ایک سو پچاس جعلی اصحاب(دوسری جلد)
 

چھٹا حصہ
خاندان تمیم سے رسول خد اۖ کے منہ بولے بیٹے
l ٢١ ۔حارث بن ابی ہالہ تمیمی
l ٢٢۔زبیر بن ابی ہالہ تمیمی
l ٢٣۔طاہر بن ابی ہالہ تمیمی

اکیسواں جعلی صحابی حارث بن ابی ہالہ تمیمی
حارث خدیجہ کا بیٹا
سیف کے سخت ، پیچیدہ اور دشوار کاموں میں سے ایک یہ ہے کہ وہ قارئین کو گمراہ کرنے کے لئے اپنی خیالی شخصیتوں کو تاریخ کی حقیقی شخصیتوں کے طور پر ایسے پیش کرتا ہے کہ ایک محقق کے لئے ، وہ بھی صدیاں گزر نے کے بعد حق کو باطل سے جدا کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ بعض اوقات ناممکن
بن جاتا ہے ۔
شائد حارث ، زبیر اور طاہر جیسے سیف کے مہم جو جعلی اصحاب ، جنھیں اس نے ام المومنین حضرت خدیجہ کے پہلے شوہر ابو ہالہ تمیمی کی اولاد کے طور پر پیش کیا ہے ، اس کے اس قسم کی مخلوق ہیں ۔
حضرت خدیجہ پیغمبر خدا ۖ سے ازدواج کرنے سے پہلے ابوہالہ تمیمی کے عقد میں تھیں۔ ابو ہالہ کون تھا ؟ یہ ایک اختلافی مسئلہ ہے ۔ بعضوں نے اسے ہند کچھ لوگوں نے زرارہ اور ایک گروہ نے اسے نباش نام دیا ہے ۔ بہر حال جو چیز واضح ہے ، وہ یہ ہے کہ اس کی کنیت اس کے نام کی نسبت معروف تر ہے اس لئے وہ اسی کنیت سے مشہور ہے ۔
حضرت خدیجہ سے ابو ہالہ کی اولاد کی تعداد کے بارے میں طبری نے لکھا ہے :
ابو ہالہ نے خویلد کی بیٹی سے ازدواج کیا ۔ خدیجہ نے پہلے ہند کو جنم دیا پھر ہالہ کو۔ البتہ ہالہ کا بچپن میں ہیانتقال ہو گیا...(یہاں تک کہ لکھتاہے )
خدیجہ ابو ہالہ کے بعد رسول خدا ۖ کے عقد میں آگئیں ، اس وقت ہند نامی ابوہالہ کا بیٹا ان کے ہمراہ تھا ۔
ہند نے اسلام کا زمانہ درک کیا ہے اور اسلام لایا ہے ، امام حسن ابن علی علیہ السلام نے اس سے روایت نقل کی ہے ۔ ١
ہیثمی نے بھی اپنی کتاب مجمع الزوائد ٥١٠ میں اسی سلسلے میں طبرانی سے نقل کرکے لکھا ہے :
ام المومنین خدیجہ رسول خد ا ۖ سے پہلے ابو ہالہ کی بیوی تھیں ۔ انھوں نے پہلے ہند کو اور پھر ہالہ کو جنم دیا ہے ۔ ابو ہالہ کی وفات کے بعد رسول خدا ۖ نے ان سے ازدواج کیا ۔
ابن ماکولا نے زبیر بن بکار سے نقل کرکے لکھا ہے :
خدیجہ نے پہلے ہند اس کے بعد ہالہ کو جنم دیا ہے ۔
ابو ہالہ کے نواسہ ، یعنی ہند بن ہند نے جنگ جمل میں حضرت علی علیہ السلام کی نصرت کرتے ہوئے شرکت کی اور شہید ہوا ہے ۔

سیف کی نظر میں اسلام کا پہلا شہید
ابن کلبی سے روایت ہوئی ہے کہ ابو ہالہ کا نواسہ ہند بن ہند عبد اللہ بن زبیر کی معیت میں قتل ہوا اور اس کی کوئی اولاد باقی نہیں بچی ہے ۔ ٢
تمام مؤرخین ،جیسے ابن ہشام ، ابن درید ،ابن حبیب ،طبری ،بلاذری ابن سعد ،ابن ماکولا وغیرہ نے نقل کیا ہے کہ جس وقت حضرت خدیجہ نے رسول خدا ۖ سے ازدواج کیا تو ،اپنے پہلے شوہر ابو ہالہ سے صرف ایک بیٹا ہند کو ہمراہ لے کر رسول خدا ۖکے گھر ہیں داخل ہوئیں ۔ حقیقت میں ہند کے علاوہ ابو ہالہ سے اس کی کوئی اور اولاد نہیں تھی ۔ ٣
ان حالات کے پیش نظر انتہائی حیرت اور تعجب کا مقام ہے کہ ابن حزم نے اپنی کتاب ''جمہرہ نساب عرب '' میں لکھا ہے :
خدیجہ نے اپنے پہلے شوہر ابو ہالہ سے ہند نامی ایک بیٹا کو جنم دیا ..... اور اس کے بعد حارث نام کے ایک اور بیٹے کو جنم دیا ۔ کہا گیا ہے کہ وہ اسلام کا پہلا شہید تھا جو خانہ خدا میں رکن یمانی کے پاس شہید کیا گیا ہے۔
حیرت کی بات ہے ! یہ کیسے ممکن ہے ایک ایسا اہم حادثہ رونما ہو جائے یعنی رسول خدا ۖ کا پرورش یافتہ شخص اس عظمت و شان کے ساتھ خدا کے گھر میں رکن یمانی کے پاس قتل ہو کر اسلام کے پہلے شہید کا درجہ حاصل کرے اور تاریخ اس کے ساتھ اتنی بے انصافی اور ظلم کرے کہ وہ فراموشی اور بے اعتنائی کا شکار ہو جائے ؟!!
ہم نے اس سلسلے میں انتہائی تلاش و جستجو کی تاکہ یہ دیکھیں کہ انساب عرب کو پہچاننے والے اس ماہر شخص ابن حزم نے اس روایت کو کہاں سے نقل کیا ہے !!
اس حقیقت و تلاش کے دوران ہم نے اس مسئلہ کے جواب کو ابن حجر کے ہاں پا یا وہ اپنی کتاب '' الاصابہ '' میں حارث بن ابی ہالہ کی تشریح میں لکھتا ہے :
حارث بن ابی ہالہ رسول خدا ۖ کا پرورش یافتہ اور ہند کا بھائی ہے ابن کلبی اور ابن حزم نے اس کے بارے میںلکھا ہے کہ وہ اسلام کا پہلا شہید ہے جو رکن یمانی کے پاس قتل ہوا ہے ۔
عسکری بھی کتاب '' اوائل '' میں لکھتا ہے :
جب خدا ئے تعالیٰ نے اپنے پیغمبر ۖ کو حکم دیا کہ جو کچھ انھیں امر ہوا ہے اسے اعلان فرمائیں تو پیغمبر اسلام ۖ مسجد الحرام میں کھڑے ہو گئے اور اپنی رسالت کا فریضہ انجام دیتے ہوئے بلند آواز میں لولے '' قولو ا لاالہ الا اللّٰہ تفلحوا'' '' یعنی خدا کی وحدانیت کی گواہی دو تاکہ کامیاب ہو جائو ! '' قریش کے کفار نے آپ ۖ پر حملہ کیا ۔ شور و غل کی آواز آپ ۖ کے گھر تک پہنچی ْ حارث بن ابی ہالہ آپ کی مدد کے لئے دوڑکر آیا اور اس نے کفار پر حملہ کیا ۔ قریش نے پیغمبر اسلام ۖ کوچھوڑ کر حارث پر حملہ کیا اور اسے رکن یمانی کے پاس موت کے گھاٹ اتار دیا ۔حارث اسلام کا پہلا شہید ہے ۔ اس کے علاوہ سیف کی کتاب '' فتوح '' میں سہل بن یوسف نے اپنے باپ سے اس نے عثمان بن مظعون سے روایت کی ہے : سب سے پہلا حکم جو رسول خدا ۖ نے ہمیں دیا ، اس وقت تھا جب ہماری تعداد چالیس افراد پر مشتمل تھی ۔ ہم سب رسول خدا ۖ کے دین پر تھے ۔ مکہ میں ہمارے علاوہ کوئی ایسا نہیں تھا جو اس دین کا پابند ہو ۔ یہ وہ وقت تھا ،جب حارث بن ابی ہالہ شہید ہوا ۔ خدائے تعالیٰ نے اپنے پیغمبر ۖ کو حکم دیا کہ جو کچھ انھیں فرمان ہوا ہے .... (آخر تک ) ابن حجر کی بات کا خاتمہ ۔
لہٰذا معلوم ہو ا کہ حارث بن ابی ہالہ کی داستان کا سر چشمہ سیف بن عمر تمیمی ہے ۔ ابن کلبی ، عسکری ،ابن حزم اور ابن حجر سبوں نے اس روایت کو اس سے نقل کیا ہے ۔ ان کے مقابلے میں '' استیعاب '' ، '' اسد الغابہ '' اور '' طبقات '' جیسی کتابوں کے مؤلفوں نے سیف کی باتوں پر اعتماد نہ کرتے ہوئے اس کی جعلی داستان کو اپنی کتابوں میں نقل نہیں کیا ہے۔
دوسرا قابل غور نکتہ یہ ہے کہ ابن حزم حارث کی شہادت کی داستان کو '' کہا گیا ہے '' کے جملہ سے آغاز کرتا ہے تاکہ اس روایت کے ضعیف ہونے کے بارے میں اشارہ کرے ۔ صاف ظاہر ہے کہ وہ خود حارث کی داستان کے صحیح ہونے کے سلسلے میں شک و شبہ میں تھا ۔
اس لحاظ سے ''حارث ابو ہالہ ''سیف اور ان لوگوں کے لئے اسلام کا پہلا شہید ہے جنھوں نے سیف کی بات پر اعتماد کرکے اس داستان کی اشاعت کی کوشش کی ہے ۔جب کہ عام تاریخ نویس اس بات پر متفق ہیں کہ اسلام کی پہلی شہید ''سمیہ ''عمار یاسر کی والدہ تھیں ۔
انھوں نے لکھا ہے کہ ''یاسر ''ان کا بیٹا ''عمار ''اور یاسر کی بیوی ''سمیہ ''وہ افراد تھے جنھیں راہ اسلام میں مختلف قسم کی جسمانی اذیتو ں کا سامنا کرنا پڑا ۔یہ ان پہلے سات افراد میں سے ہیں جنھوں نے مکہ میں اپنے دین کا کھل کر اظہار کیا ۔اور کفار قریش نے اس جرم میں ان کو لوہے کی زرہ پہنا کر تپتی دھوپ میں رکھا اور انھیں شدید جسمانی اذیتیں پہنچائیں ۔
ایسی ہی وحشتناک اذیت گاہوں میں سے ایک میں ''ابو جہل ''آگ بگولا حالت میںسمیہ کو برا بھلا کہتے ہوئے داخل ہوا اور آگے بڑھتے ہوئے اس نے نیزہ سمیہ کے قلب پر مار کر انھیں شہید کیا۔ اس لحاظ سے سمیہ راہ اسلام کی پہلی شہید ہیں نہ اور کوئی ۔
اس کے علاوہ لکھا ہے کہ اسی حالت میں رسول خدا ۖ وہا ں تشریف لائے اور فرمایا : اے خا ندان یا سر !صبر کرو ،بہشت تمھارے انتظارمیں ہے ۔
ایک دوسری حدیث میں آیا ہے کہ عمار یاسر نے ان تمام درد و الم اور اذیتوں کی شکایت رسول خدا ۖ کی خدمت میں بیان کرتے ہوئے عرض کی :
ہم پر کفار کی اذیت و آزار حد سے گزر گئی !
آنحضرت ۖ نے فرمایا :
صبر و شکیبایی سے کام لو !اس کے بعد ان کے حق میں دعا کرتے ہوئے فرمایا :
خداوندا !یاسر کے اہل خانہ میں سے کسی ایک کو عذاب نہ کرنا !

حدیث کا موازنہ اور قدر و قیمت
سیف نے لکھا ہے کہ راہ اسلام کے پہلے شہید ''حارث بن ابی ہالہ ''اور ''خدیجہ ۖ قرشی مضری ''تھے ۔ ابن کلبی اور ابن حزم نے بھی اس روایت کو سیف سے نقل کرکے اپنی کتاب''جمہرہ '' میں درج کیا ہے ۔
ابن حجر نے بھی انہی مطالب کو رسول خدا ۖ کے حالات کی تشریح کے ضمن میں اپنی کتاب ''الاصابہ''میں درج کیا ہے ۔عسکری نے بھی اپنی کتا ب''اوائل ''میں حارث کو اسلام کے پہلے شہید کے طور پر پیش کیا ہے ۔جب کہ حقیقت میں اسلام کی پہلی شہید سمیہ تھیں اور ان کے بعد ان کے شوہر یاسر تھے ،اور اس مطلب کو ان دو شخصیتوں کی سوانح لکھنے والے سبھی علماء ،و محققین نے بیان کیا ہے ۔
سیف شدید طور پر خاندانی تعصب کا شکار تھا ،خاص کر قحطانیوں اور یمانیوں کے بارے میں اس کے اس تعصب کے آثار کا ہم نے مختلف مواقع پر مشاہدہ کیا ۔وہ اس تعصب کے پیش نظر ایک یمانی قحطانی شخص کو راہ اسلام میں پہلے شہید کا فخر حاصل کرنے کی حقیقت کو دیکھ کر آرام سے نہیں بیٹھ سکتا تھا !کیونکہ وہ تمام امور میں پہلا مقام حاصل کرنے کے فخر کا مستحق صرف اپنے قبیلہ تمیم ،خاص کر خاندان بنی عمرو کو جانتا ہے ۔غور فرمائیں کہ وہ خاندان تمیم کے بنی عمرو میں پہلا مقام حاصل کرنے کے سلسلے میں کیسے تشریح کرتا ہے :
اس کا افسانوی سورما قعقاع پہلا شخص تھا جو دمشق کے قلعہ کی سر بفلک دیوار پر چڑھ کر قلعہ کے محافظوں کو اپنی تلوار سے موت کی گھاٹ اتار کر قلعہ کے د ر و ا ز و ں کو ا سلا می فو ج کے لئے کھول دیتا ہے !
کیا یہی اس کا افسانوی قعقاع کچھار کا پہلا شیر نہیں تھا جس نے یرموک کی جنگ میں سب سے پہلے جنگ کے شعلے بھڑکادئے ،قادسیہ کی جنگ میں لیلة الھریر کو وجود میں لایا ،پہلے پہلوان کی حیثیت سے دشمن کے جنگی ہاتھیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا ؟وہ پہلا پہلوان تھا جس نے جلولا کی جنگ میں سب سے پہلے دشمن کے مورچوں پر قدم رکھا ،پہلا دلیر اور پہلا سورما اور ...
سیف اپنے افسانوی عاصم کے ''اہوال ''نامی فوجی دستہ کو پہلا فوجی دستہ بتا تا ہے کہ جس نے سب سے پہلے شہر مدائن میں قدم رکھا ہے !
کیا اسی سیف نے ''زیاد بن حنظلہ تمیمی''کو پہلے شہسوار کے طور پر خلق نہیں کیا ہے جس نے سب سے پہلے سرزمین ''رہا''پر قدم رکھا ۔حرملہ اور سلمی اس کے پہلے پہلوان ہیں جنھوں نے سب سے پہلے سرزمین ایران پر قدم رکھے ؟!
جب ہم سیف کے جھوٹ اور افسانوں میں قبیلہ تمیم کے لئے بے شمار فضیلتیں اور پہلا مقام حاصل کرنے کے موارد کا مشاہدہ کرتے ہیں تو کیا وجہ ہے کہ اسلام کے سب سے پہلے شہید کا افتخار بھی اسی خاندان کو نصیب نہ ہو ؟اور ''سمیہ''نام کی ایک کنیز اور اس کا قحطانی شوہر ''یاسر ''اس افتخار کے مالک بن جائیں اور اسلام کے پہلے شہید کی حیثیت سے پہچانے جائیں ؟!
سیف ،قحطانیوں کی ایسی فضیلت کو دیکھ کر ہرگز بے خیال نہیں بیٹھ سکتا ،لہٰذا ایک افسانہ گڑھتا ہے حضرت خدیجہ ۖکے لئے ابو ہالہ سے ایک بیٹا خلق کرکے اسے اسلام کے پہلے شہید کا افتخار بخش کر رسول خدا ۖ کے گھر میں ذخیرہ کرتا ہے ۔
ہم راہ اسلام میں سیف کے اس پہلے شہید میں اس کے دوسرے افسانوی پہلوانوں کی شجاعتوں اور جاں نثار یوں کا واضح طور پر مشاہدہ کرتے ہیں ۔وہ کہتا ہے :
قریش نے پیغمبر خدا ۖ کو قتل کرنے کی غرض سے حملہ کیا ،شور وغل کی آواز پیغمبر ۖ کے اہل خانہ تک پہنچی (رسول خدا ۖ کے حامی اور حقیقی پشت و پناہ ابو طالب ،حمزہ ، جعفر اور بنی ہاشم کے دیگر سرداروں اور جوانوں کے بجائے )حارث تمیمی پہلا شخص تھا جو پیغمبر ۖ کی مدد کرنے کے لئے اٹھا اور دوڑتے ہوئے آپ ۖ کے پاس پہنچا اور آپ ۖ کی حفاظت اور دفاع میں آپ کے دشمنوں کے سامنے سینہ سپر ہوتے ہوئے کفار قریش پر حملہ کیا ،کفار نے پیغمبر خدا ۖ کو چھوڑ دیا اور حارث پر ٹوٹ پڑے اور سر انجام ....
اس طرح رسول خدا ۖ کے لئے اپنے خاندان تمیم سے یاور و مدد گار جعل کرکے اسلام کے پہلے شہید کو خاندان تمیم سے خلق کرتا ہے اور اسے پیغمبر خدا ۖ کے تربیت یافتہ کے طور پر پہچنواتا ہے تا کہ خاندان تمیم میں ہر ممکن حد تک افتخارات کا اضافہ کرسکے ۔

حارث کے افسانے کا نتیجہ
سیف نے پیغمبر خدا ۖ کے پالے ہوئے ایک صحابی کو خلق کیا ہے تا کہ مؤرخین پیغمبر خدا ۖ کے دوسرے حقیقی اصحاب کے ضمن میں اس کی زندگی کے حالات پر روشنی ڈالیں اور اس کے نام ونسب کو انساب کی کتابوں میں تفصیل سے لکھیں ۔
سیف نے اپنے تخیل کی مخلوق ،''حارث تمیمی''کو پیغمبر خدا ۖ کے چچا ،چچا زاد بھائی اور بنی ہاشم کی جوانوں کی موجودگی کے باوجود ،پیغمبر خدا ۖ کے پہلے جاں نثار کے طور پر پیش کرکے خاندان تمیم ،خاص کر قبیلہ اسید کے افتخارات میں ایک اور فخر کا اضا فہ کیا ہے ۔

حارث کے افسانہ کی تحقیق
سیف اسلام کے پہلے شہید کو خاندان تمیم سے خلق کرتا ہے تا کہ اسلام کی سب سے پہلی حقیقی شہید سمیہ قحطانی کی جگہ پر بٹھادے اور اس طرح اپنے خاندان تمیم کے افتخارات میں ایک اور افتخا ر کا اضافہ کرے۔
سیف نے حارث کی داستان کو سہل بن یوسف سلمی سے ،اس نے اپنے باپ سے نقل کیاہے ۔چونکہ ہم نے ان دو ر اویوں ۔ باپ بیٹے ۔ کانام سیف کے علاوہ کہیں اور نہیں پایا ،اس لئے ان کو سیف کے تخیل کی مخلوق سمجھتے ہیں ۔
حارث ابو ہالہ تمیمی کی داستان سیف سے نقل کرکے عسکری کی ''اوائل ''،ابن کلبی کی ''انساب ''،ابن حزم کی ''جمہرہ''اور ابن حجر کی کتا ب ''الاصا بہ ''میں درج کی گئی ہے اور ابن حجر نے اس داستان کو سیف سے نقل کرکے اس کی وضاحت کی ہے ۔
سیف کے جعلی صحابی حارث ابو ہالہ کا افسانہ اتنا ہی تھا جو ہم نے بیان کیا ۔لیکن سیف نے صرف اسی ایک افسانہ کو خلق کرنے پر اکتفا نہیں کی ہے بلکہ اسی ماں باپ سے رسول خدا ۖ کے ایک اور پالے ہوئے کی تخلیق کرکے اس کانام ''زبیر بن ابی ہالہ ''رکھا ہے کہ انشاء اللہ اس کی داستا ن پر بھی نظر ڈالیں گے ۔