ایک سو پچاس جعلی اصحاب(دوسری جلد)
 

بارہواں جعلی صحابی اُطّ بن ابی اُطّ تمیمی
سیف نے اُط کو قبیلہ سعد بن زید بن مناة تمیمی سے بتایا ہے ۔
ابن حجر کی کتاب '' الاصابہ '' میں اُط بن ابی اط کاتعارف اس طرح کیا گیا ہے :
'' اُط بن ابی اُط خاندان سعد بن زید اور قبیلہ تمیم سے ہے ۔ اُط خلافت ابو بکر کے زمانے میں خالد بن ولید کا دوست اور کارندہ تھا ۔ عراق میں ایک دریا کا نام اس کے نام پر رکھا گیا ہے !اس دریا کا نام اسی زمانے میں اس کے نام پر رکھا گیا ہے جب خالد بن ولید نے اُط کو اس علاقے کے باشندوں سے خراج وصول کرنے پر مامور کیا تھا!
طبری نے یہی داستان سیف سے نقل کرکے اپنی تاریخ میں درج کی ہے ۔ ایک جگہ پر اسے '' اُطّ بن سوید '' لکھا ہے ،گویا اُط کے باپ کا نام '' سوید '' تھا ۔
ابن فتحون نے بھی اط کے حالات کو اس عنوان سے لکھا ہے کہ شخصیات کی زندگی کے حالات لکھنے والے اس کا ذکرکرنا بھول گئے ہیں ۔ اور اپنی بات کا آغاز یوں کرتا ہے ۔
میں نے اس کا اُطّ کا نام ایک ایسے شخص کے ہاتھوں لکھا پایا ، جس کے علم و دانش پرمیں مکمل اعتماد کرتا ہوں ۔ اس نے اط کوپہلے حرف پر ضمہ( پیش ) سے لکھا تھا ۔

اُطّ ، دور قستان کا حاکم
طبری نے اط کی داستان کو فتح حیرہ کے بعد والے حوادث کے ضمن میں سیف سے نقل کرتے ہوئے اپنی تاریخ کی دو روایتوں میں ذکر کیا ہے ۔ پہلی روایت میں اس طرح لکھتا ہے :
'' خالد بن ولید نے اپنے کارندوں اور کرنیلوں کو ماموریت دی کہ .... (یہاں تک لکھتا ہے ) اور اط بن ابی اط جو خاندان سعد بن زید اور قبیلہ تمیم کا ایک مرد تھا کو دور قستان کے حاکم کی حیثیت سے ماموریت دی ۔اط نے اس علاقے میں ایک دریا کے کنارے پر پڑا ئو ڈالا ۔ وہ دریا اس دن اط کے نام سے مشہور ہوا اور آج بھی اسی نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔
حموی نے سیف کی روایت پر بھروسہ کرتے ہوئے اپنی کتاب معجم البدان میں لفظ اُط کے سلسلے میں لکھا ہے۔
جب خالد بن ولید نے حیرہ اور اس علاقہ کی دوسری سرزمینوں پر قبضہ کرلیا تو اس نے اپنے کارندوں کو مختلف علاقوں کی ماموریت دی ۔اس کے کارندوں میں سے ایک اط بن ابی اط تھا ۔جو خاندان سعد بن زید بن مناة تمیمی سے تعلق رکھتا تھا ۔اسے دور قستان کی ماموریت دی گئی ۔اط نے اس علاقے میںایک دریا کے کنارے پڑائو ڈالا۔وہ دریا آج تک اسی کے نام سے معروف ہے۔
حموی نے یہاں پر اپنی روایت کی سند کا ذکر نہیں کیا ہے ۔اس کے اس جملہ اور وہ دریا آج تک اسی کے نام سے معروف ہے ۔سے یہ گمان پیدا ہوتا ہے کہ ممکن ہے حموی کے زمانے تک وہ دریا اسی نام ، یعنی دریائے اط کے نام سے موجود تھا اور حموی ذاتی طور پر اس سے آگاہ تھا ۔اس لئے اس بات کو یقین کے ساتھ کہتا ہے اور اس کے صحیح ہونے پر شہادت دیتا ہے ۔ جب کہ ہر گز ایسا نہیں ہے بلکہ حموی نے سیف کی بات نقل کی ہے نہ کہ خود اس سلسلے میں کچھ کہا ہے ۔
ابن عبد الحق نے بھی ان ہی مطالب کو حموی سے نقل کرکے اپنی کتاب مراصد الاطلاع میں درج کرتے ہوئے لکھا ہے :
دریائے اط ،اط ،خاندان بنی سعد تمیم کا ایک مرد تھا جو خالد بن ولید کا کارندہ تھا۔ اط کو یہ ماموریت اس وقت دی گئی تھی جب خالد بن ولید نے حیرہ اور اس کے اطراف کی سرزمینوں پر قبضہ کیا تھا .... (یہاں تک لکھا ہے ) اور وہ دریا اس کے نام سے مشہور ہوا ہے ۔
کتاب تاج العروس کے مؤلف نے بھی سیف کی روایت پر اعتماد کرکے لفظ اط کے بارے میں یوں لکھا ہے :
اط بن اط بنی سعد بن مناة تمیمی میں سے ایک مرد ہے جو خالد بن ولید کی طرف سے دور قستان کا ڈپٹی کمشنر مقرر ہوا اور وہاں پردریائے اط اسی کے نام سے مشہور ہو ا ہے ۔
طبری نے بھی حیرہ کے مختلف مناطق کی تقسیم بندی کے بارے میں خلاصہ کے طور پر یوں بیان کیا ہے :
خالد بن ولید نے حیرہ کے مختلف علاقوں کو اپنے کارندوں اور کرنیلوں کے درمیان تقسیم کیا ، منجملہ جریر کو علاقہ ... (یہاں تک لکھتا ہے ) اور حکومت ... اط و سوید کو سونپی ۔

ابن حجر کی غلط فہمی
یہاں پر ابن حجر ،طبری کے بیان کے پیش نظر ، غلط فہمی کا شکار ہوا ہے اور اط و سوید کو اط بن سوید پڑھ کر سوید کو اط کا باپ تصور کیا ہے ۔
ابن حجر کی یہ غلط فہمی اس کی گزشتہ اسی غلط فہمی کے مانند ہے جہاں اس نے '' حرملہ و سلمی'' کے بجائے '' حرملہ بن سلمی '' پڑھا تھا اور حرملہ بن سلمی کو رسول خدا ۖ کا ایک صحابی تصور کرکے حرملہ بن مریطہ کے علاوہ حرملہ بن سلمی کے بارے میں بھی رسول خدا ۖ کے صحابی کے عنوان سے اس کی زندگی کے حالات لکھے ہیں ۔
البتہ یہ ممکن ہے کہ ابن حجر کی غلط فہمی کتاب کے مسودہ میں موجود کتابت کی غلطی کے سبب پیش آئی ہو کہ '' اط و سوید '' کے بجائے کاتب نے اط بن سوید لکھ کر بیچار ہ ابن حجر کو اس غلط فہمی سے دو چار کیا ہو۔!بہر حال موضوع جو بھی ہو ، اصل مسئلہ پر کوئی اثر نہیں پڑتا ۔اگر چہ یہ نام بھی رسول خدا ۖکے حقیقی صحابیوں کی فہرست میں درج کیا گیا ہے ، جب کہ پورا افسانہ بنیادی طور پر جھوٹ ہے اور یہ اضافات بھی اسی سیف کے افسانوں کی برکت سے وجود میں آئے ہیں ۔ ابن فتحون و ابن حجر جیسے علماء نے بھی ایسے صحابیوں کی زندگی کے حالات پر روشنی ڈالی ہے ۔
یاقوت حموی ،ابن عبدالحق اور زبیدی نے نے بھی سیف کی ان ہی روایتوں اور افسانوں کے پیش نظر لفظ اط کی تشریح کرتے ہوئے اط کی زندگی کے حالات بیان کئے ہیں اور دریا ئے اط کابھی ذکر کیا ہے ۔ ستم ظریفی کا عالم ہے کہ حقائق سے خاکی ان ہی مطالب نے صدیوں تک علماء و محققین کو اس مسئلے میں الجھاکے رکھا ہے !!
ہم نے اط بن ابی اط اور اس نام کے دریا کے سلسلے میں تحقیق و جستجو کرتے ہوئے اپنے اختیار میں موجود مختلف کتابوں اور متعدد مصادر کی طرف رجوع کیا ، لیکن ہماری تلاش و کوشش کا کوئی نتیجہ نہ نکلا اور اس قسم کے نام کو ہم نے مذکورہ مصادر میں سے کسی ایک میں نہیں پایا اس لحاظ سے سیف کی روایتوں کو دوسروں کی روایتوں سے موازنہ کرنے کے لئے کوئی چیز ہمارے ہاتھ نہ آئی جس کے ذریعہ اس کی روایتوں کا موازنہ و مقابلہ کرتے !!کیوں کہ سیف کی داستان بالکل جھوٹ اور بیہودہ خیالات
پر مبنی ہے ۔

اس افسانہ کا ماحصل
سیف نے اط نام کے صحابی اور اسی نام کے دریا کو خلق کرکے درج ذیل مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کی ہے :
١۔ خاندان تمیم سے ایک اور عظیم صحابی اور لائق کمانڈر خلق کرتا ہے اور ابن فتحون و ابن حجر جیسے علماء اس کو رسول خدا ۖ کے صحابیوں کی فہرست میں قرار دے کر اس کی زندگی کے حالات کو اپنی کتابوں میں لکھنے پر مجبور ہوتے ہیں ،
٢۔ سرزمین دور قستان میں ایک دریا کو خلق کرکے اس کا نام دریائے اط رکھتا ہے اور اس طرح حموی و عبد الحق اس دریا کے نام کو اپنی جغرافیہ کی کتابوں میں درج کرنے پر مجبور ہوتے ہیں ۔ اس طرح خاندان تمیم کے افتخارات میں ایک اور فخر کا اضافہ کرتا ہے ۔

افسانہ کے اسناد کی پڑتال
افسانہ اط کے سلسلے میں سیف کی حدیث کی سند میں مندرجہ ذیل نام ملتے ہیں :
١۔ ابن ابی مکنف ، مھلب بن عقبہ اسدی اور محمد بن عبد اللہ نویرہ ،ان تینوں کے بارے میں ہم نے گزشتہ بحثوں میں ثابت کیا ہے کہ یہ سیف کے جعلی راوی ہیں اور حقیقت میں وجود نہیں رکھتے ۔
٢۔ طلحہ ، سیف کی احادیث میں یہ راوی یا طلحہ بن اعلم ہے یا طلحہ بن عبد الرحمن مل ہے ۔جن کا نام سیف کے علاوہ بھی دیگر روایتوں میں ملتا ہے ۔
عبد الرحمن نام کے بھی دو راوی ہیں ۔ ایک یہی مذکورہ عبد الرحمن مل ہے اور دوسرا یزید بن اسید غسانی ہے کہ ہم نے مؤخر الذکر کا نام سیف بن عمر کے علاوہ کہیں اور نہیں پایا ۔
بہر حال جو بھی ہو ،خواہ ان راویوں کا نام دوسری احادیث میں پایا جاتا ہو یا وہ سیف کے ہی مخصوص راوی ہوں ، ہم سیف کے جھوٹ کا گناہ معروف راویوں کی گردن پرنہیں ڈال سکتے ہیں ، خاص کر جب اس قسم کے افسانے صرف سیف کے ہاں پائے جاتے ہوں اور وہ اکیلا ان افسانوں کا خالق ہو!

اُطّ کا افسانہ نقل کرنے والے علماء
اط کے افسانہ کا سر چشمہ سیف بن عمر ہے اور درج ذیل منابع میں اس افسانہ کی اشاعت کی گئی ہے :
١۔ طبری نے اط کے افسانہ کو سیف سے نقل کرکے سند کے ساتھ اپنی تاریخ میں درج کیا ہے ۔
٢۔ ابن حجر نے طبری سے نقل کرکے اپنی کتاب الاصابہ میں درج کیا ہے ۔
٣۔ ابن فتحون
٤۔ یاقوت حموی ۔
٥۔ زبیدی نے'' تاریخ العروس '' میں۔