ متوجہ ہوا ہے ،اس نسب شناس دانشور نے عبدا لبرسے مطالب نقل کرکے اس کی باتوں پر اپنی طرف سے بھی کچھ اضافہ کرتے ہوئے ''ابو ہالہ ''کے شجرہ ٔنسب کو اسید بن تمیم تک پہنچایا ہے !ابن اثیر نے ابوہالہ کو اسید بن تمیم سے وصل کرنے میں علم انساب کے رو سے صحیح راستہ کا انتخا ب کیا ہے ۔لیکن اصل مسئلہ میں یہ مشکل موجود ہے کہ ''ابو ہالہ ''کا جب ''طاہر ''نامی کوئی بیٹا نہ تھا تو یہ شجرہ ٔنسب کیسے مفید اور حقیقت بن سکتا ہے ؟! جب ''طاہر ''ہی حقیقت میں وجود نہ رکھتا ہو تو ایسے ''طاہر ''کے لئے شجرہ نسب کا ثابت کرنا ''ابو ہالہ ''کے لئے کسی بیٹے کو جنم نہیں دے سکتا ہے !
لیکن ابن حجر نے اپنی کتا ب ''الاصابہ ''میں ''طاہر ابو ہالہ ''کے بارے میں دو حدیثیں نقل کی ہیں ۔ان میں سے ایک کے مطابق ''طاہر '' ''باذان ''کا جا نشین انتخاب ہو ا ہے تا کہ رسو ل خدا ۖکی طرف سے آپ ۖ کے کارندے کی حیثیت سے عہدہ سنبھالے ۔دوسری روایت میں علاقہ ''اعلاب ''کے مرتدوں سے اس کی جنگ اور ''اخابث ''کے بارے میں اس کی دلاوریوں پر مشتمل اشعار بیان کئے گئے ہیں ۔
ان دو روایتوں میں ابن حجر نے کہیں پر سیف کا نام نہیں لیا ہے ۔لیکن ہم نے تاریخ طبری میں سیف کی احادیث کی تحقیق کے دوران اس کے مآخذ تلاش کئے ہیں جن پر ہم ذیل میں
نظر ڈالتے ہیں :

طاہر کے بارے میں سیف کی احادیث
١۔ ''لوذان انصاری'' کے نواسہ ''عبید بن صخر ''سے سیف نقل کرکے روایت کرتا ہے کہ :
رسول خدا ۖ نے حجة الوداع سے لوٹتے ہوئے ١٠ھ کو ''باذام '' جو فوت ہو چکا تھا کی ماموریت کے علا قہ کو .... اور طاہر بن ابی ہالہ کے درمیان تقسیم کیا ۔
جیسا کہ بیان ہوا ،اس حدیث کو بغوی نے ''عبید صخر ''کے حالات کی تشریح میں بیان کیا ہے اور ابن حجر نے ''باذان ''کے جانشین کے طور پر ''طاہر ''کے انتخاب کے سلسلے میں اسی مطلب کو بغوی سے نقل کرکے اپنی کتا ب میں درج کیا ہے ۔
٢۔ اس کے بعد سیف سے متعلق ایک دوسری روایت میں کہا گیا ہے :
جب رسول خدا ۖ حج کے بعد مدینہ لوٹے تو آپ ۖ نے سرزمین یمن کی حکومت اپنے اصحاب کو سونپی .....(یہاں تک کہتا ہے ) اور ''عک ''و ''اشعریو ں ''پر ''طاہر بن ابی ہالہ ''کو مقرر فرمایا ۔
٣۔ آخر میں طبری نے یما نیوں کے ارتداد کے موضوع پر رسول خدا ۖ کے یمن میں مقرر کئے گئے آپ ۖ کے کارندوں کے بارے میں سیف سے نقل کرکے مفصل طور پر بیان کیا ہے کہ ہم اسے ذیل میں درج کرتے ہیں :
طبری نے سیف سے نقل کیا ہے کہ رسول خدا ۖ کی رحلت کے وقت اسلام کے قلمرو میں آ نحضرت ۖ کے کارندے حسب ذیل تھے :
مکہ اور اس کے اطراف میں درج ذیل دو افراد مامور تھے :
قبیلہ ''کنانہ ''میں ''عتاب بن اسید ''اور ''عک ''میں طاہر ابی ہالہ ۔اس قسم کی تقسیم بندی کا سبب یہ تھا کہ رسول خدا ۖ نے فرمایا تھا ،''عک ''کے کارندے ان کے اپنے قبیلہ یعنی ''معد بن عدنان ''سے انتخاب کئے جائیں ۔
طائف اور اس کی سرزمینوں میں حسب ذیل دو افراد کو مقرر فرمایا تھا: ''عثمان بن ابی العاص''کو شہر نشینوں میں اور ''مالک بن عوف نصری ''کو صحرا نشینوں کے لئے انتخاب فرمایا تھا ۔
نجران اور اس کے اطراف کے علاقوں کے لئے ''عمر ابن حزم ''کو امام جماعت کے طور پر اور ''ابو سفیان حرب ''کو علاقہ کے صدقات جمع کرنے کے لئے مامور فرمایا تھا ۔
''عاص ''کے نواسہ ''خالد بن سعید ''کو ''ربیع و زبید ''کی سرزمینوں سے نجران کی سرحدوں تک کے علاقے پر ،عامر بن شہر کو ہمدان کے تمام قبائل پر اور ''فیروز دیلمی ''کو ''داذویہ ''و ''قیس بن مکشوح ''کے تعاون سے یمن کے شہر صنعا پر مامور فرمایا تھا ۔
''یعلی بن امیہ ''کو سرزمین جند پر ،''طاہر بن ابی ہالہ ''کو عک کی حکومت کے علاوہ اشعریوں کے قبیلہ پر اور ''ابو موسی اشعری ''کو مارب کی سرزمینوں پر مامور فرمایا تھا ۔
اس کے علاوہ ''معاذ بن جبل ''کو معلم احکام اور حاکم شرع کے عنوان سے یمن اور حضر موت کے لئے منصوب فرمایا تھا ۔
طبری نے ایک اور روایت میں سیف بن عمر سے نقل کرکے ذکر کیا ہے :
پیغمبر خدا ۖ نے حضر موت کے اطراف من جملہ قبائل ''سکاسک و سکون ''کے لئے ''عکاشہ بن ثور ''کو اورقبائل معاویہ بن کندہ کے لئے ''عبداللہ ''یا ''مہاجر ''کو مامور فرمایا ۔
مہاجر بیمار ہوا اور مجبور ہوکر ماموریت پر روانہ نہ ہوسکا لیکن رسول خدا ۖ کی رحلت کے بعد ابوبکر نے اسے ماموریت پر بھیج دیا ۔
رسول خدا ۖ نے ''زیاد بن لبید ''کو حضر موت کی ماموریت دی اور یہی زیاد تھا جو مہاجر کی عدم موجودگی میں اس کی ذمہ داری بھی نبھاتا تھا ۔
یہ سب گماشتے رسول خدا ۖ کی رحلت تک اپنی اپنی جگہوں پر فرائض انجام دیتے رہے۔ صرف ''باذام ''کی وفات کے بعد رسول خدا ۖ نے اس کی ماموریت دوسرے لوگوں میں تقسیم فرمائی ۔
رسول خدا ۖکی رحلت کے بعد ''اسود عنسی'' نے ''شہر بن باذام'' کی مأموریت کے علاقہ پر حملہ کرکے اسے قتل کرڈالا۔
٤۔طبری نے سیف سے نقل کرکے ''اسود عنسی'' کی خبر کے بارے میں یوں لکھا ہے :
''اسود عنسی '' نے جب پیغمبری کا دعویٰ کرنے کے بعد نجران پر حملہ کیا اور ''عمر بن حزم'' و ''خالد بن سعید'' کو وہاں سے بھگا دیا تو یہ دونوں مدینہ بھاگ گئے اور''اسود ''نے نجران پر قبضہ کرلیا۔
نجران پر قبضہ کرنے کے بعد اسود نے صنعاء کی طرف رخ کیا اور ''شہر بن باذام'' جو صنعاء کا حاکم تھا کو قتل کرڈالا۔ ''معاذ بن جبل'' ڈر کے مارے بھاگ کر ''ابو موسیٰ'' کے پاس'' مأرب'' پہنچا اور وہاں سے دونوں خوف و وحشت کی وجہ سے بھاگ کر حضر موت کی طرف چلے گئے!! ان کے بھاگنے کی وجہ سے اسود نے یمن کے پورے علاقہ پر قبضہ جما لیا۔
اسود سے ڈر کے یمن میں مأمور رسول خدا ۖکے دوسرے کارندے اور گماشتے بھی وہاں سے فرار کر کے ''عک'' کے اطراف میں صنعا ء کے پہاڑوں کی طرف چلے گئے جہاں پر'' طاہر ابوہالہ'' ٹھکانا لگائے بیٹھا تھا۔
اس کے بعد طبری نے رسول خدا ۖکے کارندوں کی روایت کے آخر میں ان کی مأموریت کے حدود کے بارے میں ذکر ہوئی روایت اور ''اخابث'' کی خبر کے بارے میں
یوں لکھا ہے:
پیغمبر خدا ۖ کی رحلت کی خبر پھیلنے کے بعد ''تہامہ'' کے جس علاقے میں سب سے پہلے گڑ بڑ اور بغاوت پھیلی، وہ ''عک'' اور ''اشعری'' قبائل تھے۔ وہ آپس میں جمع ہوکر '' اعلاب ''
جو سمندر کے راستے پر واقع ہے میںتاک لگا کر بیٹھ گئے ۔
''طاہر بن ابی ہالہ'' نے اس موضوع کی رپورٹ ابو بکر کو بھیجی اور اس کے بعد اپنے سپاہیوں کے ساتھ ''مسروق عکی'' کے ہمراہ باغیوں کی طرف روانہ ہوا اور ان کے ساتھ گھمسان کی جنگ لڑی۔ اس جنگ میں ان کے کشتوں کے ایسے پشتے لگائے کہ سارے بیابان میں ان کی لاشوں کی بد بو پھیل گئی۔ سر انجام مشرکین نے شکست کھائی ، علاقہ شر پسندوں سے پاک ہو اا ور امن و امان برقرار ہوا۔ رسول خدا ۖ کے بعد طاہر ابو ہالہ کے ہاتھوں مرتدوں کی یہ شکست مسلمانوں کی ایک عظیم کامیابی تھی۔
ابوبکر نے طاہر کی طرف سے اس کامیابی کی نوید پر مشتمل خط کے پہنچنے سے پہلے ہی اس خط کے جواب میں لکھا :
تمھارا خط مجھے ملا، جس خط میں تو نے اپنی اختیار کی گئی راہ اور ''مسروق'' اور اس کے خاندان سے اخابث (ناپاکوں) کے خلاف لڑنے میں جو مدد کرنے کا ذکر کیا تھا، یہ ایک اچھا کام تھااسی راہ پر آگے بڑھو اور ان ناپاکوں کو آرام سے سانس لینے کی فرصت نہ دو، اس کے بعد ''اعلاب'' جاکر رُکنا اور میرے خط کا انتظار کرنا۔
چونکہ ابوبکر نے اس جگہ پر باغیوں کو ''اخابث'' (ناپاک) کا نام دیا ہے لہٰذا یہ جگہ آج تک طریق الاخابث (ناپاکوں کی گزرگاہ) سے مشہور ہے ۔ اور ''طاہر بن ابی ہالہ'' نے اس سلسلہ میں یہ اشعار کہے ہیں:
خدا کی قسم اگر اس خدا کی مدد نہ ہوتی جس کے سوا کوئی خد ا نہیں ہے تو قبیلہ عثاعث ہرگز وادیوں میں در بدر نہ ہوتے !
میری آنکھوں نے آج تک ایسا دن کبھی نہیں دیکھا ، جس دن قبیلہ ''اخابث'' کے گروہ کو ذلیل و خوار ہونا پڑا۔
ہم نے ان کو کوہ خامر کی چوٹی اور سرخ زمینوں کی کھاڑیوں کے درمیان تہ تیغ کرکے رکھدیا۔
اور ہم ان سے چھینی ہوئی دولت کے ساتھ لوٹے اور ان کے شور و شر پر کوئی توجہ نہ کی۔
طبری نے اس داستان کو جاری رکھتے ہوئے لکھا ہے:
طاہر نے مسروق اور قبیلہ عک کے دوسرے لوگوں کے ساتھ دریائے اخابث کے ساحل پر کیمپ لگا دیا اور وہیں پر ابوبکر کے حکم کا انتظار کرنے لگا۔
(یہ روایت اسی خبر کا مآخذہے جسے ابن حجر نے مرز بانی سے نقل کرکے اپنی کتاب میں درج کیا ہے )
٥۔طبری اس داستان کے آخر میں سیف سے نقل کرکے لکھا ہے:
ابوبکر نے طاہر اور مسروق کو حکم دیدیا کہ صنعا ء جاکر ''احرار ''نامی ایران نسل کے لوگوں کی مددکریں
''طاہر ابو ہالہ ''کے بارے میں سیف سے نقل کی گئی جس روایت کو ہم نے طبری کے ہاں وہ یہی تھے جس کا ذکر ہوا ۔
سیف سے نقل کی گئی طبری کی روایت کے پیش نظر یاقوت حموی نے''اخابث ''کی جغرافیائی موقعیت کے بارے میں تشریح کرتے ہوئے یوں لکھا ہے :
''اخابث'' گویا''اخبث'' کا جمع ہے ! ''بنوعک بن عدنان '' کا خاندان، پیغمبر خدا ۖ کی رحلت کے بعد نافرمانی کرکے مرتد ہوا اور منطقہ ''اعلاب''جہاں ان کی سر زمین تھی میں بغاوت کی .... ( یہاں تک لکھا ہے کہ :) طاہر ابو ہالہ نے اعلاب میں ان کے ساتھ مقابلہ کیا اور گھمسان کی جنگ کے بعد ان سبوں کو قتل کر ڈالا ۔ ابو بکر نے طاہر کی طرف سے اس فتح کی نوید پہنچنے سے پہلے ہی اس طرح لکھا ... ( تاآخر)
حموی نے ابو بکر کے خط کو نقل کرنے کے بعد جس کا متن اوپر ذکر کیا گیا ہے احادیث کے بارے میں اپنی بات کو یوں خاتمہ بخشا ہے ۔
اس طرح عکیوں اور ہم فکر دوست و یاوروں کو اسی دن سے آج تک اخابث کہا جاتا ہے اور ان کے اس منطقہ کی گزرگاہ کو بھی طریق الاخابث کہا جاتا ہے ۔ طاہر ابو ہالہ نے اس سلسلے میں یہ اشعار کہے ہیں .. .( وہی اشعار جو اوپر درج ہوئے ہیں )
اس طرح حموی نے سیف کی باتوں پر اعتماد کرکے اخابث کو ایک خاص منطقہ کے نام کے طور پر اپنی جغرافیہ کی کتاب میں ثبت کیا ہے اور سیف کی اس عین عبارت کو ( اور ان کے منطقہ کی گزرگاہ کو آج تک طریق الاخابث کہا جاتا ہے ) اپنی کتاب میں نقل کیا ہے ۔
حموی کی کتاب '' معجم البلدان '' میں لفظ اخابث کے سلسلے میں سیف کا یہی آخری جملہ قارئین کے لئے یہ شک و شبہ پیدا کرتا ہے کہ یہ بات حموی کی ذاتی تحقیقات کا نتیجہ ہے کہ وہ تاکید کرتا ہے کہ یہ گزر گاہ ابھی بھی گزر گاہ اخابث کے نام سے مشہور ہے اور خود حموی نے اس جگہ کا نزدیک سے مشاہدہ بھی کیا ہوگا جب کہ ہم نے ملاحظہ کیا کہ یہ جملہ من و عن سیف کا نقل قول ہے ، نہ کہ حموی کی تحقیقات کا نتیجہ ! ۔
پھر بھی حموی سیف کی باتوں کے پیش نظر اس پر اعتماد کرکے لفظ اعلاب کے بارے میں لکھتا ہے :
علاب خاندان عک و عدنان کی سر زمین کو کہا جاتا ہے جو مکہ اور سمندر کے ساحل کے درمیان واقع ہے ، اس کا نام ردہ کے واقعات میں بیان ہو چکا ہے ۔
اس کے علاوہ لفظ خامر کے بارے میں سیف کی باتوں سے استفادہ کرکے لکھتا ہے :
خامر حجاز میں عک کی سر زمینوں میں ایک پہاڑ ہے جس کی توصیف میں طاہر بن ابی ہالہ نے یہ اشعار کہے ہیں :
ہم نے ان کو کوہ خامر کی چوٹی اور سرخ زمینوں میں کھودی گئی کھاڑیوں کے درمیان موت کے گھاٹ اتار دیا ۔
عبد المومن نے بھی حموی کے مطالب کے پیش نظر سیف کے انہی خیالی مقامات کو اپنی کتاب مراصد الاطلاع میں حموی سے نقل کرکے ان کی وضاحت کی ہے ۔
ابن اثیر ، ابن کثیر اور ابن خلدون نے بھی طاہر ابو ہالہ کی روایت کو طبری سے نقل کرکے اپنی کتابوں میں درج کیا ہے ۔
علامہ مرحوم سید عبد الحسین شرف الدین نے بھی ان کتابوں میں درج طاہر سے متعلق روایتوں پر اعتماد کرکے طاہر ابو ہالہ کو حضرت علی علیہ السلام کے شیعہ اور رسول خدا ۖ کے صحابی کے طور پر درج کیا ہے ۔
اس طرح سیف کے افسانوی طاہر ابو ہالہ کی روایت اسلامی مآخذ اور منابع کے متون میں درج ہوئی ہے ، ہم طاہر سے متعلق روایتوں کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں ۔
١۔ ابو ہالہ اور حضرت خدیجہ کے لئے طاہر نامی ایک بیٹے کے وجود کا مسئلہ ،سیف کے اس
دعوے کے بے بنیاد ہونے کے سلسلے میں ہم نے اسی طاہر کے دوسرے دو بھائی حارث
اور زبیر کی نفی میں ثابت کر دیا ہے اور کہا ہے کہ جب ام المومنین حضرت خدیجہ نے
پیغمبراکرم ۖ کے گھر میں قدم رکھا تو اس وقت ان کے ہمراہ ابو ہالہ سے ہند کے علاوہ
کوئی اور بیٹا نہیںتھا۔
٢۔ دوسرا موضوع رسول خد ا ۖ کی حیات کے آخری دنوں میں طاہر کا چند اصحاب کے ہمراہ
آنحضرت ۖ کے کارندے کے طور پر مامور ہونا ہے ہم نے اس سلسلے میں تحقیق کرنے
کے لئے سیف کے علاوہ دوسرے مآخذ و منابع کی طرف رجوع کیا اور اس نتیجہ پر پہنچے کہ
ابن ہشام و طبری نے ابن اسحاق کی روایت سے رسول خدا ۖکے ١٠ ھکے کارندوں
کی تعداد اور ان کے نام حسب ذیل ذکر کئے ہیں ۔
پیغمبر خدا ۖ نے ١٠ ھ میں اسلام کے قلمرو میں مندرجہ ذیل گورنر وں اور کارندوں کو مامور فرمایا ہے :
مہا جر بن ابی امید کو صنعاء کی ماموریت دی جو کہ اسود عنسی کے دعوائے نبوت اور بغاوت کے وقت بھی ماموریت انجام دے رہا تھا ۔
زیاد بن لبید کو حضر موت کے لئے مامور فرمایا اور حکم دیا کہ اس علاقے کے صدقات کو بھی
جمع کرے ۔
عدی بن حاتم کو قبائل طے اور بنی اسد کے لئے کارندہ اور صدقات جمع کرنے کی
ماموریت دے دی ۔
مالک نویرہ کو بنی حنظلہ کے صدقات جمع کرنے کی ذمہ داری سونپی بن سعد کے صدقات جمع کرنے کی ذمہ داری اسی خاندان کے دوافراد ، زبرقان بدر اور قیس بن عاصم کے ذمہ کی اور ان میں سے ہر ایک کو اس علاقے کے ایک حصہ کی ذمہ داری سونپی ۔
اعلا ء حضرمی کو بحرین کے صدقات جمع کرنے کی ذمہ داری سونپی اور علی ابن ابی طالب کو نجران کے صدقات اور وہاں کے عیسائیوں سے جزیہ وصول کرنے کی مسئولیت بخشی ۔ (الف)
جب ١٠ ھ میں ذیقعدہ کا مہینہ آیا تو رسول خدا ۖ حج کا فریضہ انجام دینے کے لئے مکہ کی طرف عازم ہوئے اور حکم فرمایا کہ دوسرے لوگ بھی اس سفر میں آپ کی ہمراہی کریں ۔
اس کے بعد طبری اور ابن ہشام نے راوی سے نقل کرکے حضرت علی علیہ السلام کی نجران سے واپسی ، مکہ میں رسول خدا ۖ سے ملحق ہو کر آنحضرت ۖ کے ساتھ فریضہ حج انجام دینے کے بارے میں ذکر کیا ہے ۔ اس کے بعد رسول اللہ کے مدینہ لوٹنے اور ماہ صفر میں آپ ۖ کی رحلت کے واقعات کو ترتیب سے ذکر کیا ہے ۔

مختصر تحقیق اور موازنہ
سیف نے اپنی روایت میں پیغمبراکرم ۖ کے سولہ کارندوں اور گماشتوں کا نام لیا ہے جب کہ ابن اسحاق کی روایت میںان افراد کا کوئی سراغ نہیں ملتا ۔ اسی طرح پیغمبر خدا ۖکے چند حقیقی کارندوں کے نام جو ابن اسحاق کے ہاں پائے جاتے ہیں سیف کی روایت میں دکھائی نہیں دیتے ۔
سیف نے اپنے خیالی طاہر کے لئے سر زمین مکہ اور یمن کے ایک وسیع علاقے کو اس کی مامور یت کے حد و د کے طو ر پر معین کیا ہے جو تاریخی حقائق کے ساتھ کسی صو ر ت میں مطابقت
نہیں رکھتا ۔
سیف نے طاہر کی داستان عک او ر اشعریوں کے سلسلے میں جو روایت نقل کی ہے وہ مکمل طور پر افسانہ اور جھوٹ ہے اور اس کی روایت میں جنگ کی کمانڈ ، میدان کا رزار ، دلاوریوں کے اشعار ،خط و کتابت خون ریز جنگ ، بے رحمانہ قتل عام اور اخابث ، اعلاب و خامر کی نام گزاری کا ذکر کیا
..............
الف )۔رسول خدا ۖ نے امیر المومنین حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کو خمس جمع کرنے کے لئے یمن بھیجا ۔ اس سلسلے میں ہماری تحقیق کا نتیجہ ہماری کتاب '' مرا ة العقول '' کے مقدمہ (صفحہ ٨١ ) میں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے ۔
گیا ہے جب کہ تاریخ کے قابل اعتبار و اہم منابع و مصادر میں ان کا کہیں نام و نشان نہیں ملتا جس کے ذریعہ ہم اس کا مقابلہ و موازنہ کر سکیں ۔ کیوں کہ یہ داستان دوسری صدی ہجری کے افسانہ نگار سیف بن عمر تمیمی کے سر اسر جھوٹ ، بہتان اور توہمات کے علاوہ کچھ نہیں ہے !

داستان کے مآخذ کی پڑتال
ہم نے سیف کی پانچ روایتوں میں طاہرا بو ہالہ کی داستان کو پایا ۔ ان میں سے چار روایتوں کو طبری نے اپنی کتاب میں درج کیا ہے اور اس کے بعد دیگر تاریخ نویسوں نے طاہر کی داستان کو طبری سے نقل کرکے اپنی کتابوں میں ثبت کیا ہے ۔
طاہر کے بارے میں سیف کی پانچویں روایت بھی کتاب استیعاب میں درج ہوئی ہے ۔ بعض علماء نے اس روایت کو اس سے نقل کرکے اپنی کتابوں میں درج کیا ہے ۔
ان روایتوں کے مآخذ حسب ذیل ہیں :
١۔ سیف نے اپنی دو روایتوں کے مآخذ یوں بیان کئے ہیں سہل بن یوسف نے اپنے باپ سے یہ دونوں راوی سیف کے تخیل کی مخلوق ہیں اور حقیقت میں ان کا کوئی وجود نہیں ہے ۔ ایک اور روایت میں سہل نے قاسم سے روایت کی ہے ۔ جن کے بارے میں ہم نے پہلے ہی بتایا ہے کہ علم رجال کی کتابوں میں ان کا کوئی سراغ نہیں ملتا اس لئے کہ ان کابھی حقیقت میں کوئی وجود نہیں ہے ۔
٢۔ دو روایتوں مین عبید بن صخر بن لوذان کو راوی کے طور پر ذکر کیا گیا ہے۔ ہم عبید کے حالات کے بارے میں اس کتاب کی اگلی جلدوں میں سیف کے افسانوی تخلیقات کے ضمن میں بحث و تحقیق کریں گے ۔
٣۔ ایک روایت میں جریر بن یزید جعفی کوبھی راوی کے طورپہچنوایا گیا ہے ، ہم نے اس نام کو رجال اور راویوں کی کتابوں میںسے کسی ایک میں بھی نہیں پایا ۔ اس لئے ہم اسے بھی سیف کے تخیل کی مخلوق جانتے ہیں ۔
٤۔ اس کے علاوہ ان روایتوں کے راویوں کے طور پر دو مجہول الہویہ افراد ابو عمر اور مولی ابراہیم بن طلحہ کا نام بھی لیا گیا ہے اور اس قسم کے مجہول الہویہ افراد کی پہچان کرنا نا ممکن ہے ۔
٥۔ اسی طرح سیف محققین اور علماء کو حیرت و پریشانی میں ڈالنے کے لئے ایسے راویوں کے ضمن میں کہ جنھیں خدا نے ابھی خلق ہی نہیں کیا ہے چہ جائے کہ پہچانا جائے ، بعض حقیقی اور مشہور راویوں کا بھی نام لے کر اپنی روایت کے مآخذ کے طور پر پیش کرتا ہے ۔ لیکن سیف کے بارے میں گزشتہ تجربہ کے پیش نظر ہم سیف کے جھوٹ کے گناہوں کو ان راویوں کی گردن پر ڈالنا نہیں چاہتے

گزشتہ بحث کا ایک خلاصہ
ہم نے طاہر ابو ہالہ کی داستان کو سیف کی پانچ روایتوں میں پایا جو ایک دوسرے کی مکمل اور ناظر ہیں ۔
ابن عبد البر نے اپنی کتاب استیعاب میں مذکورہ پانچ روایتوں میں سے ایک کو نقل کیا ہے اور ذہبی نے اسے سیر اعلام النبلاء میں اور ابن اثیر نے اسی روایت کو استیعاب سے نقل کرکے اسد الغابہ میں درج کیا ہے ۔
اس کے علاوہ ابن اثیر نے اپنی بات کی ابتدا میںطاہر سے روایت کرکے ابو ہالہ کا شجرہ نسب اس طرح بیان کیا ہے کہ انسان خیال کرتا ہے کہ حقیقت میںکوئی طاہر تھا جس کا نسب اسد بن عمرو تمیمی تک پہنچتا ہے ۔
طبری نے بھی طاہر کے بارے میں سیف کی روایتوں میں چار روایتوں کو اپنی تاریخ کی کتاب میں درج کیا ہے اور بغوی نے ان چار روایتوں میں سے ایک کو عبید بن صخر کی تشریح میں نقل کیا ہے ۔
مر زبانی نے بھی اپنی کتاب معجم الشعراء میں سیف بن عمر کی باتوں سے استفادہ کرکے اخابث کی داستان اور طاہر کے رزمینہ اشعار کو درج کیا ہے ۔
ابن حجر نے طاہر کی داستان کو ابن عبد البر کی استیعاب اور مرز بانی کی معجم الشعراء اور تاریخ بغوی سے نقل کرکے اپنی کتاب الاصابہ میں درج کیا ہے ۔
جغرافیہ شناس دانشور حموی اعلاب ، خامر او ر اخابث جیسے الفاظ کی تشریح میں اپنی کتاب معجم البلدان میں سیف کی احادیث کے مطابق طاہر کا نام اور اس کے اشعار اپنے دعوے کے شاہد کے طور پر لائے ہیں ۔ عبد المؤمن صاحب کتاب مراصد الاطلاع نے مذکورہ مقامات کی تشریح کو حموی سے لیا ہے ۔
لیکن مندرجہ ذیل حقائق کے پیش نظر یہ تمام احادیث و اخبار ، متن ، مآخذ اور اس کا رول ادا کرنے والے سب کے سب جعلی او ر بالکل جھوٹ پر مبنی ہیں ۔

سیف کی روایتوں کے مطالب
طاہر کے بارے میں سیف کی روایتیں درج ذیل تین مطالب پر مشتمل ہیں:
١۔ طاہر ، خدیجہ کا بیٹا:۔ سیف نے رسول خدا ۖ کی زوجہ حضرت خدیجہ کے لئے اس کے پہلے شوہر ابو ہالہ سے طاہر نام کا ایک بیٹا خلق کرتا ہے ۔ ہم نے اس کے دوسرے دو بھائیوں '' حارث '' و '' زبیر '' کے بارے میں جو تحقیق کی اس سے ثابت ہوتا ہے کہ خدیجہ کا اس کے پہلے شوہر ابو ہالہ سے ہند کے علاوہ کوئی دوسرا بیٹا ہی نہیں تھا !
٢۔ طاہر ، رسول خدا ۖ کا گماشتہ:۔ تمام تاریخ نویسوں نے پیغمبر اکرم ۖ کی حیات کے آخری دنوں میں اسلام کے قلمرو میںمختلف مناطق میں آنحضرت ۖ کے منصوب کئے گئے گماشتوں اور کارندوں کا نام لیا ہے ، لیکن ان میں نہ طاہر ابو ہالہ کا کہیں نام ہے اور نہ ہی رسول خدا ۖکے لئے جعل کئے گئے سیف کے کارندوں کا کہیں ذکر ہے ۔ انشاء اللہ ہم اس سلسلے میں مناسب موقع پر مزید تشریح کریں گے ۔
اس کے علاوہ ہم نے پہلے کہا ہے کہ معتبر تاریخ نویسوں نے لکھاہے کہ مہاجرا میہ رسول خدا ۖکی طرف سے صنعا ء میں مامور تھایہاں تک کہ پیغمبری کا مدعی ''اسود عنسی ''نے اس پر حملہ کرکے اسے اقتدار سے ہٹادیا ۔لیکن سیف کہتا ہے ،''مہاجر ''بیمار ہوا اور ماموریت کی جگہ پر نہ جاسکا بلکہ کسی دوسرے شخص نے اس کی ذمہ داری انجام دی اور رسول خدا ۖ کی وفات اور مہاجر کی صحت یابی کے بعد خلیفہ ابو بکر نے اسے ماموریت کی جگہ پر روانہ کیا ۔
ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ سیف اپنے قبیلہ تمیم اور مضر کے لئے فخر و مباہات کسب کرنے کی فکر میں ہے ۔یہی جذبہ اسے مجبور کرتا ہے کہ ابوسفیان اور اس کے ہم فکروں کے لئے عہدے اور مقام خلق کرے اور رسول خدا ۖ کے ہاں ان کو کارندے کی حیثیت تفویض کرکے خاندان بنی عمر و کو عزت و افتخار بخشے ۔
لیکن ہمیں یہ معلوم نہ ہوسکا کہ کونسے عوامل سیف کے لئے اس امر کے محرک بن گئے کہ وہ مہاجر ابی امیہ اور پیغمبر ۖ کے دیگر گماشتوں کی روایت میں تحریف کرے ؟! کیونکہ یہ روایت ظاہرا ًسیف کے لئے کسی قسم کا افتخار ثابت نہیں کرتی ،مگر یہ کہ ہم ،اس کا زندیقی اور دشمن اسلام ہونا اس امر کا سبب مان لیں ! اور اس طرح وہ محققین اور تاریخ نویسوں کے لئے پیغمبر خدا ۖ کے گماشتوں اور کارندوں سے متعلق روایتوں کو مشکوک اور ناقابل اعتبار بنا کر ان کی قدر و منزلت کو گھٹادے ۔
٣۔ اخابث کا علاقہ :۔ سیف کے کہنے کے مطابق قبائل ''عک ''اور ''اشعری ''مرتد ہوکر بغاوت کرتے ہیں۔ ''طاہر ''،مقام خلافت کے کسی حکم اور مرکز خلافت سے فوجی مدد کا انتظا ر کئے بغیر مذکورہ قبائل پر حملہ کرتا ہے ،ان کے کشتوں کے پشتے لگاتا ہے ،اور علاقہ کو ''اخابث ''یعنی ناپاکوں کے وجود سے پاک و صاف کرتا ہے ۔یہی امر سبب بن جاتا ہے کہ ڈر کے مارے فرار کرنے والے پیغمبر خدا ۖ کے دوسرے گماشتے اور کارندے اس تمیمی پہلوان کے ہا ں پناہ لے کر اطمینان کا سانس لیں ،جب کہ ان مطالب میں سے کچھ بھی صحیح نہیں ہے اور سب کے سب جھوٹ اور افسانہ ہے۔ قابل اعتبار اسلامی مصادر میں یہ مطالب کہیں درج نہیں ہوئے ہیں ۔بلکہ یہ سب دوسری صدی ہجری کے افسانہ گو سیف بن عمر تمیمی کے تخیل کے خلق کئے گئے افسانے ہیں تا کہ اس طرح وہ اپنے خاندان تمیم کے لئے ہر ممکن طور پر فخرو مباہات کسب کرسکے ۔

طاہر کی داستان کے نتائج
١۔خاندان بنی عمرو اور پیغمبر خدا ۖ کی پہلی زوجہ حضرت خدیجہ سے رسول خدا ۖ کے تیسرے پروردہ ''طاہر ابو ہالہ ''کی تخلیق ۔
٢۔ پیغمبر خدا ۖ کے لئے ایک گماشتہ تخلیق کرنا تا کہ آنحضرت ۖ کے دیگر گماشتوں کے ضمن میں اس کا نام لیا جا ئے ۔
٣۔ پیغمبر اسلام ۖ کے لئے خاندان تمیم سے ایک فرماں بردار صحابی خلق کرنا تا کہ آنحضرت ۖ کے دوسرے اصحاب کی فہرست میں اس کا نام درج کیا جائے ۔
٤۔ خاندان تمیم میں سے ایک شاعر خلق کرنا تا کہ اس کا نام دوسر ے شعراء اور دلاوریاں بیان کرنے والوں میں شامل ہوجائے ۔
٥۔ خیالی میدان کارزار اور ''ردہ ''کی جنگوں کے نام سے فرضی جنگوں کے نقشے کھینچنا ،تا کہ ایک طرف سے عربوں کے دلوں میں اسلام کی نسبت ضعف و ناتوانی ایجاد کرے اور دوسری جانب سے ان کی بے رحمی اور سنگدلی دکھائے جیسا کہ اپنے دشمنوں کے کشتوں کے پشتے لگا کر میدان کارزار کو لاشوں کی بدبو سے ناقابل تنفس بنانا، تا کہ اس طرح اسلام کے دشمنوں کے لئے ایک دلیل بن جائے کہ اسلام تلوار سے پھیلا ہے ۔
٦۔ سیف کے خلق کئے گئے دلاوری کے اشعار اور سیاسی و سرکاری خط وکتابت کو ادب اور اسلامی سیاست کی کتابوں میں درج کرانا ۔
٧۔ کچھ جگہیں جیسے ،''اعلاب ''،''اخابث ''،اور ''خامر ''و غیرہ خلق کی ہیں تا کہ جغرافیہ کی کتابوں میں انھیں جگہ ملے ۔سر انجام ان سب چیزوں کو سیف نے اپنے خاندان تمیم ،خاص کر قبیلہ اسید کے لئے فخرو مباہات کے طور پر ایجاد کیا ہے تا کہ قبائل قحطانی اور یمانیوں کو نیچا دکھا سکے ۔

افسانہ ٔطاہر کی اشاعت کا سرچشمہ
الف) ۔ سیف کے افسانوں کے راوی :
سیف نے ،''طاہر ''کو پانچ روایتوں کے ذریعہ جعل کیا ہے اور ان روایتوں کو حسب ذیل راویوں سے نقل کیا ہے :
١۔ سہل بن یوسف ،اپنے باپ سے دو روایتوں میں ۔
٢۔ سہل بن یوسف ،قاسم سے ایک روایت میں ۔
٣۔ عبید بن صخر بن لوذان ، دو روایتوں میں ۔
٤۔ جریر بن یزید جعفی ، ایک روایت میں ۔
یہ سب راوی سیف کے تخیل کی مخلوق ہیں اور حقیقت میں وجود نہیں رکھتے ۔ اسی طرح روایت کے مآخذ کے طور پر ایسے نامعلوم افراد ،راوی کے عنوان سے ذکر کیا ہے جن کو پہچاننا ممکن نہیں ہے ۔ اس کے علاوہ بعض معروف اور مشہور راوی کا نام بھی لیتا ہے مگر ہم ہر گز سیف کے گناہوں کو ان کی گر د ن پر ڈ ا لنا نہیں چاہتے ۔ جب کہ ہمیں معلوم ہے کہ یہ افسانہ صرف اور صرف سیف کا خلق کیا ہو ا ہے ۔

ب)۔ طاہر ابو ہالہ کے افسانہ کو سیف سے نقل کرنے والے علما:
مندرجہ ذیل علماء نے طاہر ابوہالہ کی روایت کو بلا واسطہ سیف سے نقل کرکے اپنی کتابوں میں درج کیا ہے :
١۔ طبری نے اپنی تاریخ میں سند کے ساتھ سیف بن عمر سے ۔
٢۔ ابن عبدا لبر نے استیعاب میں سند کے ساتھ سیف سے ۔
٣۔ بغوی نے معجم الصحابہ میں سند کے ساتھ سیف سے۔
٤۔ حموی نے معجم البلدان میں سندذکر کئے بغیر ۔
٥۔ مرزبانی نے معجم الشعراء میں ۔
٦۔ ابن اثیر نے اسد الغابہ میں استیعاب سے سیف بن عمر کے نام کی صراحت کے ساتھ ۔
٧۔ عبد المومن نے مراصد الاطلاع میں حموی کی کتاب معجم البلدان سے ۔
٨۔ ذہبی نے سیر النبلاء میں براہ راست سیف بن عمرسے ۔
٩۔ پھر ذہبی نے کتاب التجرید میں کتاب اسد الغابہ سے ۔
١٠۔ ابن حجر نے '' الاصابہ '' میں مرزبانی کی کتاب '' معجم الشعراء ''سے اور براہ راست سیف بن عمرسے بھی۔
١١،١٢،١٣،١٤۔ ابن اثیر ، ابن کثیر ، ابن خلدون ، اور میر خواند ، ہر ایک نے الگ الگ افسانۂ طاہر کو طبری سے نقل کرکے اپنی تاریخ کی کتابوں میں درج کیا ہے ۔
یہاں تک سیف بن عمر کے قبائل تمیم سے جعل کئے گئے ٢٣ ،اصحاب کے سلسلے میں بحث و تحقیق مکمل ہوئی ۔
بارگاہ الٰہی سے دعا ہے کہ ہمیں توفیق عنایت فرمائے کہ ہم دوسرے جعلی اصحاب اور سیف کے افسانوں کے بارے میں بحث و تحقیق کا نتیجہ علماء اور محققین کی خدمت میں پیش کریں ۔ مزید تمنا ہے کہ خدائے تعالیٰ مومنین کو بھی اس سے پورا پورا فائدہ اٹھا نے کی توفیق عطا کرے خدائے تعالیٰ ہماری اس ادنیٰ کوشش کو قبول فرمائے ۔
و آخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین
مرتضیٰ العسکری
بغداد ٢٥ربیع الثانی ١٣٨٩ھ