گیارہواں جعلی صحابی ربعی بن افکل تمیمی
ربعی ، کمانڈر کی حیثیت سے
سیف بن عمر نے ربعی بن افکل کو خاندان عنبر اور قبیلہ بنی عمرو تمیمی سے خلق کیا ہے ۔
ابن حجر ، ربعی کی سوانح حیات کے بارے میں لکھتا ہے :
سیف بن عمر نے اپنی کتاب '' فتوح '' میں لکھا ہے کہ ایرانیوں کے ساتھ جنگ کے سپہ سالار اعظم سعد وقاص نے ربعی کو حکم دیا کہ موصل کی جنگ کی کمانڈ سنبھالے ۔ ہم نے اس سے پہلے کہا ہے کہ اس زمانے میں رواج تھا کہ صحابی کے علاوہ کسی اور کو سپاہ کی کمانڈ نہیں سونپی جاتی تھی ۔
سیف اپنی کتاب کی امیں جگہ پر لکھتا ہے :
عمر نے حکم دیا تھا کہ عبد اللہ معتم (الف) کی قیادت میں لشکر کے ہراول دستے کی کمانڈ ربعی
کو سونپی جائے ۔
..............
الف) ایسا لگتا ہے کہ یہ عبد اللہ بھی سیف بن عمر کی مخلوقات میں سے ہے عبداللہ معتم کے حالات کے بارے میںکتاب
اسد الغابہ ٢٦٢٣، میں تشریح کی گئی ہے ۔
معلومات کے مطابق ربعی نے فتوحات میں سر گرم طور پر شرکت کی ہے '' ز'' (ابن حجر کی بات کا خاتمہ )
ہم نے پہلے بھی کہا ہے کہ حرف '' ز'' کو ابن حجر وہاں استعمال کرتا ہے جہاں اس نے دوسرے مؤرخین کی بات پر اپنی طرف سے کوئی چیز اضافہ کی ہو ....
طبری نے ١٦ھ کے حوادث کے ضمن میں '' تکریت '' کی فتح کے موضوع کو بیان کرتے وقت ربعی کے بارے میں سیف کے بیانات کو مفصل طور پر ذکر کیا ہے اور یہاں پر اس کا خلاصہ درج کرتے ہیں :
''کمانڈر انچیف سعد وقاص نے وقت کے خلیفہ عمر کو لکھا کہ موصل کے لوگ '' انطاق '' کے ارد گرد جمع ہوئے ہیں اور اس نے تکریت کے اطراف تک پیش قدمی کرکے وہاں پر مورچہ سنبھالا ہے تاکہ اپنی سر زمین کا دفاع کر سکے عمر نے سعد کو جواب میں لکھا:
''عبد اللہ معتم کو '' انطاق''سے لڑنے کی ماموریت دینا اور ہر اول دستے کی کمانڈ ربعی بن افکل کو سونپنا ۔ جب وہ دشمن کو سامنے سے ہٹانے میں کامیاب ہو جائیں تو ربعی کو نینوا (الف) اور موصل کے قلعے فتح کرنے کی ماموریت دینا ''
اس کے بعد طبری نے انطاق پر فتح پانے کے سلسلے میں عبد اللہ کی عزیمت ، اس کی جنگوں اور دشمن کو چالیس دن تک اپنے محاصرے میں قرار دینے کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے لکھا ہے :
عبد اللہ نے انطاق کی پیروی میں مسلمانوں سے لڑنے والے عربوں کے دوسرے قبیلوں
..............
الف) ۔نینوا عراق میں شہر موصل کے برابرمیں واقع تھا ۔دریائے دجلہ ان دو شہروں کو ایک دوسرے سے جدا کرتا تھا ، نینوا
کے کھنڈرات اب تک موجود ہیں
جیسے ایاد ، نمر اور تغلب کے سرداروںسے رابطہ برقرار کیا اور سر انجام ان کو اسلام کی طرف مائل کیا اور بالآخر ان کے درمیان طے پایا کہ اسلام کے سپاہی نعرہ ٔ تکبیر بلند کرتے ہوئے جب شہر کے مقررہ دروازوں سے حملہ کریں گے تو وہ بھی تکبیر کی آواز سنتے ہی شہر کے اندر انطاق کے محافظوں کے خلاف تلوار چلائیں گے تا کہ آسانی کے ساتھ تکریت فتح ہوجائے ۔
یہ منصوبہ متفقہ طور پر سبوں کی طرف سے منظور کیا گیا اور اس کے مطابق عمل ہوا ،جس کے نتیجہ میں دشمن کی فوج میں ایک فرد بھی زندہ نہ بچ سکی !طبری ،تکریت کی فتح کی تشریح کرنے کے بعد لکھتا ہے :
خلیفہ عمر کے فرمان کے مطابق عبداللہ معتم نے حکم دیا کہ ''ربعی بن افکل ''تازہ مسلمان قبائل تغلب ، ایاد اور نمر جن کے مسلمان ہونے کی ابھی موصل و نینوا کے باشندوں کو اطلاع نہیں ملی تھی کو اپنے ساتھ لے کر موصل و نینوا کے قلعے فتح کرنے کے لئے روانہ ہوجائے ۔مزید حکم دیا کہ اس سے پہلے کہ دشمن مسلمانوں کے ہاتھوں تکریت کی فتح کی خبر کے بارے میں آگاہ ہوں،ان پر ٹوٹ پڑیں ۔
ابن افکل نے حکم کی تعمیل کی اور اپنی حتمی کامیابی کے لئے تازہ مسلمان قبائل سے طے کرلیا کہ وہ اس علاقے میں یہ افواہ پھیلادیں کہ انطاق کے سپاہیوں نے تکریت میں مسلمانوں پر کامیابی پاکر انھیں شکست دیدی ہے ۔چونکہ یہ لوگ خود انطاق کے سپاہی شمار ہوتے تھے ،اس لئے آسانی کے ساتھ قلعہ کے اندر داخل ہوکر قلعہ کے صد ردروازوں کی حفاظت اپنے ہاتھ میں لے لیں تا کہ اسلام کے سپاہی کسی مزاحمت کے بغیر قلعے کے دروازوں سے داخل ہوجائیں ۔
ربعی کا نقشہ کامیاب ہوا اور دشمن کے قلعے کسی مزاحمت کے بغیر مسلمانوں کے ہاتھوں
فتح ہوئے ۔
ربعی نے نینوا ،موصل اور وہاں کے مستحکم قلعوں پر فتح پانے کے بعد موصل کے دوسرے علاقے فتح کرنے کے لئے ان کے اطراف کی طرف روانہ ہوا ۔یہ ربعی بن افکل کے ذریعہ تکریت کی فتح اور موصل و نینوا کے مستحکم قلعوں پر قبضہ کرنے کی داستان کا خلاصہ تھا ،جسے طبری نے سیف سے نقل کرکے بیان کیا ہے ۔
لفظ ''انطاق''اور حموی کی غلط فہمی
جیساکہ اس افسانہ میں سیف کی باتوں سے معلوم ہوتاہے کہ ''انطاق''دشمن کے لشکر کا کمانڈر تھا ،لیکن حموی نے یہ تصور کیا ہے کہ سیف کا مورد بحث ''انطاق ''تکریت کے نزدیک ایک جگہ کا نام ہے !اس لحا ظ سے ''معجم البلدان''میں لفظ ''انطاق''کے بارے میں لکھا ہے :
''انطاق''تکریت کے نزدیک ایک علاقہ ہے ۔اس کا نام سیف کی کتاب ''فتوح ''میں ١٦ھ کے مسلمانوں کے مقبوضہ علاقوں کے ضمن میں آیا ہے اور ربعی بن افکل نے اس کے بارے میں یوں اشعار کہے ہیں :
ہم اپنی تلوارکی تیز دھار سے ہر حملہ آور اور متجاوز کو سز ا دیتے ہیں ۔
جس طرح ہم نے انطاق کو اسی کے ذریعہ سزا دی کہ وہ اپنے کو دوسروں سے الگ کرکے رویا ۔
کتاب '' مراصدالاطلاع ''کے مؤلف نے بھی حموی کی پیروی کرکے لفظ انطاق کے بارے میں لکھا ہے :
کہتے ہیں '' انطاق'' تکریت کے نزدیک ایک علاقہ تھا ۔
ایسا لگتا ہے کہ حموی کی غلط فہمی کا سبب یہ ہے کہ سیف کی حدیث میں آیا ہے :
'' نزولہ علی الانطاق '' اس کا '' انطاق '' میں داخل ہونا۔
یہاں پر کلمہ داخل ہونا کسی جگہ کے لئے مناسب ہے نہ کسی فرد کے لئے ، اسی طرح ہم نہیں جانتے کہ حموی نے خود سیف سے نقل کئے ہوئے شعر کے آخر ی حصہ پر کیوں توجہ نہیں کی جہاں وہ واضح طور پر کہتا ہے :
انطاق اپنے آپ کو دیگر لوگوں سے جدا کر کے رویا ۔
یہ انسان ہے جو دیگر لوگوں سے جدا ہو کر رو سکتا ہے ، نہ مکان !!
جو کچھ ہم نے اس افسانوی سورما ربعی بن افکل کے بارے میں سیف کی احادیث سے تاریخ طبری میں دیکھا ،یہی تھا جو اوپر ذکر ہوا ۔ اور انہی مطالب کو ابن اثیر ، ابن کثیر اور ابن خلدون جیسے دانشوروں نے طبری سے نقل کرکے اپنی تاریخوں میں درج کیا ہے ۔
جیسا کہ حرملہ بن مریطہ کے افسانہ میں ہم نے ذکر کیا کہ یعقوب حموی کے پاس سیف کی کتاب فتوح کا ایک قلمی نسخہ تھا جسے '' ابن خاضبہ '' نام کے ایک دانشورنے لکھا ہے ۔ حموی نے اس نسخہ پر پورا اعتماد کرکے مقامات اور دیگر جگہوں کے نام براہ راست اسی نسخہ سے نقل کئے ہیں ۔اس لئے کتاب ''معجم البدان '' میں ذکر کئے گئے بعض شہروں قصبوں اور گائوں کے نام سیف کی روایتوں کے علاوہ جغرافیہ کی دوسری کتابوں میں نہیں پائے جاتے یا دوسرے لفظوں میں سیف کے خلق کئے گئے تمام مقامات کے نام کتاب '' معجم البدان '' میں پائے جاتے ہیں ۔
ربعی کے نسب میں غلطی
ایک اور مسئلہ جو یہاں پر قابل غور ہے وہ یہ ہے کہ تاریخ طبری میں ربعی کانسب '' عنزی '' اور تاریخ ابن کثیرمیں '' غزی'' ذکر ہوا ہے جب کہ ابن حجر کی کتاب '' الاصابہ '' میں'' عنبری '' ثبت ہوا ہے کہ عنبری خود قبیلہ ٔتمیم کا ایک خاندان ہے ۔ ہم نے بھی موخر الذکر نسب کو حقیقت کے قریب تر پایا ، کیوں کہ ہم جانتے ہیں کہ سیف پوری طاقت کے ساتھ کوشش کرتا ہے کہ اپنے خیالی اور افسانوی سورمائوں کو اپنے ہی خاندان ،تمیم سے دکھلائے ، چوں کہ عنبری خاندان تمیم کی ایک شاخ ہے ، اس لئے یہ انتخاب یعنی '' عنبری '' افسانہ نگار کی خواہش کے مطابق لگتا ہے نہ کہ '' عنزی'' و '' غزی''
سیف کی روایتوں کا تاریخ کے حقائق سے موازنہ
مناسب ہے اب ہم موصل،تکریت اور نینوا کی فتح کی حقیقت کے بارے میں دوسرے مؤرخین کے نظریات سے بھی آگاہ ہو جائیں ۔
بلاذری نے موصل و تکریت کی فتح کے بارے میں اس طرح تشریح کی ہے :
عمر بن خطاب نے ٢٠ھمیں عتبہ بن فرقد سلمی کو موصل کی فتح کے لئے مامور کیا ۔
عتبہ نے نینوا کے باشندوں سے جنگ کی اور دریائے دجلہ کے مشرقی حصہ میں واقعہ ان کے ایک قلعہ کوبڑی مشکل سے فتح کیا اور دجلہ کو عبور کرکے دوسرے قلعہ کی طرف چڑھائی کی ۔ اس قلعہ کے باشندے چوں کہ عتبہ کے ساتھ مقابلہ کرنے کی طاقت نہیںرکھتے تھے اس لئے صلح کی تجویز پیش کرکے جزیہ دینے پر آمادہ ہوئے۔
عتبہ نے ان کی صلح کی درخواست منظور کی اور طے پایا کہ جو بھی قلعہ سے باہر آئے گا امان میں ہوگا اور جہاں چاہے جا سکتا ہے ۔
بلاذری عتبہ کے ذریعہ موصل کے دیہات ،قصبہ اور ابادیوں ،منجملہ تکریت کی فتوحات کا نام لے کر آخر میں لکھتا ہے :
عتبہ بن فرقد نے ''طیرہان '' و '' تکریت'' کو فتح کیا اور قلعہ تکریت کے باشندوں کو امان دی اس بنا پر حقیقت یہ ہے کہ سب سے پہلے جو شہر فتح ہوا وہ شہر موصل تھا ، اس کے بعد تکریت فتح ہوا ہے ۔ ان دونوں شہروں کافاتح عتبہ بن فرقد سلمی انصاری یمانی قحطانی تھا اور یہ فتح ٢٠ھ میں انجام پائی ہے ۔
لیکن سیف نے تکریت کی فتح کو موصل کی فتح پر مقدم قرار دیا ہے ،اور عبد اللہ معتم عبسی عدنانی کو ان جگہوں کا فاتح بتایا ہے ۔ موصل کا فاتح ربعی بن افکل تمیمی عدنانی مضری بتاتا ہے اور اس کے سپاہیوں کو بھی قبائل عدنان مضری کے افراد بتایا کرتاہے ۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ موصل اور تکریت عتبہ یمانی قحطانی کے ہاتھوں فتح ہوئے ہیں اور یہ ایسی چیز نہیں ہے کہ سیف اسے نظر انداز کرکے خاموشی اختیار کرے لہٰذا وہ قبیلۂ مضر کے دو افراد کو خلق کرکے حکومت اور فوجی کمانڈ ان کے ہاتھ سوپنتا ہے، اسلام کے سپاہی بھی قبیلہ مضر یعنی اپنے خاندان سے بتایاہے اور اسی تغیر و تبدل کو خاندانی تعصب کی بناء پر تاریخ اسلام میں درج کرتا ہے۔
لیکن اس نے ایسے تاریخی حوادث کی تاریخ کو کیوں تبدیل کرکے ٢٠ھ واقع ہوئی فتح کو ١٦ھ میں لکھا ہے ؟ یہ ایک ایسا مطلب ہے جو حائز اہمیت ہے اور اس کاربط اس کے اسلام سے منحرف ہونے کے عقیدہ سے ہے ۔ کیونکہ اگر اس کے زندیقی ہونے کی وجہ سے جس کا اس پر الزام ہے اسلام کی تاریخ میں تشویش پیدا کرنا اس کا اصلی مقصد نہ تھا تو پھر کون سی چیز اس کے لئے تاریخ اسلام میں اس جرم کے مرتکب ہونے کا سبب بن سکتی ہے؟!
اس افسانہ کا ماحصل
ربعی بن افکل تمیمی کو خلق کرکے سیف بن عمر نے حسب ذیل مقاصد حاصل کئے ہیں:
١۔ ایک صحابی سپاہ سالار ، فاتح اور سخن و ر شاعر کو خلق کرکے رسول خدا ۖ کے حقیقی صحابیوں میں ایک اور صحابی کا اضافہ کرکے اس کی زندگی کے حالات لکھے ہیں۔
٢۔ایک نئی جگہ کو خلق کرکے جغرافیہ کی کتابوں میں اسے درج کرایا ہے۔
٣۔خاندان تمیم کے لئے افسانوی جنگیں خلق کرکے اپنے خاندانی تعصبات کی پیاس کو بجھا کر اپنے خاندان کے افتخارات میں اضافہ کیاہے ۔
٤۔زندیقی ہونے کی وجہ سے جس کا الزام اس پر تھا اسلام کے تاریخی واقعات میں ان کے رونما ہونے کی تاریخ میں ردّو بدل کیا ہے ۔
سیف کے اسناد کی تحقیق
''ربعی بن افکل ''کے سلسلہ میں سیف نے اپنی احدیثوں کے اسناد کے طور پر درج ذیل نام ذکر کئے ہیں:
١۔محمد ، سیف نے اسے ''محمد بن عبد اللہ بن سواد بن نویرہ'' بتایا ہے اور دوسرا مھلب بن عتبہ اسدی ہے ۔ گزشتہ بحثوں میں ہم ان دو راویوں سے مواجہ ہوئے ہیں اور جان لیا ہے کہ حقیقت میں ان کا کوئی وجود نہیں ہے اور یہ سیف کے خلق کئے ہوئے راوی ہیں۔
٢۔طلحہ، ممکن ہے سیف کی روایتوں میں یہ نام دو راویوں کی طرف اشارہ ہو۔ ان میں سے ایک ''طلحہ بن اعلم'' ہے اور دوسرا طلحہ بن عبد الرحمن ہے۔
ہم نے طلحہ بن عبد الرحمن کو سیف کی روایتوں کے علاوہ کہیں نہیں پایا ۔ اس لئے یہ نام بھی سیف کے خیالات کی پیدا وار ہے اور اس قسم کا کوئی راوی خارج میں موجود نہیں ہے۔
ہاں طلحہ بن اعلم ، ایک معروف راوی ہے جس کانام سیف کے علاوہ بھی دیگر احادیث میں آیا ہے لیکن سیف کے گزشتہ تجربہ اور اس کے دروغ گو ہونے کے پیش نظر ہم یہ حق نہیں رکھتے کہ سیف کے جھوٹ کے گناہ کو ایسے راویوں کی گردن پر ڈالیں خاص کر جب سیف تنہا فرد ہے جو اس قسم کے جھوٹ کی تہمت ایسے راویوں پر لگا تاہے۔
اس افسانہ کو نقل کرنے والے علما:
ان تمام افسانوں کا سرچشمہ سیف ہے ، لیکن اس کے افسانوں کی اشاعت کرنے والے منابع مندرجہ ذیل میں:
١۔طبری ، سند کے ساتھ ، اپنی تاریخ میں۔
٢۔ ابن حجر ، سند کے ساتھ کتاب ''الاصابہ'' میں۔
٣۔ ابن اثیر طبری سے نقل کرکے اپنی تاریخ میں۔
٤۔ابن کثیر طبری سے نقل کرتے ہوئے اپنی تاریخ میں ۔
٥۔ابن خلدون طبری سے نقل کرتے ہوئے اپنی تاریخ میں۔
٦۔حموی ''معجم البلدان'' میں سندکے بغیر۔
٧۔ عبد المؤمن ،حموی سے نقل کرتے ہوئے کتاب ''مراصد الطلاع''میں
|