ایک سو پچاس جعلی اصحاب(دوسری جلد)
 

پانچواں حصہ خاندان تمیم سے
رسول خدا ۖ کے جعلی کارندے و صحابی
رسول خدا کے چھ کارندے :
l ١٣۔سعیر بن خفاف تمیمی
l ١٤۔عوف بن علاء جشمی تمیمی
l ١٥۔اوس بن جذیمہ تمیمی
l ١٦۔سہل بن منجاب تمیمی
l ٧١۔وکیع بن مالک تمیمی
l ١٨۔حصین بن نیار حنظلی تمیمی
مزید دو صحابی
l ١٩۔زرّ بن عبد اللہ فقیمی
l ٢٠۔اسود بن ربیعہ حنظلی
رسول خد ۖا کے چھ جعلی کارندے
چار روایتیں
پہلی روایت
طبری نے سیف بن عمر تمیمی سے اور اس نے صعب عطیہ سے اور اس نے اپنے باپ سے یوں روایت کی ہے :
رسول خدا ۖ کی رحلت کے وقت تمیم کے مختلف قبائل میں آنحضرت ۖ کے کارندے حسب ذیل تھے :
١۔ زبر قان بن بدر : قبائل رباب ، عوف اور ابناء کے لئے ۔
٢۔ قیس بن عاصم : قبائل مقاعس اور بطون کے لئے ۔
قبیلہ بنی عمرو تمیمی کے لئے حسب ذیل دو آدمی آنحضرت ۖ کے کارندے تھے :
٣۔ صفوان بن صفوان : قبیلہ بھدی کے لئے ۔
٤۔ سبرة بن عمرو : قبیلہ خضم کے لئے
قبیلہ حنظلہ کے لئے بھی رسول خدا ۖ کی طرف سے درجہ ذیل دو آدی مامور تھے ۔
٥۔ وکیع بن مالک : قبیلہ بنی مالک کے لئے ۔
٦۔ مالک بن نویرہ : قبیلہ بنی یر بوع کے لئے ۔
اس کے بعد طبری اس حدیث کے ضمن میں سیف سے نقل کرکے اس طرح اضافہ کرتا ہے :
جب رسول خدا ۖ کی رحلت کی خبر تمیم کے قبائل میں پہنچی تو صفوان بن صفوان اپنے اور سبرہ کے جمع کئے گئے صدقات کی رقومات کو ابوبکر کے پاس مدینہ لے گیا اور سبرہ وہیں پر رہا ۔
لیکن قیس نے جو کچھ جمع کیا تھا اسے قبائل مقاعس و بطون کے ادا کرنے والے اصلی افراد کو واپس کر دیا اور ابو بکر کو کچھ نہیں بھیجا ۔
زبرقان نے قیس کے برعکس قبائل رباب ، عوف اور ابناء سے جمع کی گئی اپنی رقومات مدینہ میں ابو بکر کی خدمت میں پیش کیں ۔ چوں کہ اس کی پہلے ہی سے قیس کے ساتھ رقابت تھی اس لئے قیس کی رقومات ادا کرنے سے پہلو تہی کو بہانہ قرار دے کر ایک شعر کے ذریعہ اس کی ہجو گوئی کی اور اس ضمن میں کہا:
میں نے پیغمبر خدا ۖ کی امانت کو پہنچادیا لیکن بعض کا رندوں نے ایک اونٹ بھی نہیں دیا ! سیف کہتا ہے :
رسول خد کی وفات کے بعد قبائل تمیم کے مختلف خاندانوں میں اسلام پر باقی رہنے اور ارتداد کے مسئلہ پر اختلافات رو نما ہوئے ۔ ان میں سے بعض اسلام پر ثابت قدم رہے ۔لیکن بعض شک و شبہ سے دو چار ہو کر سر انجام دین اسلام اور اس کے قوانین سے نا فرمانی کرکے مرتد ہوئے اور اس کے نتیجہ میں مختلف گروہ ایک دوسرے سے متخاصم ہو کر ایک دوسرے پر حملہ آور ہوئے اس طرح :
قبائل عوف و ابناء نے خاندان بنی حشم کے ۔
٧۔ '' عوف بن بلاد'' کی قیادت میں قبائل بطون سے جنگ کی جن کی قیادت
٨۔ سعیر بن خفاف کر رہا تھا ۔
قبائل رباب قبیلہ مقاس سے ، خضم مالک سے اوربہدی ، یربوع سے لڑ رہے تھے قبائل
رباب اور بہدی میں رسول خدا ۖ کا نمائندہ
٩۔ حصین بن نیار حنظلی تھا کہ قبیلہ رباب کے افراد بھی اس کی حمایت کرتے تھے ۔حصین بن
نیاران افراد میں سے تھا جو اسلام پر ثابت قدم تھے قبیلہ ضبہ کا قائد
١٠۔ عبد اللہ بن صفوان تھا۔
اور قبیلہ عبد مناة کی قیادت
١١۔ عصمة بن عبیر کے ہاتھ میں تھی ۔
سیف کہتا ہے :
اسی پکڑ دھکڑ کے دوران جب تمیم کے مختلف قبائل کے مسلمان و مرتد ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو چکے تھے تو ، پیغمبر ی کا دعوی کرنے والی خاتون ''سجاح'' تمیمی نے فرصت کو غنیمت سمجھ کر ان پر حملہ کیا ۔
تمیم کے مختلف قبائل کے درمیان لڑائی جھگڑے اور ان کی بیچارگی کو عفیف بن منذ رتمیمی اس طرح یاد کرتا ہے :
جب خبریں پھیلیں ، کیا تم نے یہ خبر نہیں سنی کہ تمیم کے مختلف قبیلوں پر
کیا مصیبت آن پڑی ؟!
طبری اسی روایت کے ضمن میں سیف سے نقل کرتے یوں لکھتا ہے :
پیغمبری کا دعویٰ کرنے والی خاتون '' سجاح '' جو ابوبکر سے جنگ کرنا چاہتی تھی نے مالک نویرہ کے نام ایک خط لکھا اور اسے اپنے جنگ سے منصرف ہونے کے ارادے سے آگاہ کا مالک نے ''سجاح '' کی تجویز کو قبول کرتے ہوئے ابوبکر سے جنگ نہ کرنے کے اس فیصلے کے مقابلے میں اسے تمیم کے منتشر قبیلوں پر حملہ کرنے کی ترغیب دی '' سجاح '' نے مالک کی تجویز کو قبول کرتے ہوئے تمیم کے قبیلوں پر چڑھائی کی اور لڑائی جھگڑوں ، قتل و غارت اور اسارت کے بعد سر انجام ان کے درمیان صلح ہوئی ۔ جن معروف اشخصیتوں نے '' سجاح '' سے دوستی اور جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کیا ان میں وکیع بن مالک بھی تھا ۔
سیف داستان کو جاری رکھتے ہوئے لکھتا ہے :
قبائل تمیم سے عہد و پیمان طے پانے کے بعد '' سجاح '' نے مملکت نباج کی طرف رخ کیا ، لیکن اسی دوران بنی عمرو تمیم کے اوس بن خذیمہ نے اپنے ماتحت افراد کے ہمراہ ''سجاح '' اور اس کے پیرئوں پر حملہ کرکے ان میںسے بعض افراد کو اسیر بنا دیا ۔
'' سجاح '' نے مجبور ہو کر اوس سے صلح کی اور طے پایا کہ '' سجاح '' اپنے ساتھیوں کو اوس کی اسارت سے آزاد کرانے کے بعد اپنے ساتھیوں کے ساتھ فورا ًاوس کی سرزمین سے نکل جائے ۔

دوسری روایت
طبری نے دوسرے روایت میں اسی پہلی روایت کی سند سے بحرین کے باشندوں کے ارتداد کی داستان کو سیف بن عمر سے نقل کرتے ہوئے یوں بیان کیا ہے ۔ ٢
'' وکیع بن مالک '' اور '' عمر و عاص '' کی آپس میں رقابت تھی اور ایک دوسرے کا مقابلہ کرتے تھے .....

تیسری روایت
طبری تیسری روایت میں داستان'' بطاح '' کو پہلی اور دوسری روایتوں کے اسناد سے سیف سے نقل کرکے اس طرح لکھتا ہے : ٣
'' سر انجام وکیع کو اپنی برائی کا احساس ہوا اوراچھی طرح دوبارہ اسلام کی طرف پلٹ آیا اور اپنے گزشتہ اعمال کی تلافی کے طور خاندان بنی حنظلہ اور یربوع سے جمع کی گئی صدقہ کی رقومات کو ابوبکر کے نمائندہ خالد بن ولید کی خدمت میں پیش کیا ، جو ان دنوں خلیفہ کی طرف سے قبیلہ تمیم کی بغاوتوں کو کچلنے کے لئے ماموریت پر تھا ۔
اس ملاقات کے دوران خالد نے اپنی گفتگو کے ضمن میں وکیع سے پوچھا:
تم نے کیوں مرتد وں کی دوستی اختیار کرکے ان کا ساتھ دیا ؟
وکیع نے جواب دیا :
'' بنی ضبہ '' کے چند افراد کی گردن پر ہمارا خون تھا ۔ میں بھی انتقام لینے کے لئے فرصت کی تلاش میں تھا ۔ جب میں نے دیکھا کہ بنی تمیم کے قبائل ایک دوسرے کے پیچھے پڑ ے ہیں تو انتقام لینے کے لئے اس فرصت کو غنیمت سمجھا۔
وکیع نے ایک شعر میں اپنے اس اقدام کی توجیہ یوں کی ہے :
تم یہ خیال نہ کرنا کہ میں دین سے خارج ہو کر صدقہ دینے میں رکاوٹ بنا ہوں ! بلکہ حقیقت میں وہی معروف شخص ہوں جس کی شہرت زبان زد خاص
و عام تھی ۔
میں نے قبیلہ بنی مالک کی حمایت کی اور ایک مدت تک توقف کیا تاکہ میری آنکھیں کھل جائیں ۔
چوں کہ خالد بن ولید نے ہم پر حملہ کیا اورڈرایا ،اس لئے امانتیں اس کے پاس پہنچنے لگیں۔

چوتھی روایت
طبری نے چوتھی روایت میں مالک بن نویرہ کے قتل کی داستان اپنی مذکورہ اسناد کے مطابق سیف بن عمر سے نقل کرکے اس طرح بیان کی ہے ۔ ٤
جب خالد بن ولید سر زمین بطاح میں داخل ہوا تو اس نے اپنے افراد کو مختلف گروہوں میں تقسیم کیا اور ہر گروہ کو ایک شخص کی قیادت میں مختلف ماموریتوں پر روانہ کیا تاکہ تمیم کے مختلف قبیلوں کے اندر داخل ہو کر گھوم پھر یں اور انھیں ہتھیار ڈالنے کی دعوت دیں ۔ اگر کسی نے نا فرمانی کرکے ان کا مثبت جواب نہ دیا تو اسے قیدی بنا کر خالد بن ولید کے پاس لے آئیں تاکہ وہ ان کے بارے میں خود فیصلہ کرے ۔
خالد کے گشتی سواروں نے اس ماموریت کو انجام دینے کے دوران مالک بن نویرہ ،اور اس کے خاندان کے چند افراد کو پکڑکر قیدی بنالیا ۔لیکن خالد کے ماموروں کے در میاں اس مسئلہ میں اختلاف ہوا کہ کیا مالک اور اس کے ساتھیوں نے اذان کے ساتھ نماز پڑھی یا اذان کے بغیر ۔اسی وجہ سے خالد بن ولید نے اسے جیل میں ڈالنے کا حکم دیا ۔
اتفاق سے اس رات کو کڑاکے کی سردی تھی اور تیز آندھی بھی چل رہی تھی ۔نا قابل برداشت ٹھنڈک تھی اور یہ سردی رات بھر لمحہ بہ لمحہ شدیدتر ہوتی جاتی تھی ۔
خالد بن ولید نے اسیروں کی بہبودی اور مشکلات کو دور کرنے کے لئے حکم دیا کہ اس کا منادی فوجیوں میں اعلان کرے :
''ادفئوااسراکم ''''اپنے اسیروں کو گرم حالت میں رکھو !''
سیف کہتا ہے کہ کنانہ کے لوگوں کے ہاں یہ جملہ ''دثروا الرجل فادفئو ''یعنی مرد کو ڈھانپو اور اسے گرم گرم رکھو ''سر تن سے جدا کرنے کا معنی دیتا ہے!اس لئے خالد بن ولید کے جنگجو سپہ سالار کا حکم سننے کے بعد فوری طور پر اسے عملی جامہ پہنا نے کی فکر میں لگ گئے، کیونکہ وہ اس اعلان سے یہ تصور کر رہے تھے کہ خالد بن ولید نے اسیروں کو قتل کرنے کا حکم جاری کیاہے !لہٰذا ''ضرار بن ازور'' نے اٹھ کر مالک بن نویرہ کا سر تن سے جدا کردیااور دوسرے لوگوں نے بھی مالک کے دیگر ساتھوں کو قتل کرڈالا۔
خالد بن ولید نے جب اسیروں کی فریاد و زاری کی آوازیں سنیں، اپنے خیمے سے نکل کر دوڑتے ہوئے وہاں پہنچا لیکن اس وقت دیر ہوچکی تھی اور مالک اور اس کے ساتھی خاک و خون میں تڑپ رہے تھے، یہ منظر دیکھ کر خالد بن ولید نے کہا:
جب خدائے تعالیٰ ارادہ کرتا ہے کہ کوئی کام انجام پائے تو وہ کام انجام پاتا ہے۔
سیف روایت کے آخر میں کہتا ہے:
خالد کے سپاہیوں نے مقتولوں کے سروں کو منجملہ مالک نویرہ کے سر کو ایک دیگ میں ڈالکر اس کے نیچے آگ لگادی!!
لیکن، پیغمبری کا دعویٰ کرنے والی ''سجاح'' کی باقی داستان تاریخ طبری میں سیف سے نقل کرکے اس طرح درج کی گئے ہے:
پیغمبری کا دعویٰ کرنے والی ''سجاح'' اپنے مریدوں کے ہمراہ یمامہ کی طرف روانہ ہوئی اور اس کی خبر پورے علاقے میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی ۔ جب یہ خبر پیغمبری کا دعویٰ کرنے والے دوسرے شخص ''مسیلمہ'' کو پہنچی تو وہ بہت ڈرگیا اور حفظ ماتقدم کے طور پر متوقع حوادث کے بارے میں تدبیر کی فکر میں لگ گیا۔ اس کے بعد اس نے ''سجاح'' کو کچھ تحفے بھیجے اور اس سے امان کی درخواست کی تا کہ اس کی ملاقات کے لئے آئے ۔''سجاح'' نے مسیلمہ کو امان دی اور ملاقات کی اجازت بھی ۔
مسیلمہ قبیلہ بنی حنیفہ کے اپنے چالیس مریدوں کے ہمراہ ''سجا ح'' کی خدمت میں حاضر ہوا۔
سیف کہتا ہے کہ ''سجاح'' عیسائی تھی۔پھر داستان کو جاری رکھتے ہوئے کہتا ہے:
پیغمبری کا دعویٰ کرنے والی ان دو شخصیتوں نے آپس میں گفتگو کی اور گفتگو کے دوران مسیلمہ نے ''سجاح'' سے کہا:
دنیا کی نصف دولت ہماری ہے ، اگر قریش انصاف پسند ہوتے تو باقی نصف ان کی تھی۔ اب جب کہ قریش نے انصاف کی راہ اختیار نہیں کی ہے تو خدائے تعالیٰ نے وہ حصہ قریش سے چھین کر تمھیں عنایت کیاہے!!
''سجاح'' کو مسیلمہ کی تقسیم پسند آئی اور اسے قبول کیا اور اس کے ساتھ اس شرط پر جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کیا کہ مسیلمہ ہر سال یمامہ کی پیدا وار کا نصف خراج کے طور پر ''سجاح'' کو دے ۔ اس کے علاوہ طے پایا کہ اگلے سال کے خراج کا نصف بھی پیشگی کے طور پر اسی سال ادا کیا جائے۔
اس قسم کے سخت اور مشکل شرط کو قبول کرنے پر مسیلمہ مجبور ہوا اور طے پایا کہ سجاح اگلے سال کا نصف خراج ساتھ لے کر لوٹے اور اپنی طرف سے ایک نمایندہ کو یمامہ میں رکھے تا کہ وہ اگلے سال خراج کا دوسرا حصہ وصول کرے ۔
''سجاح'' نے ایسا ہی کیا اور مسیلمہ سے خراج کا نصف حصہ وصول کرکے اپنی طرف سے وہاں پر ایک نمایندہ مقرر کرکے بین النہرین کی طرف روانہ ہوئی ۔
ابن اثیر نے بھی جہاں پر تمیم اور ''سجاح'' کی بات کرتا ہے یہی مطالب طبری سے نقل کئے ہیں۔ اس موضوع پر ابن اثیر کی گفتگو کا آغاز یوں ہو تا ہے:(٥)
قبائل تمیم میں، ان ہی قبائل میں سے رسولۖ خدا کے جن کا رندوں کو آنحضرت ۖ کی طرف سے مأموریت دی گئی تھی وہ حسب ذیل تھے:
''زبر قان بن بدر، سہل بن منجاب، قیس بن عاصم، صفوان بن صفوان، سبرة بن عمرو، وکیع بن مالک اور مالک بن نویرہ''
جب پیغمبر خدا ۖکی رحلت کی خبر اس علاقے میں پہنچی تو ''صفوان بن صفوان'' نے قبیلہ بنی عمر سے وصول کئے گئے صدقات پر مشتمل رقومات....... (تا آخر روایت ِسیف)
مالک بن نویرہ کی داستان کو ابن اثیر نے بھی سیف سے روایت کرکے طبری کی کتاب سے نقل کر کے اپنی تاریخ میں درج کیا ہے۔
ابن کثیر نے بھی ''سجاح'' اور قبائل تمیم اور مالک نویرہ کی داستان کو سیف کی اسی روایت کے مطابق طبری سے نقل کرکے درج کیا ہے ۔(٦)
ابن خلدون بھی ''وکیع بن مالک ''کے بارے میں گفتگو کرتے وقت تاریخ طبری سے سیف کی اسی روایت کو نقل کرتا ہے۔
یاقوت حموی نے بھی لفظ ''بطاح'' کی تشریح میں بلاواسطہ سیف کی روایت ، خاص کر اس کی تیسری روایت سے استفادہ کیا ہے اور اس کے شاہد کے طور پر وکیع کا شعر بھی پیش کیا ہے۔
سیف کی ان ہی مذکورہ روایات سے استفادہ کر کے ابن اثیر ، ذہبی ،ابن فتحون اورابن حجر نے سیف کے چھ جعلی اصحاب جن کے نام اوپر بیان ہوئے کے حالات زندگی اپنی کتابوں میں درج کئے ہیں۔ ان جعلی صحابیوں میں سے ہر ایک کے بارے میں مذکورہ علماء کی باتوں کو ہم ذیل میں درج کرتے ہیں: