انیسواں جعلی صحابی زر بن عبد اللہ الفقیمی
دو مہاجر صحابی
زر بن عبد اللہ الفقیمی کا کتاب '' اسد الغابہ'' میں اس طرح تعارفی کیا گیا ہے:
طبری نے لکھا ہے کہ''زر'' رسول خدا ۖرسول خدا ۖکا صحابی اور مہاجرین میں سے تھا۔زر خوزستان کی فتح میں مسلمان فوجیوں کے کمانڈروں میں سے ایک کمانڈر تھا ۔وہ اس لشکر کا کمانڈر تھا جس نے جندی شاپور کو اپنے محاصرہ میں قرار دیا اور سر انجام جندی شاپور صلح ومذا کرہ کے نتیجہ میں فتح ہوا ۔
اسی مطلب کو ذہبی نے خلاصہ کے طور پر ''اسدالغابہ ''سے نقل کرکے اپنی کتاب ''تجرید '' میں درج کیا ہے ۔
زبیدی نے بھی لفظ ''زر''کے بارے میں اپنی کتاب ''تاج العروس ''میں لکھا ہے :
طبری نے کہا ہے کہ ''زربن عبداللہ الفقیمی ''رسول خدا ۖکا صحابی اور فوج کا کمانڈر تھا۔
چونکہ ان تمام کے تمام دانشوروں نے ''زربن عبداللہ''کو طبری سے نقل کرکے اس کی تشریح کی ہے ، اس لئے ہم بھی زر کی روایت کے بارے میں طبری کی طرف رجوع کرتے ہیں تا کہ یہ دیکھ لیں کہ طبری نے اس خبر کو کہاںسے حاصل کیا ہے ۔
زرّ کا نام و نسب
طبری نے سیف سے نقل کرکے لکھا ہے :
زرّ بن عبد اللہ ، کلیب فقیمی کا نواسہ اور خاندان تمیم و عدنان سے تعلق رکھتا ہے ۔
طبری نے رامہر مزکی فتح کے بارے میں سیف سے نقل کرکے لکھا ہے :''اسود ''و'' زر'' پیغمبرۖ کے ان اصحاب اور مہاجر ین میں سے ہیں جنھوں نے آنحضرت ۖ کو درک کیا ہے ،
زر پیغمبر اکرم ۖ کے حضور پہنچا اور آپ کی خدمت میں عرض کی : خاندان '' فقیم '' کے افراد دن بدن گھٹ رہے ہیں اور اس طرح یہ خاندان نابود ہو رہا ہے جب کہ تمیم کے دوسرے قبیلوں کی آبادی بڑھ رہی ہے ۔ کیا کیا جائے کہ آپ ۖ خدا کے ہاں ہمارے لئے دعا فرمائیں ؟!
رسول خدا ۖ نے دعا کے لئے ہاتھ بلند کئے اور فرمایا: خدا وند ا !خاندان '' زر'' کو کثرت دے اوران کی تعداد میں ا !!
یہی سبب بنا کہ خاندان زر کی نسل بڑھی اور ان کی آبادی میں اضافہ ہوا ۔ دوسروں نے بھی سیف کی اسی روایت کو طبری سے استناد کرکے لکھا ہے :
زران افراد میں سے ہے جنھوں نے پیغمبر اسلام ۖ کے حضور میںشرف یاب ہوکر آپ سے گفتگو کرنے کا فخر حاصل کیاہے ۔ اس کے علاوہ وہ مہاجر ین میں سے تھا ۔
طبری فتح '' ابلہ '' کے سلسلے میں ١٢ھ کے حوادث کے ضمن میں لکھتا ہے :
خالد بن ولید نے مال غنیمت کے طور پر حاصل کئے گئے ہاتھی اور دیگر غنائم کے پانچویں حصے کو زر کے ذریعہ خلیفہ کی خدمت میں مدینہ بھیجا ۔ہاتھی کی مدینہ کی گلی کوچوں میں نمائش کی گئی تاکہ لوگ اس کا مشاہدہ کریں ۔عورتیں عظیم الجثہ ہاتھی کو دیکھ کر تعجب میں پڑگئیں اور حیرت کے عالم میں ایک دوسرے سے کہتی تھیں :کیا یہ عظیم الجثہ حیوان خدا کی مخلوق ہے ؟!کیوںکہ وہ ہاتھی کو انسان کی مخلوق تصور کرتی تھیں ۔ابوبکر نے حکم دیا کہ ہاتھی کو ''زر ''کے ساتھ واپس بھیج دیا جائے ۔
طبری اس داستان کے ضمن میں لکھتا ہے :
''ابلہ ''کی فتح کے بارے میں سیف کی یہ داستان تاریخ نویسوں اور واقعہ نگاروں کے بیان کے بر خلاف ہے ۔ کیوں کہ صحیح اخبار و روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ابلہ عمر کے زمانے میں فتح ہوا ہے نہ خلافت ابوبکر کے زمانہ میں اور یہ فتح و کامرانی عتبہ بن غزوان کے ہاتھوں ١٤ھ میں حاصل ہو ئی ہے نہ ١٢ھ میں ۔ جب ہم اس زمانہ کی بحث پر پہنچے گیں تو اس جگہ کی فتح کی کیفیت پر بحث کریں گے ۔ ( طبری کی بات کا خاتمہ)
ایک مختصر موازنہ
١۔ طبری وضاحت کرتا ہے کہ شہر '' ابلہ '' ١٤ھ میں خلافت عمر کے زمانہ میںفتح ہوا ہے نہ کہ ١٢ھ میں خلافت ابوبکر کے زمانہ میں !
٢۔ اس جنگ کی کمانڈ''عتبہ بن غزوان ''کے ہاتھ میں تھی نہ کہ ''خالد بن ولید ''کے ہاتھ میں ۔ اس فتح وپیروزی کی نوید ''نافع ''نے خلیفہ کو پہنچائی تھی نہ کہ''زر بن عبداللہ فقیمی ''نے!
اس کے علاوہ جوکچھ طبری نے سیف بن عمر سے نقل کرکے ١٤ھکے حوادث کے ضمن میں بیان کیا ہے ۔جیسے ''زر''کاموضوع اور جنگی غنائم کاپانچواں حصہ اور مذکورہ ہاتھی وغیرہ ۔سیف کے علاوہ دوسروں کی روایتوں میں کسی صورت میں نہیں ملتا ۔خاص کر مدینہ کی عورتوں نے اس زمانے میں قرآن مجید کے سورۂ فیل کوکئی بار پڑھاتھا اور ہاتھی و ابرہہ کی لشکرکشی کی داستان اس زمانے میں زبان زد خاص وعام تھی ،کیونکہ یہ حادثہ تاریخ کی ابتدا ء قرار پایا تھا۔ لہٰذا عظیم الجثہ ہاتھی کاوجود ان کے لئے تعجب کا سبب نہیں بن سکتا ۔
سیف نے اس سلسلے میں جو کچھ لکھا اور اس کادعویٰ کیا ہے وہ سب تاریخی حقائق کے بر خلاف ہے ۔ہم نے گزشتہ بحث میں خاص کر''زیاد''کے افسانہ میں اس امر کی طرف اشارہ کیاہے۔
جندی شاپور کی صلح کاافسانہ
طبری نے سیف سے نقل کرکے ١٧ھکے حوادث کے ضمن میں''شوش''کی فتح کے بارے میں لکھاہے :
''زر''نے اس سال نہاوند کامحاصرہ کیا اور ......
اس کے بعد ایک دوسری حدیث میں سیف سے نقل کرکے لکھتاہے :
عمر نے ایک تحریری فرمان کے ذریعہ ''زر''کو حکم دیا کہ ''جندی شاپور ''کی طرف لشکرکشی کرے۔''زر''نے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے جندی شاپور پرچڑھائی کی اور اسے اپنے محاصرہ
میں لے لیا.....
ایک دوسری حدیث میں ذکر کیا ہے :
صحابی ''ابوسبرہ'' ( الف) نے حکم دیا کہ '' زر و مقترب ''جندی شاپور پرلشکر کشی کریں اور خود بھی شوش کو فتح کرنے کے بعد اپنا لشکر لے کران کی طرف بڑھااور اس وقت وہاں پہنچا جب زر نے جندی شاپور کو اپنے محاصرہ میں لے لیا تھا ۔
اسی حالت میں کہ جندی شاپور اسلام کے سپاہیوں کے محاصرہ میں تھا اور مسلمان وہاں کے لوگوں سے جنگ میں مصروف تھے ، انھوں نے ایک دن دیکھا کہ اچانک قلعہ کے دروازے کھل گئے
..............v
الف)۔ ابو سبرہ بن ابی رہم عامری قرشی نے اسلام کی تمام ابتدائی جنگوں میں شرکت کی ہے '' ابو سبرہ'' نے پیغمبر اسلام ۖ کی رحلت کے بعد مکہ میں رہائش اختیار کی اور عثمان کی خلافت کے دوران وہیں پر وفات پائی ۔ '' استیعاب ٨٢٤، اسد الغابہ ٢٠٧٥ اور اصابہ ٨٤٤۔
اور لوگ خوشی خوشی اور کھلے دل سے عرب جنگجوئوں کا استقبال کرنے لگے اور بازار کے دروازے بھی ان کے لئے کھول دیئے ۔
مسلمانوں نے ان سے اس کا سبب پوچھا ، تو ایرانیوں نے جواب دیا :
تم لوگوں نے قلعہ کے اندر ایک ایسا تیرے پھینکا جس کے ساتھ امان نامہ تھا ہم نے آپ کے امان نامہ کو قبول کیا ۔
مسلمانوں نے کہا:
ہم نے ایسا کوئی امان نامہ تمھارے پاس نہیں بھیجا ہے !
اس کے بعد تحقیق کرنے لگے تومعلوم ہوا کہ مکنف نامی ایک غلام نے یہ کام کیا تھا ، وہ خود بھی جندی شاپو ر کا باشندہ تھا۔ اس کے بعد ایرانیوں سے کہا: یہ مرد ایک غلام تھا ، اس کے امان نامہ کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہے ۔ ایرانیوں نے جواب میں کہا :
ہم تمھارے غلام اور آزاد کے درمیان کوئی فرق نہیںسمجھتے ہیں بلکہ ہم صرف اتنا جانتے ہیں کہ آپ لوگوں نے ہمیں امان دی ہم نے اسے قبول کیا اور ہم اس کی خلاف ورزی نہیں کر سکتے اب یہ آپ کا کام ہے ، اگر چاہیں ہو تو خیانت کر سکتے ہیں؟!
ایرانیوں کے اس قطعی جواب کی وجہ سے مسلمان مجبور ہوئے اوروظیفہ واضح ہونے کے لئے اس سلسلے میں خلیفہ عمر کو خبر دی تاکہ وہ اس سلسلہ میں حکم فرمائیں ، اس دوران ایرنیوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی ۔ عمر نے مکنف کے امان نامہ کو قبول کیا اور اس طرح جندی شاپور کے لوگ مکنف کی پناہ میں آگیا اور مسلمانوں نے ان پر حملہ نہیں کیا !
جیسا کہ ہم نے بیان کیا ہے ، اس داستان کو طبری نے سیف بن عمر سے نقل کرکے جندی شاپور کی صلح کے بارے میں اپنی تاریخ کبیر میں درج کیا ہے ۔ اور ابن اثیر ،ابن کثیر اور ابن خلدون نے بھی اسے طبری سے نقل کرکے اپنی تاریخ کی کتابوں میں روایت کے منبع کا ذکر کئے بغیر درج کیا ہے ۔ جیسا کہ ہم نے اپنی کتاب عبد اللہ ابن سبا کے مقدمہ میں لکھا ہے کہ ان دانشوروں نے وہ روایات اور واقعات جو بہر صورت رسول خدا ۖ کے اصحاب سے مربوط ہیں ، بلا واسطہ اور براہ راست طبری سے نقل کئے ہیں اور انھوں نے اس مطلب کی اپنی کتابوں کی ابتدا ء میں وضاحت کی ہے ۔
حموی اپنی کتاب '' معجم البلدان '' میں جندی شاپور کے سلسلے میں لکھی گئی ایک تشریح کے ضمن میں اسی روایت کو لکھ کر اس کے آخر میں یوں رقم طراز ہے :
عاصم بن عمرو نے ( وہی سورما جس کے حالات اسی کتاب کی پہلی جلد میں لکھے گئے ) مکنف کے اسی موضوع کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یہ اشعار کہے ہیں :
اپنی جان کی قسم !مکنف کی رشتہ داری صحیح تھی اس نے ہرگز اپنے شہریوں کے ساتھ قطع رحم نہیں کیا !!
اشعار کو اپنی جگہ پر ہم نے آخر تک درج کیا ہے ۔ حموی اپنی بات کی انتہا پر کہتا ہے کہ اس مطلب کو سیف بن عمر نے کہا ہے ۔
اسی داستان کو حمیری نے بھی اپنی کتاب '' الروض لمعطار '' میں درج کیا ہے۔
جندی شاپور کی داستان کے حقائق
جندی شاپور کی صلح کے بارے میں جو داستان سیف بن عمر نے گڑھی ہے اور دوسرے مؤلفین نے بھی اسے نقل کیا ہے ، اس پر بحث ہوئی ۔ اب ہم دیکھتے ہیں کہ اس سلسلے میں دوسروں نے کیا کہا ہے:
بلاذری کہتا ہے :
شوشتر کو فتح کرنے کے بعد ابو موسیٰ اشعری نے جندی شاپور کی طرف فوج کشی کی ۔چونکہ جندی شاپور کے باشندے مسلمانوں کے حملے کے بارے میں سخت پریشان اور مضطرب تھے ۔اس لئے انہوں نے قبل ازوقت امان کی در خواست کی اور اپنی اطاعت کا اعلان کیا۔ ابوموسیٰ اشعری نے بھی جندی شاپور کے باشندوں سے معاہدہ کیا کہ جنگ کے بغیرہتھیار ڈالنے کی صورت میں ان کی جان، مال اور آزادی اسلام کی پناہ میں محفوظ ہوں گے ۔
یہ وہ روایت ہے جسے بلاذری نے جندی شاپور کی فتح کے بارے میں اپنی کتاب میں درج کیاہے ۔خلیفہ بن خیاط (وفات ٢٤٠ھ)اور ذہبی (وفات ٧٤٨ھ )نے بھی خلاصہ کے طور پر اسے اپنی کتابوں میں درج کیا ہے ۔
یاقوت حموی نے بھی دونوں روایتوں کو پوری تفصیل کے ساتھ اپنی کتاب ''معجم البلدان '' میں درج کیا ہے۔
ان دو کی روایتوں کا مختصر موازنہ
مورخین نے لکھا ہے کہ جندی شاپور کی صلح کا سبب مسلمانوں کے حملہ سے ایرانیوں کا خوف وحشت تھا ، ئہ یہ مطلب جو سیف کہتا ہے کہ : یہ امان ایک ایر انی الاصل غلام مکنف کی وجہ سے ملا ہے ، اور ا س ا ما ن نامہ کو قبول یا ر د کرنے کے سلسلے میںا ختلا ف پید ا ہونے پر خلیفہ عمر نے اس کی تائید کی ہے
اس کے علاوہ لکھا گیا ہے کہ جندی شاپور کی جنگ میں سپہ سالار اعظم '' ابو موسیٰ اشعری'' یمانی قحطانی تھا نہ جیسا کہ سبرہ قرشی عدنانی ،جسے سیف بن عمر تمیی نے معین کرکے زر اور اسود نامی دو جعلی اصحاب بھی اس کی مدد کے لئے خلق کئے ہیں :
سیف کہتا ہے :
زر بن کلیب اور مقترب کو خلیفہ عمر نے اپنے ایلچی کے طور پر بصرہ کے گورنر نعمان کے پاس بھیجا اور ان کے ذریعہ نعمان کو یہ پیغام دیا :
میں نے تجھے ایرانیوں سے جنگ کرنے کے لئے انتخاب و مامور کیا ہے اس سلسلے میں اقدام کرنا ۔
لیکن بلاذری اس سلسلے میں لکھتا ہے:
خلیفہ عمر نے سائب بن اقرع ثقفی (الف ) کے ہاتھ نعمان کے نام ایک خط بھیجا اور اسے ایرانیوں سے جنگ کرنے کی ماموریت دی ۔ اس کے علاوہ حکم دیا کہ جنگی غنائم کی ذمہ داری سائب بن اقرع کو سونپی جائے ۔
زر ،فوجی کمانڈر کی حیثیت سے
سیف نے نہاوند کی جنگ کی روایت کے ضمن میں لکھا ہے:
خلیفہ عمر نے اہواز و فارس میں معین کمانڈرروں سلمی ، حرملہ ، زر بن کلیب اور متقرب وغیرہ کو لکھا کہ ایرانیوں کی طرف سے مسلمانوں پر حملہ کو روک لیں اور انھیں مسلمانوں اور امت اسلامیہ کی سر زمین پر نفوذ کرنے کی اجازت نہ دیں ، اور میرے دوسرے فرمان کے پہنچنے تک ایرانیوں کو نہاوند کی جنگ میں مدد پہنچانے میں رکاوٹ ڈالنے کے لئے فارس اور اہواز کی سر حدوں پر چوکس رہیں۔
خلیفہ کے فرمان کو اس وقت عملی جامہ پہنایا گیا جب مذکورہ چار صحابی اور پہلوان اصفہان اور فارس کی سرحدوں کے نزدیک پہنچ چکے تھے اور اس کے نتیجہ میں وہ نہاوند میں لڑنے والے ایرانی فوجیوں کو رسد اور امداد پہنچانے میں رکاوٹ بنے !!
..............
الف )۔ سائب پیغمبر اسلام ۖ کی حیات طیبہ میں ایک چھوٹا بچہ تھا ، رسول خد ا ۖ نے اپنا شفقت بھرا ہاتھ اس کے سر پر پھیرکر اس کے حق میں دعا کی تھی ۔ سائب نے عمر کا خط نعمان مقرن کو پہنچادیا اور خود نہاوند کی جنگ میں شرکت کی سائب عمر کی طرف سے اصفہان اور مدائن کا گونر بھی رہا ہے ۔ '' اسد الغابہ ٢٤٩٢''
فارس اور اصفہان کی سر حدوں پر سیف کے جعلی صحابیوں کے رد عمل کی داستان اس کے ذہن کی پیداوار ہے اور دوسرے مولفین نے اس سلسے میں کچھ نہیں لکھا ہے جس کے ذریعہ ہم سیف کی داستان کا دوسروں کی روایت سے موازنہ کریں !
زر کی داستان کا خلاصہ
زر بن عبد اللہ بن کلیب فقیمی کے بارے میں سیف کے بیان کا خلاصہ حسب ذیل ہے :
یہ ایک صحابی و مہاجر ہے ، وہ رسول خدا ۖ کی خدمت میں پہنچا ہے ۔ اپنے خاندان میں افراد کی کمی کے سلسلے میں آنحضرت ۖ کے حضور میں شکایت کی ، آنحضرت ۖ نے اس کے حق میں دعا کی اورخدا ئے تعالیٰ نے پیغمبر اسلام ۖکی دعاقبول فرمائی جس کے نتیجہ میں اس کے خاندان کے افراد میں اضافہ ہوا !
١٢ھ میں فتوح کی جنگوں میں زر کو بقول سیف خالد کی طرف سے '' ابلہ'' کی جنگ کی فتح کی نوید ، جنگی غنائم کا پانچواں حصہ اور ایک ہاتھی کو لے کرخلیفہ ابوبکر کی خدمت میں بھیجا جاتا ہے ۔ خلیفہ کے حکم سے مدینہ کی گلی کو چوں میں ہاتھی کی نمائش کرانے کے بعد زر کے ذریعہ اسے واپس کیا جاتا ہے
سیف کی روایت کے مطابق ١٧ھ میں ہم زر کو نہاوند کا محاصرہ کرتے ہوئے دیکھتے ہیں کہ خلیفہ عمر اسے لکھتے ہیں کہ جندی شاپور پر لشکر کشی کرے اور اس وقت کا سپہ سالار ابو سبرہ اسے مقترب کے ہمراہ شہر جندی شاپور کا محاصرہ کرنے کی ماموریت دیتا ہے اور ابوموسیٰ بھی کچھ مدت کے بعد ان سے ملحق ہوتا ہے ، جب وہ جندی شاپور کے محاصرہ میں پھنسے لوگوں سے بر سر پیکار تھے ، اچانک دیکھتے ہیں کہ قلعہ کے دروازے کھل گئے اور لوگ لشکر اسلام کے لئے بازار میں اشیاء آمادہ کرکے مسلمانوں کے استقبال کے لئے آگے بڑھتے ہیں ! کیوں کہ لشکر اسلام سے جندی شاپور کا رہنے والا مکنف نامی ایک غلام نے خلیفہ کی اجازت کے بغیر اور دیگر لوگوں سے چور ی چھپے ایک تیر کے ہمراہ قلعہ کے اندر امان نامہ پھینکا تھا اور سر انجام خلیفہ عمر مکنف کے امان نامہ کی تائید کرتے ہیں اور شہر اور شہر کے باشندے مسلمانوں کی امان میں قرار پاتے ہیں ۔
پھر سیف کی روایت کے مطابق ٢١ھ میں خلیفہ عمر زر کو اپنا ایک پیغام دے کر اپنے ایلچی کے طور پر نعمان بن مقرن کے پاس بھیجتے ہین اور نعمان کو نہاوند کی جنگ کے لئے مامور قرار دیتے ہیں ۔ اس ماموریت کے بعد خلیفہ کی طرف سے زر اور سپاہ اسلام کے تین دیگر کمانڈر ماموریت پاتے ہیں کہ نہاوند کی جنگ میں لڑنے والے ایرانیوں کے لئے فارس کے باشندوں کی طرف سے کمک اور رسد پہنچنے میں رکاوٹ ڈالیں ۔ وہ خلیفہ کے حکم کو عملی جامہ پہناتے ہوئے اصفہان اور فارس کی سر حدوں تک پیش قدمی کرتے ہیں اور اس طرح نہاوند کی جنگ میں لڑنے والے ایرانی فوجیوں کے لئے امدادی فوج پہنچنے میں رکاوٹ بنتے ہیں ۔
زرّ اور زرین
جو کچھ ہم نے یہاں تک بیان کیا ، یہ زر کے بارے میں سیف کی روایتیں تھیں جو تاریخ طبری میں درج ہوئی ہیں ۔
کتاب اسد الغابہ ،کے مؤلف ابن اثیر نے بھی ان تمام مطالب کو طبری سے نقل کرکے زر کی زندگی کے حالات کی تشریح کرتے ہوئے اس کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ لیکن زرین نام کے ایک دوسرے صحابی کے حالات کے بارے میں لکھتا ہے :
زرین بن عبد اللہ فقیمی کے بارے میں ابن شاہین نے کہا ہے کہ میری کتاب میں دو جگہوں پر اس صحابی یعنی زرین بن عبد اللہ کا نام اس طرح آیا ہے حرف '' ز '' حرف '' ر '' سے پہلے ہے ۔ اور سیف بن عمر نے '' ورقاء بن عبد الرحمن حنظلی '' سے روایت کرکے نقل کیا ہے کہ زربن عبد اللہ فقیمی نے روایت کی ہے کہ وہ زرین بن عبد اللہ قبیلہ تمیم کے چند افراد کے ہمراہ رسول خدا ۖ کی خدمت میں پہنچ کر اسلام لایا ہے اور رسول اسلام ۖ نے اس کے اور اس کی اولاد کے لئے دعا کی ۔
'' ابومعشر '' نے بھی یزید بن رومان ( الف )سے روایت کی ہے
زرین بن عبد اللہ فقیمی آنحضرت ۖ کی خدمت .... (تا اخر داستان )
اب حجر بھی زر کی تشریح میں لکھتا ہے:
طبری نے لکھا ہے کہ زر نے پیغمبر خدا ۖ کو درک کیا ہے اور اپنے قبیلہ کی طرف سے نمائندہ کے طور پر آنحضرت ۖ کی خدمت میں پہنچا ہے ۔ زر ان سپہ سالاروں میں سے تھا جنھوں نے نہاوند اور خوزستان کی فتوحات اور جندی شاپور کا محاصرہ کرنے کی کاروائیوں میں شرکت کی ہے ، ابن فتحون نے بھی زر کے بارے میں یہی مطالب درج کئے ہیں۔
ابن حجر مذکورہ بالا مطالب کے ضمن میں زرین کے بارے میں ابن شاہین اور ابی معشرکی روایت کو بیان کرتے ہوئے زرین کے حالات کے بارے میںیوں لکھتا ہے :
اس صحابی کی داستان زر کے حالات کے سلسلے میں بیان ہوئی ہے ۔
اس لحاظ سے زر اور زرین دو نام ہیں زر سے مربوط خبر صرف سیف کی روایتوں میں آئی ہے اور طبری نے اس سے یہ روایت نقل کی ہے ۔اس کے بعد ابن اثیر اور ابن فتحون نے طبری سے نقل کرکے اسے اپنی کتابوں میں درج کیا ہے ۔
ذہبی نے بھی زر کی داستان ابن اثیر سے نقل کی ہے او ر ابن حجر نے اس کو فتحون سے نقل کرکے بالترتیب اپنی کتابوں '' التجرید اور اصابہ '' میں درج کیا ہے ۔
مناسب ہے کہ ہم یہاں پر یہ بھی بتا دیں کہ آثار و قرائن سے لگتا ہے کہ سیف نے زر کا نام خاندان فقیم کے ایک شاعر سے عاریتا ً لیا ہے جو زمانہ جاہلیت میں اشعار کہتا تھا ۔ اس بات کی تائید
..............
الف)۔یزید بن رومان اسدی خاندان زبیر کا ایک سردار دانشور اور کثیر الحدیث شخص تھا یزید رومان نے ١٣٠ ھ میں وفات پائی ہے ۔ التہذیب ٣٢٥١١ ،تقریب ٣٦٤٢ملاحظہ ہو ۔ رومان کا بیٹا حدیث کے طبقۂ پنجم کے ثقات میں سے ہے ۔
آمدی (الف) کی کتاب '' مختلف و مؤتلف'' میں شعراء کے حالات پر لکھی گئی تشریح سے ہوتی ہے وہ اس سلسلے میں لکھتا ہے :
شعراء میں سے '' زرین بن عبدا للہ بن کلیب '' ہے جو خاندان فقیم میں سے تھا...
آمدی کی یہ بات ابن ماکولا نے بھی اپنی کتاب '' اکمال '' میں درج کی ہے ۔
بحث و تحقیق کا نتیجہ
معلوم ہوا کہ سیف بن عمر تنہا شخص ہے جو زر کے نسب ، ہجرت ، پیغمبر خدا ۖ کا صحابی ہونے اور اپنے قبیلہ کی طرف سے رسول خدا ۖ کی خدمت میں نمائندہ کی حیثیت سے حاضری دینے کے بارے میں روایت کرتا ہے ۔
سیف فتح ابلہ کی داستان میں نافع کے کام کو زر سے نسبت دیتا ہے ،خلیفۂ وقت اور سپہ سالارکے ناموں میں رد و بدل کرکے اس پر ہاتھی کا افسانہ بھی اضافہ کرتا ہے ۔
سیف نے جندی شاپور کی صلح کی داستان میں ابوموسیٰ اشعری یمانی قحطانی کی کار کردگی اور اقدامات کو ابو سبرہ قرشی عدنانی سے نسبت دی ہے خاص کر اس عزل و نصب میں ابو موسیٰ اشعری کو گورنر کے عہدے سے عزل کرکے اس جگہ کی پر ابو سبرہ کو منصوب کرنے میں سیف کا خاندانی تعصب بالکل واضح اور آشکار ہے ۔
سیف ، عمر کی خلافت کے زمانے میں ابو سبرہ عدنانی کو کوفہ کے گورنر کے عہدے پر منصوب کرتا ہے تاکہ اس کی سرزنش کرنے کی کوئی گنجائش باقی نہ رہے کیوں کہ کہا جاتا ہے کہ وہ مکہ سے مدینہ ہجرت کرنے کے بعد دوبارہ سے مکہ چلا گیا تھا اور پھر مرتے دم تک وہاں سے باہر نہیں نکلا ، اسی طرح
..............
الف)۔کتاب '' مختلف و مؤ تلف '' کے مؤلف آمدی نے ٣٧٠ھ میں وفات پائی ہے ۔
اسی ابو سبرہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جن دنوں وہ مکہ میں مقیم تھا ، سیف کے دعوے کے مطابق انہی دنوں خلیفہ عمر کی طرف سے کوفہ میں ایک امین گورنر اور مجاہد و جاں نثار افسر کی حیثیت سے اپنا فریضہ انجام دینے میں مصروف تھا ۔
مکنف کا افسانہ اور اس کا امان نامہ بھی سیف کا جعل کیا ہوا اور اس کے تخیلات کا نتیجہ ہے۔
سیف نے فتح نہاوند کی داستان میں سائب ا قرع ثقفی کی جنگی کاروائیوں کو زر سے نسبت دی ہے ۔ سیف تنہا شخص ہے جو زر نامی ایک صحابی کی قیادت میں فارس اور اصفہان کے اطراف میں مسلمانوں کی لشکر کشی اور اسی کے ہاتھوں نہاوند کے محاصرہ کا تذکرہ کرتا ہے !!
یہ بھی معلوم ہے کہ سیف نے ان تمام احادیث اور اپنی دوسری داستانوں کو واقعہ نگاروں کے طرز پر ایسے راویوں کی زبانی نقل کیا ہے جس کو اس نے خود خلق کیا ہے یا ان مجہول الہویہ افراد سے نقل کیا ہے ، جن کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ۔
ہمیں یہ بھی معلوم ہوا کہ تاریخ میں زرین بن عبداللہ نامی ایک اور صحابی کا نام آیا ہے جو سیف کے زرین بن عبد اللہ نامی جعلی صحابی کے علاوہ ہے اور ہم نے دیکھا کہ ان دونوں کے بارے میں اسد الغابہ اور الاصابہ جیسی کتابوں میں ان کی زندگی کے حالات پر جدا گانہ روشنی ڈالی گئی ہے ۔
ہمیں یہ بھی پتا لگا کہ اسلام سے پہلے جاہلیت کے زمانے میں زید بن عبد اللہ فقیمی نام کا ایک شاعر تھا ، جو بہت مشہور تھا جس کی زندگی کے حالات پر آمدی کی کتاب میں روشنی ڈالی گئی ہے ۔ اور اس شخص کاکسی صورت میں سیف کے جعلی زر کے ساتھ کوئی تعلق و ربط نہیں ہے ۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سیف نے اس زمان جاہلیت کے شاعر سے اپنے اس جعلی صحابی کے لئے یہ نام عاریتاً لیا ہوگا سیف کا یہ کام کوئی نیا کارنامہ نہیں ہے ،بلکہ ہم نے اس کے ایسے کارنامے حزیمہ بن ثابت انصاری ، سماک بن خرشہ ، اسود اور دیگر افراد کی احادیث میں مشاہدہ کیا ہے ۔ اس سلسلہ میں مناسب جگہ پر مزید وضاحت کی جائے گی ۔
زرّ کا افسانہ نقل کرنے والے علماء
زر کے افسانہ کا سر چشمہ سیف بن عمر تمیمی ہے اور یہ افسانہ حسب ذیل اسلامی منابع درج ہو کر اس کی اشاعت ہوئی ہے :
١۔ محمد بن جریر طبری ( وفات ٣١٠ ھ ) نے سیف سے نقل کرکے اپنی تاریخ میں نقل کیا ہے ۔
٢۔ ابن اثیر ( وفات ٦٣٠ھ) نے طبری سے نقل کیا ہے ۔
٣۔ ابن کثیر ( وفات ٧٧١ھ ) نے طبری سے نقل کیا ہے ۔
٤۔ ابن خلدون ( وفات ٨٠٨ھ) نے طبری سے نقل کیا ہے ۔
٥۔ ابن فتحون ( وفات ٥١٩ھ) نے طبری سے نقل کیا ہے ، اس دانشور نے بعض اصحاب کی
زندگی کے حالات کو کتاب '' استیعاب '' کے حاشیہ میں درج کیا ہے ۔
٦۔ زبیدی ( وفات ١٢٠٥ھ ) نے تاج العروس میں طبری سے نقل کیا ہے۔
٧۔ ذہبی ( وفات ٧٤٨ھ نے ابن اثیر سے نقل کرکے اپنی کتاب '' التجرید '' میں درج کیا ہے ۔
٨۔ ابن حجر ( وفات ٨٥٢ھ ) نے فتحون سے نقل کرکے اپنی کتاب الاصابہ میں درج کیا ہے ۔
٩۔ یاقوت حموی ( وفات ٦٢٦ھ ) نے بلا واسطہ سیف سے نقل کرکے اپنی کتاب '' معجم
البلدان'' میں درج کیا ہے ۔
١٠۔ حمیری ( وفات ٩٠٠ھ ) نے براہ راست سیف سے نقل کرکے اپنی کتاب '' الروض المعطار''
میں نقل کیا ہے ۔
ان تمامعتبر اور اہم منابع کے پیش نظر اگر ہمارے زمانے کا کوئی مؤلف ،فتوحات اسلامی کے کسی سپہ سالار کے بارے میں کوئی کتاب تالیف کرنا چاہے تو وہ یہ حق رکھتا ہے کہ زربن عبد اللہ فقیمی کو ایک شجاع کمانڈر ،ایک سیاستدان اور موقع شناس صحابی کے طور پر اپنی کتاب میں تشریح و تفصیل کے ساتھ درج کرے ، جب کہ یہ مؤلف اور دیگر تمام مذکورہ علماء اس امر سے غافل ہیں کہ حقیقت میں زربن عبد اللہ فقیمی نام میںکسی صحابی یا سپہ سالار کا کہیں کوئی وجود ہی نہیں تھا بلکہ وہ صرف سیف بن عمر تمیمی کے خیالات اور توہمات کی مخلوق اور جعل کیا ہوا ہے ۔ اور یہ وہی سیف ہے جس پر زندیقی ، دروغ گو ئی اور افسانہ نگاری کا الزام ہے !!
افسانہ زر کا ماحصل
سیف نے زر کا افسانہ گڑھ کر اپنے لئے درج ذیل نتائج حاصل کئے ہیں :
١۔ فتوحات میں لشکر اسلام کا ایک ایسا سپہ سالار خلق کرتا ہے جو صحابی اور مہاجر ہے ، رسول خدا ۖ
نے اس اور اس کے خاندان تمیم کے لئے دعا کرے اور خدائے تعالیٰ نے بھی پیغمبر ۖ
کی دعا قبول فرما کر اس کی نسل میں اضافہ کیا ۔
٢۔ ایک امین اور پارسا ایلچی کو خلق کرتا ہے تاکہ جنگی غنائم اور ایک عجیب و غریب ہاتھی کو لے کر
خلیفہ ابو بکر کی خدمت میں جائے ۔
٣۔ قحطانی یمانیوں کے ذریعہ حاصل ہوئے تمام افتخارات اور فتوحات کو اپنے خاندانی تعصب
کی پیاس بجھانے کے لئے عدنانیوں اور مضریوں یعنی اپنے خاندان سے نسبت دیتا ہے۔
٤۔ جندی شاپور کی فتح کے لئے اپنے افسانے میں مکنف نام کا ایک غلام خلق کرتا ہے تاکہ جندی
شاپور کے باشندوں کو دئے گئے اس کے امان نامہ کی خلیفہ تائید کرے ۔
٥۔ سر انجام ، جیسا کہ اس سے پہلے بھی ہم نے کہا ہے کہ سیف اپنے خاندان تمیم کے لئے
افتخارات گڑھ کر اپنے خاندانی تعصب کی اندرونی آگ کو بجھاتا ہے اور زندیقی ہونے کے
الزام کے تحت تاریخ اسلام کو تشویش سے دو چار کرکے اس امر کا سبب بنتا ہے کہ اسلامی
اسنادمیں شک و شبہات پیدا کرے ۔
|