١٣۔ سعیر بن خفاف
ابن حجر نے اپنی کتاب ''الاصابہ'' میں اسے ''سعیر بن خفاف تمیمی'' بتایا ہے ، جب کہ تاریخ میں طبری میں سیف کی تاکید کی بناء پر ''سعر بن خفاف تمیمی '' ذکر ہوا ہے ۔ ابن حجر نے سیف کے اس جعلی صحابی کے بارے میں اس طرح لکھا ہے:
سیف بن عمر نے اپنی کتاب ''فتوح'' میں لکھا ہے''سعیر بن خفاف'' ، قبائل تمیم کے ایک قبیلہ میں رسول خدا ۖکا کارندہ تھا ۔ ابوبکر نے بھی اسے اپنے عہدے پر برقرار رکھا ۔ (٧)(ز)
یہ امر پہلے ہی واضح ہو چکا ہے کہ ابن حجر کی تحریروں میں حرف ''ز'' اس بات کی علامت ہے کہ یہ مطلب اصحاب کی سوانح لکھنے والے دوسرے مؤلفین کے مطالب کے علاوہ اور اس کا اپنا اضافہ کیا ہوا مطلب ہے۔
١٤۔عوف بن علاء جشمی
ابن حجر نے اس کا نام ''عوف بن خالد جشمی''ذکر کیا ہے، لیکن تاریخ طبری میں سیف کی روایت کے مطابق اس کا نام''عوف بن علاء بن خالد جشمی'' لکھاہے۔
ابن حجر نے اپنی کتا ب ''الاصابہ'' میں اس کی سوانح اس طرح بیان کی ہے:
سیف نے اپنی کتاب ''فتوح'' مین لکھا ہے کہ عوف اُن کارندوں میں سے ہے، جنھیں رسول خدا ۖکی وفات کے بعد اس عہدے پر فائز کیا گیا ہے اور وہ رسول خدا ۖ کا صحابی تھا ۔ ابن فتحون نے بھی عوف کا نام ان صحابیوں کے عنوان میںذکر کیا ہے جو صحابیوں کی سوانح لکھنے والوں کے درج کرنے سے رہ گئے ہیں۔ (٨)
ہم نے عوف کے بارے میں سیف بن عمر اور دوسروں سے مذکورہ روایت کے علاوہ کوئی خبروایت اور نہ پائی اور نہ ہی اس جعلی صحابی کی جنگوں میں شرکت اور شجاعتوں کے بارے میں کوئی مطلب نہیں پایا، جب کہ سیف اپنے قبیلۂ مضر ، خاص کر تمیم کے افسانوی دلاوروں کے بارے میں اکثر و بیشتر شجاعتیں اور بہادریاں دکھلاتا ہے ۔
١٥۔اوس بن جذیمہ
ابن حجر نے اپنی کتاب ''الاصابہ'' میں اسے ''اوس بن جذیمہ'' ہجیمی کے نام سے یاد کیا ہے جب کہ تاریخ طبری میں سیف کی روایت کے مطابق ''اوس بن خزیمہ ہجیمی'' ذکر ہوا ہے اور ہجیمی بنی عمرو کا ایک قبیلہ ہے۔ اسی طرح یہ نام بصرہ میں موجود ہجیمیان کے ایک محلہ سے بھی مطابقت رکھتا ہے ۔ (٩)۔
ابن حجر نے اپنی کتاب ''الاصابہ'' میں اوس کی سوانح کے بارے میں یوں ذکر کیا ہے:
سیف اور طبری دونوں نے بیان کیا ہے کہ اوس نے رسول خد ا ۖ کا دیدار کیا ہے اور قبیلہ بنی تمیم کے افراد کے مرتد ہوتے وقت بدستور اسلام پر ثابت قدم رہاہے ۔ ''سجاح'' پیغمبری کا دعویٰ کرنے کے وقت اوس نے اپنے خاندان کے ایک گروہ کے ساتھ ''سجاح'' کے سپاہیوں پر چڑھائی کی. اس طرح سیف کے اس خیالی سورما اور جعلی صحابی کے نام سے سیف کے خاندان، بنی عمرو تمیمی کے افتخارات میں اضافہ ہوتاہے۔
١٦۔سہل بن منجاب
ابن اثیر نے اپنی کتاب ''اسد الغابہ'' میں لکھا ہے:
جب تمیم کے مختلف قبائل نے اسلام قبول کیا تو رسول خدا ۖنے ان قبیلوں میں ان کے ہی چند افراد کو اپنے کارندوں کی حیثیت سے ذمہ داری سونپی ۔ قبیلہ کے صدقات کو جمع کرنے کی مأموریت ''سہل بن منجاب'' کو دی ۔ جیسا کہ طبری نے ذکر کیا ہے کہ قیس بن عاصم، سہل بن منجاب ، مالک نویرہ ، زبرقان بدر اور صفوان و غیر ہ قبائل تمیم میں آنحضرت ۖ کے کارندے تھے۔
ابن حجر نے اپنی کتاب ''الاصابہ'' میں لکھا ہے:
طبری نے اپنی تاریخ میں لکھا ہے کہ ''سہل بن منجاب'' ان کارندوں میں سے تھا جنھیں رسول خدا ۖنے قبائل بنی تمیم میں صدقات جمع کرنے پر مأمور فرمایا تھا۔ آنحضرت ۖ کی حیات تک سہل اس عہد ے پر باقی تھا۔
ذہبی نے اپنی کتاب ''تجرید'' میں لکھا ہے:
کہا جاتا ہے کہ رسول خدا ۖنے ''سہل کو صدقات جمع کرنے کے لئے مأمور فرمایا تھا۔ (١٠)
اس مطلب پر ایک تحقیقی نظر:
ہم ، ابن اثیر کی کتاب ''اسد الغابہ '' پر ایک بار پھر نظر ڈالتے ہیں۔ وہ لکھتا ہے:
تمیم کے مختلف قبائل کے اسلام قبول کرنے کے بعد پیغمبر اسلام ۖنے ان ہی قبائل میں سے ان کے لئے چند کارندوں کو معین فرما کر مختلف قبائل میں ان کو مأموریت دی ۔ جیسے ''قیس بن عاصم'' ، ''سہل '' اور ''مالک'' .....
پیغمبر خدا ۖ کی طرف سے تمیمیوں کو مأموریت دینے کی حدیث طبری کے متعدد نسخوں میں حسب ذیل صورت میں من و عن درج ہوئی ہے:
تمیمیوں کے بارے میں رسول خدا ۖ نے اپنی زندگی میں اپنے چند کارندوں کو معین فرمایا تھا، جن میں سے زبرقان بن بدر کو قبیلۂ رباب ، عوف اور بناء کے لئے مأمور فرمایا تھا۔ جیسا کہ ''سری '' نے ''شعیب ''سے اس نے ''سیف سے اس نے صعب بن عطیہ سے ، اس نے اپنے باپ اور سہم بن منجاب سے روایت کی ہے کہ ''قیس بن عاصم '' قبیلہ ٔمقاعس اور بطون پر مأمور تھا۔
طبری کے بیان سے یوں لگتا ہے کہ ''صعب بن عطیہ '' نے دو آدمیوں سے نقلِ قول کیا ہے کہ جن میں ایک اس کا باپ عطیہ اور دوسرا سہم بن منجاب ہے ۔ لہٰذا منجاب اس حدیث میں خود راوی ہے نہ صحابی!
گویا ان دو معروف دانشو روں ، ابن اثیر و ابن حجر نے طبری کی بات سے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ صعب نے صرف اپنے باپ سے روایت کی ہے کہ مقاعس اور بطون کے قبائل پر ''قیس بن عاصم '' اور سہم من منجاب '' نامی دو شخص تمیمیوں کے صدقات جمع کرنے پر مأمور کئے گئے تھے۔
یہ بھی ممکن ہے کہ ان دو دانشوروں کو ہاتھوں میں طبری کے جو نسخے تھے ، ان میں ''سہم بن منجاب ''کا نام ''سہل بن منجاب '' لکھا گیا ہو. اس بناء پر ان دو دانشو روں نے اسی نام کو صحیح قرار دیکر ''سہل بن منجاب'' کو رسول خدا ۖ کے صحابی کے طور پر درج کر کے تشریح کی ہے۔
|